(ڈاکٹر کوثر محمود)
لغت کی رو سے آلودگی کی تعریف یوں کی جاتی ہے؛
’’کثافتوں کا قدرتی ماحول میں (اتنی مقدار اور تعداد میں)داخل ہوناکہ جو جانداروں کی انفرادی زندگی یا اجتماعی زندگی میں، عدم استحکام،بدنظمی،تکلیف اور ناراحتی کا سبب بنے؛آلودگی کہلاتا ہے۔*۶
آلودگی؛ کیمیاوی مادوں، خورد بینی جراثیم اور توانائی کی اقسام،مثلاً،شور، حرارت یا روشنی سے ہو سکتی ہے۔آلودگی کا سبب بنے والی کثافتیں کسی ماحول میں قدرتی طور پر بھی پائی جاتی ہوں لیکن اگر وہ از خود معمول کی مقدار تجاوز کر جائیں ، یا کسی انسانی سرگرمی کی وجہ سے ان کی مقدار میں اضافہ ہو جائے تو یہ آلودگی کی ذیل میں آتا ہے۔
ایک عالمی ادارہ ’’بلیک سمتھ انسٹیٹیوٹ‘‘Blacksmith Institute *۷ کہلاتا ہے کہ جو سالانہ بنادوں پر دنیا کی دس آلودہ ترین جگہوں کی فہرست جاری کرتا ہے۔۲۰۰۷ء کی فہرست کے مطابق دنیا بھر میں دس آلودہ ترین جگہیں،(حروفِ تہجی کے اعتبار سے) آزربائیجان، چین، بھارت، پیرو، روس یوکرائن اور زیمبیا میں واقع ہیں ۔
۹ ویں صدی سے لے کر ۱۳ویں صدی تک محمد بن ذکریا رازی، ابنِ سینا، الکندی وغیرہ کی تحریویں میں ملتا ہے کہ جس میں اُنہوں نے ہوا ،پانی اور زمین کی آلودگی کا ذکر کیا ہے ۔
۱۲۷۲ء میں انگلستان کے بادشاہ، ایڈروڈ اول نے ’سمندری کوئلہ ،Sea-coal جلانے پر پابندی عائد کر دی کیونکہ اُس سال سردی نہایت زوروں کی پڑی اور یہ سنمدری کوئلہ چونکہ سستا تھا لہٰذا عوام نے سردی سے بچنے کے لیے اس کو استعمال کیا۔
صنعتی انقلاب کی وجہ سے کارخانوں میں کوئلہ اور دیگر توانائی کے ذرائع کثیر مقدار میں استعمال ہوئے اور کیمیاوی مادی کی پانیوں میں آلائش کا سلسلہ شروع ہوا جس سے ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے نے جنم لیا ۔
لندن کے بیچوں بیچ گذرنے والے دریائے ٹیمز میں ۱۸۵۸ء میں اس قدر تعفن پھیلا کہ چار وناچار لندن کی حکومت کو شہر کے لیے باقاعدہ سیورج سسٹم تعمیر کرنا پڑا۔
شکاگو اور سنسنّاٹی Chicago and Cincinnatiامریکہ کے دو اولین شہروں میں شامل ہیں کہ جنہوں سب سے پہلے فضائی آلودگی کے متعلق قانون سازی کی اور ہوا کو گندا کرنا باقاعدہ طور پر جرم قرار دیا گیا۔
جنگِ عظیم دوئم کے بعد ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی تجربات کے طفیل ماحولیات پر تاب کاری کے اثرات کے بارے میں تشویش بڑھی۔مہذب ملکوں نے اپنے ایٹمی تحقیقی مراکز کو گنجان آبادیوں سے سینکڑوں میل دور بنایا (لیکن ہم الا ماشااللہ یہ مراکز آبادیوں کے بیچوں بیچ بنا رہے ہیں اور کسی حادثے کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں)۔
اسی طرح ۱۹۵۲ء میں لندن کے شہر میں ’سمندری کوئلہ‘Sea-coal جلانے سے اس میں موجود گندھکSulpherکی زیادہ مقدار کی وجہ سے اس قدر زہریلا دھواں پھیلاکہ تقریباً ۴۰۰۰ ،بالخصوص چھوٹے بچوں کی اموات واقع ہوئیں۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ مہذب دنیا نے صاف ہوا، پانی اور شور پر کنٹرول کے لیے قوانین بنائے اور اُن پر پوری دیانت داری سے عمل کیا بھی اور کروایا بھی لیکن جب ہم اپنی طرف دیکھتے ہیں تو شاید کسی قانون کی کتاب میں تو یہ قوانین موجود ہوں لیکن ان کا عملی نفاذ کہیں نظر نہیں آتا ۔ سڑکوں پر زہریلا دھواں چھوڑتی ، شور مچاتی گاڑیاں، دریاؤں، نہروں میں صنعتی اور انفرادی اداروں کا ڈھٹائی سے کیمیاوی مادے اور فضلہ پھینکنا، حکومتی اور بلدیاتی اداروں کی اپنے فرائض سے پہلو تہی، مسجدوں، میوزک سینٹروں سے چیختے چنگھاڑتے لاؤڈ سپیکروں پر خاموشی کے فضائل کی تبلیغ۔۔۔ہم خدا را سوچیں تو سہی کہ ہم اپنے بچوں کے لیے کیسی دنیا وراثت میں چھوڑ کرجا رہے ہیں ؟ ایک لمحے کو سوچیں تو سہی کہ کل کلاں جب ہمارے بچوں کو صاف پانی کہیں سے نہ ملے اور اُنہیں زہریلی ہواؤں میں سانس لینا پڑے اور ہر طرح کے شور سے اُن کی سماعتیں کسی لطیف آواز کی شناخت کرنے سے قاصر ہوں تو وہ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے کہ ہمارے اسلاف ہمارے سے خیر خواہ تھے ؟ یا اُن سے ہمارا کوئی تعلق بھی تھا کہ نہیں؟ یہ سوچ کر ہی جھرجھری سی آجاتی ہے۔۔۔
آلودگی کی معروف اقسام
آئیے دیکھتے ہیں کہ مہذب دنیا میں کس طرح کی آلودگی کے بارے میں کیا شعور پایا جاتا ہے؛
۱۔۔۔ہوا کی آلودگی۔۔۔Air Pollution
ہوا کی آلودگی میں زہریلی گیسوں *۸اور نہایت مہین گرد*۹کا اخراج شامل ہے۔
۲۔۔۔روشنی کی آلودگی۔۔۔Light Pollution
میں کسی کی نجی مملوکہ جگہ کو اُس کی رضامندی کے بغیر روشن کرنا(Light trespass)، کسی جگہ کو ضرورت سے زیادہ روشن کرنا(over-illumination) اور فلکیاتی مشاہدات میں روکاوٹastronomical interference کاباعث بننا آلودگی کی ذیل میں آتا ہے۔
۳۔۔۔لِٹرنگ۔۔۔Littering
یہ ہمارے لیے شاید نئی اصطلاح ہو لیکن اس کے لغوی معنی*۱۰ کے صرفِ نظر کسی جگہ کو گندا مندا کرنا کے ہیں؛
۴۔۔۔شور کی آلودگی۔۔۔Noise Pollution
مغرب والے مصروف شاہراؤں ،ہوائی جہازوں اور صنعتی شور کا رونا روتے ہیں لیکن وہ ہمارے ناوقت چیختے چنگھاڑتے لاؤڈ سپیکروں اور رکشہ /چنگ چی کی سمع خراش موسیقی سے قطعاً ناواقف ہیں ورنہ وہ ہماری قوتِ برداشت کے قائل ہو جائیں۔
۵۔۔۔زمینی آلودگی۔۔۔Soil contamination
زراعت میں کیماوی کھادوں کا بے تحاشا استعمال بالآخر زمینی اورآبی آلودگی کا سبب بنتا ہے۔
۶۔۔۔تاب کار آلودگی۔۔۔Radioactive contamination
اس کی ہمیں کوئی خبر ہی نہیں ؛اسلامی ایٹمی قوت بننے کے خبط میں اس طرف ہم کبھی دھیان نہ دیں گے تاآنکہ ، خاکم بدہن، کسی روزہم کسی تاب کار حادثے کا شکار ہو جائیں اور پھر ہم حفاظتی تدابیر کے بارے میں سوچیں گے،اُس سے پہلے تو عوام کو اس کے مضر اثرات سے باخبر کرنے والے بھی ملک دشمن کہلائیں گے۔
۷۔۔۔حرارتی آلودگی۔۔۔Thermal pollution
قدرتی طور پر پائے جانے والے پانی کا درجۂ حرارت بڑھانا؛جیسے کہ پانی کو کسی انجن، پاو رپلانٹ وغیرہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
۸۔۔۔ بصری آلودگی۔۔۔Visual pollution
شاہراؤں ، عام راستوں میں لٹکتے بجلی کے تار، اشتہاری بورڈ، منظرِ عام پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کو بصری آلودگی میں گنا جاتا ہے۔
۹۔۔۔آبی آلودگی۔۔۔ Water pollution
۱۰۔۔۔نانو آلودگی۔۔۔ Nano pollution(یعنی ایک میٹر کے ایک اربویں حصے جتنے باریک ذرات کی آلودگی ۔۔۔یعنی یہ ذرات؛شاید مستقبل کے جنگی ہتھیار؛ طاقتور ترین خورد بین، مائکروسکوپ کے ذریعے بمشکل نظر آتے اور بڑی آسانی سے ہر قسم کے خلیے میں داخل ہو کر اُس کے نظام کو تباہ کر سکتے ہیں۔۔۔وائرس اس کی ایک مثال ہے۔۔۔ یہ آلودگی کی ایسی قسم ہے کہ ترقی پذیر دنیا تو کجا، ترقی یافتہ ملکوں میں بھی اس کے بارے میں کم شعور پایا جاتا ہے؛ اس پر بحث کسی اور نشست پر اُٹھا رکھتے ہیں)
آبی آلودگی۔۔۔ Water pollution
ہماری اس زیرِ نظر مرکزی موضوع آبی آلودگی ہے لہٰذا اس کو ہم ذرا تفصیلی تناظر میں دیکھیں گے۔ اور آبی آلودگی سے مراد ،جھیلوں، دریاؤں ،سمندروں اور زیرِ زمین پانی کی آلودگی ہے اور پانی میں کثافتیں یا تو براہِ راست شامل ہوتی ہیں یا جب گندہ پانی بغیر صاف کیے پانی کے ذخائر میں ڈالا جائے تو آبی آلودگی کا سبب بنتا ہے۔پانی کی آلودگی ، اُس پانی کے ذخیرے میں رہنے والے پودوں یا جانداروں کو، یا اُس پانی کو استعمال کرنے والے جانوروں کو انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پرمتأثر کرتی ہے۔
آبی آلودگی سب سے بڑا عالمی ماحولیاتی مسئلہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ آبی آلودگی کی وجہ سے ہونے والی اموات کسی بھی اور سبب کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں اورپوری دنیا میں روزانہ ۰۰۰،۱۴ کے قریب اموات پانی کی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
صرف ہندوستان میں ۷۰ کروڑ باشندوں کو باقاعدہ غسل خانہ کی سہولت میسر نہیں اور بھارت میں روزانہ ایک ہزار بچے اسہال کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح چین میں ۹۰ فیصد شہرں میں پانی کی آلودگی کا مسئلہ کسی نہ کسی حد تک پایا جاتا ہے اور چین میں پچاس کروڑ کے قریب آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔
پانی کی آلودگی نہ صرف ترقی پذیر ممالک کا مسئلہ ہے بلکہ امریکہ جیسے ملک میں بھی ۳۲ سے ۴۷ فی صد آبی ذخائر کو آلودہ قرار دیا گیا ہے۔پانی کی آلودگی میں حضرتِ انسان کی مساعی کے علاوہ، آتش فشاں پہاڑوں کا لاوہ اور کالک اگلنا، سمندری کائی کا حد سے زیادہ بڑھ جانا، طوفانوں اور زلزلوں کو بھی آبی آلودگی کا بڑا سبب قرار دیا جاتا ہے۔
آبی آلودگی کے بارے میں دو اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں؛
۱۔۔۔’پوائنٹ سورس پلوشن‘۔۔۔Point source pollution
۲۔۔۔’ نان پوائنٹ سورس پلوشن‘۔۔۔Non-Point source pollution
اول یہ کہ کسی مقام پر کسی پائپ یا گڑھے کا پانی براہِ راست کسی آبی ذخیرے میں شامل ہوتا ہو اور دوسرے یہ کہ کثافتوں کی تھوڑی تھوڑی مقدار بہت بڑے رقبے سے پانی میں شامل ہوتی جائے۔۔۔ اس سلسلے میں زرعی مقاصد کے لیے زمینوں میں ڈالی جانے والی کھادوں سے خارج ہونے والی نائٹروجن کی مثال دی جا سکتی ہے کہ جو رفتہ رفتہ زیرِ زمیں پانی اور بارشوں کی وجہ سے دریاؤں میں بہہ کر آنے والے پانی کی آلودگی کا سبب بنتی ہے۔اسی طرح شہروں میں سڑکوں، سروس سٹیشنوں سے بہہ کر آنے والا پانی اپنے ساتھ شہر بھر کی کثافتیں سمیٹ کر دریاؤں کی آلودگی کا سبب بنتا ہے اور اسے دیگر اصطلاح میںurban runoffکہتے ہیں۔*۱۱
پانی کی آلودگی کو جانچنے کے لیے مختلف اشاریے استعمال کیے جاتے ہیں جن میں پانی کی تیزابیت، درجۂ حرارت، مختلف کیماوی مادے*۱۲،جراثیم *۱۳کی تعداد کا تجزیہ کیا جاتا ہے لیکن یہ سوال اپنی پوری شدت سے قائم رہتا ہے کہ پانی کو آخرآلودہ اور گنداکیا ہی کیوں جائے؟بعد میں جوہم اس کی صفائی ستھرائی کے لیے پریشان ہوں اور مختلف بیماریوں کا سامنا کریں، تو پہلے سے ہی کوں نہ اس مسئلے کا تدارک کیا جائے؟
آج سائنس کا معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ خلیہ ؛جو کہ زندگی کی بنیاد ہے ، وہ اپنے تمام افعال پانی کی موجودگی ہی میں انجام دے سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خلیے کی تقسیم جو زندگی کے تسلسل کی ضمانت ہے پانی کے بغیر ممکن نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے جسم میں وزن کے تناسب سے ۷۰ %کے قریب پانی پایا جاتا ہے۔
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ روئے زمین کا بیشتر حصہ پانی سے گھرا ہوا ہے لیکن اس پانی کا ۹۷ فیصد سمندر کے نمکین پانی پر مشتمل ہے جو کہ براہِ راست انسانی استعمال کے قابل نہیں ہے، بقیہ ۳ فیصد میں بھی بیشتر قطبین پر جمی ہوئی برف کی صورت میں پایا جاتا ہے اور صرف اعشاریہ ۴ فیصد پانی میٹھا پانی انسانوں کو استعمال کے لیے میسر ہے ۔
پاکستان میں زیادہ تر پانی ،%۶۹ قریب زراعتی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے،%۲۳ صنعتوں میں اور محض %۸گھریلو استعمال میں آتا ہے لیکن ہم اس پانی کو کتنا گندا کر چکے ہیں ، اس امر کا ہلکا سا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لاہور میں زیرِ زمین پانی ۷۰۰ فٹ کی گہرائی تک آلودہ ہو چکا ہے یعنی اب لاہور میں پینے کا صاف پانی حاصل کرنے کے لیے ۷۰۰ فٹ سے زیادہ گہرائی تک کھدائی کرنی پڑتی ہے۔
ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں کیا ہم ہر طرح کی آلودگی بڑی ڈھٹائی سے نہیں پھیلا رہے؟اور کیا اس کے مضر اثرات کا ہمیں اندازہ ہے۔
پانی کو اللہ کی نعمت کیوں کہا جاتا ہے ؟اس کا جواب بھی یہ ملتا ہے ؛
’’ہم نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔‘‘۔۔۔القرآن
مذاہب بھی صفائی کو نصف ایمان قرار دیتے ہیں تو کیا پانی کو آلودہ کرنا گناہ نہیں ہے ؟ کیا اس پر کوئی وعید نہیں آئی؟کیا ہماری مسجدوں میں جہاں اختلافی مسائل پر زور وشور سے تبلیغ ہوتی ہے کیا کسی نے اس نصف ایمان کے موضوع پر بھی کوئی تقریر کی کہ جس سے کوئی داخلی فرقہ تو کیا کوئی غیر مذہب بھی اختلاف نہ کرے گا۔