زمانے کی رفتار اور بوسیدہ ہوتی سماجی اقدار
عمار غضنفر
مذہبی کتب میں اکثر ایک واقعہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی عورت نے امام ابو حنیفہ سے سوال کیا کہ جب اسلام مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دیتا ہے تو خواتین کو اس سہولت سے محروم کیوں رکھا گیا ہے۔ امام صاحب سے فوری طور پر کوئی جواب نہ بن پڑا۔ امام صاحب کی صاحبزادی جن کا نام حنیفہ تھا، اور جن کی نسبت سے آپ ابو جنیفہ کی کنیت سے معروف تھے، علم و فضل اور دانشمندی میں یکتا تھیں۔ امام صاحب ان کے پاس تشریف لے گئے اور اس بارے میں ان کی رائے دریافت کی۔ انہوں نے چند خواتین کو بلایا اور انہیں اپنا، اپنا دودھ ایک برتن میں ڈالنے کو کہا۔ پھر انہوں نے یہ برتن اپنے والدِ محترم کے حوالے کیا اور کہا کہ سائل خاتون سے کہیں اس برتن میں سے سب خواتین کا دودھ الگ الگ کر کے دکھا دے۔ امام صاحب کو سوال کا جواب مل گیا اور وہ اپنی دخترِ نیک اختر کی ذہانت پر عش عش کر اٹھے۔ سوال کرنے والی خاتون بھی مطمئن ہو گئی۔ اور مسلمان اس ذہانت بھرے جواب پر کئی صدیوں تک سر دھنتے رہے۔ مگر پھر وقت بدلا، اور دنیا جینیٹک سائنس کی دریافتوں سے آگاہ ہونے لگی۔ ڈی۔این۔اے۔ ٹیسٹ کے چرچے ہوئے اور آج ہم ڈی۔این۔اے ٹیسٹ کی مدد سے کسی بھی بچے کی ولدیت معلوم کرنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ اور ہمارے مولوی صاحبان آج تک جینٹک سائنس کا انکار کرتے اسی طرح سر دھنتے چلے جا رہے ہیں۔
بلکل ایسا یی معاملہ بعغیر نکاح قائم کردہ جنسی تعلقات کا ہے۔ زنا موجودہ سبھی مذاہب میں ایک بڑا گناہ ہے۔ اسلامی شرعیت میں مقررہ سزا کی نوعیت کے حساب سے شادی شدہ افراد کے کسی غیر کے ساتھ جنسی تعلقات (جن کے لیے ناجائز جنسی تعلقات کی اصلاح وضع کی گئی ہے) کو کنوارے مرد و عورت کے مابین قائم کردہ جنسی تعلقات کی نسبت زیادہ سنگین جرم اور گناہ مانا جاتا ہے۔ عموماً مذہبی کتب میں ایسے تعلقات کی ممانعت کی دلیل نتیجتاً جنم لینے والی اولاد کی ولدیت کا تعین نہ ہو پانا بتایا جاتا ہے۔ آج کے زمانے میں مانع حمل ادویات اور کنڈوم جیسی ایجادات نے اول تو ایسے تعلقات قائم کرنے والے مرد و زن کی مرضی کے خلاف اولاد کی پیدائش کے امکانات کو معدوم کر کے رکھ دیا ہے، اور اگر کسی بے احتیاتی کے نتیجے میں حمل ٹھہر ہی جائے تو ابارشن کی سہولت موجود ہے، اور اگر پھر بھی کوئی وجود دنیا میں آ ہی جائے تو ڈی۔این۔اے ٹیسٹ کی سہولت سے فیضیاب ہوتے ہوئے عورت کے شادی شدہ ہونے کے باوجود بچے کی اصل ولدیت کا تعین کیا جانا چنداں دشوار نہیں۔ ہاں مگر اس بچے کی معاشرے میں قبولیت اور اس کا مستقبل ایک معاشرتی سوال ضرور ہے، جس میں مشرقی و مغربی معاشرتی اقدار کا فرق واضح کردار ادا کرتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں تو ایسے نومولود اکثر کوڑے کے ڈھیر پر پڑے کتوں بلیوں کی خوراک کا سامان بنتے پائے جاتے ہیں۔ اور شائد اگر وہ بچ بھی جائیں تو ان کی زندگی اس طرح کی موت سے بھی زیادہ اذیت ناک ہو۔ ء2016 میں ریلیز ہونے والی ہالی وڈ کی رومانٹک کامیڈی مووی “بریجٹ جان بے بی” ایسے معاملات میں مغربی معاشرے کے ذہنی ارتقاء کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ مووی ایک نیوز چینل سے منسلک ادھیڑ عمر، غیر شادی شدہ عورت کے متعلق ہے جو کہ ایک تفریحی دورے کے دوران دو مختلف راتوں میں دو مختلف مردوں سے جنسی تعلقات قائم کرنے کے نتیجے میں حاملہ ہو جاتی ہے۔ وہ اس بچے کو جنم دینے کا فیصلہ کرتی ہے مگر اب مسئلہ یہ پتہ لگانے کا ہوتا ہے کہ بچے کا باپ دراصل دونوں میں سے کون ہے۔ بالآخر ڈی۔این۔اے ٹیسٹ سے یہ مسئلہ حل ہوتا ہے، اور وہ بچے سمیت ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔
ایک جانب جینیٹک سائنس کی رو سے اگر کسی خاندان میں تین نسل تک باہر کا خون شامل نہ ہو تو نتیجہ معذور بچوں کی صورت میں نکلتا ہے، اور وقت کے ساتھ ایسے خاندانوں کا خاتمہ ہوتا چلا جااتا ہے۔ دوسری جانب ہمارے برِصغیر میں کسی آمیزش سے پاک خالص خون کے دعویدار اپنی خالص نسل پر تفاخر کو سرمایہءحیات گردانتے نہیں تھکتے۔
کیا اب یہ تسلیم کرنے کا وقت نہیں آ گیا کہ ایسی سماجی اقدار اور اخلاقیات کی جڑیں زرعی معاشرے کے اجتماعی شعور سے پھوٹتی ہیں جس میں قدم رکھنے کے ساتھ انسانی معاشروں میں ملکیتی زمین اور مویشیوں کے ساتھ ساتھ عورت بھی ذاتی ملکیت میں شمار کی جانے لگی۔ آپ کی ملکیت چاہے وہ بہن، بیٹی یا بیوی کی صورت میں ہو اس پر کسی اور کا تصرف کرنا مجموعی معاشرتی مفاد کے کے خلاف ہے اور اسی وجہ سے زرعی معاشرے میں زن، زر اور زمین بنیادی وجہ تنازعہ ہیں۔ ہمارے درمیان آج موجود تقریباً سبھی مذاہب زراعتی زمانے میں آئے ہیں اور انہوں نے معاشرتی معاملات سے متعلق اپنی تعلیمات و احکامات کے سلسلے میں اپس زمانے کے معاشرتی و سماجی حالات کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔ بنی نوع انسان میں ترقی یافتہ قومیں کیونکہ زراعتی دور سے آگے بڑھ کر صنعتی اور پھر ٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہو چکی ہیں اس لیے ایسے معاملات میں ان کی سوچ اور طرزِ عمل ہم سے بالکل مختلف ہے کیونکہ ہم اب تک زراعتی معاشرے سے آگے نہیں نکل پائے اور ہماری سوچ انہی اقدار کی پروردہ ہے جن کی فضا میں ہم نسلوں سے پرورش پاتے چلے آ رہے ہیں۔
مگر وقت کی رفتار اور بدلتے معاشی تقاضوں باعث معاشرتی اقدار ہمیشہ غیر محسوس انداز میں شکست و ریخت کا شکار رہتی ہیں۔ معاشرے میں موجود قدامت پسند اور تبدیلی مخالف قوتوں کی مزاحمت کے باعث آنے والی تبدیلیوں کی رفتار سست تو ہو سکتی ہے مگر وقت کبھی پیچھے کی جانب سفر نہیں کرتا اور نہ ہی آج کے سوشل میڈیا کے دور میں دنیا میں آتی تبدیلیوں کے اثرات سے زیادہ عرصہ تک دامن چھڑایا جا سکنا ممکن ہے۔