یو ڈیم سالا

Naeem Baig

یو ڈیم سالا

افسانہ از، نعیم بیگ

پام ڈیرہ بیچ کورنش پر شام کے سائے پھیل رہے تھے۔ لڑکے اور لڑکیوں کا ایک ہجوم کورنش کی دیوار کے ساتھ ساتھ چہل قدمی میں مصروف تھا۔ سورج دور سمندر کے اس پار ٹھہرے ہوئے پانی کے اندر آہستہ آہستہ آسمان کی وسعتوں پر نارنجی رنگ بکھیرتا ہوا غروب ہو رہا تھا۔ چھوٹے چھوٹے بادل ٹکڑیوں کی صورت میں قطار در قطار تیرتے ہوئے مشرق کی جانب سفر کر رہے تھے۔
کورنش کی تین فٹ اونچی اور کافی چوڑی دیوار پر ایک نوجوان اپنے سامنے اخبار کے چند صفحات پھیلائے پڑھنے میں مصروف تھا۔

پچھلے دو دن سے تو میں دیکھ رہا تھا کہ اس کا یہ معمول تھا۔ وہ شام ہونے سے پہلے اخبارات کا ایک پلندہ اٹھائے کورنش پر چلا آتا، پہلے چند منٹ وہ آہستہ آہستہ واک کرتا، اور پھر برسِک واک کرتے ہوئے کورنش کے دونوں طرف گھوم کر اپنی مخصوص جگہ پر آ کر بیٹھ جاتا اور اخبار کا مطالعہ کرتا۔ بظاہر شکل سے انڈین لگتا تھا۔

پام ڈیرہ بیچ دبئی کے مشہور تجارتی علاقے ڈیرہ میں واقع ہے۔ ایک طرف آسمان سے باتیں کرتی ہوئیں بلند و بالا عمارتیں جن میں سب سے بڑی عمارت حیات ریجنسی نامی مشہور ہوٹل ہے۔ دوسری طرف سامنے نائف کا بازار اور تجارتی مرکز، لہذا بیچ کورنش پر شام ہوتے ہی سینکڑوں رہائشی نوجوان لڑکے لڑکیاں اور سیاح آجاتے۔ دوپہر کو البتہ گرمی ہونے کی وجہ سے یہ جگہ تقریباً سنسان ہی رہتی۔

آج جب میں نے اس نوجوان کو دوبارہ دیکھا تو میرے اندر تجسس نے انگڑائی لی۔ میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے قریب پہنچ گیا۔
’’ آپ کے پاس ماچس ہوگی؟‘‘ میں نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔

اس نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور انکار کرتے ہوئے سر ہلا دیا۔ اور دوبارہ اخبار میں منہمک ہو گیا۔ میرا تجسس مزید بڑھ گیا۔ میں اچھل کر اس کے پاس ہی دیوار پر بیٹھ گیا۔میں ابھی اسی سوچ میں غلطاں تھا ، کہ کس طرح اس سے بات کی جائے کہ واک کرتے ہوئے قدرے ادھیڑ عمر کے ایک شخص نے اس چلتے چلتے مخاطب کیا۔

’’ہیلو اشوک ۔‘‘ نوجوان نے سر اٹھا کر سے دیکھا اور جواباً ایک مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی۔

“سی یو ٹومارو۔”  یہ کہتا ہوا وہ شخص آ گے نکل گیا۔

ہوں تو میرا اندازہ ٹھیک ہی تھا۔ لڑکا انڈین نکلا۔ میں نے دل میں سوچا۔ یوں تو دبئی جیسے شہر میں ذات پات، برادری ، رنگ و نسل ، مذہب اور کسی بھی ملک کا شہری ہونا کوئی خاص بات نہیں، یہاں صرف دو طبقے ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی یعنی تارکین وطن۔ ملکی مالک و آقا ہیں اورتارکینِ وطن چاہے کسی ملک سے بھی ہوں ورکر ہیں۔

یہ سوچ کر اشوک مجھے کچھ اپنا اپنا سا لگا۔ میں نے اپنی ہچکچاہٹ دور کرتے ہوئے خود ہی اس سے بات کرنے کی ٹھان لی۔ ’’ اچھا تو تمہارا نام اشوک ہے۔ کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘

اشوک نے میری طرف دیکھا اور سمجھ گیا کہ میں بات کرنے کی ابتدا کر رہا ہوں، لہذا اس نے اخبار ایک طرف کھسکایا اور انگریزی میں بولا۔

’’یس آئی ایم اشوک ، اشوک شری واستری پٹیل‘ اینڈ آئی ایم فرام گجرات انڈیا‘‘۔ اعتماد اس کے لہجے میں نمایاں تھا۔ آئی ایم سوری ، بٹ مجھ کو اردو نہیں آتا۔

ڈو یو سپیک انگلش؟‘‘ اُس نے مجھ سے پوچھا۔

سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں تھوڑی بہت انگریزی سبھی بول لیتے ہیں ، حالاں کہ مجھ جیسے گریجو یٹ کو تو انگریزی فر فر آنی چاہیے، لیکن ہمارے ہاں ایسا ماحول نہیں ہے۔ لہذا میں بھی بس ٹوٹی پھوٹی انگریزی ہی بول سکتا ہوں ۔ چونکہ مجھے بات کرنی تھی، میں نے اسی ٹوٹی پھوٹی انگریزی کا ہی سہارا لیا۔

’’یس آئی سپیک انگلش بٹ ویری لٹل۔‘‘

اشوک میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور بولا ’’ نو پرابلم، چلے گا۔‘‘
’’تم کدھر کا ہے؟ ‘‘
’’میں پاکستان سے ہوں۔‘‘ میرا لہجہ قدرے مایوسانہ سا تھا۔
’’وچ سٹی ؟ ‘‘
’’ کالا پل، کلوز ٹو لاہور۔ ‘‘
’’ اوہ، یو آر فرام پنجاب۔ آئی لو پنجاب۔ ‘‘
’’ یس۔۔۔ یس ‘‘ میں نے فوراً اپنا اعتماد بحال کرتے ہوئے کہا۔

یہ سنتے ہی اشوک نے اپنا داہنا ہاتھ میرے طرف مصافحہ کے لئے بڑھایا ، اور بولا’’ ویری نائس ٹو سی مائی فرینڈ ۔۔۔‘‘ اسے میرا نام جاننے کے لئے خاموش ہونا پڑا۔

’’میرا نام ۔۔۔ اوہ سوری ، مائی نیم اِز منظور علی۔ میں نے اپنا دایاں ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔ میں نے اس کے مصافحہ میں گرم جوشی کا ایک طوفان سا محسوس کیا۔ سچ پوچھئے تو میرے اندر بھی کچھ ایسے ہی جذبات تھے۔ میں کافی دنوں سے دبئی میں رہ رہا تھا، لیکن کسی اچھے انسان کی دوستی سے محروم ہی تھا۔

پچھلے چند دنوں سے نوکری کی تلاش نے مجھے تقریباً ادھ موا ہی کر دیا تھا، لیکن میں بھی ہمت ہارنے والے انسانوں میں سے نہ تھا۔ سو کوشش جاری تھی۔ وہ الگ بات کہ اب نوکری کی امید اب دن بہ دن مدھم ہوتی جا رہی تھی۔
’’ تم کیا کرتا ہے؟ ‘‘ اشوک کے سوال پر میں خیالوں سے نکل آیا۔ میں ہچکچاہٹ سے ایک سگریٹ نکالی اور ماچس کے لئے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

’’بھائی صاحب ! ماچس ہوگی؟ ‘‘ میں نے گزرتے ہوئے ایک شخص کو سگریٹ پیتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ وہ شخص رکا اور مجھے سلگانے کے لئے اپنی سگریٹ پیش کر دی۔ میں نے اپنی سگریٹ سلگائی، اسے شکریہ کہہ کر دو بارہ اشوک کی طرف متوجہ ہو گیا۔
’’ ابھی تک کچھ نہیں؟‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’اوہ ۔۔۔ ویری بیڈ، بٹ نو پرابلم، دونوں ایک ساتھ ڈھونڈے گا۔‘‘ تب مجھے احساس ہوا کہ وہ اخبار کا مطالعہ اتنی با قاعدگی سے کیوں کرتا ہے۔
’’ اپنا سٹوری بولو؟ ‘‘
لمحے بھر کے لئے مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ پھر ایک جھماکہ سا ہوا۔

’’میری سٹوری کچھ خاص نہیں۔ لاہور کے قریب کالا پل ہمارا گاؤں ہے۔ ماں باپ دونوں بوڑھے ہو چکے ہیں۔ ماں بیمار رہتی ہے ایک بہن اور ایک چھوٹا بھائی، میں سب سے بڑا ہوں۔ شروع میں باپ کے ساتھ کھیتی باڑی کی۔ پھر منڈی کا کام۔ پھر لاہور سے گریجویشن کی اور دو سال نوکری ڈھونڈتا رہا۔ گذارا تو چلتا تھا لیکن مستقبل نہ تھا۔ ایک دوست کے مشورے پر یہاں چلا آیا۔ باپ نے بیل کی جوڑی بیچ کر پیسے دئیے، اب سوچتا ہوں کہ یہاں اگر معاملہ نہ بنا تو آگے کیا ہوگا؟ ‘‘

’’بس اپنی تو یہی کہانی ہے۔ فصل کی بوائی کے دن آنے والے ہیں، بیل نہ ہوئے تو ابا کھیت کیسے بوئیں گے۔ فی الحال تو یہی فکر ہے۔‘‘
’’ سیم ڈیم سٹوری۔‘‘ اشوک نے قدرے مُنھ بنا کر کہا۔
’’ تم بولو ، تمہاری کیا کہانی ہے؟ ‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’ سورت معلوم ہے؟ ‘‘
’’ سورت؟ ‘‘ میں نے انکار میں سر ہلایا۔
’’ او کے آئی ٹیل یو۔‘‘
’’ گجرات میں سورت کے نام کا ایک بڑا شہر ہے۔ احمد آباد کے قریب ہے۔ زیادہ تر کاروباری لوگ رہتا ہے۔ ہم لوگ بھی اِدھری رہتا ہے۔ ‘‘
’’ مائی فادر اِز ٹیلر ماسٹر ، اینڈ آئی ہیٹ دِس جاب۔ سو آئی ٹولڈ مائی فادر، آئی وِل ناٹ ورک ایز ٹیلر ماسٹر۔ آئی ڈِڈ مائی ماسٹرز فرم احمد آباد، بٹ یو نو اِن انڈیا نو جاب ایٹ آل۔ پھر مدر بولا۔ آئی گِو یو مائی جیولری، یو گوٹو دبئی۔ پھر ہم یہاں آگیا۔‘‘ اس نے بات جاری رکھی۔
’’ یہ سیکنڈ منتھ ہے۔ سِٹل نو جاب۔ ‘‘
’’ تو پھر اب گزارا کیسے کرتے ہو؟ ‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ایک دوست کو بیڈ سپیس کا پیسہ دیا، فار ٹو منتھ۔ اُدھر رہتا ہے۔ شام کو ایک ہوٹل والے سے بات کیا ہے اِدھر نائف میں۔ اب رات کو دس بجے اس کے پاس جائے گا۔ اس کے ہوٹل کا سارا برتن دھوئے گا، پھر وہ رات کا کھانا دے گا اور صبح کا ناشتہ۔ بس ابھی تک تو ایسے ہی گزارا کرتا ہے۔‘‘

’’تو سارا دن کیا کرتے ہو؟‘‘ میں نے رنجیدگی سے پوچھا۔

’’بس جاب کا تلاش، کبھی اِدھر، کبھی اُدھر، شام کو کورنش پر آجاتا ہے، گلف نیوز میں جاب تلاش کرتا ہے اور اپنا بھوک اور پیاس کو رات تک روک کر رکھتا ہے۔ بس اب ٹائم ہونے والا ہے۔ کچھ دیر میں جائے گا، کام کرے گا اور کھانا کھائے گا۔‘‘

میں نے کچھ سوچتے ہوئے اس سے کہا۔ ’’کیا میں بھی تمہارے ساتھ چل سکتا ہوں، آئی وِل شئیر یور ورک۔‘‘

اشوک نے کچھ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا اور بولا۔

’’یو ڈیم سالا، کل رات سے بھوکا پیاسا ہے اور بولتا نہیں ہے‘‘ اور آگے بڑھ کر مجھے گلے لگا لیا۔ ہم دونوں کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔


نوٹ: یہ افسانہ آکسفرڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کے افسانوی انتخاب “کوزہ” 2015 میں شائع ہو چکا ہے اور نعیم بیگ کے افسانوی مجموعہ “یو ڈیم سالا” میں شامل ہے۔  

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔