میں زہر کا پیالہ کیوں پیوں
انشائیہ از، ڈاکٹر عبدالواجد تبسم
سقراط نے جب زہر کا پیالہ پیا تھا اس سے ایک دن پہلے کا منظر اس وقت میرے تصور میں گردش کر رہا ہے کہ جب اس کے بیوی بچے جیل میں اس کے ارد گرد بیٹھے تھے اور آہ و زاری کر رہے تھے۔ مگر وہ انہیں سمجھا رہا تھا کہ دیکھو یہ دنیا مجھے مارنا چاہتی ہے لیکن میں زہر کا پیالہ پی کر زندہ ہو جاؤں گا۔
اس کے دوست کرائٹو نے جیلر کو رشوت دے کر اس بات پر راضی بھی کر لیا تھا کہ وہ راتوں رات سقراط کو جیل سے نکال کر کسی اور ملک لے کر چلا جائے گا، مگر اس نے اپنے عزیز دوست سے بھی یہی کہا تھا کہ دنیا اسے مارنا چاہتی ہے مگر وہ زہر کا پیالہ پی کر زندہ ہو جائے گا۔ اس نے اپنے آخری عوامی اجتماع میں جو تقریر بھی کی تھی اس میں بھی اس نے یہی کہا تھا کہ لوگو تم مجھے زہر کا پیالہ دے کر مارنا چاہتے ہو، دیکھنا میں زندہ ہو جاؤں گا۔
وہ اگر حاکمِ وقت سے رحم کی اپیل بھی کر تا تو اسے زیادہ سے زیادہ جلا وطن کر دیا جاتا مگر اس نے نہیں کی کیوں کہ اسے اپنی ذات پر بھروسا تھا کہ دنیا جو کچھ کرنے جا رہی ہے وہ بظاہر تو اچھا نہیں مگر اس کے الوہی فلسفے کی نظر میں اچھا ہے۔
سقراط اَمر ہو گیا اور کروڑوں دنیا کے دلوں میں زندہ ہو گیا۔ مگر میرا کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ میں بھی سقراط کی طرح دنیا کو دکھا کر زہر کا پیالہ نوش جاں کرلوں مگر کیا ہو گا مجھے اس بات کا بھی پتہ ہے کہ ایسا کرنے سے میں ہسپتال کے کسی ایمرجنسی وارڈ میں تھوڑی دیر کے لیے تڑپوں گا، میرا تن بدن نیلا ہو جائے گا اور ہمیشہ ہمیشہ کا سکوتِ مرگ مجھ پر طاری ہو جائے گا۔
مجھے اس بات کا بھی پتا ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرے دوستوں میں میری موت پر ملا جلا رجحان رہے گ: بعض چند دن میرا ذکر خیر کریں گے کیوں کہ میرے مرنے کے بعد میرے گناہ بھی انہیں نیکیاں لگیں گی۔ بعض کی تمناؤں کا خون ہو گا اور بعض بظاہرمیرے غم میں رنجیدہ توہوں گے مگر دل سے کہیں گےکہ چلو اچھا ہوا اس سے تو جان چھوٹی، میں ایسا کام ہرگز نہیں کروں گا کیوں میرے سامنے کوئی الوہی فلسفہ ہے نہ اتنی ہمت، نہ فکر جو مجھے مرنے کے بعد شہرت دوا م دے۔
میں زندگی کےعام معاملات میں مصلحت کا مارا، جھوٹا، فریبی، دھوکے باز اور منافقت میں طاق ہوں۔ میں شاعر ہوں تو، شاہ کا قصیدہ خواں اور مرنے پر اس کا مرثیہ خواں، کہ مجھےاس سے بھی تو کوئی فائدہ اٹھانا ہے۔ میں اقبال کی خودی کا سبق پڑھ کر فاقوں سے مرنا نہیں چاہتا بلکہ اس کے طائرِ لا ہُوتی کی طرح ہر دور میں اپنی پرواز بلند رکھنا چاہتا ہوں۔
میں اپنے افسر کی ہر وقت خوشامد اس لیے کرتا ہوں کہ اس کے شَر سے بچا رہوں اور مجھے برابر ترقی کے مواقع ملتے رہیں اور میرا اقبال بلند رہے۔
میری اپنی کوئی سوچ نہیں ہے، بلکہ میں تھالی کے اس بینگن کی طرح ہوں جو ہر جا لُڑھکتا رہتا ہے اور تر و تازہ رہتا ہے۔
میں شہید ہو کر دائمی زندگی کے خواب کیوں دیکھوں میں اس کے لیے ٹیکس دیتا ہوں تا کہ دوسرے میری جگہ شہید ہو جائیں۔ میں کاسہ لیس ہوں کہ ہر جگہ کو اپنی سجدہ گاہ بنا لیا ہے۔ میرے اندر اتنے بُت ہیں کہ میں چاہوں بھی تو کسی ایک کو بھی گرا کر بت شکن نہیں بننا چاہتا۔
مجھے اس بات پہ یقین نہیں ہے کہ کوئی ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اس کی ہر اچھے برے پر نظر ہے۔ جب وہ مجھے نظر نہیں آتا تو میں اس کے سامنے کیوں جھکوں، میری نظر تو پیکر محسوس کی گرفتہ ہے۔ میں ایمان کے اس آخری درجے پر ہوں کہ کسی برائی کو ہوتے ہوئے بھی چپ سادھ لیتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میرے اندر کا یہ آخری آدمی بھی ایک دن مر جائے گا۔ جب میری زندگی اپنی نہیں تو میری موت کیسے اپنی ہو گی۔ میں زہر کا پیالہ ۔۔۔۔۔۔