(ترجمہ: جنیدالدین)
جب زادی اسمتھ نےاحمد ناجی کی تصویر دیکھی تو اسے لگا کہ وہ کسی قسم کا جنگلی ہو گا. (ایک وجیہہ شکل، برٹ رینالڈ کی مونچھیں رکھے، نہرو شرٹ میں ملبوس جو بآسانی آپ کو مسکرانے پہ مجبور کر سکتا ہے اور آپ بھی، ایسا تب ہوا جب اس نے اسے ایک تقریب کے دوران دیکھا) اس کی نثر نگاری میں جنسی ہیجان کے متعلق تحریر کے ایک چھوٹے سے اقتباس نے ایک شخص کی دھڑکن بڑھا دی تو دوسرے کے بقول اس کی کڑک اور رعب دار تحریر سے زندان کے ماحول کی جھلک نظر آتی ہے.
اسے برابری کی سطح پر لانا کافی مشکل ہو جاتا ہے جب آپ ایک معصوم سی شکل والے شخص کو ایسے فقرات کہتے محسوس کرتے ہیں اور خاص طور پر جب آپ سبز چائے بھی پی رہے ہوں.
بین الاقوامی سطح پر ناجی کی یہ مقبولیت اس کے ناول “زندگی کے استعمال” جس کی وجہ سے اسے جیل بھی دیکھنا پڑی، کی بدولت ہے جس میں جنسی مواد اور نشہ آور اشیاء کی ترغیب دلانے کی باتیں کی گئی ہیں. ایسی چیزوں کو مصری معاشرے میں ممنوع کہا جاتا ہے. وسطی مصر کے درمیان, دریائے نیل کے کنارے اپنے اپارٹمنٹ میں بیٹھے ناجی اپنی حالت زار اور اس مواد کا بتا رہے تھے جس کی بدولت انہیں یہ تمام تکالیف اٹھانا پڑیں.
وجودیت، ماورائیت اور سماجی تنقید کا نمائندہ ایک ایسا نوجوان جسے بقول احمد ناجی شہر میں ہونے والے پے در پے حوادث سے پرورش ملی ہے.
سماجی طور پر گستاخانہ مواد سے مشت زنی، طلسماتی اور پورنوگرافی تک یہ کتاب ایسے ہی باغیانہ خیالات سے مزین ہے. بشام کے ذاتی خیالات بھی اسی طرح ہیں جو اکثر ان کی ذاتی زندگی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں جیسے معمر خواتین کیساتھ خلوت، خواجہ سراؤں سے دوستیاں اور شراب و نشہ آور اشیاء کا استعمال.
ناجی کے بقول جنسی تعلق اور نشہ قاہرہ کی زندگی کا جزو بن چکا ہے, اس کے باوجود وہ اس بات پر مصر ہیں کہ یہ چیز انکی کتاب کا حصہ نہیں ہیں.
اس کے مطابق یہ ناول قاہرہ کی تاریخ, اسکے اندر سماجی تبدیلیوں اور کافکائی فکر کے حامل افراد اس میں اپنی لئے کیا طمانیت محسوس کرتے ہیں پر مشتمل ہے.
اکتیس سالہ ادیب کو پہلی دفعہ اس مشکل کا سامنا تب کرنا پڑا جب ایک ریاستی اخبار میں اس کا کچھ حصہ چھپا. یہ درخواست ایک مرد درخواست گزار کی طرف سے تب جمع کرائی گئی جب اسے اس کی بیوی نے ناول کے اندر لکھے جنسی طور پر ہیجان خیز فقرات کا بتایا کہ کیسے اسے پڑھ کر اسکی دھڑکن بڑھی اور بلڈ پریشر کم ہو گیا تھا.
جنوری 2016 میں ناجی کو بری کر دیا گیا. لیکن ایک مہینے بعد ہی اعلئ عدالت نے اسے ایک ہزار یورو جرمانہ اور دو سال قید سزا سنا دی. یہ مصری قوانین کے تحت سنائی جانیوالی سب سے بڑی سزا ہے جو عوامی اخلاقیات کو چھیڑنے پر دی جاتی ہے.
ناجی کے وکیل محمود عثمان کے مطابق ایک کمزور عدالتی نظام ایسی سزا کا مؤجب بنا ہے.جو کچھ ہم نے اپنے دفاع میں کہا اسے نہ تو دھیان سے سنا گیا اور نہ ہی بات کرنے کی زحمت گوارا کی گئی حتئ کہ عدالت نے جنرل بک انسٹیٹیوٹ کے سربراہ کو بھی سننے سے انکار کر دیا.
انہوں نے نصف گھنٹہ میں فیصلہ سنا دیا. جسے عدالت میں دہرانا بھی گوارا نہیں کیا گیا. ہمیں اس فیصلے کی اطلاع ایک سکیورٹی ادارے کی طرد سے دی گئی. ناجی پہلا مصری ادیب ہے جس کے ناول کا کچھ حصہ اخبار میں چھپنے پر اسے ایسی سزا سنائی گئی.
آخر پورے تین سو دن جیل میں گزارنے کے بعد 22 دسمبر کو اسے آزاد کر دیا گیا. رہائی کیبعد ناجی اپنے ساتھ جیل میں پیش آنے والے تجربات کو بتانے سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں, سوائے اس کے کہ جیل میں انکی ملاقات ایک انقلابی عبدالفتاح سے ہوئی جس سے اس نے ادب کے بارے بات کی.
جیل فقط جیل کے کچھ نہیں, اس نے آہستہ سے کہا.
بطور ایک باغی کے اس طرح اس نے بین الاقوامی سطح پہ اپنی جگہ بنائی ہے. اسی صورتحال کا سامنا جوائس نے بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں کیا تھا اور تب ادھر بھی ایسی صورتحال درپیش تھی اور ایسا ہی امریکہ میں جب گنس برگ اور گریاچ کو پڑھا جاتا تھا. یہ وہی الفاظ ہیں جو لوگ گلیوں اور بازاروں میں استعمال کرتے ہیں لیکن جب بات ادب پر آتی ہے تب وہی احتجاج پہ اتر آتے ہیں. جب میں یہی خود دیکھوں تو خود کو ایسا کرنے سےکیونکر روک سکتا ہوں.
ناجی پہلا لکھاری نہیں جو جیل گیا لیکن اخلاقیات کے تناظر میں وہ پہلا ہی ہے. پہلے پہل جنہوں نے جیل دیکھی انہیں مذہبی یا سیاسی طور پر قید کیا گیا تھا جن میں سے معتبر ترین ثناءاللہ ابراہیم تھے جنہیں ساٹھ کے عشرے میں جمال عبدالناصر نے جیل میں ڈالا تھا.
یہ ابراہیم ہی تھے جنہوں نے اس موقع پر ناجی کا ساتھ دیا اور اس کے حق میں عدالتوں میں پیش ہوئے. وہ ان چھ سو لکھاریوں اور صحافیوں میں بھی ایک تھے جنہوں نے اسکی رہائی کیلئے دستخطوں والی مہم میں حصہ لیا.
جونہی ناجی کے مقدمہ کو شہرت ملی تو اس کے حق میں بین الاقوامی آوازیں بھی اٹھائی گئیں جن میں فلپ راتھ, زادی اسمتھ, ووڈی ایلن اور پال اسمتھ شامل ہیں.
ناجی اس ساری مشہوری سے لاپرواہ ہے. اس دوران اس نے کہا کہ اس نے زادی اسمتھ کی عربی ترجمہ میں ایک کتاب پڑھی تھی جب اس نے اسے گرفتار نہیں کیا گیا تھا.
یہ اس بات کا شارہ تھا کہ مجھے اپنے ادب پر زیادہ توجہ دینی چاہیے. جیل جانے سے قبل میں فقط ایک صحافی تھا اور یہ خاصا مشکل تھا کہ خود کو اس طرف لیکر آؤں. اب یہ آسان ہے اور لگتا ہے کہ اب میری عادت بن چکا ہے. میں روزانہ دو گھنٹے فکشن لکھتا ہوں.
اس ہفتہ ایک اور پبلشر نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ناجی کے افسانوں کی کتاب چھاپنے کا فیصلہ کیا.میرٹ پبلشنگ ہاؤس کا مالک ہاشم اس ضمن میں کسی تعارف کا محتاج نہیں. وہ کہتا ہے اسکے آزادی اظہار اور ادب کے نظریات کی وجہ سے اس نے اسکی کہانیوں کو چھاپنے کا فیصلہ کیا. دماغ اور خیالات پہ قدغن نہیں لگانی چاہیے. وہ کہتے ہیں اگرچہ ناجی کی زبان زیادہ ہی تیز ہے لیکن یہ الف لیلئ سے زیادہ تیز نہیں ہو سکتی.
اگر آپ ناجی کی کتاب دیکھیں اور دیگر عربی و اسلامی ثقافت کی کتابیں دیکھیں تو آپ کو پتہ فرق پتہ چل جائے گا.اسی دن ناجی نے اس راز سے بھی پردہ اٹھایا کہ جیل میں قید کے دوران اس نے دوسرا ناول لکھنا شروع کر دیا تھا جو کہ ایک چوتھائی مکمل ہو چکا ہے. یہ کس بارے ہے اس کا پتہ تو نہیں چل سکا لیکن ہم اس لحاظ سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ جیل میں اس نے کونسی کتابیں پڑھیں.میں نے چائنہ میویل کی شکل میں نیا ناول نگار دریافت کیا ہے.
وہ اپریل میں دوبارہ عدالت میں پیش ہوں گے اور اس بات کے واضح امکانات ہیں کہ انہیں دوبارہ جیل بھیج دیا جائے گا. اگر وہ رہا ہو گئے تو اسی سال کے اختتام تک واشنگٹن یا ہانگ کانگ منتقل ہو جائیں گے.
ناجی نے انکار کیا کہ اس کے قید ہونے میں سیاسی وجوہات کا بھی کچھ عمل دخل ہے. میں ایسا نہیں سوچتا. میں نے ایسی سازشوں کے بارے میں سنا ہے لیکن ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے میں ان کو رد کرتا ہوں.
کچھ ارکان پارلیمان بھی اس کے لئے عدالت میں پیش ہوئے اور قانون بدلنے کی خاطر کوشش کی لیکن اس میں کامیاب نہیں ہو سکے. بطور ایک لکھاری میرے پاس کوئی پیغام نہیں ہے. ہاں میرے پاس کچھ سوالات ہیں. میں وہ نہیں جس کے بارے مصر میں کہا جاتا ہے کہ اس پہ کوئی عقدہ وا ہو چکا ہے یا کوئی دانشور.
اصل متن کا لنک: بشکریہ دی گارڈین، لندن