(افتخار احمد)
آپریشن رد الفساد کی پہلی کڑی آپریشن ضربِ عزب 15 جون 2014 کو شروع ہوا جس کے نتیجے میں دہشت گردی میں واضح کمی دیکھی گئی۔ آپریشن کی
کا میابی کا اندازہ ان اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی ادارہ Institute for Economics and Peace کی جانب سے مرتب کی گئی Global Terrorism Index (GTI) میں پاکستان کی رینکنگ 2014 میں تیسری، 2015 میں چوتھی جبکہ 2016 میں تیرھویں نمبر پر رہی۔اسی طرح سویلین ہلاکتوں میں 2014 میں 40 فیصد، 2015 میں 65 فیصد جبکہ 2016 میں 74 فیصد کمی دیکھی گئی۔ نیشنل ایکشن پلان بھی دہشت گردی کو روکنے اور مزید نقصان سے بچانے کی ایک کڑی تھا۔ اس پلان پر تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں جو اس با ت کا ثبوت تھا کہ قومی سطح پر تما م دہشت گردوں سے بغیر کسی رعایت کی آہنی ہاتھوں سے نمٹاجائے گا۔ لیکن یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخرنیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے دو سال گزرنے اورآپریشن ضرب عزب کی کامیابی کے بھرپور دعووں کے باوجود وہ کیا وجوہات ہیں جن کے باعث ہمیں ایک بار پھر آپریشن “ر دا لفساد ” کی ضرورت پیش آئی ہے۔
جس ملک میں انتہاء پسندی اور فرقہ واریت عروج پر ہو اور مذہبی اور سیاسی رہنما کہہ رہے ہوں کہ ان کی مرضی کی قانون سازی کی جائے اور یہ مطالبہ کیا جا رہا ہو کہ قانون سازی سے مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ واریت کے الفاظ حذف کردیئے جائیں، تو ایک عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا ہم واقعی اس عفریت سے چھٹکارا پانا چاہتے بھی ہیں یا نہیں؟” رد” کے معنی مسترد کرنے کے ہیں، جبکہ
” فساد ” سے مراد ایسے عوامل ہیں جو معاشرے میں ناہمواری اور افراتفری کا باعث بنیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فساد کو فساد تسلیم کیئے بغیر اسے رد کرنا ممکن ہے ؟ جب ہم اپنی قانون سازی میں ابھی تک فرقہ واریت اور مذہبی انتہاء پسندی جیسے الفاظ کو شامل کرنے سے ہی گھبراتے ہیں تو ہم اس فساد کو کیسے ” رد ” کریں گے؟ ہم ایک آپریشن پہلے بھی کر چکے ہیں، جو ہمارے نزدیک انتہائی کامیاب رہا، مگر ہمارا دشمن آج بھی ہمارے کسی بھی شہر میں، کسی بھی مقام کو اپنے مکروہ عزائم کا نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتاہے۔ہم اپنے اسی ہزار سے زائد شہری گنوا کر بھی آج تک برائی کو برائی کہنے سے گریزاں ہیں ۔ سیاسی جماعتیں کبھی ووٹ لینے کی خاطر کالعدم تنظیموں کے افراد کو ساتھ ملانے میں ججھک محسوس نہیں کرتیں تو مذہبی رہنما اپنی دوکان چمکانے کے لئے انتہاء پسندی اور فرقہ واریت پر آنکھیں بند رکھنا چاہتے
ہیں۔
نیکٹاکے ایک سابق افسرکے مطابق ملک میں131ایسے مدارس ہیں جن کےmillitant groups کے سا تھ تعلقا ت ہیں مگرکیو نکہ ان کو اسمبلی میں بیٹھنے وا لو ں کی سپو رٹ حا صل ہے اس لیے ان کے خلا ف کو ئی کا رو ائی نہیں ہو سکتی ۔اسی طرح جب ان مسائل کے حل کے لیے غیر ملکیوں کو واپس ان کے ملک بھیجنے کی بات ہوتی ہے تو کچھ سیاسی عناصر اس کو زبان اورنسل کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔
یہ بات باعث اطمینا ن تھی کہ پاکستان میں سیاستدانوں اور فوجیوں نے بیٹھ کر پاکستان کے مستقبل کو تباہی سے بچانے کے لیے ایک فارمولا تیار کیا جس کو نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا ۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاستدان محض اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ فوجی عدالتیں کب ختم ہوں گی۔ یہ کتنے افسوس کا امر ہے کہ فوجی عدالتوں کی حقیقت کو تسلیم کرنے والے آج اپنے ذاتی مقاصد کی بنا پر قومی سطح پر فیصلہ نہیں کرپارہے ۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے دوران یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی کہ ہمارا موجودہ قانونی ڈھانچہ اتنا بوسیدہ ہو گیا ہے کہ اس کی موجودگی میں انسانوں کو قتل کرنے والوں کو سزا دینا بھی ناممکن ہوگیا ہے۔ پیسے کے بل بوتے پر اچھا وکیل کر کے کوئی دہشت گرد بھی رہا ہوسکتا ہے۔ اس خرابی کو درست کرنے کے لیے بھی پچھلے دوسال میں ایسا کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا جس کی بنا پر فوجی عدالتوں کی ضرورت ہی ختم ہو جائے ۔ فساد کو ختم کرنے کے لیے موجودہ چیف آف آرمی سٹاف نے اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ دہشت گردوں اور انتہاء پسندوں کو دوبارہ سر اٹھانے نہیں دیا جائے گا اورآپریشن ردالفساد کے تحت بلاامتیاز دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ لیکن اسی ضمن میں اگر کالعدم تنظیموں کے حامیوں تک پہنچنے کے لئے مدرسوں کی جانب رخ کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تو ان کے منتظمین واضح طور پر کہتے ہیں کہ ان کی انکوائری کی اجازت نہیں دی جائی گی۔اس صورتحال میں آپریشن ردالفساد کیسے کامیاب ہو گا سمجھ سے بالاتر ہے۔
ہم دو سالوں میں کچھ نہیں کرسکے ۔ کیا ہم اگلے انتخابات میں جانے سے پہلے اس دہشت گردی پر قابو پا لیں گے؟ کیا ہماری گلیاں، محلے خون کی ہولی کھیلنے والوں سے محفوظ ہوجائیں گے۔ کیا ماضی کر برعکس بعض سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خوف کے بغیر بھرپور انتخابی مہم چلا پائیں گی؟ جب دارلخلافہ میں بیٹھ کر ایک فرقے والے دوسرے فرقے والے کو کافر کہتے ہوں اور تمام ریاستی ادارے کاروائی کرنے سے قاصر ہوں، جب قانون کے برخلاف کفر کے فتوے جاری کرنا معمول ہوں، جب دہشت گردوں سے روابط رکھنے والے مدارس کے خلاف کاروائی کرنا بھی ریاستی اداروں کے بس میں نہ ہوں ،جب سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے سیاہ کو سیاہ کہنے سے قاصر ہوں ، جب ریاست اداروں کے نزدیک اچھے اور برے دہشت گرد کی تقسیم آج بھی موجود ہو تو ” فساد ” کا ” رد ” ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔
بشکریہ مصنف اور روزنامہ جنگ