تیری رہبری کا سوال ہے
از، معصوم رضوی
بالاخر عمران خان حکومت پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت مضبوط ہو گئی، 46 رکنی کابینہ میں 17 ٹیکنوکریٹس اور فصلی بٹیروں کو الگ کر دیا جائے تو اصلی و نسلی تحریک انصاف والے انگلی پر گنے جا سکیں گے۔ کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا، تحریک انصاف کی کابینہ بھان متی کا کنبہ بنتی جا رہی ہے۔ ایسے میں نظریات، دیانتداری، گڈ گورننس، کرپشن کے خلاف جہاد جیسے نعرے معدوم اور سمجھوتے بڑھتے جائینگے۔ کمبخت یہ سمجھوتے بھی ایسے ہوتے ہیں جس میں یو ٹرن کی گنجائش نہیں اور ایک انکار پینتیس سالہ تابعدار کو لمحے میں معتوب بنا دیتی ہے۔
اس وقت وفاقی کابینہ 24 وفاقی وزرا، 5 وزرا مملکت، 4 مشیروں اور 13 معاونین خصوصی پر مشتمل ہے، غیر منتخب ارکان کی تعداد 17 ہے، بیشتر کا تعلق مشرف اور زرداری کابینہ سے رہاہے۔ شاہ محمود قریشی، حفیظ شیخ، فردوس عاشق اعوان، شفقت محمود، نورالحق قادری، اعظم سواتی، فواد چوہدری، ندیم افضل چن پیپلز پارٹی اور بعض مشرف دور کے، غلام سرور، زبیدہ جلال، علی محمد مہر، مشرف کے قریبی ساتھیوں میں، اعجاز شاہ مشرف کے قریب ترین اور بااعتماد ساتھی تصور کیے جاتے ہیں، جہانگیر کرامت، نواز شریف، مشرف اور بینظیر بھٹو کے مشکوک حوالوں اور چھترول سے جانے جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں کابینہ میں تحریک انصاف کے نظریاتی لوگ انگلی پر گنے جا سکتے ہیں۔ فواد چوہدری کی صلاحیت نے پورے میڈیا کو حکومت کے خلاف لا کھڑا کیا، سو اب تحریک انصاف انکی بیش بہا صلاحیتوں کو سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں آزمائے گی، جاتے جاتے موصوف ایم ڈی پی ٹی وی کے معاملے پر نعیم الحق کو چاروں شانے چت کر گئے مگر اپنی وزارت گنوا بیٹھے۔ عامر کیانی نے دوائوں کی قیمت آسمان پر پہنچا کر واقعی عوام کی چیخیں نکلوا دیں، شنید ہے کہ ڈریپ معاملے میں خاصی گڑبڑ بھی ہے۔ غلام سرور کے دور میں گیس قیمتیں، بحران اور شاہانہ اخراجات بے قابو رہے سو اب وہ ہوابازی کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرینگے۔ عثمان بزدار اور محمود خان اپنے اپنے صوبوں میں مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں، ایک کے بعد ایک اسکینڈل، ناتجربہ کاری، بد انتظامی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ حضور میرا عقیدہ ہے کہ نااہل شخص کا انتخاب درحقیقت منتخب کرنیوالوں کی نااہلی ہوا کرتی ہے خواہ کتنی ہی دیانتداری ہو، خود عمران خان اعتراف کر چکے ہیں کہ گزشتہ دور میں خیبرپختونخوا حکومت لی تو معاملات سمجھنے میں دو سال گزر گئے، مگر جناب حقیقت یہ ہے کہ آج ملک جس دو راہے پر کھڑا ہے وہاں اتنی مہلت میسر نہیں ہے۔
یقینی طور پر سب سے بڑی تبدیلی اسد عمر کی ہے، وجوہات کچھ بھی ہوں، وضاحتیں کتنی ہی منطقی کیوں نہ ہوں، بحیثیت جماعت تحریک انصاف کیلئے بڑا دھچکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں اسد عمر تحریک انصاف کے سب سے ذھین، قابل، سمجھدار اور باوقار شخصیت رہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بحثیت وزیر خزانہ انہوں نے خاصے غیر مقبول فیصلے کیے اور یہ تاثر ابھرتا رہا کہ کوئی ٹھوس معاشی منصوبہ بندی موجود نہیں ہے۔ اسد عمر جب تک اپوزیشن میں رہے پورے ہوم ورک کیساتھ ن لیگ کے گلے کا پھندہ بنے رہے۔ مگر بحثیت وزیر خزانہ وہ چو مکھی جنگ نہ لڑ سکے یعنی معاشی چیلنجز، اپوزیشن کی تنقید، پارٹی کی اندرونی سیاست اور سب سے بڑا محاذ خود انکے بلند و بانگ دعوے تھے، جہاں بار بار یو ٹرن لینا پڑا۔ مگر سوال یہ ہے بھائی کہ جب اسد عمر جیسا وننگ پلیئر ڈلیور نہ کر سکے تو کیا فیصل واوڈا، فواد چوہدری جیسے ڈلیور کرینگے؟ بہرحال عمران خان بخوبی جانتے ہیں کہ میچ وننگ کھلاڑی کے بغیر کپتان کتنا کمزور ہوتا ہے۔ سکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اسد عمر کو سارے خوفناک غیر مقبول فیصلوں کے بعد فارغ کر کے انکی جگہ ٹیکنوکریٹ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا لگایا گیا ہے، ایسے وقت جب آئی ایم ایف معاہدہ بیچ لٹکا ہے، دو ماہ بعد بجٹ ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ تحریک انصاف گزشتہ دس سال کا رونا روتی رہی ہے اور ان دس سالوں میں سے تین سال حفیظ شیخ وزیر خزانہ تھے، پی ٹی سی ایل کی نجکاری والی اتصالات ڈیل کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ خیر اس سمجھوتے کا پھل کیا ملیگا، یہ تو وقت ہی بتائیگا۔
بلاشبہ عمران خان باصلاحیت شخص ہیں، عوام نے ان پر اعتماد کیا ہے مگر گزشتہ آٹھ ماہ میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ حکمرانی کا فن سیکھنے کیلئے انکو شدید محنت کرنا پڑیگی، انقلاب نعروں، بیانات اور کنٹینر سے نہیں آیا کرتے، نہ ہی مہاتیر محمد اور طیب اردووان کے اوصاف بیان کرنے سے آتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے انقلاب آٹھ، نو مہینوں میں نہیں آیا کرتے مگر قائدانہ صلاحیتیں، منصوبہ بندی، کوئی راہگزر، پگڈندی، کرن ضرور نظر آ جاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک کا سب سے بڑا چیلنج معاشی محاذ ہے، میری معاشی معلومات اتنی ہی ہیں جتنی ایک عام شہری کی، معاشی حالات کبھی ایسے نہ رہے کہ ایمنسٹی اسکیم کا فائدہ اٹھا سکوں، ٹیکس دیتا ہوں چونکہ ادارہ کاٹ لیتا ہے، آگے کیا ہوتا ہے پتہ نہیں، اب تو عالم ہے کہ بیشتر صحافی دوست بغیر تنخواہ دانشوری پر زندگی گزار رہے ہیں۔ خیر جناب عام شہری کا بجٹ تو اسکی تنخواہ اور اخراجات کے درمیان توازن کا نام ہے، جب بندہ ضروریات زندگی خریدنے جاتا ہے تو ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔ بجلی، گیس کے بل، آٹا، دال خریدے تو پیٹرول کی کرامات نظر آجاتی ہیں، دوائیں خریدنے جائے تو ڈالر کی قیمت پتہ چل جاتی ہے، اسکول کی فیس، گھر کا کرایہ، مہنگائی کا جن عوام کو نگلتا جا رہا ہے۔ تمامتر سخت اور غیر مقبول فیصلے عوام اسلئے قبول کر رہے ہیں کیونکہ آج بھی عمران خان کی قیادت سے امید وابستہ ہے، خدارا عوام کے صبر کو مزید نہ آزمائیں، آپ کے پاس بھی زیادہ وقت نہیں ہے۔ عوام تو شاید برداشت بھی کر لیں مگر خیر جانیں دیں ۔۔۔
ٹیکنوکریٹ حکومت اسٹیبلشمنٹ کا دیرینہ خواب ہے، جنرل مشرف کے حشر کے بعد فوجی حکومت اب شاید ممکن نہیں، مگرغیر منتخب ٹیکنوکریٹ مطلوبہ مقاصد کے کیلئے گارگر فارمولہ ہے۔ آپ کو یاد ہو گا جب نواز شریف نے پاناما کیس کے بعد استعفیٰ دیا تو ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کا نعرہ بلند ہوا تھا، بڑے بڑے جغادری اینکرز، دفاعی ماہرین، وکلا، تجزیہ کاروں کی فوج ظفر موج اسکے حق میں وضاحتیں دیتے رہے مگر پتہ چلا یہ آئین پاکستان میں ایسی کوئی گنجائش سرے سے موجود ہی نہیں تو ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ اب ماشااللہ یہ تجربہ منتخب حکومت کی زیر نگرانی کیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو جی بھر کے گندا کیا جا چکا، بھئی کرپشن ہے تو جیل بھیجو کوئی دوسری رائے نہیں مگر نو مہینوں سے صرف نیب، نیب تو نہیں کھیلا جا سکتا۔ اصل خدشہ یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ تحریک انصاف ناکام ہوتی ہے تو پھر عوام کے پاس آپشن کیا ہے؟ ایسا تو نہیں کہ عوام کو جمہوریت سے بیزار کیا جا رہا ہے؟ اس صورتحال میں صدارتی طرز حکومت کی بحث چھیڑی جا رہی ہے، صرف اتنا ہی نہیں عمران خان اپنے خطابات میں اٹھارویں ترمیم کو کھل کر نشانہ بنا رہے ہیں۔ حضور اٹھارویں ترمیم سے مسئلہ ہے تو اسکا حل پارلیمنٹ ہے جہاں آپ قطعی ایسی پوزیشن میں نہیں کہ قانون سازی کا سوچ بھی سکیں، پھر عوامی جلسوں میں یہ تنازعہ کیوں اٹھایا جا رہا ہے، کہیں آپ دانستگی یا نادانستگی میں اپنا وزن غیر جمہوری پلڑے میں تو نہیں ڈال رہے؟ اگر آپ اٹھارویں ترمیم کے خلاف تھے، صدارتی نظام کے حق میں تھے تو پھر اسکا تذکرہ آپکے منشور میں کیوں نہیں؟
پاکستان بحرانوں کا ملک ہے، بیرونی خطرات، دہشتگردی، معیشت، صحت، تعلیم، صاف پانی، آبادی اور جانے کیا کیا کچھ، مگر میرے خیال میں شاید اس وقت سب سے بڑا بحران فکری اور ذھنی ہے اور سب سے بڑا سوال کہ کرنا کیا ہے؟
نہ ادھر، ادھر کی تو بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا؟
مجھے رہزنوں سے غرض نہیں، تیری رہبری کا سوال ہے