محمد حمید شاہد
(علی محمد فرشی کی تازہ کتاب’’محبت سے خالی دنوں میں‘‘ کامحمد حمید شاہد کے قلم سے دیباچہ)
اب تو وہ سب کچھ مجھے خواب جیسا لگتا ہے؛ ایک ایسے خواب کا سا جس میں دُھنکی ہوئی روئی کے گالوں کی طرح، میں ہوا میں اُڑ رہا تھا، یا پھر وہ میں نہیں تھا، میرے حصے کا وقت تھا جو لمحہ لمحہ مقطر ہو کر میرے اوپراس جادوئی بارش کی طرح برس رہا تھا جو وجود کی کچی مہک کو سارے میں اُچھال دیتی ہے ۔ کئی سال بیت گئے ہیں اس واقعے کو ، مگر لگتا ہے کہ تب کی ہر ساعت جیسے میرے وجود کا مستقل حصہ ہو گئی ہے ۔
میں اس روز حد درجہ اُکتایا ہوا تھا ۔ معمول کی تھکادینے والی مصروفیت اور شام کو دفتر سے یوں سرعت سے نکلنا جیسے سارا دن اس نے ہمیں اپنے دانتوں تلے چباکر حلقوم سے نیچے دھکیلا ہو ، مگر جو ہضم ہونے سے پہلے ،اندر سے باہر اُلٹ دیاگیا ہو؛ ایک بدبودار اُبکائی کی طرح۔ تب میں اِسلام آباد کے ماڈل ٹاؤن، ہمک میں رہتا تھا ، شہر کی دوسری طرف ۔ مجھے یاد ہے میں نے گاڑی کا شیشہ پوری طرح نیچے گرا لیا تھا اور اس تیز ہوا کو محسوس کر رہا تھا جو لگ بھگ میرے داہنے گال اور کان سے رگڑ کھاتی گزر رہی تھی ۔اسی جانب کی آنکھ ہوا کے دباؤ سے یوں پھڑ پھڑا رہی تھی جیسے ناچنے لگی ہو ۔تب اچانک مجھے لگا جیسے ایک دبیز سناٹامیری دوسری طرف موجودتھا ؛ برف کی طرح جما ہوا مگر کول تار کی طرح سیاہ ! اور اس نے میری بائیں جانب کی سماعت کو بالکل بند کر رکھا تھا ۔ ایک طرف تیز ہوا ، اس میں لپٹا ہوا ٹریفک کا شور اور دوسری طرف موت کا سا سیاہ جما ہوا سکوت ۔ اب میں آنک سکتا ہوں کہ اس سکوت میں( نہیں،بلکہ اُس تیز ہوا اور کان میں اُمنڈی پڑی آوازوں میں) بیس پچیس منٹ( نہیں نہیں ،صدی بھر)ڈرائیو کرتا رہا تھا اور جب گھر پہنچا تو ایک کتاب میری منتظر تھی :’’تیز ہوا میں جنگل مجھے بلاتا ہے‘‘ ۔ حددرجہ تازگی لیے نظموں کی ایک کتاب ۔ میں اس کتاب کی نظمیں پڑھ رہا تھا اور میرا وجود دھنکی ہوئی روئی کے گالوں کی طرح فضا میں اُڑ رہا تھا۔
یہ علی محمد فرشی کے تخلیقی وجود سے میرا پہلا معانقہ تھا ۔
میں نظمیں پڑھ رہا تھا ۔شاعری اپنا کام کر رہی تھی ۔ میری حسیات پوری طرح ساری کیفیتیں جذب کرنے کو چوکس تھیں، اس کچی مٹی کی طرح جو بوندبوند اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ تو یوں ہے کہ فرشی کی نظموں میں ایسا کچھ ہے کہ وہ آپ کو ویسا رہنے ہی نہیں دیتیں، جیسا کہ آپ پہلے ہوتے ہیں ۔ مجھے ماننے میں کوئی تردد نہیں ہے کہ میں نے اس کتاب کو پڑھا تو مجھے اپنا آپ بدلتا ہوا لگا تھا۔ میں اُٹھا اور رات ہی ایک اعتراف نامہ فرشی کو لکھ بھیجا تھا ۔
مجھے شاعری پڑھنے اور پڑھتے چلے جانے کا چسکا ہے ۔ جن اشعار پر بالعموم لوگ تیزی سے گزر جاتے ہیں میں اُن میں اُلجھ جاتا ہوں اور کبھی کبھی تو ایک مصرع ہی مجھے یوں کلاوے میں لے لیتا ہے کہ میں دنوں اُسے گنگناتا رہتا ہوں مگر’’تیز ہوا میں جنگل مجھے بلاتا ہے ‘‘ کی نظمیں مجھے کسی اور جہانِ معنی میں لے گئی تھیں ۔ محض معنی کی الگ کائنات میں نہیں ، کہ یہ تو چیزوں کو دیکھنے کا ، آوازوں کو سننے کا ،خوشبوؤں کو سونگھنے کا اوربدن کے لمس کا ایسا نیا قرینہ تھا کہ میں اس کی شاعری کی کائنات میں داخل ہوا اوراس کے سحر سے اب تک نکل نہیں پایا ہوں ۔
علی محمد فرشی کے تخلیقی وجود سے میری دوسری نگھی ملاقات اس زمانی عرصے میں رہی جب وہ اپنی طویل اُردو نظم ’’علینہ ‘‘ لکھ رہا تھا ۔عجب نظم تھی کہ جس میں ’’علینہ‘‘کا سیال امیج حیرت انگیز طور پر تبدیل ہوتارہتا، کبھی مکاں کی قید میں تو کبھی لامکاں پر، اور زمانہ اُس کی مرمریں برجیوں تلے کاغذی پیرہن سنبھالے دست بستہ کھڑا رہتا۔ تو یوں لگتا ہے کہ میں بھی، دست بستہ وہیں کھڑا ہوں جہاں اوپر ’’علینہ ‘‘ مابعد الطبیعیاتی نورانی چولا پہنے سارے میں اٹھلاتی پھرتی ہے ۔ کئی نظموں کی ایک نظم جس میں سرعت سے منظر بدلتے ہیں اورجو انسانی زندگی کو مختلف سطحوں پر رکھ کر دیکھتی ہے ۔ نظم کا ایک منظر اگر رواں زندگی پرنور اور خوشبو کی پھوار برساتا ہے تو کوئی اور منظر مراتب وجود کی تہوں میں ماورائیت کی رم جھم سے نئی معنویت کی روئیدگی کو راہ دے دیتا ہے۔ یوں ہے کہ یہ فرشی کی ایسی تخلیقی جست تھی جس نے اس کی نظم کے قرینے کو بالکل الگ اور نمایاں شناخت دی۔ ’’تیز ہوا میں جنگل مجھے بلاتا ہے‘‘ اور’’ علینہ‘‘کے علاوہ، ’’زندگی خودکشی کا مقدمہ نہیں ‘‘اور ’’غاشیہ‘‘ علی محمد فرشی کی نظم نگاری کے ایسے ہی پڑاؤ ہیں۔
’’محبت سے خالی دنوں میں‘‘ کا مسودہ میرے سامنے پڑا ہے ۔ فرشی نے انھیں بھی نظمیں کَہ کر میرے حوالے کیا ہے کہ میں ان کے بارے میں کچھ لکھوں، یہ جانتے بوجھتے کہ میں نثر میں شاعری کے لیے’’ نثم‘‘ کی اصطلاح کو رواج دینے کے جتن کرتا رہا ہوں ۔ خیر ، یہ معاملہ میں ایک طرف رکھتا ہوں ، اور اس تخلیقی تجربے کے مقابل ہوتا ہوں ،جو’’محبت سے خالی دنوں میں‘‘ کی ’’نظموں‘‘ کی صورت میں میرے سامنے موجود ہے۔ صاحب ،اگرچہ میں نے’’ نثم‘‘ والا معاملہ ایک طرف رکھ دیا ہے ،مگرمیرے ساتھ ہو یہ رہا ہے کہ میں انھیں جدید نظم کی اس راویت کے ساتھ رکھ کر نہیں دیکھ پا رہا ہوں جسے خود ہمارے نظم نگار دوست نے ایک نئے موڑ تک پہنچا دیا ہے ۔فرشی کا وتیرہ ہو چلا ہے کہ وہ اپنے تخلیقی عمل میں ایک گہرے جمالیاتی اور تہذیبی اسرار کو ساتھ لے کر چلتاہے ،ان ’’نظموں‘‘ میں بھی وہ اسی اسرار کو لے کر چلا ہے مگر کیا اس نے اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی نظم کے لیے مرتبہ لغات ہی کو برت لیا ہے؟ آپ اس کتاب کو پڑھیں گے تو محسوس کریں گے کہ، نہیں، اس بار کچھ نیا ہوا ہے ، نیا اور تازہ ،ایسا جو جدید نظم کے اُس قرینے میں نہیں ہوا تھا، ہو ہی نہیں سکتا تھا ۔
خیر ، میں نے وعدہ کر رکھا ہے کہ یہ ضمنی قضیہ میں کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھوں گا ، سوایسا ہی کرتا ہوں کہ اس وقت میں بالکل الگ دھج کی ’’نظموں‘‘ کے مقابل ہوں اور اپنی پوری حسیات اور وجود کی حضوری کے ساتھ ان کے مقابل رہنا چاہتا ہوں ۔ فرشی نے اس نئے تخلیقی تجربے میں، بظاہر سہل زبان استعمال کی ہے مگرزبان کو چھیل چھیل کر اور اس پر سے ساری سخت تہیں اورآرائشی آلائشیں اُتار کر اِسے اتنا شفاف بنا لیا ہے کہ دھنک رنگ شفافیت پڑھنے والے کی حسوں پر رنگ پچکاری کی صورت برس پڑتی ہے۔ یہ رنگ ہیں یا تیزاب کے چھینٹے کہ زندگی کی متعدد جہتوں اور تہوں کو کھدیڑتے اور اُدھیڑتے چلے جاتے ہیں :
’’ذرا سی دیر میں
پوری جنت تعمیر ہوگئی
آدھا جہنم بجھا دیا گیا
سات نئے آسمان کھول دیے گئے
زمین سے خدا کا فا………صلہ معلوم کر لیا گیا
اور میں اس عرصے میں
ایک بوسہ ہی تالیف کرسکا
ذرا سی دیر میں
میری بیٹی کا جیومیٹری باکس
جیولری باکس میں تبدیل ہوگیا
میرا بیٹاکوہ قاف سے پری اڑا لایا
میری بیوی کی دعائیں خدا کو چھونے لگیں
اور میں اس عرصے میں
ایک کتبہ ہی تصنیف کر سکا……‘‘ (ذرا سی دیر میں )
صاحب ،ایسا ہے کہ اِن فن پاروں کے ذریعے ہم پرہمارا زمانہ اور خود اپنا وجود ایک اور رُخ سے کھلتا ہے، ایسا رُخ جہاں سے وہ مقفل تھا، اُس آہنی قفل سے جسے کھولنا ہم کب کا بھول چکے ہیں۔ یہ عجب زمانہ ہے کہ ذرا سی دیر میں،ماں کی گود ویران ہو جاتی ہے اور زمین کی کوکھ آبادمگر طرفگی ملاحظہ ہو کہ یہی ذرا سی دیر اپنے بطن میں اتنی اطالت رکھتی ہے کہ وقت کی بِیل نیلے مکان کی آخری منزل پر جاپہنچتی ہے مگر ہماری نارسائی میں یوں جکڑی ہوئی ہے کہ ہم اس اِس عرصے میں ایک زخم ہی تخلیق کر سکتے؍سکے ہیں۔ ایک زخم جو رِستا رہتا ہے اوررِس رہا ہے۔ خالص شاعری کے اس تجربے میں ہم اس پیاس کو دریافت کرسکتے ہیں جو سات سمندر پی لینے پر بھی نہیں بجھتی، اور اس بھوک کو بھی کہ جس میں ساتوں آسمان کھالینے والے کی خواہش جوان رہتی ہے ، ایسے میں آٹھواں رنگ چاہیے ہوتا ہے کہ دھنک رنگ پوشاکیں کہاں راس آتی ہیں۔سو یہ شاعری وہ خواب ہے جو آٹھویں رات کے اختتام پر ایک اور جہت کو لے نکلتا ہے۔
فرشی نے اپنے اس تخلیقی شعری تجربے میں اپنی تہذیبی ، ثقافتی اور ادبی روایت کے علاوہ عالمی ادبی روایت سے بھی بہت کچھ اخذ کرکے متن میں بہت غیر محسوس انداز میں گوندھ دیا ہے ، یوں کہ اس کی معنویت میں گمبھیرتا اور کئی زمانوں تک پھیلاؤ کے امکانات بڑھ گئے ہیں ۔ حسن بانو کا اپنا حسن ہو یا اس کے سات سوال، کانے دیو کا خوف ہوجوماں نے اپنی مٹی میں چھپا لیا تھا یا اکیلی پری کی اداسی جو باپ نے اپنے دریاؤں میں بہا دی تھی۔آئساکے پسوؤں کے ساتھ زندگی کا پہاڑ کاٹنے والا ہو یا بیوسن اور باشوکی ساری تتلیاں اور پھول اپنے کفن میں چھپاکرغائب ہونے والا۔ خدا کے راستے پر چلتا ہوا اپنے آپ تک پہنچنے والا گوتم ہو یا رسول حمزہ توف کی وہ چڑیا جو یہ پروا کیے بغیر چہچہاتی ہے کہ درخت تلے سننے والا کوئی ہجوم ہے بھی یا نہیں۔ عہد عتیق کی وہ زندگی ہو جو کسی کی گود میں پڑی ساری عمر پستان چوستی رہی ،یہاں تک کہ بھٹنیوں سے خون جھڑنے لگا تھا یاتاریخ کی تاریکیوں کی وہ نوخیز کنواری ضرورتیں جنھوں نے ایسے لاتعداد ناجائز بچوں کو جنم دیا ہے جو ’’فیٹ مین‘‘ اور ’’لٹل بوائے‘‘ سے کہیں زیادہ ستیا ناسی نکلے۔ فرشی نظم کہتے ہوئے زمانوں ،زمینوں اور تہذیبوں کے مطالعے کو ایک ایک سطر میں یوں تصویر دیتا ہے کہ وہ ہمارا مشاہدہ ہو کر ہمارے لہو میں اُترنے لگتا ہے ۔
فرشی کے شعری سروکاروں میں موجود کا منظر پوری طرح دخیل ہے۔ اِسی منظر نامے سے اُس نے روحِ عصر سے معاملہ کیا ہے ۔ وہ بتاتا ہے کہ آج کا انسان اس بچے کی مانند ہے جس کی ماں مٹی کی گود میں سو رہی ہے، جس کے سرھانے پیپل کا پیڑ ہے۔ آج کا انسان اپنی ماں کے خوابوں میں دوڑتا پھرتا وہ لڑکا ہے جو پیڑوں کے جھرمٹ سے نکل کرکہتا ہے: دیکھو میں نے کتنی جلدی ایٹم بم بنا لیا ہے۔رواں زمانے کا یہ نادان آدمی ، بلکہ یوں کہیے اپنی لامحدود خواہشات کے لیے ہونکتا ،ایٹمی پنجرے میں بند آدمی، آدمی کہاں رہا ہے۔ فرشی کی شاعری روایت کے پنجرے سے باہر نکل کر ایسا بیانیہ متشکل کرتی ہے جس میں اپنی جون میں نہ رہنے والا آدمی ،اس چڑیا کا سا ہو جاتا ہے جو پنجرے کی چھت سے بھی قید کی دوسری جانب نہیں دیکھ سکتی جبکہ پنجرے کے اندراس کے پر اور باہر اس کے گیت بکھرے ہوئے ہیں۔
علی محمد فرشی نے اگر ’’علینہ‘‘ میں مرمریں برجیوں، نقرئی اسموں،سرخ بوسوں، سرداقراروں، درد کی نیلگوں راکھوں، دیدار کی شربتی دھوپوں،شش دری ممٹیوں،سونے چاندی کی دو روٹیوں،بھوک کے بگولوں،زیر آب تیرتی مرگ مچھلیوں،گردسے گِل میں تبدیل ہوتی تمناؤں، گھنی گاڑھی سیاہ راتوں،کم خواب گھاٹیوں ،لفظوں کی صندل خوشبوؤں ،سوت کی انٹی میں تلتے بدنوں،دردیلے دنوں اور الو ہی الاؤ سے ایک فضا بنائی تھی تو اس کتاب تک آتے آتے ، وہ بالکل مختلف بیانیے کی تشکیل کے لیے تیار ہو چکا تھا۔’’ محبت سے خالی دنوں میں ‘‘ اسی نئے شعری بیانیے کا مظہر ہے ۔’’قید سے لبالب پنجرہ ‘‘ سلسلے کے دانش قتلوں میں اگر قید اور پنجرہ اس نئے شعری بیانیے کی کنجی ہیں تو کتاب کے پہلے حصے میں ایک اور سطح پر ٹائم اور اسپیس یہی فریضہ سر انجام دینے کے لیے اہم ہو جاتے ہیں ۔ جی ، یہ میں اس کے باوجود کَہ رہا ہوں کہ شاعر کا خیال کسی ایک مقام پر مقیم رہتا ہے نہ ایک زمانے کا ہو رہتا ہے ۔ یہ تلون دراصل وہ تخلیقی حربہ اور توفیقات کا نادر علاقہ ہے جو زمانوں اور زمینوں کے بیچ سرعت سے سفر کرتے ہوئے ہمارے شاعر پر زندگی کی تفہیم کے نئے دریچے کھول دیتا ہے ۔ یوں میں بہ اصرار کَہ سکتا ہوں کہ وہ کتاب جسے آپ پڑھنے جارہے ہیں ، شاعری کی نئی کتاب ہے۔ خود ہمارے نظم نگار کا اگلا قدم اور اس کے اپنے پہلے کے شعری تجربے سے بہت مختلف ۔ میں پوری ذمہ داری سے کَہ سکتا ہوں کہ نثرمیں شاعری کے باب میں بھی یہ کتاب تازگی اور نئے پن کی پیامبر ثابت ہو گی۔