آرٹ میں جدید حسّیت کا معاملہ

ایک روزن لکھاری

(ڈاکٹر صلاح الدین درویش)

یورپی نشاۃ الثانیہ کی وہ تحریک جو چودھویں صدی عیسوی میں اٹلی میں کل پرزے نکال رہی تھی، اُس کے فروغ میں آہستہ آہستہ بڑے بڑے مصوروں اور سنگ تراشوں کے ساتھ ساتھ کلیسا سے متعلق امرا کا ایک معقول گروہ اور پھر تاجروں اور صنعت کاروں کا طبقۂ اشرافیہ بھی اس میں شامل ہو گیا۔ پیٹرارک اور بوکاشیو جیسے علم و ادب کے دیوانوں کو تو محض گوشۂ گمنامی میں پڑی قدیم یونانی فلاسفہ کی کتب سے دلچسپی تھی، انہوں نے اِن کتب کو ڈھونڈا، تراجم کیے، کاتبوں سے نئی جلدیں تیار کرائیں اور لائبریریوں میں آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنا دیا۔ لیکن اُن کی ان کاوشوں نے بہت جلد اہلیانِ اٹلی کو یہ شعور بھی عطا کر دیا کہ انسانی سماج میں انسان ہی سب سے اہم مخلوق ہے اور دہر کا وہ تمام نظم و نسق جو ویٹی کن سے لے کر فلورنس کی گلیوں تک جاری و ساری ہے، اُس کے پیچھے صرف انسانی سرگرمیاں ہی کار آمد ہیں۔ یونانی فلسفیوں نے انسان اور انسانی سماج کے بارے میں اپنے انسانی ذہن سے جو کچھ اخذ کیا تھا، اُس کے بارے میں لوگوں کو پہلی مرتبہ یہ علم ہوا کہ مذہبی شارحین کے مقابلے میں وہ زیادہ معقول اور سمجھ میں آنے والا ہے۔ انہوں نے اُس انسانی تمدّن کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا کہ جسے خود اُن کے ہاتھوں اور تخلیقی ذہن نے استوار کیا تھا۔ اگر انسانی عقل اور شعور ہی انسانی تمدّن کی بنیاد بنتے ہیں تو یقیناًاُن کے لیے اس بات کو سمجھ لینا چنداں مشکل نہ رہا کہ اپنی ذہنی اور تخلیقی ریاضتوں سے اپنے تمدّن کے تمام مادی مظاہر کو بدل سکتے ہیں۔ مذہبی جبریت کی ہزار سالہ تاریک صدیوں میں انہیں پہلا شگاف دکھائی دینے لگا۔ اس درز سے آنے والی روشنی میں انہوں نے بہت جلد اپنے اطراف کو ٹٹولنا، جاننا اورسمجھنا شروع کر دیا۔

نئی زندگی کی نئی عمارات، تصویریں، مجسمے، ظروف،ملبوسات وغیرہ میں انسان کو اپنے ہنر کی عظمت دکھائی دینے لگی۔ اس نے پہلی مرتبہ جانا کہ وہ بھی لائقِ تعریف ہستی ہے۔ کائنات کی عظیم وسعتوں کے مقابلے میں اسے پہلی مرتبہ یقین آیا کہ خود اُس کے اپنے ہاتھوں سے تخلیق پانے والے تمدّن کا جنم ایک ایسا شاہکار ہے کہ فطرت کی بوکلمونیوں میں اس سے مقابلہ تو کیا مشابہت تک موجود نہیں ہے۔ اس کے ہاتھوں سے تخلیق پانے والا ہر فن پارہ اپنی مثال آپ تھا۔ اپنے تمدّن کے مادی مظاہر کے حسن کا خالق وہ خود تھا۔ اپنی فنّی لیاقت اور وسائل اور مادی ذرائع کے تخلیقی اظہار کے لیے اس کا اپنا دریافت کردہ علم بھی تھا کہ جس کی معقولیت کا جواز بھی اس کے پاس موجود تھا۔ کائنات کی ابتداؤں اور انتہاؤں کے بارے میں اُس کی اوہام سے معمور دنیا کے مقابلے میں اس کی اپنی تشکیل پذیر اور ارتقاء پذیر دنیا زیادہ منطقی، حقیقی اور سمجھ میں آنے والی تھی۔ اسی طرح حرفت اور پھر صنعت سے متعلق جب اس کی استعداد میں ترقی ہوتی چلی گئی تو شاہی اور جاگیردارانہ افکار و نظریات کے تسلّط سے بھی رہائی ممکن نظر آنے لگی۔ اہلِ حرفہ، صنعت کاروں، تاجروں، فن کاروں اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آئندہ دو سو سالوں میں انجمنیں یا گلڈز بننے لگیں۔ یہ انسانی زندگی کا وہ چل تھا کہ جس کا واحد مختار انسان تھا۔ اس کا منشور انسان کا انسان پر اعتبار اور انسانی سماج پر انسان کا مکمل اختیار تھا۔ انسانی سماج کے ارتقاء میں انسانی ہستی کو واحد فعال قوت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ انسانی مجبوری اور بے بسی کے دن دھیرے دھیرے گزرتے چلے جا رہے تھے۔ غلامی اور انسانی کہتری کی جگہ آزادی اور خودمختاری کا چلن عام ہو رہا تھا۔ عقائد کی جگہ تجربہ اور تحقیق لے رہے تھے۔انسانی زندگی اور سماج کی بنیاد اب محض روحانی تعلیمات پر ہو رہی تھی، بلکہ ان علوم پر استوار ہونے لگی کہ جن کا براہِ راست تعلق انسان کی حقیقی زندگی کی مادی سرگرمیوں سے تھا۔ یہ انسانی علوم و فنون تھے کہ جنہوں نے الٰہیاتی علوم کی مکمل جگہ لے لی تھی۔ یہ وہ انسانی مادی علوم و فنون تھے کہ جن سے متعلق ابتدائی کام قسطنطنیہ پر ترکوں کے حملے سے پیشتر مسلمان دانشور سائنسدان اور فلسفی مذہبی احیاء کی تحریکوں سے پہلے کے زمانے میں کر چکے تھے۔ ان علوم و فنون کو سترھویں صدی عیسوی تک اہلِ یورپ نے درجۂ کمال تک پہنچا دیا۔یہاں تک کہ یہ علوم و فنون اٹھارویں صدی عیسوی تک ارتقاء پذیر ہوتے ہوتے بڑے پیمانے پر ہونے والی صنعت کاری میں اپنا حقیقی اور مؤثر ترین کردار ادا کرنے کے اہل بن گئے۔

مندرجہ بالا سطورمیں یورپ کی جن چار صدیوں کا مختصراً احاطہ کیا گیا ہے، اس کا مقصود یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں کوئی بھی دور جدید دورنہیں ہوتا، بلکہ جدّت، اختراع، ترمیم و تنسیخ کا سلسلہ مسلسل جاری و ساری رہتا ہے۔ یورپ نے ماضی کے مزاروں سے راکھ نہیں اٹھائی تھی اور نہ ہی اُس مقدس راکھ کے مجاور بن بیٹھے تھے، بلکہ اہلِ یورپ نے ماضی کے عظیم یونانی دانشوروں کی اُن کتب کو ہدایت اور ترقی کا وسیلہ بنایا کہ جن کا براہِ راست تعلق عالمِ انسان کے مادی اور حقیقی مستقبل سے تھا۔ یہ علوم چوں کہ انسانی عقل اور کائنات کے مادی مظاہر کے باہمی تعلق کو سمجھنے کے لیے صرف انسان کو اہمیت دیتے تھے لہٰذا کائنات میں انسان کے مستقبل کی بقا کے لیے ان انسانی علوم کو اہمیت دی گئی اور اِن کی تحصیل کو انسان کی کائنات میں بقا کے ساتھ مشروط سمجھا جانے لگا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی ان علوم کے فروغ کے بغیر ناممکن تھی۔ آرٹ، حرفت کے ساتھ ساتھ صنعتی ترقی کو انسانی لیاقت اور ہنر سے ممکن بنانا اِن علوم و فنون کا بنیادی موضوع تھا۔مذہبی یا روحانی تعلیمات کے دائرے سے اس نوع کی ہر ترقی باہر تھی بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان تعلیمات کا بڑا حصہ اِن ترقیوں کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ لامحالہ ان تعلیمات سے انسان کے دستِ کمال کی بھی نفی ہوتی ہے۔ انسانی سماج میں وقوع پذیر ہونے والی لمحہ بہ لمحہ تبدیلیاں انسانی ضروریات کے تنوع سے جم لیتی ہیں۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو اصطلاحاً ہم جسے جدیدیت یا ماڈرن ازم کہتے ہیں، وہ دراصل کسی بھی عہد کے انسان کے اپنے تخلیق کردہ مادی تمدّن کا تہذیبی دائرۂ کار اور نظام ہوتا ہے۔ اس مادی تمدّن کے سیاسی، سماجی اورمعاشی نتائج کی قبولیت کا نام ہی دراصل ماڈرن ازم ہے۔ یہ تہذیبی نظام اور اُس کا دائرۂ کار کبھی بھی مثالی نہیں ہوتا بلکہ اس میں قباحت کی بے شمار صورتیں موجود رہتی ہیں۔ لیکن ایک جدّت پسند انسان وہ ہوتا ہے کہ جو اِ س تبدیل شدہ تہذیبی منظرنامے کونہ صرف قبول کرتا ہے، اس کے مثبت اثرات سے مستفید ہوتا ہے، اپنی لیاقت اور اہلیت کا تخلیقی حصہ اسے دان کرتا ہے، بلکہ اُس کی قباحتوں پر بھی کڑی نظر رکھتا ہے ماڈرنسٹ انقلاب یوٹوپیائی جہانوں کی سیر کرنے کی بجائے حقیقی زندگی میں بطور ایک اکائی کے اپنے حصے کا مادی کردار ادا کرتا ہے۔ سیاسی تنظیموں اور تحریکوں کے ساتھ اس کی جڑت کا معیار یا پیمانہ دراصل اس کے عصرِ حاضر کی تہذیبی اور تمدّنی ضروریات ہوتی ہیں۔ لالچ، حسد، شراب یا کیسنو کاجوا، صنعتی نظامِ معیشت یا سماج کا پروردہ نہیں ہے۔ انسانی زندگی میں ان ترجیحات کا تعیّن ایک قدامت پرست بھی اتنا ہی کر سکتا ہے جتنا کہ ایک جدّت پسند۔ اس حوالے سے انسانی علوم و فنون کے صنعتی عہد تک کے فروغ کو گالی دینا درست نہیں ہے۔ عالمی امن و محبت، مساوات اوربے تعصّبی عالمِ انسان کی اجتماعی زندگی کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ دنیا بھر کے انسانوں کی تخلیقی سرگرمیوں کا مرکز و محور بھی ہے۔ مذکورہ بالا تشریح کی روشنی میں جدیدیت فیشن پرستی یا کنزیومر ازم کا دوسرا نام نہیں ہے کہ جس کے پاس دولت کی افراط ہے وہ جدیدیت کے لچھن افورڈ کر سکتا ہے۔ جدیدیت تو روحِ عصر کا شعور ہے اور اپنے زندہ عہد کے لیے اپنی ذہنی و فنّی صلاحیتوں اور لیاقتوں کو آنے والے زمانوں کے لیے آزمانا ہے۔

اٹھارویں صدی عیسوی تک آتے آتے یورپ میں مشینوں کی حکومت مستحکم ہو چکی تھی۔ مشینوں کی حکومت کے خلاف اپنی بے زاری کا اعلان سب سے پہلے انگریز رومانوی شعرا نے کیا۔ ان مشینوں کے اجتماعی زندگی پر مرتّب ہونے والے عالمگیر نتائج سے قطع نظر اِن شعرا نے فرد خصوصاً شاعر کی داخلی زندگی کو بقول ان شعرا کے، برباد کر کے رکھ دیا اور گذشتہ صدیوں میں عظیم دانشوروں، سائنسدانوں اور فن کاروں نے اپنی تحقیقی و تخلیقی سرگرمیوں کے باعث اہلیانِ فرنگ کو بالآخر جس صنعت کاری کے دَور میں داخل کیا تھا وہ سب کے سب ذکر نہ کرنے کے باوجود ملعون ٹھہرے۔ انسانی صلاحیتوں اور علم وا دراک کا وہ حصہ جو سائنس اور ٹیکنالوجی اور پیداوار کو بڑھانے پر منتج ہوا، اُسے انسانیت کے لیے ہلاکت خیز قرار دے دیا گیا۔ خوابوں، خیالوں، جادو ٹونے، فےؤڈل ازم، بے جان اخلاقیات اور خرافات کی وہ دنیا کہ جس کا انسان کی مادی زندگی کی ضروریات سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہ تھا، اُسے روح کا جہانِ معنی قرار دے دیا گیا۔ اس دنیا کا کوئی بھی عنصرایسا نہ تھا کہ جو انسانی اہلیت اور ہنر کو کسی مادی سرگرمی میں بدل دینے کی اہلیت رکھتا ہو۔ مشین، جو انسانی اہلیت اور لیاقت کو سینکڑوں ہزاروں سے ضرب دے سکتی تھی، اُسے انسانی روح کا ناسور سمجھا گیا۔ چند ہی برسوں میں دیکھتے ہی دیکھتے اس تحریک نے دنیا بھر کے ادب بشمول اُردو ادب میں اپنا راستہ سیدھا کر لیا۔ یہ نئی طرح کے ادبی پروہت تھے۔ ان کا کام بھی مذہبی پروہتوں کی طرح انسان اور کائنات کے خاتمے کی پیشین گوئیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ ورڈز ورتھ اور کالرج نے تو باقاعدہ اسے اپنی نثری تنقیدی تحریروں میں ایک نیا نظامِ حیات اور کسی قدر مذہب بنانے کی کوشش کی۔ اس نظامِ حیات اور مذہب کا مرکزی نقطہ کہ جس پر تمام رومانوی شعرا اور ادیب متفق تھے، وہ یہ تھا کہ انسان کی مادی ضرورتوں، کاوشوں اور آلائشوں سے مکمل علاحدگی کے بغیر نجات ممکن نہیں ہے۔ یہ بظاہر دورِ جدید کی تحریک تھی لیکن اس کے تمام عزائم قدامت پسندانہ تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحریک کے اثرات صرف شاعروں اور ادیبوں تک ہی محدود رہے، آرٹ کی دیگر صورتیں کم و بیش اس کے آفاقی آدرشوں سے محروم رہیں۔ انسانی سماج کے دیگر طبقات کہ جن کا براہِ راست تعلق مادی زندگی کی وسعتوں کو دریافت کرنے سے تھا، انہوں نے اس تحریک کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا۔کھیتوں، کارخانوں، تجربہ گاہوں، تحقیقاتی آوازوں،سائنس اور دیگر عمرانی علوم سے متعلقہ شعبے اپنی اپنی ڈگر پر چلتے رہے۔

جدید حسّیت یا Modern Sensibility رومانوی دبستانِ تنقید ہی کی مباحث سے جنم لینے والی اصطلاح ہے۔ ماڈرن ازم کہ جس کا احاطہ گذشتہ سطور میں اس کے تاریخی اور مادی حوالے سے کیا گیا۔ اس اصطلاح کا اُس کے اصولی مباحث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انسان کی مادی زندگی کی مادی سرگرمیاں کیوں کہ وقوع پذیر حقیقتیں ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اُن کی معقولیت یا عدم معقولیت کا جواز بھی موجود ہوتا ہے۔ یہ حقیقتیں انسان کی غلطیوں یا دیدہ دانستہ کوتاہیوں کو بھی منظرِ عام پر لے آتی ہیں۔ انہیں قبول کرنا انسان کے بس اور اختیار میں ہوتا ہے۔ یہ کوئی داخلی حسّی معاملہ نہیں ہوتا بلکہ کسی مادی وقوعے کی چھان پھٹک کا معاملہ ہوتا ہے۔ اس میں داخل سے زیادہ خارج کی سرگرمی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ خارج کی سرگرمی سے حاصل شدہ نتائج اس سرگرمی سے متعلق شعبے میں علم کا درجہ رکھتے ہیں۔ یوں تمام علوم اپنے اپنے شعبے سے متعلق مادی سرگرمیوں کے نتائج کا احاطہ ہوتے ہیں۔ یہ علوم اور مزید مادی سرگرمیوں کے نتائج نسل در نسل آگے منتقل اور محفوظ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اکتساب اورنئے تجربات کا سلسلہ بھی مسلسل چلتا رہتا ہے۔ بسا اوقات علم تشکیک کو جنم دیتا ہے۔ اس خاص صورتِ حال میں کسی شعبۂ علم سے متعلق مادی سرگرمی ہی نتائج کا واحد معیار بنتی ہے، نہ کہ تشکیک کے روحانی اور حسّیاتی مخمصے۔ تشکیک اگر روحانی یا حسّیاتی بخار میں انسان کو مبتلا کر بھی دے تو بھی اس کی تشفی مادی سرگرمی کے بغیر ناممکن ہے۔ کسی سائنسی تجربے سے حاصل شدہ تشکیک اور اُس تجربے سے متعلق دوسرے تجربے کے لیے بروئے کار لائی جانے والی مادی سرگرمی سے قطع نظر کہ یہ معمہ شاید آسانی سے حل ہو جاتا ہو، ہم سماجی اور سیاسی زندگی کے ایک پہلو کو لیتے ہیں، مثلاً کوئی معاشرہ تنزل کا شکار ہے اور ایک سیاست دان یا ماہرِ سماجیات کی تشکیک اسے یہ راہ دکھاتی ہے کہ ہو نہ ہو اِس کا بنیادی سبب عدم مساوات اور ناانصافی ہے۔ یہ تشکیک اُس وقت تک محض تشکیک رہے گی جب تک کہ عدم مساوات اور ناانصافی کے خلاف تحریک میں بشمول سیاست دان اور ماہرِ سماجیات کسی مؤثر مادی سرگرمی کا آغاز نہ کر دیں۔ لوگ جب منظم اور متحرک ہوں گے تو اِس سرگرمی کے نتائج بھی تاریخ کا حصہ بننے لگیں گے۔ وگرنہ انسانی تاریخ اگلے وقوعے تک وہیں کھڑی رہے گی کہ جہاں وہ ایک وقت میں کھڑی ہے۔ جدید حسّیت کسی مادی سرگرمی کے بغیر ہی اپنی تشکیک کے بل بوتے پر نتائج حاصل کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب خصوصاً شاعری میں جہاں کہیں بھی جدید حیثیت کی نشاندہی ہوتی ہے وہاں تشکیک کے ساتھ ساتھ انسان، کائنات، سماج اور یہاں تک کہ خدا سے بھی بے زاری کا نمایاں عنصر اور وصف پایا جاتا ہے۔ انسانی جذبہ و احساس وقوعات کے نتائج سے دلبرداشتہ ہوتے ہیں، وقوعات کا فعّال حصہ نہیں بنتے۔ یہ عجیب لوگ ہیں، دوسروں کے دکھ کو خالی خولی اپنی حسّیاتی تسکین کے لیے اپنا دکھ قرار دے دیتے ہیں اور نظم جذبات کی تشفی کر دیتی ہے، لیکن خود اپنے دکھ کو رَفع کرنے کے لیے در در منت سماجت کرتے نہیں تھکتے۔ اپنے دکھ کو اپنی مادی سرگرمی سے ختم کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔

ماضی کے رومانویوں کی طرح جدید حسّیاتی قلم کار بھی لوگوں کو دھوکے اور فریب میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ رومانویوں نے بھی مادی زندگی کی سرگرمیوں کو انسان کے لیے فریب قرار دیا تھا۔ جدید حسّیت پسند بھی انسان کی مادی زندگی کے تمدّنی و تہذیبی نتائج کو فریب سمجھتے ہیں۔ان کے عمومی رویے کے مطابق انسان نے اپنی اہلیت اور ہنر سے جو کچھ بھی ہزارہا سالوں میں پایا ہے وہ نہ بھی پاتے تو خیر تھی۔ ان کے خیال میں انسانی حواس جو نتائج اخذ کرتے ہیں وہ اُس زندگی کے تمنائی نہیں ہیں کہ جو اُن کا اصل مقصود تھی؟ یہ لوگ عیار سرمایہ داروں کے خلاف ہیں، معصوم جاہل مزدوروں کے بھی، جاگیرداروں کے بھی خلاف ہیں، مجبور و بے بس کسانوں کے بھی، سائنسدانوں کے بھی خلاف ہیں، اُن کی ایجادات کے بھی، سیاست دانوں کے بھی خلاف ہیں اور سیاسی جماعتوں کے بھی۔ غرض انسان کی مادی زندگی میں اثبات کی کوئی صورت انہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ہر اثبات کی نفی شاید اُن کو جدید بنا دیتی ہے کہ واہ! انکار کی جرأت تو ہے لیکن جب اثبات کے لیے جن روح کی گہرائیوں اور جذبہ و احساس کی جانکاہ پنہائیوں سے رجوع کرتے ہیں تو انہیں مزید حیرت ہوتی ہے کہ اثبات کی وہ صورتیں بھی بے دست و پا ہیں۔ گویا سب مایا ہے۔ جدید حسّیت اپنے موضوعاتی احاطے میں یکسر زندگی گریز ہے۔ اس میں زندگی پر کڑی تنقید تو ہے لیکن اس تلخ تر زندگی کے مقابلے میں جدید حسّیت پسندوں کے پاس زندگی دوسرا اور کوئی تصور بھی نہیں ہے۔فلسفۂ وجودیت کی زوال پسندی کا عنصر اِس تحریک میں پوری طرح سمایا ہوا ہے۔ اُدھر انسانی بے بسی اور عالمگیر تنہائی کا مظلوم تماشائی وجود ہے تو اِدھر روح، جذبہ اور احساس۔ دونوں لاحاصلی کے پیرو، ایک جسم کے باہر، دو جا جسم کے اندر۔ انسان، جو اپنے علم اور فن کے مادی مظاہرے سے باز نہیں آتا، ایسے فلسفوں پر کان نہیں دھرتا۔

2 Comments

  1. بہت ہی عمدہ۔۔ جامع مضمون
    ماضی کے رومانویوں کی طرح جدید حسّیاتی قلم کار بھی لوگوں کو دھوکے اور فریب میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ ۔۔۔۔انسان، جو اپنے علم اور فن کے مادی مظاہرے سے باز نہیں آتا، ایسے فلسفوں پر کان نہیں دھرتا۔
    بالکل درست

Comments are closed.