زندگی منزل میں ہے : اوپندر ناتھ اشک سے گفتگو
از، آصف فرّخی
اوپندر ناتھ اشک سے بات چیت اپنے میں ایک ناقابل فراموش تجربہ ہے۔۔۔ مجھے وہ گفتگو زندہ و تابندہ دلچسپ ، عقل رساکو ایڑ لگانے والی ، حاضر جوابی سے بھرپور، تیکھی ، تیز ، طنز و استہزاء اور قدرے حسرت بھری محسوس ہوئی ۔ 81 سالہ اشک اپنی بات چیت میں اپنے بارے میں اتنا کچھ کہہ دیتے ہیں کہ ان کے جوش و ولولے کے جادو سے متاثر نہ ہونا خاصا مشکل ہے۔ لگتا ہے جیسے وہ ’’ ون مین شو‘‘ ہیں اور اکیلے دم سٹیج پر بیٹھے لوگوں کو اپنی باتوں کے سحر سے مسحور و مبہوت کئے ہوئے ہیں۔
اشک صاحب سے میری پہلی ملاقات مجھے لحظہ بھر کے لئے بھونچکا کر گئی۔ میں نے کراچی کے بڑے ہوٹل ’’ہولی ڈے ان‘‘ میں ان کے کمرے پر دستک دی اور دروازہ کھلا تو پلنگ کے نیچے غالیچے پر ایک لمبے، سانولے ، پتلے ، چھریرے، قدرے غصے ور دکھائی دینے والے بزرگ کو کسرت کرتے پایا۔ انہوں نے ایک بار میری جانب دیکھا اور کچھ عجیب طرح چیخے،، چلائے ، کھانسے ،کراہے اور آخر کار بہت پیارے ڈھنگ سے مسکرا دئیے۔
’’میرا دمہ بہت تکلیف دے رہا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا۔‘‘ میں آج دیر سے اٹھا ہوں۔ روزانہ یوگا بھیاس کرتا ہوں ۔ بس چند لمحے اور ۔۔۔ ادھر صوفے پر بیٹھ جاؤ۔‘‘
اگر ان کے لہجے میں اتنی اپنائیت نہ ہوتی تو میں بھاگ کھڑا ہوتا۔ یوگا بھیاس ختم کر کے اشک صاحب میرے سامنے آ بیٹھے اور سیدھے نہایت دلچسپ بات چیت میں منہمک ہو گئے۔۔۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے ان کے ذہن میں لاہور کی یادیں دھندلا گئی تھیں، جنہیں تازہ کرنے کے لئے وہ تقریباً ایک دہائی بعد پھر پاکستان آئے ہیں، تاکہ اپنے میگنم اوپس۔۔ سات حصوں میں لکھے جا رہے ضخیم ناول ’’گرتی دیواریں‘‘ کا ساتواں اور آخری حصہ پورا کر سکیں۔۔ اس ناول میں انہوں نے قریب قریب اپنی ساری زندگی صرف کر دی ہے اور اس میں وہ اپنے تجربات ، مشاہدات، اپنا فلسفہ اور زندگی کے بارے میں ۔۔۔ جو وہ جانتے سوچتے اور سمجھتے ہیں اور جسے وہ اپنے قارئین تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ وہ سب قلمبند کر رہے ہیں۔
اشک صاحب نے اپنا ادبی کیرئیر ،لاہور میں ایک صحافی کی حیثیت سے شروع کیا لیکن جلد ہی وہ نچلے متوسط طبقے کی حقیقت پسند کہانیوں کے لئے مشہور ہوئے۔ پریم چند نے ان کے افسانوں کو سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اشک اردو کے تین مشہور افسانہ نگاروں ۔۔ کرشن ، منٹو اور بیدی سے کہیں پہلے ہر دلعزیز ہو گئے تھے۔ منٹو نے ان سے کئی بار پنجہ لڑانے کی کوشش کی، اشک صاحب نے منٹو کے انتقال پر اپنے اور ان کے تعلقات کو لے کر ’’ منٹو : میرا دشمن‘‘ کے عنوان سے ایک نہایت تلخ اور شیریں یاد داشت لکھی۔ کچھ لوگوں کے خیال میں صرف یہی ایک کتاب ان کو اردو ادب میں ہمیشہ کے لئے زندہ رکھ سکتی ہے۔ اشک نے منٹو کو اپنا دشمن کہا ہے لیکن کتاب کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اشک ،منٹوکے کئی نام نہاد دوستوں کی بہ نسبت کہیں گہرے دوست اور ہمدرد قاری ہیں۔
چوتھی دہائی کے شروع میں لاہور چھوڑنے کے بعد اشک متواتر ہندی میں لکھتے گئے۔ 1948ء میں دق سے تھوڑے روبہ صحت ہونے پر وہ الہ آباد جا کر بس گئے اور انہوں نے لگاتار ہندی میں کہانیاں، ناول، ڈرامے، نظمیں، یک بابی ناٹک، مقالے، انشائیے، یادداشتیں، اور تنقیدیں۔ لگ بھگ سو سے اوپر کتابیں تخلیق کیں۔ ظاہر ہے اس دوران وہ اردو سے کافی دور چلے گئے ،حالانکہ بہت دنوں تک ، پہلے کی طرح وہ اپنا پہلا مسوّدہ اردو ہی میں لکھتے رہے اور کبھی کبھار اپنے اردو افسانے پاکستانی رسالوں میں بھیجتے رہے، لیکن پھر زیادہ تر انہوں نے اپنی کوششیں ہندی کے لئے وقف کر دیں لیکن 1979ء میں وہ پورے زور و شور سے اردو کی طرف پلٹے۔ انہوں نے الہ آباد میں اپنا اردو ادارہ قائم کیا۔ ایک کے بعد ایک کتاب اردو میں چھاپتے چلے گئے اور انہوں نے پھر پہلے کی طرح اردو ادب میں اپنا اہم اور بلند پایہ مقام بنا لیا۔ کراچی میں ان کے قیام کے دوران انجمن ترقی اردو (پاکستان)، کراچی نے ایک بہت بڑے جلسے میں ان کی پچاس سالہ اردو خدمات کے صلے میں انہیں ہدیہ عقیدت پیش کیا۔
آصف فرخی
آصف فرّخی: اشک جی، اتنے دن بعد پاکستان آنا آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟
اشک:بھئی ظاہر ہے اچھا لگ رہا ہے۔ اب یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے۔ میں تو اپنے آپ کو پاکستانی ادیب ہی سمجھتا ہوں اور جو کہتے ہیں بھارتی ادیب ہوں، مجھے اچھا تو لگتا نہیں۔ برصغیر کا ادیب کہیں، یہ تو مان سکتا ہوں۔ لیکن بتایئے، میں نے آج تک سوائے لاہور کے زیادہ کچھ اور نہیں لکھا۔ ’’گرتی دیواریں‘‘ میرے ناول کے پانچ ہزار صفحات میں سے تین ہزار تو لاہور کے بارے میں ہوں گے۔ میرے ضخیم ناول گرم راکھ، اور نمشا کا ماحول بھی لاہور کا ماحول ہے بیشتر افسانے اور ایک بابی ڈرامے تو لاہور میں ہی رہ کر لکھے۔ تو میں کہاں کا بھائی ادیب ہوگیا اور کیوں پاکستانی ادیب نہیں ہوں۔ اُردو کا ادیب ہوں۔ اور اُردو ہندوستان میں بھی ہے اور پاکستان میں بھی۔ پھر ادیب ہندو یا مسلمان بھی نہیں ہوتا۔ یعنی اعلیٰ درجے کا ادیب! وہ بنی نوع انسان کے لیے لکھتا ہے۔ انسانیت دوست ہوتا ہے اور سب کا ہوتا ہے۔
سوال: یہ جو آپ نے اُردو کے ادیب ہونے کو اپنی وجۂ شناخت بتایا، میں اس کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ شروع آپ نے اُردو سے کیا اور ہندی کی طرف چلے گئے۔ پاکستان بننے کے بعد۔۔۔
اشک: نہیں۔ میں نے شروع پنجابی سے کیا۔ اور پنجابی بیتوں سے کیا۔ پھر میں نے اُردو سے لکھنا شروع کیا اور اُردو غزلیں لکھیں۔ استاد سے جھگڑ گئے۔ نثر لکھنے لگے۔ اور لکھتے چلے گئے۔
سوال: وہ نثر جو آپ نے لکھنا شروع کی وہ کس زبان میں تھی، اُردو میں؟
اشک: ظاہر ہے۔ دس سال لگاتار اُردو میں لکھا۔
سوال: اس کے بعد آپ ہندی کی طرف چلے گئے۔
اشک: ہندی میں اس لیے چلے گئے۔ وجوہات تو ہیں چھ۔ لیکن چھ میں بیان کرنے لگوں گا تو بہت دیر ہوجائے گی۔ لیکن اصل وجہ اس میں یہ سمجھ لیجیے کہ پریم چند سے میرا رابطہ ہوگیا اور میں پریم چند کو بہت مانتا تھا۔ پریم چند ایک پرچہ نکالتے تھے ’ہنس‘ وہ ’ہنس‘ ہندی کا بہت چوٹی کا پرچہ تھا۔ میں اس میں چھپنا چاہتا تھا۔ ایک دو کہانیاں انہوں نے میری خود ترجمہ کرکے چھاپ دیں۔ لیکن وہ بڑے ادیب تھے۔جس وقت میں ادب میں داخل ہوا ان کی زندگی کا آخری دور تھا۔ تو قدرتی طور پر انہوں نے ایک بار لکھا کہ میں اُردو میں کہانی لکھ کر کیا کروں گا، تم ہندی میں لکھو۔ تو مجھے دیر تو بہت لگی کیوں کہ ہندی تو مجھے بالکل نہیں آتی تھی۔ یعنی لکھنا۔ اُردو تو میں چھ جماعت پڑھا ہوں، ہندی ایک جماعت بھی پڑھا نہیں ہوں۔ براہمن ہوں۔ ماں نے سکھا دی تھی۔ پڑھ لیتا تھا۔ لکھ نہیں سکتا تھا۔ مگر میں بہت ہی ضدی اور ہٹی آدمی ہوں۔ ٹھیک ہے، لکھنے لگے اور چھپنے لگے ساتھ ساتھ اُردو ہندی میں اور پھر ساتھ ساتھ دونوں زبانوں میں 1984 ء تک لکھتے رہے۔ یعنی کہ 1984ء سے۔ میں نے1964ء میں لکھنا شروع کیا۔ 62ء سے 63ء تک دس سال بالکل اُردو میں لکھتا رہا۔ پھر میں لگاتار 84ء تک دونوں زبانوں میں لکھتا رہا۔ کیوں کہ میں دو، تین، چار بار لکھتا ہوں۔ اس لیے جب میں نے پہلا ورژن اُردو میں لکھا، فرض کیجیے کسی اُردو رسالے نے مانگا۔ دوسرا ہندی میں لکھ دیا۔ ہندی میں تھوڑا بدل دیا۔ اُردو میں اضافہ کرکے دے دیا، اور پھر بدل دیا۔ تو میں نے کہا نہ کہ تین چار بار لکھتا ہی ہوں۔ تو میرے لیے دونوں زبانوں میں لکھنا بے حد آسان چیز ہے۔ اور میں لکھتا رہا ہوں۔ یہ تو بہت LATE ہوا کہ وہاں ہندوستان میں اُردو پرچہ نہیں رہا۔ اور مجھے اپنی اُردو تخلیقات کو پاکستان میں بھیجنا پڑتا تھا اور میرے یہاں لوگ اُردو میں پیسے بھی نہیں دیتے تھے۔ میں ہمیشہ معاوضے کے لیے لکھتا رہا ہوں۔ سو پھر میں ہندی لکھنے لگا تھا۔ ورنہ میں اُردو لکھتا رہتا۔ اگر وہاں اچھے رسالے نکلتے اور معاوضہ دیتے۔
سوال: اِدھر تو آپ کی کئی کتابیں اُردو میں بھی آئی ہیں۔
اشک: یہ ٹھیک ہے۔ ہوا یہ کہ میرے کمرے میں سیل آنے لگی۔ بنایا تھا نیا، مجھے تجربہ نہیں تھا۔ دیواروں میں نیچے کنکریٹ نہیں ڈالی اور یہ ہوا کہ لائبریری میں سیل آنے لگی۔ بہت بھاری لائبریری ہے میری۔ انجینئر نے کہا کہ سڑیکنگ کرا لیجیے۔ یہ کتابوں کے ریک ہٹانے پڑے۔ کتابیں اٹھانی پڑیں۔ کتابوں کے ایک ریک میں مجھ کو اُردو کتابوں کے تیس مسّودے ملے۔ میرے دل میں یہ ہوک (یہ پنجابی کا شبد ہے) میرے من میں یہ ہوک اُٹھی کہ میں نے جو اتنی محنت کی ہے، یہ رائیگاں ہوجائے گی۔ تو میں نے مسّودے ٹھیک ٹھاک کیے۔ بیوی سے کہا، میں مکتبۂ جامعہ سے چھپوا دیتا ہوں۔ میں نے افسانوں کا ایک مجموعہ دیا۔ جامعہ والوں نے صاحب میری کتاب واپس کر دی۔ میں بہت غصّے ور آدمی ہوں۔ اسی سال 1979ء میں میں نے ادارہ شروع کیا اور آئندہ کچھ برسوں میں اٹھارہ کتابیں چھاپ دیں۔ کتابیں میری بکتی ہیں اس لیے کوئی مجھے دقّت نہیں ہے۔ پیسے کی تھوڑی تنگی ضرور ہے مگرWHEN THERE IS A WILL, THERE IS A WAY.
میں دس سال میں ساری کتابیں چھاپ دوں گا۔ اگر زندگی نے مہلت دی۔ کتابیں میری جیسا کہ میں نے کہا۔ بکتی ہیں، اس میں کوئی دقّت تو ہے نہیں۔ اٹھارہ میں سے آٹھ تو آؤٹ آف پرنٹ ہوگئیں، دوبارہ چھاپنی ہیں۔ پہلی کتابوں کے ایڈیشن کم چھاپے تھے، جلدی بک گئے تو اب زیادہ کا شائع کرتا ہوں۔
سوال: میرے سوال کا مقصد یہ تھا کہ آپ نے اُردو میں بھی لکھا ہندی میں بھی لکھا۔ لیکن یہ ساری کتابیں جو ہیں، تو آپ انہیں بنیادی طور پر ہندی کا کام سمجھتے ہیں یا اُردو کا؟
اشک: دیکھئے صاحب میں ہندی اُردو میں کوئی بہت فرق نہیں سمجھتا اور اصل میں، کل مجھے اگر بنگالی میں لکھنا پڑے تو بڑے آرام سے بنگالی سیکھ لوں گا اور لکھنے لگوں گا بنگالی میں۔ آپ ادب کو بھاشاؤں سے کیسے بانٹتے ہیں؟ ادب تو ادب ہے، کسی زبان کا بھی ہو۔ میں تو پنجابی ہوں۔ نہ مسلمانوں کی طرح میں کہتا ہوں کہ اُردو میری مادری زبان ہے، نہ پنجابی ہندوؤں کی طرح ہندی کو مادری زبان کہتا ہوں۔ وہاں پنجاب میں سارے ہندو پنجابی بولتے ہیں اور کہتے ہیں ہندی ہماری مادری بھاشا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا۔ میری مادری بھاشا تو پنجابی ہے۔ پنجابیوں نے اُردو اور ہندی کو بہت ENRICH کیا ہے۔ ہم پنجابی بڑے محنتی ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے جی، لکھا ہے۔ اُردو میں بھی، ہندی میں بھی۔ مجھے اُردو اور ہندی سے اس طرح کا پریم نہیں ہے جیسا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ہے۔ مجھے تو زبان کا پریم ہے۔ میں نے ان زبانوں کو محنت سے سیکھا ہے۔ دونوں میں استعداد پیدا کی ہے اور دونوں میں لکھتا ہوں۔۔۔ مطلب ادب سے ہے۔ زبان میرے اظہار کا ذریعہ ہے۔ کل بنگالی اگر نیشنل لینگوئج ہوجائے ہندوستان کی، میں پانچ چھ برس میں بنگالی سیکھ لوں گا اورBEAT کر دوں گا ان کو ان کی زبان میں۔
سوال:میرے خیال میں، میں اپنا سوال شاید واضح نہیں کر پایا۔۔۔
اشک:آپ اگر یہ پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ میں FINISHED COPY کس طرح تیار کرتا ہوں تو دیکھئے جیسا کہ میں نے پہلے کہا کبھی اُردو میں تیار ہوجاتی ہے کبھی ہندی میں۔ پھر میں سنوارتا سدھارتا رہتا ہوں۔ رہی زبان میری، یہ تو ٹھیک ہے کہ بہت مشکل نہیں ہے، لیکن یہ بھی ٹھیک ہے کہ اُردو، اُردو ہے اور ہندی ہندی ہے۔ میں زیادہ مشکل نہیں لکھتا۔ جیسے آپ ’’گرتی دیواریں‘‘ پڑھیں۔ اُردو میں لکھا۔ اُردو میں FINALIZE کیا۔ ہندی میں ترجمہ ہوا ہے۔ فرق دیکھ لیجیے۔ چار ایڈیشن ہندی میں ہیں، میں نے بھاشا بدلی ہے ہندی کی ہے۔ یعنی جس ہندی کو میں اپنی ہندی مانتا ہوں۔ اگر پہلے ہندی ایڈیشن سے یہ اُردو ’گرتی دیواریں‘ ملایا جائے تو زمین آسمان کا فرق معلوم ہوگا۔ وہ ترجمہ تھا، یہ ORIGINAL ہے۔
سوال: کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہندی کا پہلا ایڈیشن ترجمہ تھا اور اب آپ نے اسے دوبارہ ہندی میں لکھا ہے؟
اشک: نہیں۔ تب مجھے ہندی آتی ہی نہیں تھی اتنی ظاہر ہے ترجمہ ہوا۔ ہندی ثقیل ہوگئی۔ظاہر ہے خام ہے اور جو کسر رہ گئی تھی تو وہاں ہندی والوں نے دور کر دی۔ اُردو لیکھک کی ہندی سُدھارنے کی کوشش میں۔ اس کو اب تک سدھار رہا ہوں میں (ہنسی)۔
سوال: کچھ اس ناول کے حوالے سے گفتگو ہونی چاہیے۔ آپ نے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے کہ یہ ناولوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ کچھ اس کے پس منظر کے بارے میں اور کچھ اس کے CONTENT کے بارے میں آپ بتایئے تاکہ بات سے بات نکلے۔
اشک: ایسا ہے آصف کہ میں دس سال تو ایسے ہی لکھتا رہا جیسے کہ جھرنا پھوٹ پڑے اور بہنے لگے۔ ہر سمت میں اور کسی خاص سمت میں اس کو CHANNELIZE نہ کیا جائے۔ میں کہانیاں لکھتا تھا عشقیہ، بغیر عشق کیے۔ بنا عشق کو جانے۔ میں کہانیاں لکھتا تھا آندولن کی تحریک کی، بنا اس تحریک کی ماہیت کو جانے۔ تھا تو بچّہ۔ بس میں تخیئلی لکھتا تھا۔ جیسے پریم چند نے نمک کی آندولن پر کہانیاں لکھی ہیں۔ میں نے بھی لکھ ڈالیں۔ میں پریم چند کو پڑھتا تھا۔ میں وہ کہانیاں بناتا تھا، یعنی کہ میں ان کہانیوں کو گھڑتا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں پاپولر تھا، یہ بھی ٹھیک ہے۔ یہ میرا خیال ہے کہ ان دس سال میں صرف تین کہانیاں میں نے اچھی لکھی ہیں، جو آج بھی آپ کہہ سکتے ہیں کہ ادب کے معیار و میزان پر پوری اُترتی ہیں۔
سوال: اچھا، وہ کون سی تین کہانیاں ہیں۔
اشک: وہ ہیں ۴۲۳ (جس کے BASE پر ’ڈاچی‘ لکھی ’کاکڑاں کا تیلی‘ لکھی، اور جس کے BASE پر ناولٹ ’پتھر الپتھر‘ لکھا۔ یہ ایک ہی کہانی ہے۔ وہ ’۴۲۳‘ ہے، وہی کہانی ’ڈاچی‘ ہے، وہی کہانی کاکڑاں کا تیلی ہے، وہی ’پتھر الپتھر‘ ہے، آپ نے تو پڑھ رکھی ہے۔ وہی بنیادی تکلیف ہے، ایک ہی تکلیف ہے۔ وہاں ۴۲۳ میں حیدر ہے، ’ڈاچی‘ میں باقر ہے، ’کاکڑاں کا تیلی‘ میں مواد ہے اور ’پتھر الپتھر‘ میں حسن دین ہے۔ فضا دوسری ہے، ماحول دوسرا ہے، طرزِ تحریر دوسری ہے۔ پر ہے تو وہی ایک درد پھر ’مایا‘۔ اور پھر ماں۔ ’ماں‘ کے BASE پر پھر اب ’چیتن کی ماں‘ اور ’گرتی دیواریں‘ اور یہ اور وہ اور سارا کچھ۔ ایک BASIC کہانی ہے لیکن اس دس سال کی کہانیوں میں جو ساٹھ کے قریب ہیں باقی سب تخیلی اور تصوراتی ہیں۔ انہیں میرے تجربہ اور احساس کا کوئی لمس نہیں ملا۔ تصور کا ملا ہے۔
سوال:تو ان کہانیوں سے ناول کی بنیاد پڑی؟
اشک:نہ۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ میں تخیّلی افسانے لکھتا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ 1943ء سے 1963ء تک دو سال میں میری زندگی میں کچھ المیہ ہوا کہ میری نظر بھی بدل گئی۔ پہلے جو حقیقتیں مجھے نظر نہ آتی تھیں، وہ نظر آنے لگیں، بلکہ ان کے اندر یہاں حقیقتیں بھی نظر کے آگے وا ہوگئیں۔ میری دُنیا بدل گئی۔ جیسے میں ان دنوں بہت ہی غلاظت میں رہتا تھا۔ میں دِکھا آیا ہوں لاہور میں اپنے لڑکے کو وہ جگہ ۔۔۔ پپّل ویڑہ۔ چنگڑ محلّہ۔۔۔ میری موجودہ بیوی وہاں سے گزرنا بھی پسند نہ کرے۔ میں وہاں رہتا تھا اپنی پہلی بیوی کے ساتھ۔ لیکن مجھے وہ غلاظت دکھائی نہیں دیتی تھی۔ مجھے وہ تکلیف چھوت نہیں تھی۔ میرا دماغ تو آسمان کی بلندیوں پر اُڑتا تھا۔ لیکن اس المیے کے بعد وہ نظر مل گئی کہ اپنی تکلیف ہی نہیں، دوسروں کی تکلیفیں بھی نظر آنے لگیں اور زندگی کی حقیقتیں واضح ہوگئیں اور وہ جن کو کہتے ہیں زندگی کے بنیادی مسائل وہ پہلی بار میرے سامنے آئے اور میں بہت پریشان ہوگیا اور دو سال پریشان رہا اور لگاتار انہیں کے بارے میں سوچتا رہا ۔۔۔ انسان پیدا ہوتاہے اورمرجاتا ہے، وہ کبھی اپنے آپ سے سوال تو پوچھتا نہیں۔ اس ٹریجڈی میں، میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ مجھے کیوں جینا چاہیے۔ میں کیوں جیتا ہوں۔ لگاتار سوچنے، سے پتہ لگا کہ۔ آدمی بس جیتا ہے۔جی جی وشا کے لیے، یعنی زندہ رہنے کی فطری خواہش کے لیے For will to survive۔ جینے کی حس سے پھر آدمی جیتا پیٹ کی بھوک کی خاطر، پھر سیکس کے لیے، پیار کے لیے، محبت کے لیے۔ آدمی کے توسن عمل کو سیکس کی بھوک بھی مہمیز کرتی ہے۔سیکس (Sex) کے بے شمار۔۔۔ بے شمار تو نہیں، پانچ سات شیڈز (SHADES)ہیں۔ وہ کون سے SHADES ہیں۔ اس کو ہم پیار کہتے ہیں۔ پیار ہے کیا ہے؟ کیا پیار پہلی آنکھ کا پیار ہے جس پر ساراانگریزی ادب لکھا ہواہے۔ کیا پیار خوب صورتی کا پیار ہے۔ صرف جسم کا پیار ہے۔ وصال کی خواہش ہے یا پیار تشنگی ہے کہ ہم نے کسی سے پیار کیا، اس کی کہیں شادی ہوگئی، ہماری کہیں اور ہوگئی اور اس کو ہم بھول نہیں سکے۔ کیا یہ پیار ہے؟ یہ محض تشنگی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے شادی ہوتی، پٹتی ہی نہیں۔ پھر پیار کا وہ شیڈ بھی ہے جو خوبصورت بیوہ سے ہوتا ہے۔ جو وصال کے سارے طور طریقے جانتی ہے اور آدمی کو بس میں کرلیتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس سے والہانہ محبت ہے، جو صرف جسمانی تلذذ ہی کا دوسرا روپ ہے۔ پھر ایک پیارہے جو خوبیوں سے ہوتا ہے، سیرت سے ہوتا ہے۔ اب یہ پیار اگر کسی کو ہوجائے میّسر، تو یہ TRANSCEND کر دیتا ہے موت کو۔ زندگی میں، شادی میں زندگی اور ازدواجی زندگی میں ایک چیز ہوتی ہے سمجھ۔ اگر دونوں کو ایک دوسرے کی سمجھ ہے تب سمجھیے کہ زندگی استوار ہوئی۔ جنسی عمل تو ہم کرتے رہتے ہیں اور ننانوے فیصد BLISS کو جانے بغیر۔ محض جانوروں کی طرح نفسانی خواہش پوری کرتے ہیں۔ اس عمل میں INHERENT, BLISS ہے۔ لیکن ننانوے فی صدی آدمی اس BLISS کو نہیں جانتے۔ کیوں؟ ہمارے ہاں تو عورت کاکوئی درجہ ہی نہیں ہے۔ عورت PASSIVE ہے۔ بغیر عورت کے ACTIVE ہوئے اور بنا اس جنسی عمل کو جانے، آپ وہ BLISS حاصل ہی نہیں کرسکتے۔ آپ بچّے پیدا کرسکتے ہیں۔ وہ تو بسااوقات ہم نامرد تک کر دیتے ہیں۔ لیکن BLISS تک نہیں پہنچتے۔ یہ بھی میرا ایک تجربہ ہے میں نے BLISS محسوس کی ہے۔ BLISS کئی حالات میں آتی ہے۔ وہ کیسے حالات ہوتے ہیں۔ میری زندگی میں بہت اچھے حالات بھی آئے اور بہت بُرے حالات بھی آئے، مگر مجھےBLISS ملی۔ تو یہ زندگی کی حقیقتیں ہیں۔ سیکس کی بھوک کے علاوہ تیسری زبردست بھوک بھی زندگی کی محرک شکتی ہے۔ وہ ہے انا کی بھوک۔ آدمی کی انا پر ذرا سی چوٹ اس کی زندگی بدل سکتی ہے۔ وہ پورب کو جاتا ہوا پچھم کو چل پڑتا ہے۔ اس ناول کے پہلے تین حصوں میں انہیں متحرک شکتیوں، طاقتوں، مجسموں کی عکاسی ہے۔ نچلے متوسط درجے کی نفسیات کے پس منظر ہیں۔ پھر شُدنی ہے، تو یہ شُدنی کیا ہے، یہ DESTINY ہے۔ ONE IS DESTINED TO BECOME A KING WHILE ONE IS DESTINED TO BE RULED. I WANT TO DEPICT THIS DCETURIY AND SHOW HOWIT WORKS.
میں اس کو اس طرح لکھنا چاہتا ہوں کہ میرے قاری اس کو چھو تک سکیں۔ اتنی اچھی طرح میں اس کو لکھنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ میں نے اس کو دیکھا ہے۔ پھرزندگی کی بے پناہ absurdity ہے۔ آپ اپنے بچّے کو پڑھاتے ہیں، زندگی کاسرمایہ اس پر لگاتے ہیں۔ آپ اس کو ولایت بھیجتے ہیں، اور موت اس کو آپ سے چھین لیتی ہے۔ آپ کا اتنا EFFORT، نہایت بے سود اور ABSURD ہوجاتا ہے۔ موت کے مقابلے میں۔ تو موت زندگی کی بڑی بھاری حقیقت ہے۔ بنا موت کو جانے کیا آپ زندگی جی سکتے ہیں۔ guesto کے ساتھ! زندگی انیگ سے جینے کے لیے موت کو جاننا ضروری ہے۔ اچھا صاحب جب موت کی موجودگی میں، یا اس کے سامنے ہمارے تمام EFFORTS، بے سود، ناکارہ اور ABSURD ثابت ہوجائیں تو ہمیں مرجاناچاہیے۔پر ہم تو نہیں مرتے، جب نہیں مرتے تب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں جیتے ہیں۔ کہ جینے کی فطری حِس کے علاوہ زندگی کی کوئی متحرک طاقتیں ہیں، تب یہ سوال اُٹھتا ہے۔ کیسے جیناچاہیے۔ یہ بہت PERTINENT سوال ہے جس کا جواب مجھے آخری ناول میں دینا ہے۔ ’’گرتی دیواریں ‘‘کے اب تک کے حصّوں میں میں نے یہی سب لکھا ہے۔ یہی سوال اُٹھائے ہیں اور ان کا جواب مجھے آخری حصّے میں دینا ہے۔ پانچ ضخیم ناول لیکن ایک دوسرے سے منسلک ناول تین ہزار صفحے چھپ چکے ہیں۔ چھٹا حصّہ میں پریس میں دے کر آیا ہوں۔ زندگی کے شاستر کی طرح میں نے اسے لکھا ہے، اسی طرح پڑھا جائے تو پلّے پڑگیا۔ پہلا ناول ’گرتی دیواریں‘ اُردو میں بھی چھپ گیا ہے۔ اس سال دوسرا اور تیسرا ناول بھی چھپ جائیں گے۔۔۔
سوال: یعنی اُردو میں چھپ جائیں گے؟
اشک: ہاں ہاں اُردو میں چھپ جائیں گے۔ میں تیسرا تو پریس میں دے ہی آیا ہوں۔کتابت ہوچکی ہے۔ دوسرے میں تھوڑی دیر لگے گی، لیکن یہ نویّ، اکانوے تک سب چھپ جائیں گے۔ چوتھے کے دونوں حصّے اُردو میں ہورہے ہیں۔ چھٹا بھی ہوجائے گا۔ اللہ نے چاہا تو یہ سب کام بھی ہوجائیں گے۔ بھئی سب کچھ میرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ میرے ہاتھ میں کچھ ہے۔ باقی تو کچھ اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔ آخری حصّے میں یہ مجھے DESTINY اور موت اور موت کے سامنے زندگی کا بے سود ہوجانا بتانا اور اس کو لے کر جو بنیادی سوال اُٹھتے ہیں ان کا جواب دینا ہے۔۔۔ خود کو بھی اور قارئین کو بھی۔ سمرتیاں یعنی یادیں دُھندلا گئی تھیں۔ میری عمر گھٹ گئی ہے۔ بیماربھی ہوں۔ سب نے کہا مت جاؤ، دمہ ہے، سانس رک جائے گی، مرجاؤ گے۔ پر دیکھیے موت اور حیات تو اپنے ہاتھ میں نہیں ہے۔ موت کو جب آنا ہوگا آئے گی۔ موت سے میں ڈرتا نہیں اور میں چلا آیا۔ میں نے لاہور دوبارہ دیکھ لیا، دوستوں نے خصوصاً لاء کالج ،لاہور کے پرنسپل توکل صاحب اور عجائب گھر ،لاہورکے ڈائریکٹر ڈار صاحب نے بے حد محبت سے 50 سال پرانے کاغذات بہم پہنچا دیئے۔ ڈار صاحب نے وہ بازار اور جگہیں دکھا دیں جن کے بارے میں یاد دھندلا گئی تھی۔اب میں جاکر لکھوں گا۔I WILL MAKE VERY EAR MOST EFFORT۔ باقی۔۔۔
شکست و فتح نصیبوں سے ملے ہے میرؔ
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
سوال تو کوشش سے ہے اور کوشش تو کروں گا۔ پھر ، میری زندگی کا ایک موٹو (MOTTO) ہے۔ وہ شعر بھی میرا ہے غلط ہو یا صحیح، میں نہیں جانتا، پر آپ سُن لیجیے۔
پھینک دیں چاہے حوادث راہ سے ہر بار دُور
جائے گی منزل کہاں جب زندگی منزل میں ہے
تو میری تو زندگی منزل میں ہے۔ حادثوں کی مجھے فکر نہیں۔ میں تو لکھ کر مروں گا اور یہ ناول تو مجھے لکھنا اور اس کا ساتواں اور آخری حصہ مکمّل کرناہے۔
سوال: اچھا یہ بتایئے کہ آپ نے 20ء کی دہائی سے لکھنا شروع کیا اور اتنے عرصے میں۔۔۔
اشک: 1926ء سے لکھنا شروع کیا، اُردو میں۔
سوال:1926ء سے لے کر اب تک آپ جو لکھتے چلے آرہے ہیں تو اپنے لکھے میں خود آپ کو کچھ تبدیلیاں نظر آتی ہیں؟
اشک: اب یہ تو آصف نقّادوں کا معاملہ ہے۔ وہی میرے سارے ادب کا غائر مطالعہ کرکے اس کا تعیّن کریں گے۔ میں زمانے کے ساتھ ساتھ رہا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ زمانے کے ساتھ رہنا چاہیے۔ جو آدمی زمانے کے ساتھ نہیں رہتا وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ وہ زنگ کھا جاتا ہے۔ وہ گھس جاتا ہے۔ اس کو پھپھوندی لگ جاتی ہے۔
I AM AN A LIVE MAN AND I KEEP MY STEPS ALONG WITH YOUNG WRITERS.
میں عُمر کے، پیڑھیوں کے تضّاد کو قطعاً نہیں مانتا۔ میں انور سجاد کو اپنا ہم عصر مانتا ہوں۔ میں انتظار حسین کو اپنا ہم عصر مانتا ہوں۔ میں منشا یاد کو بھی اپنا ہم عصر مانتا ہوں۔ان کو بھی مجھے اپنا ہمعصر ماننا چاہیے۔ میں تو مانتا ہوں۔ اور میں ان سے سیکھتا بھی ہوں۔ کیا سیکھتا ہوں، یہ تو میں جانتا ہوں۔ یا پھر کوئی نقّاد اگر سمجھدار ہوگا تو جان لے گا۔ ایسا ہی شاعری میں ہے۔ میں بہت RECEPTINE ادیب ہوں۔ میں اپنی چیزیں لکھ کر دوستوں کو سناتا اور ان کی رائے بھی لیتا ہوں۔ اس کام کے لیے میں نے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو تربیت بھی دے رکھی ہے۔ کہ میری تحریر میں کونسی غلطیاں، کون سے سقم رہ جاتے ہیں جو نہیں رہنے چاہئیں۔ تو اس سب عمل میں دوسروں کی رائے سن کر، تخلیق سناتے ہوئے ان کی آنکھوں میں دیکھ کر میں اپنی تخلیق کی خوبیاں خامیاں جان لیتا ہوں۔ پھر اس کو سدھارتا سنوارتا ہوں۔ جب میں تین چار بار لکھتا ہوں تو پھر ظاہر ہی ہے۔ کہ ہر بار چیز کو بہتر بنا دیتا ہوں۔ مزید اضافہ کرتا ہوں، میں یہ جانتا ہوں میں نے اس کی تمیز پیدا کی ہے۔ میرے ایک دوست تھے۔ نام اب نہیں لیتا، مرگئے ہیں۔ وہ کہنے لگے اشک جی میں نے اپنی کہانی چھ بار لکھی ہے۔ میں نے کہا تم پچیس بار لکھو تب بھی اچھی نہیں بنے گی۔ سوال بار بار لکھنے کا نہیں ہے۔ سوال ہے یہ کہ چیز کیسی بنی۔ کیا آپ مطمئن ہیں۔ آپ کیا چاہتے ہیں، کیا آپ کو علم ہے اس ٹیکنیک کا؟ کیا آپ کو بھاشا کا علم ہے؟ کیا آپ کو شبدوں کی ماہیت کا پتہ ہے؟ کیا آپ کو سمفنی کا پتہ ہے؟ ایک جگہ، آصف، تین ماترا کا شبہ لگتا ہے۔ دوسری جگہ چار کااور وہ تحریر میں روانی پیدا کرتا ہے۔ پھر الفاظ کے معانی اور ان کے شیڈز (SHADS) کا بھی معاملہ ہے۔کسی جگہ پیار آئے گا، کسی جگہ پریم، کہیں الفت ، کہیں محبت، کیسا اُنس کیسا لگاؤ۔کہیں عشق کہیں آشکتی، کہیں راگ، کہیں انور اگ۔ جو آدمی اس علم کو جانتا ہے۔۔۔ وہی صحیح جگہ صحیح لفظ رکھے گا اور بے سود تکرار نہیں کریگا۔ پریم چند نے کہا تھا، اشک، (میرے پاس ان کا خط ہے) تم اپنا لفظ کہیں سے لو، عربی، فارسی، انگریزی، پنجابی،گجراتی، بنگالی، مراٹھی، خیال اس بات کا رکھو کہ خیالات کا تسلسل اور زبان کی روانی قائم رہے۔ خیالات کا تسلسل تو بھئی آپ کی سوچ اور آپ کے پڑھنے لکھنے سے متعلق ہے، ہر زبان کی روانی تو شبدوں کا کھیل ہے۔ اور اگر آپ کو شبدوں کی سمفنی کی سمجھ نہیں ہے۔۔۔ یعنی دیکھیے مقبرہ ہے۔۔۔ اس بنگلے کے سامنے کے دروازے کے باہر کے راستے کے۔۔۔ اس میں پانچ بار ’کے‘ آگیا۔ میرے پورے ناول میں آپ نہیں دکھا سکتے۔ الفاظ کا ایسا اعادہ۔ ایسی تکرار آپ میرے ہاں نہیں دکھا سکتے۔ تکرار شبدوں کی ہوتی ہے، تکرار خیالات کی ہوتی ہے، تکرار ہونی نہیں چاہیے جب تک کہ آپ کو اس سے دیگر مقصد درکار نہ ہو۔ یعنی کہ آپ تکرار پیدا کرکے زور پیدا کرنا چاہیں خطابت کا۔ ورنہ تکرار نہ ہو۔ (ہنسی) یہ تو لمبا قصّہ ہے۔ آصف، اب یہ تو جو کرتا ہے وہی جانتا ہے۔ بہت لوگوں کو زبان نہیں آتی۔ یوں ہی لکھتے رہتے ہیں۔ انہیں پتہ ہی نہیں اُردو کیا ہے۔ انہیں پتہ ہی نہیں روانی ہوتی کیا ہے۔ بس وہ گالی دے سکتے ہیں، گالی دیتے رہتے ہیں۔ پر میں توبہت مشہور آدمی ہوں۔ میرے تو بہت قاری ہیں۔ میرے تو بہت چاہنے والے ہیں۔ اسی لیے ہیں کہ میں بہت محنت کرتا ہوں اور میرے قاری پڑھتے ہیں۔ میرا ناول ہے’بڑی بڑی آنکھیں‘ اس میں روانی قائم کرنے کی کوشش کی ہے میں نے اس میں نغمہ ہے۔ اس میں نغمگی ہے۔ اس کو غنائی ناول کہاگیا ہے۔ اس لیے کہ میں نے اس کو لکھتے وقت نغمگی کا خیال رکھا تھا۔
سوال: اچھا، اشک جی یہ بتایئے کہ جس وقت آپ کے افسانوں کو شہرت ملنا شروع ہوئی تو اس کے اریب قریب ہمیں کئی بڑے نام ملتے ہیں افسانے کے میدان میں۔ بلکہ جس وقت اُردو افسانے کے بڑے ناموں کا ذکر ہوتا ہے تو ہم اس دور کے ان لوگوں کو یاد کرتے ہیں جن کو آپ جانتے ہوں گے، منٹو، عصمت چغتائی، بیدی اور کرشن چندر۔ اتنے عرصے کے بعد آپ کو اپنے ساتھی اور ہم عصر کیسے لگتے ہیں، ان کی کہانیاں کیسی لگتی ہیں؟
اشک: دیکھو آصف، میں ایک واحد افسانہ نگار یا ادیب ہوں جو سب کو پڑھتا ہے اور سب کی خوبیوں کو پسند کرسکتا ہے۔ یا جو دوست کی تنقیص کرسکتا ہے اورسخت دشمن کی تعریف! میں واحد آدمی ہوں اور اُردو یا ہندی افسانے میں جو ایسا کرسکتا ہو۔ میرے جیسا دوسرا پورے ادب میں نہیں ہے، وہ اس لیے کہ میرے باپ نے مجھے کہا کہ بیٹے ، DON’T BE JEALOUS, BE ENVIOUS۔ حسد کم زوروں کا روگ ہے۔
ًٖJEALOUSY IS A QUALITY OF WEAK PERSONS. STRONG MEN ARE ALWAYS ENVIOUS.
میں تم سے پہلے کہہ چکا ہوں کہ میں بہت RECEPTIVE آدمی ہوں۔ میں تو اپنے باپ کا بنایا ہوا ہوں۔ میرے باپ نے جو جو سکھایا، میں نے سیکھا ہے۔ میرے باپ VISIONARY آدمی تھے۔ وہ خود تو کچھ نہیں کرپائے۔ سب جانتے ہیں کہ وہ اوباش تھے۔ وہ DEBAUCHتھے۔ بہت CRUEL تھے۔ لیکن سادہ لوح اور فراخ دِل ۔بات کے پکّے اور قول کے سچّے تھے۔ ان میں ایک خاص بات تھی۔ وہ بہت اچھا گاتے تھے اور لائق تو ہوں گے ہی، میٹرک کے امتحان میں سارے ضلعے میں اوّل آئے۔ انہوں نے مجھے سب کچھ سکھایا۔ یہاں تک کہ انہوں نے مجھ سے کہا بیٹے تمیز پیدا کرو۔ کیسے پیدا کرو، یہ بھی بتا دیا۔ وہ کہتے تھے کہ جو بڑے لیکھک ہیں۔ جن کی چیزیں سو دو سو سال بعد آج بھی پڑھی اور پسند کی جاتی ہیں، ان کی زندگیاں پڑھو، ان کا ادب پڑھو اور دیکھو کہ تمہیں ان سے کیا سیکھنا ہے اور ان کی زندگیوں میں سے اچھا لے لو، برا چھوڑ دو۔ میں سب کی زندگیاں پڑھتا رہا ہوں۔ میں نے سب کا ادب پڑھا ہے۔ میں تو بھائی سب کو پسند بھی کرتا ہوں اور میں سب کی کہانیوں پر THREAD BARE بحث کرسکتا ہوں۔ دس دس پندرہ پندرہ جو ان کی بہترین کہانیاں ہیں، ان کو پڑھتا آرہا ہوں۔ ہمارے بیشتر ادیب تو بہت بڑے افسانہ نگار نہیں ہیں، لیکن بیدی کی، منٹو کی، بلونت سنگھ کی کہانیاں میں نے بار بار پڑھی اور پسند کی ہیں۔ میں تم کو کہانی در کہانی بولتا اور سناتا چلا جاؤں گا۔
سوال: کرشن چندر کا نام آپ نے نہیں لیا۔ آپ نے کل یہ بھی کہا کہ کرشن چندر بڑے افسانہ نگار نہیں ہیں، تو اس کی صراحت فرمائیں گے آپ؟
اشک: میری یہ بات سب کو بُری لگتی ہے پر میں تو کرشن چندر کی حیات میں بھی یہ سب کہتا رہا ہوں۔ وہ افسانہ نگار تھے ہی نہیں۔ وہ تھے اوّل درجے کے طرز نگار۔ HE WAS A UNIQUE STYLIST-ان کے پاس شبدوں کا خزانہ تھا۔ وہ بھی جنم جات تھا، یہ نہیں کہ انہوں نے پیدا کیا تھا یاحاصل کیا تھا۔ یہ صفت ان میں پیدائشی تھی وہ ایسا کرتے تھے کہ ، رائٹنگ پیڈ پر لکھتے تھے کئی صفحے پھاڑتے جاتے تھے اور جہاں ان کا پیرا مکمل ہوا، پہلا پیرا، اس کے بعد ان کا قلم قطعاً نہیں رُکتا تھا۔ وہ ایک دو گھنٹے میں کہانی لکھ دیتے تھے اور ایک دن میں دو کہانیاں بھی لکھ دیتے تھے۔ اب ان کی کہانی پڑھیے تو آپ کو ساتھ بہالے جائے گی۔ انت میں آپ کے پلّے پڑے یا نہ پڑے، آپ رُک نہیں سکتے۔ تو یہ کہانی کا گُن نہیں ہے۔ یہ اسٹائل کی خوبی ہے۔۔۔ ان کی صرف چند کہانیاں ہیں جو مجھے آج بھی اچھی لگتی ہیں۔ حالاں کہ اے ون (A-ONE) تو نہیں ہیں۔ سب سے پہلی کہانی ’آنگی‘ پھر ’یرقان‘ ، پھر ’بے رنگ و بو‘، پھر ’دو فرلانگ لمبی سڑک‘۔ بیچ میں کچھ کہانیاں انہوں نے قدرے اچھی لکھ دیں جیسے ’مہالکشمی کا پُل‘۔ پھر بیچ ہی میں کچھ کہانیاں انہوں نے چُرا کر لکھ دیں۔ جب میں نے یہ دیکھاکہ چرائی ہوئی ہیں، اس کے بعد ان کو پڑھنا چھوڑ دیا۔ جو آدمی سرقہ کرتا ہے، وہ ہو گریٹ، میرے لیے کوئی اس کی وقعت نہیں ہے۔
سوال:اب منٹو کیسا لگتا ہے؟
اشک:بھئی منٹو تو آج بھی اچھا لگتا ہے۔ افسانہ نگار ہے۔ آج کے ماحول میں منٹو کا تو کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ یوں ہم لوگ اپنے اپنے ستونوں پر کھڑے ہیں۔ ایک کا دوسرے سے مقابلہ آپ کر نہیں سکتے۔ کارن یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اسٹائل مختلف ہے۔ سوچ کا ذریعہ مختلف ہے۔ جیسے میں منٹو کی طرح ایک SITTING میں نہیں لکھتا۔ پھر منٹو کی تمام کہانیاں یک جہت ہیں۔ میں نے ملٹی پر پز افسانے لکھے ہیں کئی جہتوں کے لکھے ہیں۔منٹو دخل اندازی کرتا ہے۔ منٹو افسانے میں خود شامل ہوتا ہے۔ منٹو غصّہ کرتا ہے۔ منٹو میں بلاکا غیظ و غضب ہے۔مجھ میں طنز ہے اور میں کہانی میں دخل اندازی قطعاً نہیں کرتا۔میں پہلے تھیم ایسی چُنتا ہوں جو آج سے سو سال بعد بھی پڑھی جاسکے۔ آدمی کی جو بُنیادی خامیاں خوبیاں ہیں، ان پر لکھتاہوں۔انسانی نفسیات میں گہرے اثرا ت ہوں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ مجھے آج کسی بات پر غصّہ آئے اور میں فوراً کہانی لکھ دوں۔ منٹو لکھ دیتا تھا۔ منٹو موپاساں، اوہنری اور ماہم سے متاثر تھا، ہم سب کو ماہم کو پڑھنے کی تلقین کرتا تھا اور کہتا تھا ماہم پڑھو۔ میں نے سمرسٹ ماہم کے بیشتر افسانے پڑھے ہیں۔ منٹو ماہم سے کہیں بڑا کہانی کار ہے۔ماہم اس کے مقابلے میں کم تر ہے۔ ماہم سینک تھا۔ منٹو CYNIC نہیں ہے۔ ماہم STORY TELLER ہے۔ منٹو PURE STORY TELLER نہیں تھا۔منٹو مبلّغ بھی تھا۔ ’شہید ساز‘ ’ٹیٹوال کا کتّا‘ ’شریفن‘ ’نیا قانون‘ پڑھیے ملک کی تقسیم اور فسادات کے بارے میں اس کی دوسری اچھی کہانیوں۔۔۔ کھول دو، شریفن، ٹھنڈاگوشت وغیرہ کا میں ذکر نہیں کرتا۔۔۔ لیکن سب سے اچھی کہانی ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ ہے۔ ایک بھی کہانی ان فسادوں پر منٹو کی اس کہانی کے جوڑ کی نہیں۔ یہ FACT ہے۔ اب منٹو سے ہماری لگتی تھی، وہ الگ بات ہے۔ THAT’S BESIDES THE POINT۔ اِس کا اُس سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا ایک شعر ہے:
ہے تقاضائے دیانت یا ہے احساسِ انا
خوبی دیکھی ہے جو دشمن میں اسے مانا ہے
میں تو آج بھی منٹو کی کہانی ’بو‘ کو یاد کرتا ہوں۔ دیکھیے کیسا منفرد موضوع ہے اور منٹو کے لکھنے میں ذرا سی بھی FILTH نہیں ہے۔ پھر بابو گوپی ناتھ ایسا منفرد افسانہ ہے کہ جتنی بار پڑھو دل پر اثر کرتا ہے۔
سوال: منٹو کے علاوہ جس بہت اہم افسانہ نگار سے آپ کے قریبی تعلقات رہے ہیں، وہ بیدی ہیں۔ کچھ بیدی کے حوالے سے بات کیجیے۔ ان دنوں پاکستان میں بیدی کا خاصا ذکر ہونے لگا ہے جیسے وہ اچانک دریافت ہوگئے ہوں۔
اشک: دیکھیے صاحب یہ سب میرے دوست ہیں۔ میرے ساتھی رہے ہیں۔ بیدی تو میرے شاگرد جیسے رہے ہیں۔ ان کی پہلی کہانی بھی میں نے سُنی ہے اور آخری بھی سُنی ہے، اور میں سطریں یا پیرا کٹوا بھی دیتا تھا۔ میں تو کرشن چندر سے بھی کٹوا دیتا تھا اور مانیے یا نہ مانیے، کہانی تو مجھے منٹو نے بھی سنائی تھی، ’سوراج کے لیے‘ کہ دیکھو اشک ’کیسی بنی ہے‘ یہ سارے لوگ مجھ سے تقریباً پانچ سات سال چھوٹے ہیں۔ یہ میدان ادب میں دیر سے آئے۔ تب میں ہندی میں لکھنے لگا تھا۔ میں صرف بیدی کی وجہ سے پھر اُردو میں لکھنے لگا۔ میری ایک کتاب ہے ’میری افسانہ نویسی کے چالیس برس۔‘وہ ہندی میں تو ہے نہیں۔ اُردو میں لکھی ہے۔ ابھی لکھی ہے۔ آپ پڑھ لیجیے گا۔ آپ یہ سب جان جائیں گے۔ آپ کو جو اس سے لینا ہے۔ لے لیجیے گا، مجھ سے دوسرے سوال پوچھ لیں۔ میں نے وہاں سب لکھا ہے بے کم وکاست۔ میرے نام بیدی کے تین سو خط ہیں۔ ہندی میں کتاب لکھی ہے بیدی کے بارے میں۔ اس کے دوسرے حصّے کے متعلق لڑکا کہتا ہے اس میں COMPASSION نہیں ہے۔ سو میں دوبارہ لکھوں گا۔تبھی اُردو میں بھی لکھونگا۔
سوال:اشک جی، کتاب میں جو آپ نے لکھا ہے میں اس کے بجائے اس حوالے سے یہ سوال پوچھ رہا ہوں کہ آج کے اخبار میں آپ کی اس گفتگو کا حال چھپا ہوا ہے جو کل آپ نے انجمن ترقی اُردو کے لنچ پر کی۔ اس میں تو آپ کے تیور ہی اور ہیں۔ آپ نے خاصے معاندانہ الفاظ میں سب کو نمٹا دیا ہے۔ اس کے برخلاف اس و قت جو آپ کہہ رہے ہیں اس میں آپ کا انداز محتاط اور صلح جویانہ ہے۔
اشک:مجھے اس پر غصّہ ہے۔ غلط لکھا ہے ان صحافیوں نے۔ میں نے یہ کہا کہ منٹو اورعصمت چغتائی کے موضوعات متنازع فیہہ ہوتے تھے۔ اس لیے ان پر چرچے ہوتے تھے۔ متنازع فیہہ کو پترکار نے OBJECTIONABLE لکھ دیا۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ ان کے افسانوں کے موضوع OBJECTIONABLE ہوتے تھے۔ اس لیے ان کے چرچے تھے۔ میں نے ’متنازع فیہہ‘ کہا لفظ استعمال کیا تھا۔ جس کا مطلب ہوتا ہے۔ CONTROVERSIAL۔ یہ جرنلسٹ لوگ اپنی طرف سے لکھ دیتے ہیں۔ انہوں نے غلط لکھا ہے۔ وہاں ایک نقّاد نے مجھ سے یہ سوال پوچھا، جو نہیں پوچھنا چاہیے کسی ادیب سے، کہ منٹو، بیدی اور کرشن کے مقابلے میں آپ کو کیوں نہیں ماناگیا۔ میں کیا جو اب دیتا، یہ سوال نقّادوں سے کرنا چاہیے ادب سے متعلق ہر ادیب اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہے سوائے احمد ندیم قاسمی کے، جو کہتا ہے میں سب سے بڑا ہوں۔ تو میں تو نہیں کہتا میں سب سے بڑا ہوں۔ برج بھاشا کے ایک دوہے کی سطر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنا کبّت کس کو اچھا نہیں لگتا۔ اچھا ہو چاہے۔ ویسا سوال کسی ادیب سے نہیں پوچھا جاتا اور پوچھ لیا انہوں نے۔ اب اگر وہ پڑھے ہوتے باریکی سے میری کہانیاں تو سمجھ لیتے کہ کچھ پہلوؤں میں سب سے بڑا ہوں، کچھ پہلوؤں سے منٹو سب سے بڑا ہے اور ایک پہلو سے بلونت سنگھ سب سے بڑا ہے۔ انہوں نے بلونت سنگھ کا نام ہی نہیں لیا، میں آدھا گھنٹہ بلونت سنگھ کی کہانیوں پر بولتا رہا وہاں۔ یہ کوئی بات ہی نہ ہوئی۔ منٹو کی ان کہانیوں کا انہوں نے نام ہی نہیں لیا جن کو آپ پسند نہیں کرتے ہوں گے۔ پارٹیشن کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے، اس سے وہ کہانیاں کم زور تو نہیں ہوجاتیں۔ وہ تو گریٹ ہی رہیں گی۔ آپ لاکھ چلّاتے رہیں، اس سے کیا ہوتا ہے۔ جس طرح اقبال کے ترانۂ ہندی کو آپ نہیں بدل سکتے۔ ہمارے یہاں کچھ لوگ کہتے ہیں اس کو ہندوستان کاقومی ترانہ ہونا چاہیے۔ اقبال نے پاکستان بنایا ہو یا نہ بنایا ہو، یہ بحث طلب بات ہے، لیکن آپ ترانۂ ہندی کو کیسے بدل سکتے ہیں۔ اسی طرح منٹو کی عظمت کو ایک PREJUDICE سے آپ نہیں بدل سکتے ۔ اشک کی دشمنی بھی اس کو نہیں بدل سکتی۔ زمانہ ہر لکھنے والے کو جہاں کاوہ ہوتا ہے وہیں بٹھاد یتا ہے۔ POSTERITY بڑی سنگ دل اور بڑی ظالم ہوتی ہے۔ یہ آپ سمجھ لیجیے۔ اس لیے بیدی بھی رہے گا، کیوں کہ بیدی اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود، فن کار تھا۔ ہر فن کار کی اچھی کہانیاں گنیے آپ۔ ردّی نہیں گنی جاتی اور اگر کسی نے اپنی زندگی میں دس کہانیاں بھی ایسی لکھی ہیں جوA-ONE ہیں اور وقت جن کو ویسا مان سکتا ہے، تو اس کی عظمت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ میں نے دو سو کہانیاں لکھی ہیں، ان میں دس بھی اگر زمانہ مان لے تو پھر یہ سوال فضول ہے اور مجھے سو فیصد یقین ہے کہ منٹو، بیدی، بلونت سنگھ۔۔۔ میری بات چھوڑ دیجیے، میں تو آپ سے بات کر رہا ہوں۔۔۔ یہ تین کتھاکار ہیں جن کے بارے میں، میں DOUBTFUL نہیں ہوں۔ میں عصمت کے بارے میں DOUBTFULہوں۔ پر ان تین کے بارے میں، میں بالکل یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان کو کوئی نقّاد ان کی اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا۔
سوال:عصمت چغتائی کے بارے میں آپ شبہے کا شکار کیوں ہیں؟
اشک: عصمت نے اچھی کہانیاں کم لکھی ہیں۔ میں نے ساری پڑھی ہیں لیکن مجھے یاد نہیں ہیں۔ جو چیز یاد رہ جائے، میرے جیسے آدمی کو پھر جن کو دوبارہ پڑھنے کی خواہش ہو۔ ان کے بارے میں کیسے شک ہوسکتا ہے۔میں نے بلونت سنگھ کی کہانیاں سات، سات بار پڑھی ہیں، میں نے بیدی کی کہانیاں پانچ پانچ، چھ چھ بار پڑھی ہیں، منٹو کی بھی اسی طرح پڑھی ہیں، اور میں مصروف مصنّف ہوں اور ان کا ہم عصر ہوں۔ اور مجھے عصمت کی کہانیاں، سوائے ’تل‘ کے اور ’کنواری‘ کے یاد نہیں ہیں۔ میں نے کرشن کی بھی کہانیاں چھاپی ہیں، عصمت کی بھی چھاپی ہیں، بیدی کی آٹھ کتابیں چھاپی ہیں، میرے لڑکے نے منٹو کی تیس کہانیاں ہندی میں چھاپیں اور اسے مشہور کر دیا۔ میرے لیے سب برابر ہیں۔ پر دیکھیے حقیقت تو حقیقت ہے۔
سوال:بلونت سنگھ کے بارے میں ابھی آپ نے کہا کہ ایک پہلو سے وہ ان سب سے بہتر ہے۔ تو وہ کون سا پہلو ہے۔
اشک:دیکھیے، بلونت سنگھ جیسی دل چسپ کہانی تو بہت کم ادیب لکھ سکتے ہیں۔ یہ بات سمجھ لیجیے۔ اگر افادیت اچھے افسانے کی شرط نہ ہو تو بلونت سنگھ بہت بڑا افسانہ نگار ثابت ہوگا۔ اس کی کہانی ہے ’’گرنتھی‘‘۔ سیدھی سادی کہانی ہے۔ صاحب، جب وہ کتاب نظر آئے میں پڑھ لوں۔ مجھے یہ لگا کہ بھئی اس میں کیا ہے۔ یہ کیوں بار بار پڑھنے کے لیے انگیخت کرتی ہے۔ صاحب، چھ سات بار پڑھ کر میں نے جانا کہ اس میں کیا خوبی ہے۔ ’’جگّا‘‘ ’سمجھوتہ‘ ’پنجاب کا البیلا‘ ، ’پہلا پتھّر‘، ’سورما سنگھ‘، ’خود دار‘ ’تین باتیں‘ ایک سے بڑھ کر ایک کہانی ہے۔ اس کے پاس۔ ’پھر کالا تیر‘ کوئی جواب نہیں۔ اس کا اپنے فن کاا ستاد ہے۔ اب بھئی ہم بڑے افسانہ نگار ہیں، کرشن بڑا افسانہ نگار تھا۔ بیدی بڑا افسانہ نگار ہے، اس سے کیا ہوتا ہے۔ بلونت سنگھ کسی کو نہیں مانتا تھا۔ مزے کی بات ہے۔ وہ اشک کو، بیدی کو ، منٹو کو، کسی کو نہیں مانتا تھا۔ قطعاً نہیں مانتا تھا۔ بہت SNOB آدمی تھا۔ اس لیے کسی کو نہیں مانتا تھا۔ مگر میرے نزدیک اس سے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا۔ میں تو مانتا ہوں کیوں کہ میں تو پڑھتا ہوں۔ اور میں اسے کیتھراسِس کا استاد مانتا ہوں۔ وہ افسانے کو تانتا چلا جاتا ہے قاری کا ذہنی تناؤ کے نقطہ عروج پر پہنچ جاتا۔ پھرو ہ ریلیف (RELIEF) دیتا ہے۔ وہ اس فن کا ماہر ہے اور یہ معمولی فن نہیں۔
سوال: اشک جی، اپنے ہم عصروں کے بعد کے کون سے افسانہ نگار آپ کو پسند آتے ہیں، اُردو میں بھی اور ہندی میں بھی۔
اشک:دیکھیے اُردو کے تجریدی افسانہ نگاروں میں مجھے نہ تو بلراج مین را پسند ہیں نہ جوگندر پال، نہ سریندر پرکاش۔ مجھے سب سے اچھا تو انور سجاد لگتا ہے۔ پھر انتظار حسین، پھر منشا یاد۔ اور بھی ہوں گے میں نے پڑھے نہیں ہیں۔ غیاث احمد گدّی وغیرہ کے افسانے میں نے پڑھے ہیں۔ وہ ادب عالیہ میں نہیں آتے۔ انور سجاد کے ضرور ہیں۔ اب مصیبت یہ ہے کہ وہ ڈاکٹر ہے۔ ڈرامے لکھتاہے۔ اس میں جو جوہر ہے وہ بکھر بھی سکتا ہے۔ آدمی کئی بار اپنی شکتیوں کو بکھرا دیتا ہے۔ اب اس میں میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ تو انور سجاد کا فیصلہ ہے۔ میرا نہیں ہے۔ مجھے تو اس کے افسانے بھی پسند ہیں اور اگرچہ میں صرف اسٹیج کے ڈرامے کو سچاؤ رام مانتا ہوں۔ انور سجاد ریڈیو اور ٹی وی کے لیے لکھتا ہے لیکن وہ دلچسپی سے پڑھے تو جاہی سکتے ہیں۔
سوال: یہ تو اُردو کے افسانہ نگار ہوئے، ہندی میں کون سے افسانہ نگار آپ کو پسند ہیں۔
اشک: افسانہ نگار تو بہت اُبھرے تھے۔ جدیدیوں میں دودھ ناتھ سنگھ، گیان رنجن، کالیا۔ لیکن یہ دس پندرہ سال سے میرے خیال میں وہ کچھ لکھ ہی نہیں رہے۔ اور مہندر بھلّہ۔ رمیش بخشی یہ لوگ بہت منفرد، اپنا اسٹائل رکھنے والے لوگ تھے اور کچھ کہانیاں ایسی ہیں جو پھر لکھی نہیں گئیں ہندی میں۔ وہ ایسے افسانہ نگار تھے۔ لیکن بیٹھ گئے۔ کیوں بیٹھ گئے، میں کیا جانوں (ہنسی) لیکن دس پندرہ سال سے کوئی کام نہیں آگے بڑھا۔ میرے بعد آنے والوں میں راکیش، یادو اور کرشنا سوبتی ہیں۔۔۔ کرشنا سوبتی تو بہت شان دار افسانہ نگار ہے۔ اس نے جو بھی لکھا ہے اس میں کچھ ضرور رہے گا۔ وہ بہت اچھی آرٹسٹ ہے۔ باقی یہ ہے کہ راکیش کی کچھ کہانیاں رہیں گی، یادو کی دو تین کہانیاں رہیں گی۔ اور یہ لوگ ہیں، دودھ ناتھ سنگھ، گیان رنجن، کالیا، ان کی کہانیاں۔ لیکن راکیش اور یادو اپنی زندگی ہی میں پچھڑنے لگے تھے۔ یہ تو بھائی میرا تھن ریس ہے۔ سینے میں د م اور لمبی سانس چاہیے میدان ادب میں جمے رہنے کے لیے۔
سوال: کرشنا سوبتی کا ذکر آپ نے کیا۔ ان کا نام ہم تک پہنچا ہے تو امرتا پریتم سے مقدمے بازی کے حوالے سے۔۔۔
اشک:امرتا پریتم بھی کوئی کوتری (شاعرہ) ہے؟ وہ اندراجی کی چارنی (قصیدہ گو) ہے۔ جذباتی ہے، ان پڑھ ہے۔ کیوں کہ اس کو انعام مل گیا ڈھائی لاکھ کایا دو لاکھ کا تو وہ بڑی شاعرہ یا کوتری ہوگئی؟ ایک ناول ’پنجر‘ اور پانچ چار بہت اچھی جذباتی کویتائیں۔۔۔ اس سے زیادہ سرمایہ اس کے پاس نہیں ہے۔ سب پڑھ رکھا ہے، ایسے ہی نہیں کہتا میں۔ کرشنا سوبتی کی تو خاک پاکا مقابلہ نہیں کرسکتی وہ، کرشنا سوبتی اتنی POWERFUL رائٹر ہے۔ آپ پڑھیے اس کی کہانی ’سکّہ بدل گیا‘۔ آپ پڑھیے کرشنا کی کہانی ’مترو مرجانی‘ پڑھیے یاروں کے یار، ایک کہانی نہیں ہے ہندی میں ویسی، اورعورت نے لکھی ہے یہ بھی جانیے۔ مرد نہیں لکھ سکتے ویسی کہانی۔ پھر کرشنا سوبتی کی ’گلاب جل گنڈیریاں‘ پڑھیے۔ ’دادی ماں‘ پڑھیے، ’کوئی نہیں‘ کہیں نہیں پڑھیے۔ اتنی تو میں نے گنا دی ہیں اور ناول اس کا پڑھیے۔ ’ڈارسے بچھڑی‘ ناول اس کا بہت اچھا نہیں ہے۔ آدھا بہت اچھا ہے۔ باقی نصف کمزور میں نے پڑھا ہے۔ میری بات سے وہ ناراض بھی ہوگئی۔ پر ناراضگی کا تو سوال ہی کوئی نہیں۔ بھئی آپ میرا ناول پڑھ کر کہہ دیں کہ دو کوڑی کا ہے تو میں تو نہیں ناراض ہونے والا۔ میں یہ کہہ دوں گاکہ آپ احمق ہیں۔ اصل میں ناراض نہیں آپ ہوسکتے۔ جو ہماری کتاب پر وقت ضائع کرتا ہے یا پیسے خرچ کرتا ہے اس کو پورا حق حاصل ہے کہ ہمیں CONDEMN کرسکے۔ ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ بے وقوف ہے۔ کرشنا کا ناول ہے۔ بہت مشہور۔۔۔ سورج مکھی اندھیرے کے، مجھے وہ کیس ہسٹری لگا ہے۔ زبان اس کی لاجواب ہے، لیکن ناولٹ فارم ہے۔ لیکن کہانیاں، جن کا میں نے ذکر کیا۔۔۔ ادب عالیہ کے تحت آتی ہیں۔
سوال: ہندی کے افسانہ نگاروں میں آپ نے کملیشور کا ذکر نہیں کیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
اشک: کملیشور کہانی کار ہی نہیں ہے۔ میرے ساتھ تین سال کام کرتا رہا ہے۔ وہ چُراتا ہے بہت۔ جب میں نے لوگوں کو دکھا دیا کہ دوستوئیفسکی کے ایک ناول کا پورا CHAPTER کملیشور کی کہانی ’ایک تھی بِملہ ‘ میں ہے تو لوگ مان گئے۔لوگ اتنا پڑھتے نہیں جتنا میں پڑھتا ہوں۔ کملیشور کا اپنا کوئی اسٹائل نہیں۔ اس کی ہر کہانی کا اسٹائل بدلا ہوا ہے۔ اس نے چرائی ہوئی ہے کہ لوگ کیا کرلیں گے؟’TIN DRUM‘ میں ایک سین آتا ہے، جہاں عورت کو حیض جاری ہوتا ہے۔تب اس عورت کے حیض کی خوشبو سبھی کروّں میں پھیل جاتی ہے۔ کملیشور نے وہاں سے آئیڈیا لیا اور کہانی لکھ دی۔ میں اسے افسانہ نگار نہیں مانتا۔ اس نے افسانہ لکھنا چھوڑ دیا۔ فلموں میں چلاگیا۔ روپے اس نے خوب کمائے اپنے خرچ سے اردو میں اپنے اوپر فکر و فن کے زیر تحت صابردت سے بڑا مجموعہ بھی نکلوا دیا۔ لیکن اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ کرشن نے یہ سب پراپیگنڈہ کرکے دیکھ لیا، کملیشور دیکھ لے۔ کچھ ہوگا نہیں۔ وقت بہت ظالم ہوتا ہے۔
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
مہر دونیم کے شاعر کا یہ شعر اس پر صادق آتا ہے۔
سوال: اشک جی ہندی کے جن جدید افسانہ نگاروں کے نام آپ نے لیے، اُردو والے ان سے کم کم واقف ہیں۔ دونوں زبانوں کاادب ایک دوسرے سے دور چلاگیا ہے۔ اب اس کا امکان بھی کم نظر آتا ہے کہ جیسے آپ اپنی چیزیں دونوں زبانوں میں لکھ رہے ہیں۔
اشک (ہنسی): ارے بھائی، پریم چند اُردو سے ہندی میں چلے گئے کسی نے ان کو برا نہیں کہا۔ میں ہندی میں چلا گیا تو میرا نام ہی کاٹ دیا، وہاں کے اُردو والوں نے جب کہ میں مسّودہ اُردو میں لکھتا رہتا تھا۔ اب میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ آپ لوگ اُردو والے بہت احساس کم تری میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ پہلے تو کبھی ایسے نہیں ہوا کہ ایک آدمی ہندی میں لکھنے لگا اس کا نام ہی کاٹ دیا ادب سے۔ کبھی ایسا ہوا ہے؟ بیس سال لکھا ہے میں نے۔ ان بیس برسوں میں کتنا لکھا ہے میں نے۔ میرے جیسے ڈرامے کسی نے نہیں لکھے۔ آپ برا مانیں یا بھلا مانیں، گپ سمجھیں یا لن ترانی یا تعلی۔ سو سال تک میرے جیسا ادیب نہ ہندی پیدا کرسکتی ہے نہ اُردو پیدا کرسکتی ہے۔ بعض لوگ تو مجھے نہ ناول نگار مانتے ہیں، نہ شاعر مانتے ہیں، نہ ڈرامہ نگار مانتے ہیں۔ لوگوں کا میں کیا کروں۔ میرے جیسے اُردو ہندی پنجابی میں لکھنے والے آپ کہاں سے لائیں گے۔ اُردو والے اردو کو فارسی عربی بناتے جاتے ہیں (خصوصاً نقّاد) ہندی والے اسے سنسکرت بنانے پر تلے ہیں۔ لیکن دونوں زبانیں ساتھ ساتھ پڑھی جائیں گی تو پھر قریب آئیں گی۔
سوال: لوگوں کے ماننے یا نہ ماننے سے زیادہ یہ تو نقّادوں کا کام ہے کہ۔۔۔
اشک:ہمارے بیشتر نقّاد ان پڑھ ہیں۔ جو لائق فائق ہیں وہ اپنے خیموں میں پڑے ہیں، بددیانت ہیں اور متعصب ہیں، کمیٹیوں میں جاتے ہیں، اکیڈمیوں سے کھاتے ہیں۔ ان کے پاس پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو نہیں ہے۔ میں یہاں کے نقّادوں کی بات نہیں کر رہا۔ میرے یہاں کے نقّادوں کے پاس کوئی وقت نہیں ہے۔
سوال: اُردو میں فکشن کے نقّادوں نے پچھلے برسوں میں بہت کام کیا ہے، خاص طور پر ہندوستان کے نقّادوں نے۔۔۔
اشک: اب ان کی تنقید پر میں تنقید کروں تو پتہ چلے گا کہ کتنا اچھا لکھا ہے اور کتنا برا لکھا ہے۔ میرے پاس بھی اس کے لیے وقت نہیں ہے۔ اب ٹھیک ہے لکھا ہے انہوں نے مگر سب PREJUDICED ہیں۔ اپنے ہندی میں زندگی بھر مکتی بودھ کاکسی نے نام نہیں لیا۔ وہ بستر مرگ سے لگ گئے۔ لال بہادر شاستری وزیراعظم تھے۔ انہوں نے دِلّی بلاکر ان کا علاج کرانا شروع کیا۔ ہندی نقّاد جاگ پڑے اور اب مُکتی بودھ سب سے عظیم شاعر ہیں۔ ان کا نام لیے بغیر ان کا کام نہیں چلتا۔ اُردو میں حالات مختلف نہیں ہے۔ آپ مجھ سے منہ نہ کھلوایئے۔ بیدی کو عرصہ تک کسی نے نہیں مانا۔ پھر ان کے پاس خوب پیسہ آگیا۔ باقر مہدی کو انہوں نے جیبی نقّاد بنالیا۔ شراب اس کے یہاں بھجواتے رہے بیوی سے خواہ اس بات کو لے کر جھگڑا ہوتا رہا۔ اور لیجیے بیدی کا ڈِڑّم پٹ گیا۔ بیدی کے پاس آگیا پیسہ، خوب کھلایا، اس نے دعوتیں کھلائیں تو نقّاد بھی آگئے۔ میں تو بیدی کا دوست ہوں۔ میرا تو روز کا اٹھنا بیٹھنا تھا اور بیدی مان بھی جاتے تھے۔ خود کہتے بھی تھے۔ مجھ سے نقّادوں کی حقیقت کچھ چھپی نہیں محمد حسن سی پی ایم سے جڑے ہیں۔ قمر رئیس، سی پی آئی سے۔ نارنگ ترقی پسندوں کو اتنا نہیں مانتے۔۔۔ گیان چند ہیں لیکن وہ نقّاد کم محقق زیادہ ہیں۔ یہ لوگ اونچے درجے کے نقّاد ہیں لیکن تعصب سے بالا نہیں۔
سوال: اشک جی، کہانی اور ناول کا ذکر تو ہوا لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کے ڈراموں کا بھی ذکر ہونا چاہیے۔ آپ نے کئی ڈرامے لکھے ہیں اور خاص طور پر یک بابی ڈراموں میں تو آپ کا کوئی حریف نہیں۔
اشک: ڈرامہ مشکل فن ہے۔ اُردو میں ڈرامہ تو ’انارکلی‘ ہے بس۔ منفرد اور لاثانی اور پرانے اور جدید ڈرامہ میں وژیول جیسا ہے۔ ’’گرتی دیواریں‘‘ میں تین CHAPTER میں نے ’انار کلی‘ پر لکھے ہیں۔ میں اس سے کتنا متاثر ہوا ہوں گا، یہ آپ صرف ’گرتی دیواریں‘ پڑھ کر جان سکتے ہیں۔ دیکھیے یک بابی ڈرامہ سیکھا تو میں نے امتیاز علی تاج کے ان ڈراموں سے جو وہ انگریزی سے ترجمہ کرتے تھے۔ میرا تعلق لڑکپن سے اسٹیج کے ساتھ رہا ہے۔ میں نے بہت پہلے طے کرلیا تھا کہ میں حقیقی زندگی سے ڈرامہ کا مواد۔ جب میری زندگی میں المیہ وقوع پذیر ہوا، لوں گا۔ میری نظر ہی بدل گئی۔ مجھے زندگی کی حقیقتیں نظر آنے لگی۔ میں تخیئل کی دُنیا سے بہت دور چلا اور وہی حقیقتوں کے
اندر حقیقتیں میرے ڈراموں میں بھی سموئی گئیں۔ وہ ایک شعر ہے کہ:
ننگی حقیقتوں کا میں عکاس ہی سہی
رمزِ حیات سے تہی میرا سُخن نہیں
تو ان دو کو ملالیا ہے۔ حقیقت کو رکھا اور ساتھ میں فن کا پورا خیال رکھا۔ یعنی اسٹیج کے فن کا۔ کئی بار SYMBOLIC افسانے لکھے جیسے ’کونپل‘ ’چٹان، ’ٹھہراؤ‘، ’پلنگ‘، ’بے بسی‘ ’آکاش چاری۔ اجگر۔۔۔یہ سب SYMBOLIC افسانے ہیں۔ اسی طرح چرواہے کے سمبالک ڈرامے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں اس طرح سے تجریدی نہیں لکھتا جیسے آج کے ادیب لکھتے ہیں، پر میں تو بہت عرصے سے ایسا لکھتا ہوں۔ ’معجزے‘ میرا ڈرامہ ہے یا ’سوکھی ڈالی‘ یا ’لکشمی کاسواگت‘ یا چرواہے، چلمن یہ سارے۔ ڈرامے میں نے۔ بہت پہلے لکھے ہیں۔ سمبالک ہیں پچاس یک بابی ڈرامے لکھے ہیں اور چودہ لمبے ڈرامے لکھے ہیں۔ اچھے لکھے ہیں اور وہ تو کھیلے جاتے ہیں۔ پچاس سال پہلے لکھا ڈرامہ ’چھٹا پٹیا‘ پچھلے سال واشنگٹن ڈی سی میں کھیلا گیا ہے، تو آپ سمجھ لیجیے کہ VALID تو ہیں اور یہی میں آپ سے کہتا تھا کہ میں اپنی تھیم انسان کے اساسی جذبات کو لے کر چُنتا ہوں جو نہیں بدلتی۔ میرے ڈراموں پر میرے ناولوں ہی کی طرح جرمن زبان میں بہت کام ہوا ہے۔
سوال: اشک جی، آخری سوال یہ ہے کہ آپ نے اپنی جن اٹھارہ کتابوں کو حال ہی میں شائع کیا ہے تو اُردو دُنیا میں ان کا کیا ردعمل ہوا ہے، قارئین اور ناقدین کے کیا تاثرات ہیں؟
اشک: نقّاد وقّاد تو کچھ لکھتے وکھتے نہیں میرے بارے میں۔ اکثر بہت ہی ناراض رہتے ہیں۔ میں سب کو تنگ بھی کرتا رہتا ہوں۔ اور قاری تو میرے بہت ہیں۔ میری تو کتاب فوراً بک جاتی ہے۔ مجھے نقّادوں سے زیادہ کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ جو دوست ہیں۔ ان سے ضرور کہتا ہوں، لکھ بھی دیتے ہیں، گیان چند نے بڑی تعریف کی ہے، قمر رئیس نے بڑی تعریف کی ہے، محمد حسن بھی میرے دوست ہیں اور تعریف کرتے ہیں، نارنگ بھی کہتے ہیں کہ مجھ سے بڑی عقیدت ہے۔ لکھا انہوں نے چاہے کچھ نہ ہو۔ یہ چھوڑ دیجیے، ان باتوں میں کیا رکھا ہے۔ آپ پڑھیے اور پسند کیجیے یا ناپسند کیجیے۔ وہ میرے لیے زیادہ ضروری اور قیمتی ہے اور اسی کی اہمیت ہے۔
واہ ــــــــ اوپندرناتھ اشک واقعی میں ایک ” ون مین شو”ہیں،آپ کے خوبصورت سوالوں کے انہتائی تیکھے ،طنز و استہزاء سے بھرپورمگرانتہائی رسیلے جوابات نے ھمیں بہت سے اگاھی بخشی ھے ،بہت بہت شکریہ آصف فرخی صاحب !
نہایت عمدہ گفتگو، کیا کہنے ہیں۔