اخلاقیات کی قدروں کی گراوٹ کا دوسرا نام سیاست ہے
از، شیخ محمد ہاشم
مانا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک ذہنی مریض ہے،مانا کہ مودی بھی ذہنی مریض ہے،مانا کہ دونوں کا مطمع فکر دُنیا کو اندھیروں کی جانب دھکیلنا ہے ،یہ بھی مان لیتے ہیں کہ دونوں نے سیاست میں تشدد کا رحجان روشناس کرایا،ہمیں شب وروز ا س کی مذمت کرتے رہنا چاہئیے،لیکن اخلاقی تقاضا تو یہ ہے کہ کسی بھی برائی کی مذمت ہم اُسوقت تک نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم خود اُ س گند میں لتھڑے ہوئے نہ ہوں ۔ اسلامی تواریخ میں یہ درس ہمیں لاتعداد مقام پر واقعات کی روشنی میں دیئے جا چکے ہیں لیکن ہم نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ سیکھنا نہیں ہے، بلکہ انگلی دوسرے کی جانب رکھنا ہے، باقی انگلیاں جو ہماری جانب ہماری کوتاہیوں کی نشاندہی کر رہی ہوتی ہیں اُس سے چشم پوشی ہمارا شعوری مزاج بن چکا ہے۔ قاری یہ سوچ رہے ہونگے کہ یہ کیسی باتیں کر رہا ہے ،ہم کوئی ڈونلڈ ٹرمپ تو نہیں ہیں ،ہم کوئی مودی تو نہیں ہیں ،نہ ہی ہم ان دونوں کی طرح کافر ہیں ؟ جی بالکل ۔۔نہ ہی ہم ٹرمپ ہیں ا ور نہ ہی ہم مودی ہیں ، اَلحمدُاللہ ہم مسلمان ہیں ۔لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ہم مودی اور ٹرمپ کی طرح ذہنی مریض نہیں ہیں ،کیا ہم تشدد سے گریزاں ہیں،کیا ہم اخلاقی پسماندگی کی قبروں کے مردہ مکیں نہیں ہیں،کیا ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی اُن حرکتوں کے مر تکب نہیں ہوتے جو اسلام کی تعلیم اور اس کی تربیت کے خلاف ہے؟تو پھر ہمیں دوسروں کو کافر کہنے کی کیا ضرورت ہے؟
چلیں اسلامی تاریخ کو ایک جانب رکھ دیتے ہیں جس طرح ہم نے قران کو جزدان میں بند کر کے ایک طرف رکھ دیا ہے،چلیں اسلامی تربیت کو بھی ایک جانب رکھ دیتے ہیں جو ہمیں واعظ کے ذریعے مختلف مسجدوں سے مختلف انداز میں دی جا رہی ہیں۔ ایک دوسرے کی مخالفت میں پستی کی گہرائیوں میں غوطے لگانا ہمارا معمول ہے ہم دوسروں کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کے خلاف اپنی بدبودار زبان سے نازیبا اور مغلظات کلمات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے اُنھیں اپنے الفاظوں سے بے لباس کرتے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے ہیں ۔ مزید یہ کہ ایک مدھ ماتا نوجوان اپنے خون کی گرمی اور جوش واُبال سے بے قابو ہوکر وحشت کا شکار ہو تا ہے اور طویل العمر ی کا خیال نہ رکھتے ہوئے بھی منہ پر گھونسہ رسید کر دیتا ہے۔پھر ستم بالائے ستم ملاحظہ فرمایئے کہ دونوں گروہ کے حمایتوں کے جانب سے اپنی ذہنی پسماندگی کا ڈھٹائی سے مظاہرہ کیا جاتا ہے ،اپنے حمایت یافتہ کو تحفظ بخشنے اور تشدد کو فروغ دینے کے لئے ایسی ایسی احمقانہ دلیلیں پیش کی جاتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ اُس پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم سے بہترکوئی دانشمند انہ جواب دینے والا اس روئے زمین پر موجود نہیں ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا دُنیا میں موجود مذاہب میں سے کون سا مذہب ہے جو ایسی بد اخلاقی اور ذہنی پسماندگی کی حمایت کی اجازت دیتا ہے ؟
حالیہ دنوں میں جاوید لطیف اور مراد سعید کے مابین وقوع پزیر ہونے والا جنگ وجدل ،عدم برداشت اور پر تشدد معاملہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ تو پاکستانی معاشرے کی اُن جیتی جاگتی وبولتی تصاویر میں سے ایک تصویر ہے جس سے یہ بدنصیب عوام پاکستان کی ہر راہ گزر، ہر گلی و کوچہ میں چشم پُر آب سے دیدہ افروز ہوتی ہے بلکہ نبرد آزما بھی رہتی ہے،فرق یہ ہے کہ یہ واقعہ ایوان میں ہوا جسے بعض لکھاری مقدس ایوان لکھتے ہیں،مگر بد قسمتی سے ایسا ہے نہیں ،ہماری بھی خواہش ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں کا ایوان مقدس ہو۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی معاشرے میں آپ کو قدم قدم پر تقدس کے نشاں ملیں گے، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بے شمار تقدس کی کہانیوں میں سے ایک کہانی یہ ہے کہ ہر گروہ (پارٹی) کا لیڈ ر کارکنان کے نزدیک مقدس حیثیت رکھتا ہے۔ گروہ(پارٹی ) کے لیڈر اور کارکنان کے درمیان رومانس چل رہا ہوتا ہے۔ ایسے رومانس کا معاملہ پیری مریدی تک تجاوز کر جاتا ہے۔ اس سیاسی رومانس کی دیدہ دلیری یہ ہے کہ کارکن اپنے محبوب کے لئے ہر قسم کی اخلاقی حدوں کو پار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا ،جس کی تازہ مثال مراد سعید اور جاوید لطیف ہیں ۔مراد سعید نے جاوید لطیف کے منہ سے نکلتی اُس بدبوکو محسوس نہیں کیا جو اس کی بہنوں کے بارے میں نکل رہی تھی بلکہ مرادسعید کو اپنے لیڈر کو غدار کہنا طیش میں آنے کا سبب بنا ،یہ نقطہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سیاسی رومانس کا معاملہ تقدس کی حیثیت رکھتا ہے ۔”اس گھٹیا شخص نے ہمارے لیڈر کو غدار کیوں کہا”(یہ مراد سعید کاپہلا بیان تھا)۔جاوید لطیف نے بھی اپنے لیڈر کے تقدس اور اپنے محبوب کے رومانس میں ردعمل کا اظہار اخلاقی پستی سے کیا ۔
پاکستان کے چاروں صوبوں کے ایوانوں کی جانب آپ نظر اُٹھا کر دیکھ لیں آپ کو جاویدلطیف اور مراد سعید جیسے لاتعداد ممبران ایوان کا حصہ ملیں گے ،جن کا مقصد عوام کی خدمت گاری کے بجائے اپنے محبوب کی خاطرشائستگی کو بالائے طاق رکھ کر اپنی پست تربیت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ توپھر سوال یہ ہے کہ اخلاقیت کی پستی کے شاہکار لا تعداد ممبران کی موجودگی میں عوام اپنے ہی نمائندوں کے ایوان کو مقدس ایوان کیوں کر پکاریں؟پھر ایوان مچھلی بازار نہ کہلوائے تو کیا؟
تمام مذہبی علمائے اکرام متذکرہ واقعے کو مذہب سے جوڑنا مناسب نہیں سمجھتے ہونگے وہ اس واقعہ کو اور اس قسم کے بے شمار واقعات کو سیاسی قرار دیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی کی ماں ،بہن ،بیٹی کو الفاظوں کے ذریعے برہنہ کرنا اور پھر تشدد کرنا اور تشدد کو فروغ دینا ،لیڈروں کی پوجا کرنا، اسلامی تعلیمات کے منافی اعمال نہیں ہیں ؟ اور اگر یہ اعمال اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں تو کیا ایسے افراد کفار کے زمرے میں نہیں آتے ہیں؟ میرے نزدیک یہ واقعہ دینی و دنیاوی تعلیم وتربیت اور اُس کے اقدار و روایات کی دھجیاں بکھیر تا نظر آرہا ہے، اس لئے اس معاملے کومذہب کی روشنی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، کیونکہ اخلاقیات کی سر بلندی ہی دین اسلام کی پہچان ہے۔ اگر ہم شائستگی اور اخلاقیت سے بے بہرہ ہیں تو ہمیں مسلمان کہلانے کا بھی کوئی حق نہیں ۔رہا سوال سیاست کا تو سیاست کو کبھی خدمت کا درجہ حاصل تھا، لیکن ہماری سر زمین پر کئی دہائیوں سے سیاست کا بیانیہ بدل چکا ہے ۔اب اخلاقیات کی قدروں کی گراوٹ کا دوسرا نام سیاست ہے ،اسی لئے ہر گراہوا عمل سیاست کی سر بلندی کا عمل سمجھا جاتا ہے۔