یوگی آدتیہ ناتھ اور سلویا پلاتھ
از، نصیر احمد
یہ تو ٹھیک بات ہے کہ جسے ہمارے لوگ استعمار اور سامراج کہتے ہیں اس نے ہمارے خطے میں بہت ظلم ڈھائے ہیں، لیکن استعمار اور سامراج کے خلاف گفتگو کے ذریعے خطے کی ثقافتوں کے ساتھ جو مسائل ہیں ان پر پردہ ڈالنا بھی بد دیانتی ہے۔
استعمار پر ایک الزام ہے کہ خطے کی ثقافتوں کا برباد کر دیا، اور ان کے احیاء کے لیے کوشش کرنی چاہییں۔ تو ہو رہا ہے ناں احیاء۔ یوگی آدتیہ ناتھ کو ہی لے لیں۔
ان کا ذہن کچھ اس طرح کام کرتا ہے جو مسلمان ہندوتوا کو نہیں مانتے، وہ مانو (انسان) نہیں، دانو (عِفرِیت) ہیں اور دانو سے کیسی ہم دردی۔
اس لیے اگر دانو ایک ہندو ماریں تو سو مسلمان قتل کر دیے جائیں۔ ایک ہندو لڑکی کا اغواء ہو تو سو مسلمان لڑکیاں اٹھا لی جائیں۔ ہندو لڑکے اپنی اعلیٰ اقدار کے مطابق پیار کرتے ہیں جب کہ مسلمان لڑکے چھل فریب کرتے ہیں۔
بھارت کے مہا پرشوں کا مسلمانوں کو احترام کرنا چاہیے، لیکن مسلمانوں کی عظیم شخصیات کے نام سے منسوب جگہوں کے نام بدل دینے چاہییں۔ علی کون ہے؟
بابر سے ہمارا کیا ناتا ہے؟
تو اس ساری گفتگو میں اعلیٰ کہاں ہے؟ سادھو کا فریب، نازی کی نَخوَت ہی تو ہے یہ ساری گفتگو۔ اور یوگی آدتیہ ناتھ بار بار منتخب کیے جاتے ہیں۔ مسلمانوں میں ان کے پھیلائے ہوئے خوف کو کبھی سِحَر کہا جاتا ہے اور کبھی دھرم کا پالن۔ اور خوف کی بنیاد کیا ہے کہ جھنڈ بنا کر بے بسوں پر آ کر یمن (حملہ) کر دیا جائے کہ ایسا کرنا کرم جوگ ہے۔
اس کچرے کو استعمار اور سامراج کی آڑ میں چھپانا تو انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
لیکن اس کچرے کے رچاؤ اور پھیلاؤ کے صلے میں یوگی آدتیہ ناتھ بار بار منتحب کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس کچرے کو اگر کسی نے برباد کرنے کی کوشش کی ہے تو اچھا کیا ہے ناں۔
پھر بالا صاحب ٹھاکرے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہٹلر کی آپ بیتی میں جہاں جہاں یہودی کا لفظ آتا ہے اسے مسلمان لفظ سے تبدیل کر دیا جائے اور مسلمانوں کے ساتھ بھارت میں ایسا سلوک کرنا روا ہے جیسا یہودیوں کے ساتھ نازی جرمنی میں کیا گیا تھا۔
متعلقہ تحریر:
مسولینی کی جو قبر بولتی ہے تو ہٹلر کی روح جھومتی ہے
از، یاسر چٹھہ
اور رام گوپال ورما اور امیتابھ بچن جیسے شہدے اس تیرہ و تار نفرت کو چھپاتے ہیں۔ اور بالا صاحب کی عظمت سازی کرتے ہیں۔ بالا صاحب مرتے ہیں تو ان کا ریاستی کریا کرم کیا جاتا ہے۔
لیکن اگر کسی نے اس عظمت کے پیچھے جھنڈ کے زور پر ناز دکھاتا معمولی سا غنڈہ دکھانے کی کوشش کی ہے تو اچھا کیا ہے ناں۔ کروڑوں مسلمانوں کی ذلت بھری غلامی یا مکمل خاتمے کے بارے میں ایسی نفرت انگیز گفتگو کی عظمت سازی کو کسی نے ختم کرنے کی کوشش کی ہے تو اچھا کیا ہے ناں۔
ویسے کوئی خاص کوشش تو کسی نے بھی نہیں کی۔ نہ بھارت کے مسلمان حکم رانوں نے، نہ انگریز حکم رانوں نے اور نہ ہندو حکم رانوں نے۔ اچھی باتیں ہوتی رہیں لیکن بدی کو روکنے کی بھر پُور کوشش بھی کبھی نہیں ہوئی۔
کانگریس کا بھی دیکھ لیں کہ جب کوئی معاملہ پڑا تو احیاء کے سامنے جھکی ہوئی دکھائی دی، اور اچھائی سے نظریں چراتی ہوئی، چاہے تقسیم کے فسادات ہوں، سکھوں کا دہلی میں قتلِ عام ہو، بابری مسجد کی مسماری ہو، عیسائیوں کو زبر دستی ہندو بنانے کا مسئلہ ہو یا گجرات میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہو۔
ایسے میں احیاء ہی ہونا تھا۔ کوئی موقع ایسا بھی ہے جب کوئی اصولی مؤقف لیا ہو اور اس پر ڈٹ گئے ہوں؟ زیادہ تر تو گونگلووں پر سے مٹی جھاڑتے ہوئے ہی کانگریس کے نیتا پائے گئے۔
اچھی بات کے پیچھے اس کے تحفظ کے لیے ارادہ اور عقل نہ ہو تو مانو دانو بنا دیے جاتے ہیں۔ بھارتیوں کو اپنی ثقافتوں کے احیاء کے خلاف وہ رویہ اپنانا پڑے گا جو شاعرہ سلویا پلاتھ نے اپنے نازی باپ کے لیے اپنی نظم بابا میں اختیار کیا ہے:
وہ کالے جوتے
تم پہنتے ہی نہیں
تیس سال تک
جن میں
پیر بنی
میں جیتی رہوں ہوں
خستہ و سفید
سانس لینے سے ڈرتی تھی
چھینکتی کیسے؟
مرتے نہ تو میں مار دیتی
تم کیا تھے؟
گرانی مرمر
خدا سے بھرا تروڑا
بد رنگ پنجوں والا بد شکل مجسمہ
اک مہر عِفرِیت
اور بحرِ جنوں میں ڈوبا سر
بحر کے نیل میں
تعفن پھیلاتا
سندر پانیوں کو گدلاتے ہوئے
کاش بحر جنوں سے
میں تمھیں کھینچ لاتی
کاش
جرمن بولی میں
پولش شہر میں
جنگوں کے رولر سے
ادھڑی کھولی
شہر کا نام سب جانتے ہیں
مگر میرا پولش دوست کہتا ہے
وہاں دو تھے، یا درجن
مجھے مگر خبر نہ ہوئی
تمھارے قدم
کہاں پڑے تھے
تمھاری جڑیں
کہاں گڑی تھیں
تم سے مگر بات نہ ہو سکی
کہ جبڑوں میں
میری جِیبھ
پھنسی تھی
اب کانٹے دار تاروں میں
دھنسی ہے
اف، اف، اف، اف
ایسے میں کیسے
کچھ کہتی
مگر میں نے سوچا
سب جرمن تمھارے
جیسے ہیں
اور مَن ہی مَن میں
گندی گالیاں
ٹائرل کی برف
اور ویانا کی بِیئر
نہ شدھ ہے
نہ ستیہ
ایک انجن
ایک انجن
یہودی کی طرح
چھک چھک
مجھے لیے جاتا ہے
آوشوٹز، ڈاخاو اور بیلسن
اب میں یہودی جیسی
باتیں کرتی ہوں
مجھے لگتا ہے
میں یہودی ہی ہوں
میری پاہلی پردادی
اور یہ بد بختی
اور تاش کے یہ پتے
کہے دیتے ہیں
تھوڑی بہتی
یہودی تو میں بھی ہوں
شاید یہی وجہ ہے
کہ میں ہمیشہ
تم سے
ڈرتی رہی ہوں
تمھاری کچرا سی باتیں
وہ فضائیہ
ستھری سی مونچھیں
وہ آریائی آنکھیں
دمکتا ہوا نیل
چشمے پہنے
مہا پرش
ڈرتی نہ تو کیا کرتی؟
چشمے پہنے
مہا پرش
تم خدا نہیں تھے
مگر اک نشان نفرت
اتنا سیاہ
کہ چرچراتا چرخ بھی
سیاہی میں
رستہ بھول جائے
خاتون تو
شاہین کی دیوانی ہے
چہرے پہ بوٹ
وحشی
تم وحشی
تمھارا دل
وحشی
تمھاری جو تصویر
میر ے پاس پڑی ہے
اس پہ تم
بلیک بورڈ پہ
کھڑے ہو
اور تمھارے پیر کا نقص
تمھاری ٹھوڑی پر
پھیلا ہے
تمھاری شیطانیت
فزوں کرتے ہوئے
وہی سیاہ دل
جس نے دل نازک کے
دو ٹکرے
کر دیے تھے
دس سال کی تھی
جب تم
دفن ہوئے
بیس سال کی ہوئی
تو مرنے لگی تھی
کہ تم سے پھر ملوں
اور ہڈیوں کا احتساب کروں
لیکن تھیلے سے انھوں نے
کھینچ کر
مجھے جوڑ دیا
تب میں جان گئی کہ کیا کروں
میں نے اک مجسمہ بنایا
سیاہی پہنے
سیاہ دل
‘میری تگ و تاز’ جیسی شبیہ
اِیذا سے محبت میں مبتلا
میں جان گئی تھی
تم کون ہو
کالا ٹیلی فون
کریڈل پہ دھرا ہے
کئی دنوں سے بند
اب آوازیں
راہ نہیں بنا سکتی
ایک مارا تو دو مرے
وہ بلا
سالوں جو
میرا خون پیتی رہی
وہ بلا
تم تھے
سات سال بیتے
اب تم
ٹیک لگا کر
سو سکتے ہو
تمھارے فربہ و سیاہ دل میں
اک صلیب سی گڑی ہے
اور گرائیں
تمھیں نہیں چاہتے
تم پہ
ناچتے
دندناتے ہیں
وہ جانتے تھے
کہ تم کون تھے
بابا
بابا
میرے کنجر با با
اب میں بھی جان گئی ہوں
تم کون تھے
2
بھارت میں سیکیولر جمہوریت کی نا توانی موہن داس کرم چند گاندھی کی ہندو ازم کی نوعیت اور خاصیت کی بارے میں چند تقاریر پڑھ رہے تھے۔ ان تقریروں میں گاندھی جی ہندو ازم کے احیاء کے متمنی نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کی تفسیر دوسرے مذاہب کے لیے روا داری اور عدم تشدد پر مبنی ہے۔ اس کیس کے لیے گاندھی جی کافی سارے تضادات کا بھی شکار لگتے ہیں۔ کبھی عقل کی کافی اہمیت ہے لیکن ہندو ازم کی کتابوں میں ایسا بہت کچھ ہے جو عقل سے ثابت نہیں ہوتا۔
اس لیے جب اس قسم کی دشواریوں سے سامنا ہوتا ہے تو گاندھی جی وجدان کا سہارا لیتے ہیں لیکن عقل کا کیس مکمل طور پر نظر انداز نہیں کر سکتے، اس لیے بات میری مرضی تک ہی پہنچتی ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے دوسرے کی مرضی ختم نہیں کرتے۔
ذات پات کے مسائل بھی ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے ذات پات کی ایک آئیڈیل شکل ذہن میں بسا لی ہے جس میں ذات پات اتنی بری نہیں ہے۔ بس صرف لوگ دینِ حقیقی سے واقف نہیں ہیں، اس لیے ذات پات کی شکل بگڑ چکی ہے۔
گیتا میں بھی جنگ کے حوالے سے یہ تفسیر کرتے نظر آتے ہیں کہ چُوں کہ ارجن جنگ کا عادی تھا، اس لیے کرشن اسے عدم تشدد کی تعلیم نہ دے سکتے تھے۔
اپنے ذہن میں مسلمانوں کی ایک جنگ پسندی کا تصور بھی قائم کیا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے ایک تعصب بھی گاندھی جی ہاں کبھی چھلک پڑتا ہے۔
ان تفسیروں پر بحثیں ہو سکتی ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ گاندھی جی ان تقاریر میں مذہب اور سیاست کی دوری کے قائل نہیں ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی انفرادی سیاست بل کہ ہندووں کی اجتماعی سیاست کی بنیاد ہندو مت پر رکھنا چاہتے ہیں۔ اور اپنی اس تفسیر کو وہ درست جانتے ہیں۔
سیکیولر جمہوریت کی توانائی کا فیصلہ یہیں ہو جاتا ہے۔ ایک مذہبی احیاء کے پروجیکٹ کو عملی طور پر فاشزم سے بچانا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ باتیں چاہے جتنی اچھے کریں۔
سیاست کی بنیاد مذہب پر آپ اکیلے تو نہیں رکھتے۔ ہندوتوا والے بھی تھے انھوں نے سیاست کی مذہبی بنیاد فاشزم پر رکھ لی۔ یہ کچھ اچھے شُرطے اور برے شُرطے والا معاملہ بن جاتا ہے۔
گاندھی جی چُوں کہ انتہائی مقبول تھے اور ان کے اثر کی وجہ سے آئین میں اقرار و تصدیق کے با وُجود مذہب کی سیاست سے دوری نہیں ہوئی جس کی وجہ سے سیکیولرزم ناتوان ہی رہا۔
دوسری طرف مذہبی فاشزم شروع سے ہی جارحانہ ہے اور گاندھی جی کے قتل کے ذمے دار بھی مذہبی فاشسٹ ہیں۔ ہندوتوا والوں نے قدیم اور جدید سام دھام دنڈ اور بھید کا فراواں استعمال کیا۔ ریاستی اداروں میں ہندوتوا کے داعی گھسنے لگے۔ لوگوں کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملایا۔
لالچ نہیں کیا تو تشدد کا سہارا لیا۔ تشدد سے بات نہیں بنی تو سازش کی۔ شروع کے فسادات میں بھی سیاست کی مذہبی بنیادوں کے نتائج سامنے آنے لگے۔ گاندھی جی نے اس رجحان کی مخالفت کی لیکن بات تصور کی ہوتی ہے اور مذہبی سیاست کا تصور ایک اتفاقِ رائے بن جاتا ہے تو پھر اس کو انتہا پسندی کی طرف جانے سے روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔
وقت گزرنے کے بعد سیکیولر جمہوری ریاست ہندوتوا کے برپا کیے ہوئے مذہبی اور ثقافتی فسادات کی طرف سے مُنھ پھیر کر دیکھنے لگی۔ اور سیکیولرزم ایک تصور کی طور پر بھارت میں بار بار پسپا نظر آنے لگا۔ نہ صرف پسپا بل کہ معذرت خواہ بھی۔ ہندوتوا والوں سے شرمندہ بھی۔ ایسے دکھیا اور ماندے سیکیولرزم نے اقلیتوں کا کہاں تحفظ کرنا تھا۔
دوسری طرف مذہبی فاشزم ارنے بیل کی طرح مسلسل ترقی کرتا رہا۔ اور پھر فاشزم مذہبی ہو، نسلی ہو، یا قومی اس کی اخلاقیات تو ہوتی نہیں۔ یہ ترقیاں دیکھ کر کس نے سیکیولر رہنا تھا۔ سام دھام دنڈ بید کا ہی فروغ ہونا تھا سو وہی ہوا۔
مسئلہ یہ تھا کہ ریاست کی مذہبی غیر جانب داری کے اصول کو مان لینا تھا۔ جس طرف سے انسانیت کا تحفظ ہو سکتا تھا، اس کی طرف سے ‘مانا اور نہیں مانا’ جیسا رویہ بھارت میں کثرت سے رائج ہو گیا۔ ہوائی جہاز اڑانے کے اصول تو مان لیے۔ اس وقت تو یہ نہیں کہا کہ ہوائی جہاز میں انجن کی جگہ رِشی مُنی کو ڈالیں۔ یہ بھی مان لینا تھا اور اس اصول کے تحفظ کے لیے معاشرے کی تعلیم و تربیت بھی کرنی تھی۔
لیکن بھارت کے سیکیولر گاندھی وادی دو رنگی سے ہٹ نہیں سکے۔ اور اس بات کے نتائج بھارت کی اقلیتوں ،اکثریت اور جنوبی ایشیا کے لیے اچھے ثابت نہیں ہوئے۔ اب اگلا موقع کبھی بھارت یا کافی سارے بھارتوں کو ملا تو انھیں ریاست کی مذہبی غیر جانب داری کا اصول مان لینا چاہیے۔ اور اس کا بھر پُور دفاع کرنا چاہیے۔
یہ رِشی مُنی، سادھو مہاتما اور دھرماتما کا رستہ کنفیوزن کا رستہ ہوتا ہے۔ بنیادی تفہیم ہی حقائق سے فرار کا شاخسانہ ہوتی ہے۔ اس پر سیاست قائم کرنے کی غلطی دہراتے رہنے سے بھارت ایک گرداب میں پھنسا رہے گا۔ جس کے انسانوں کے لیے نتائج غربت، پس ماندگی، امتیاز اور تشدد کی مختلف شکلوں میں رُو نما ہوتے رہیں گے۔