شام کی سرزمین پر مذہب اور نظریات کی لڑائی
ظہیر استوری
انسانی تاریخ مذہب او ر نظریات کی لڑائیوں سے بھری پڑی ہے۔ دنیا میں جب بھی کوئی جنگ یا سرد جنگ شروع ہوئی ہے اس کی بنیاد کہیں نہ کہیں مذہب یا نظریات ہی رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان تہذیب یافتہ کہلاتا گیا مگر کہیں نہ کہیں اس تہذیب کے درمیان کہیں مذہب تو کہیں نظریات کی بنیاد پر انسان اپنی انتہا پسندی کا ثبوت دیتا آیا ہے۔
632 ہجری کے بعد سے اسلام میں یہ ٹکراؤ شیعہ سُنی تضادات کی شکل میں معرض وجود میں آیا جو کہ آج بھی اپنا ایک بھرپور وجود رکھتا ہے۔ سویت یونین کے سوشلزم اور اتحادیوں کے سرمایہ دارانہ نظام کے درمیان یہ سرد جنگ کی صورت کئی عشروں تک برقرار رہی یہاں تک کہ سوشلزم کا شیرازہ بکھر گیا۔ مذہبی تضاد آج بھی دنیا میں خصوصا مسلم ورلڈ میں پورے آب و تاب سے موجود ہے۔ گلف وار سے لے کر عرب سپرنگ تک اور یمن کے تنازعے سے شام میں خانہ جنگی تک اور قطر کو تنہا کرنے تک کی تمام چپقلشوں کی بنیاد مذہبی تضادات ہی ہیں۔ اسی طرح نظریات میں سوشلزم اور کیپٹلزم کی سرد جنگ کی شکل میں چائنہ، روس اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان جاری ہے۔
شام میں سعودی عرب داعش اور باغیوں کو سپورٹ کرہا ہے تو ایران بشارالاسد کے ساتھ کھڑا باغیوں کو کچلنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ وہی داعش ہے جس کو ختم کرنے کے لیے 34 اسلامی ممالک سعودی عرب کی رہنمائی میں اسلامی فوجی اتحاد بنا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ بشارلاسد کے خلاف اپنی فوجیں اتار بیٹھا ہے تو چین، روس اور ایران اسد کی حمایت میں میدان میں موجود ہیں۔ شام کی سرزمین پر مذہب اور معاشی نظریات کا بالواسط ٹکراؤ ہو رہا ہے اور اس ٹکراؤ میں بیچارے شامی باشندے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس جنگ کے دوران تقریباَ ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد لوگ مارے گئے ہیں، پانچ ہزار کے قریب لوگ آئی ڈی پیز بن چکے ہیں اور 30 لاکھ کے قریب لوگ اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپوں میں زندگی کاٹ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں لوگ دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔
اس ہجرت کے دوران لوگوں کو کن حالات سے گزرنا پڑا یہ الگ کہانی ہے مگر یہ بات سچ ہے کہ یہ سرزمین مذہب اور معاشی نظریات کی پرانی دشمنی نکالنے کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ، چائنہ اور روس کی بڑھتی سرگرمیوں کو پسند نہیں کرتا تو دوسری طرف سعودی عرب اور ایران مذہبی تضادات کے باعث ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کی سربراہی میں دہشت گردی کے خلاف ملٹری اتحاد داعش کے خلاف لڑے گا مگر شام میں وہی داعش کے سر پہ ہاتھ رکھا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ایران بشارلاسد کا ہاتھ تھام کر باغیوں کے خلاف لڑ رہا ہے۔ مصر میں اخوان المسلمین دہشت گرد نظر آئی اور شام میں داعش کے قدم جمانے میں مدد کرنا دہشت گردی نہیں کہلائی۔۔۔
چائنہ “ون روڈ ون بیلٹ” کے مشن پر ہے تو امریکہ انڈیا کے ذریعے کبھی پاکستان تو سِکم بارڈر پر چائنہ کو اپنی موجودگی اور ناپسندیدگی کا احساس دلا رہا ہے۔ شمالی کوریا کو امریکہ ختم کرنے کی ھمکی تک دے چکا جو کہ چائنہ اور روس کا اتحادی ہے۔ اب کمیونسٹ بلاک بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ سکم بارڈر پر بھارت کو 1962 یاد دلا کر اور سی پیک کی تکمیل کو قومی مشن قرار دے کر یہ باور کرا رہے ہیں کہ اب وہ وقت نہیں رہا جب صرف “آپ” ہی اس دنیا کے کرتا دھرتا تھے۔ شمالی کوریا اور ایران کا ایٹمی پروگرام امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا مگر روس اور چائنہ چپ چاپ ان کے سر پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں۔
دوسری طرف اب پاکستان کا رخ بھی امریکہ سے بدل کر سی پیک کی شکل میں چائنہ کی طرف بڑھنے لگا ہے جبکہ امریکہ ایشیا میں اپنا تلسط قائم رکھنے کے لیے انڈیا کو سامنے لانا چاہتا ہے جس کا ثبوت انڈیا کو نیوکلئیر سپلائر گروپ میں شامل کرنے کی سفارش کر کے دے دیا گیا ہے اور مڈل ایسٹ میں سعودی عرب اور اتحادیوں کو اپنا آلہ کار بنا رہا ہے جس کا ثبوت قطر کو تنہا کرکے دے دیا کہ ہمارے مخالفین کے ساتھ آپ بھی کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔
پاکستان کو ایک گولڈن چانس ملا ہے اپنا قبلہ درست کرنے کا۔ یہی موقع ہے جس میں یہ امریکہ سے بھی اپنی جان چھڑا سکتا ہے اور اپنے اندرونی معاملات کو بھی ٹھیک کر سکتا ہے اگر کرنا چاہے تو ورنہ وہی “ڈو مور” والی حالت آنے والی نسلوں تک پھیلی رہے گی۔ “بائی پولر” کی سرد جنگ میں مذہب کا نام لے کر ایک نسل تباہ کر دی اور پاکستان کا وہ کردار روس آج بھی نہیں بھولا ہے۔
ہمیں اپنا الو سیدھا کرنا ہوگا، اندرونی حالات ایسے ہیں کہ نہ تو تعلیم کا کوئی معیار ہے نہ خوراک کا اور نہ ہی زندگی کا اور ہم نکلے ہیں دوسروں کی مدد کرنے تاکہ ہمیں امداد کی شکل میں کچھ پیسے مل جائیں مگر اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں ابھی ملنے والی یہی امداد آنے والے وقتوں کے لیے ہمارے گلے میں کانٹا بن کے ہماری سانسیں اٹکا دے گی۔ افغان جہاد میں کودنے کا صلہ آج تک پاکستان بھگت رہا ہے اب شاید احساس ہو رہا ہے کہ ہمارے سے وہ فیصلہ غلط ہوا تھا۔ آج دوبارہ وہی سرد جنگ نے سر اٹھایا ہے مگر اب کی بار جنگ معاشی ہے اس میں وہی جیتے گا جس کے پاس گھر چلانے کے وسائل اور انداز بہتر ہوں گے۔