زبان کی شاعری/ شاعری کی زبان
(معراج رعنا) اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اردو
چھتر پتی شاہو جی مہاراج یونیورسٹی
کانپور، بھارت
وہ شاعری جو فصاحت کے زیرِ اثر تخلیق ہو اُسے ہم زبان کی شاعری کہتے ہیں۔ یعنی روز مرہ اور محاورے کا بر محل استعمال اس شاعری کا وظیفۂ خاص ہے۔ چونکہ روز مرہ اور محاورے کی مولودی نسبت بھی لفظ ہی کے قبیلے سے منسوب ہے اس لیے یہاں عام لفظوں کو بھی اُن کی پوری صحت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ زبان کی شاعری کا ایک الگ لطف اور حُسن ہوتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کے لطف اور حُسن سے ہمارا دل بھی اُسی حد تک متاثر ہو جس حد تک ہماری قوتِ سامعہ متاثر ہوتی ہے۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ اُس کا صوتی پیکر جدلیاتی پیکر بھی خلق کرنے پر قادر ہو۔ اس اعتبار سے یہ کہا جانا درست معلوم ہوتا ہے کہ اس نوع کی شاعری معنی کے وفور سے عام طور پر عاری ہوتی ہے۔ شاعری میں کثرتِ معنی کی غیر موجودگی کا تعلق جدلیاتی الفاظ کی معدومیت سے ہے۔اس کا مطلب صاف ہے کہ جو شاعری بلاغت کے زیرِ اثر تخلیق کی جاتی ہے ،اُس میں جدلیاتی الفاظ (تشبیہ،استعارہ،کنایہ ،علامت)کا ایک مکمل اور مربوط نظام موجود ہوتا ہے۔ اور جسے ہم شعریات کی رو سے شاعری کی زبان کہتے ہیں۔یہ زبان پوری طرح خلقی ہوتی ہے اس لیے اس میں تاریخ لکھی جا سکتی ہے اور نہ ہی دیگر سماجی علوم کو بیان کیا جاسکتا ہے۔ زبان کی شاعری اور شاعری کی زبان کو مندرجۂ ذیل اشعار کی مثال سے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے:
لے لیے ہم نے لپٹ کر بوسے
وہ تو کہتے رہے ہربار یہ کیا (داغ)
غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسے کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا کہ یوں
(غالب)
داغ اور غالب دونوں کے یہاں بوسۂ محبوب کا مذکور ہے لیکن کیا ہم اس بنیاد پر دونوں شعروں کو معنی کے ایک ہی منصب پر فائز کر سکتے ہیں؟ بالکل نہیں۔ ہم لاکھ کھینچ تان کر کے بھی اگر داغ کے شعر کو غالب کے شعر کے قریب لانا چاہیں تو بھی نہیں لا سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ داغ کے یہاں بوسے کی لطیف کیفیت کسی جدلیاتی نظامِ الفاظ کے وسیلے سے معرضِ ظہور میں نہیں آتی اِس لیے یہاں بوسہ اپنی تمام تر لذتیت کے ساتھ صرف ایک بوسہ ہی رہتا ہے جس سے کسی سیال پیکر کی تشکیل ممکن نہیں ہوتی۔اس کے بر عکس غالب کے یہاں غنچۂ ناشگفتہ کے حوالے سے بوسے کی التجا کی گئی ہے۔ شعر کی قراتِ اول سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عاشق یا شاعر معشوق کے بوسے کا طلب گار ہے۔لیکن شعر جیسے ہی قراتِ ثانیہ سے گزرتا ہے نئے معنی کے باب وا ہو جاتے ہیں۔ بند ہونٹ کے لیے غنچۂ نا شگفتہ کی تشبیہ قیامت انگیز ہے۔ داغ کے یہاں محبوب سے لپٹ کر بوسہ لینے کا جو بیان ہے ٹھیک اس کے برعکس غالب کے یہاں دوری نمایاں ہے جس سے غنچۂ نا شگفتہ کے شگفتہ ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ یعنی شاعر محبوب کے بند ہونٹ کو دیکھتا ہے تو اُسے اُس پر غنچۂ نا شگفتہ کا گمان گزرتا ہے اِس لیے وہ بوسے کا متمنی ہوتا ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ بوسہ و کنار کے عمل میں ہونٹوں کا کُھلنا فطری ہوتا ہے،اور کُھلے ہوئے ہونٹ کی شکل اُس غنچے کی طرح ہو تی ہے جو پوری طرح کھل گیا ہو یعنی وہ شفگتہ ہو گیا ہو۔ مطلب یہ کہ غالب بوسے کی تمنا سے در اصل محبوب کے بند ہونٹ کو وا کروا کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اُس کا حُسن جامد نہیں بلکہ سیال ہے،اور جو چیز سیال ہوگی اُس میں تحرک یا زندگی کی خوبی موجود ہوگی۔ پھر یہ کہ ہونٹ کی نسبت سے غنچہ اور غنچے کی نسبت سے سُرخی اور خوشبو کے پیکر غالب کے شعر کو معنی کے ہفت افلاک پر لے جاتے ہیں۔ ایک آخری بات یہ کہ داغ کے محبوب سے لپٹ کر بوسہ لے لینے سے محبوب کی سماجی حیثیت بازاری قسم کی معلوم ہوتی ہے جب کہ غالب کے یہاں محبوب سے ایک مناسب دوری نظر آتی ہے جس سے محبوب کی وجودی حالت ایک محفل کا تاثر پیدا کرتی اور محفل کا تاثر اُس کے اشرف القدر معاشرے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
اسے بھی ملاحظہ کیجیے: گلزار صاحب کی باتین سنیے اور سنتے جائیے
مذکورہ مثال کی روشنی میں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ شاعری کی فضیلت زبان کے خارجی حُسن کی رہینِ منت ہوتی ہے یا اُس کے داخلی حُسن کی ،لیکن یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ زبان کی کوئی بھی سطح کیوں نہ ہو جب تک ہو وہ کسی اور سطحیں خلق کرنے کی اہل نہیں ہوتی تب تک وہ زبان فضیلتِ عظمہ پر فائز نہیں ہو سکتی۔اس ضمن کی یہ بات بھی پیشِ نظر ہونی چاہئیے کہ شاعری میں کسی موضوع کو بیان کر دینا ہی زبان کی اولین ذمہ داری نہیں ہوتی بلکہ اُس کی اصل ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی لا تسخیری صفت سے کسی شعر یا شاعری کے ساختیے میں گُم راہی کی صورتِ حال پیدا کرے۔یعنی یہ کہ شاعری میں زبان کا تغیر اس قدر شدید ہو کہ قرات کا تفاعل اُسے پوری طرح اپنی گرفت میں لینے سے قاصر ہو۔شاید یہی وجہ کہ شعریاتِ رائجہ میں قولِ محال کا استعمال پرستشانہ حد تک روا سمجھا گیا ہے ۔کیوں کہ اسی سے زبان تعقل کو فریب دینے میں کامیاب ہوتی ہے۔عقل کو فریب دینا ایک نوع کی گمراہ کُن صورتِ حال ہے۔اور کسی بھی زبان کی بڑی یا اہم شاعری میں زبانِ خلقی اور زبانِ عامہ کے درمیان خطِ امتیاز کھینچنے کے نتیجے میں اس نوع کی شعری گمراہی پیدا ہوتی ہے۔انگریزی کے ممتاز رومانی شاعر کولرج کی طویل نظم ” The Rime of the Ancient Mariner ” جوپہلی بار 1798 میں شائع ہوئی تھی ،کا یہ بند بطورِ مثال پیش کیا جا سکتا ہے:
Water, water everywhere
All the boards did shrink
Water, water everywhere
Nor any drop to drink
یہاں ابتدائی دو مصرعوں میں پانی کی افراط کو جہاز کی غرقابی کا سبب بتایا گیاہے ۔ اوریہ سچائی زبانِ عامہ کے حسبِ مزاج ہے۔ لیکن آخری مصرعے میں پانی کی یہی کثرت جب تشنگی کی وجہ بنتی ہے تو یہ حقیقت زبانِ خلقی کی جبلت سے پوری طرح ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہاں دو متخالف کیفیتیں یعنی پانی سے غرقابی اور پانی سے تشنگی کے رشتے استوار کرنا در اصل تخلیقی زبان کا کمال ہے ۔ مطلب یہ کہ یہاں ایک ہی شئے(پانی) دو مختلف خصلتوں کی ترجمان بن جاتی ہے۔اور یہاں یہ اس لیے ممکن ہوا کہ کولرج نے قولِ محال کے استعمال سے درونِ متن گمراہی کی وہ صورتِ حال پیدا کی ہے جہاں قاری کا ذہن حد درجہ متحرک ہوتا ہے،اور جس صورتِ حال میں قاری کا ذہن حد درجہ متحرک ہوگا وہاں معنی کے امکانات اتنے ہی قوی ہوں گے۔ اردو میں اس نوع کی لفظی گمراہی پیدا کرنے میں غالب کا کوئی ثانی نہیں۔ اُن کا بہت مشہور شعر ہے:
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
کولرج کی طرح یہاں غالب نے بھی ایک ہی لفظ “مرنا “(موت) سے دو کیفیتیں پیدا کی ہیں جو ایک دوسرے سے مماثل نہیں بلکہ پوری طرح مخالف واقع ہوئی ہیں۔مطلب یہ کہ اس شعر میں موت ہی معدوم النفس ہونے کا بھی ذریعہ ہے اور معمور النفس کا بھی۔ شعر کی پہلی قرات کچھ اٹ پٹی سی معلوم ہوتی کیوں کہ اس سے اٹ پٹا سا تاثر مرتب ہوتا ہے۔ اور قاری خود سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہوتا کہ کیا ایک ہی شخص (محبوب) عاشق کی موت کا بھی سبب بن سکتا ہے اور اُس کی زندگی کا بھی؟لیکن جوں ہی شعر کی قراتِ ثانیہ مکمل ہوتی ہے زبان اپنی صفتِ عامہ سے منہا ہو کر صفتِ خلقی سے متصف ہو جاتی ہے۔ نتیجے کے طور پر لفظ “مرنا ” چاہت یا محبت یا کسی سے جنون کی حد تک عشق کرنے وغیرہ کے معنی سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ یعنی یہ کہ کسی کو دیوانگی کی حد تک چاہنے میں بھی وہی اذیت ہوتی ہے جو اذیت موت کے وقت ایک عام انسان کو ہوتی ہے۔
ظہور الدین حاتم کا شعر ہے:
زاہد کو ہم نے دیکھ خرابات میں کہا
مسجد کو اپنی چھوڑ کہو تم یہاں کہاں
اس شعر میں “کہا” اور “کہو” کے حوالے سے فصاحت کا ایک نظام قائم ہو جاتا ہے جس سے زبانِ عامہ کو تقویت تو ملتی لیکن اُس خلقی جذبے کوارتفاع نہیں ملتا جو شعر میں معنی کی افزائش کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس لیے حاتم کا زیرِ بحث شعر طنز کے لطف سے ہٹ کر کسی اور لطف کو پیدا نہیں کرتا۔ یہاں طنز کا دائرہ بھی محدود نظر آتا ہے کہ یہاں مخاطب کی تجسیم ضرورت سے زیادہ نمایاں ہے۔ اسی تناظر میں اب غالب کا شعر نقل کیا جاتا ہے:
مسجد کے زیرِ سایہ اک گھر بنا لیا ہے
یہ بندۂ کمینہ ہم سائیہ خدا ہے
چونکہ غالب کے یہاں حاتم کے بر عکس طنز کا ہدف زاہد نہیں بلکہ خود غالب کی اپنی ذات ہے۔اس لیے اُن کا شعر معنوی اعتبار سے حاتم کے شعر سے کہیں زیادہ گہرا اور دبیز بن گیا ہے ۔اور یہاں یہ معنوی دبازت اس لیے پیدا ہو سکی ہے کہ شعر کی رعایتِ لفظی رائج مفروضے کو اُلٹنے اور قرات کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو سکی ہے ۔تاہم یہ بڑی خوبی غالب جیسے بڑے شاعر کی ملکیت ہوتی ہے۔ اسی طرح شہریار کے ایک شعر میں موت کے رائج تصور کو عام لفظ سے الگ کر کے بیان کرنے کی فنی ہنر مندی اپنے نقطۂ عروج پر موجود ہے:
ہر بار پلٹتے ہوئے گھر کو یہی سوچا
اے کاش کسی لمبے سفر کو گئے ہوتے
یہاں لفظِ خلقی کے تناظر میں” لمبا سفر ” موت کی کیفیت کا ایک مضبوط کنایہ ہے۔ جب کہ لفظ “لمبا سفر” زبانِ عامہ میں اپنے روایتی مفہوم سے متجاوز ہونے کی کوئی قوت نہیں رکھتا۔ اوراسی لفظ کے وسیلے سے شاعر نے “گھر “کے رائج تصور یعنی سکون و اطمنان کے بر عکس گھر کو ” بیزاری “کے متخالف معنی سے واستہ کر دیا ہے۔ لہٰذا مذکورہ مباحث کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ زبان کی شاعری اپنی تمام تر خارجی حُسن کاری کے باوجود اُس خوبی کی متحمل نہیں ہو سکتی جو خوبی شعری زبان کا اختصاص بھی ہوتی ہے اور معنی کا منبع بھی۔