ارد فکشن کا باتھ ٹب

ایک روزن لکھاری
مشرف عالم ذوقی

(مشرف عالم ذوقی)

کیا نقاد کو ریجکٹ کرنا ضروری ہے؟

کیا یہ اردو فکشن کی تنقید کا ’آخری موسم‘ ہے،چونکیے مت ،اس میں چونکنے جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ آخری موسم، کہیے یا گنتی کے چند روز، یہ افسوس کا نہیں، حیرت کا مقام ہے کہ آخر ایسا سوچنے کی وجہ کیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ماہنامہ شاعر میں ایک مکالمہ کے تحت میں نے دریافت کیا تھا کہ وہ افسانہ نگار جو بیس تیس برس قبل اردو فکشن کے افق پر طلوع ہوئے تھے، اتنی دہائیاں گزارنے کے بعد بھی انہیں نوجوان نسل کہنے کا جواز کیا ہے؟
اس مکالمہ پر کافی باتیں ہوئی تھیں،جو اب صاف تھا،اس لیے جواب آسانی سے لوگوں کی سمجھ میں آگیا۔ یعنی اردو میں مایوسی کی حد تک نئے قلمکاروں کی عدم شمولیت۔
دکھائیے، نئی نسل کہاں ہے؟
نئی نسل ہے ہی نہیں،گنتی کے دو چار لکھنے والوں کو نئی نسل کے نمائندے نہیں کہا جاسکتا۔ کون پڑھ رہا ہے اور کون لکھ رہا ہے۔کئی رسائل تاخیر سے محض اس لیے شائع ہو رہے ہیں کہ کہانیاں نہیں ہیں۔سرکاری رسائل محض خانہ پری کرنے پر مجبور ہیں۔
اس لیے، اس سوال سے آنکھیں مت چرائیے کہ کیا یہ فکشن کی تنقید کا آخری موسم ہے۔ اردو میں کہانیاں ہی نہیں ہوں گی تو نقاد کہاں سے پیدا ہوں گے۔
**
یہ ہندستان کی صورتحال ہے۔ پاکستان کی صورت حال ذرا مختلف ہے۔ غور کیا جائے تو پاکستان کی ادبی صورتحال کم و بیش وہی ہے جو ہمارے یہاں ہندی کی ہے۔ گو، نئی نسل کے گم ہوجانے کا ماتم وہاں بھی منایا جا رہا ہے۔ (دیکھئے اداریہ ہنس، فروری ۲۰۰۲ء) لیکن ہندی میں فضا ابھی اتنی سنگین نہیں ہوئی ہے۔ پبلشر سے لے کر روز روز نئے لکھنے والوں تک۔صرف نئے لکھنے والوں تک نہیں بلکہ بے حد اچھا لکھنے اور تیزی سے ادب میں اپنی جگہ مضبوط کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ پبلشر پیسہ بھی دے رہے ہیں اور نام بھی۔ ہندی کے زیادہ تر ادبی نئے رسائل نئے لوگوں کے لیے خصوصی شمارے کا بھی اعلان کرتے رہے ہیں۔ ان کا فائدہ لکھنے والوں کو ہوا ہے۔ پاکستان کے موجودہ ادبی منظرنامے سے بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے,مایوسی کی فضا صرف ہندستان میں پیدا ہوئی ہے, اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے، بہت سی وجوہات میں سے ایک، (میں کھل کر کہنے پر یقین رکھتا ہوں)، نقاد کا اپنی سطح پر بے ایمان ہونا بھی ہے۔ (کچھ وجوہات کے بارے میں، ہم آگے سوال اٹھائیں گے)۔ یعنی لا شعوری طور پر ہمارا نقاد ایک ایسے اردو معاشرہ کی پرورش کر رہا تھا، جہاں قاری، زبان اور اردو کے ڈوب جانے کا خطرہ محسوس کیا جانے لگا تھا, لیکن یہ خطرہ اچانک چند ہی برسوں میں ایک ناقابل یقین مگر تکلیف دہ سچائی بن کر بھی سامنے آئے گا، یہ کس نے سوچا تھا اور ذرا غور کیجئے تو چند ہی برسوں میں وارث علویوں کی شرارتیں اپنا کام کر گئی تھیں۔نئی نسل کو جب اردو معاشرہ میں اپنی جگہ نظر نہیں آئی تو وہ ہندی کی طرف راغب ہوگی۔ رحمانیسے زیب اختر، شین حیات سے حسن جمال تک کے ادبی موقف کا جائزہ لیجئے تو بات آسانی سے سمجھ میں آجائے گی) یہی نہیں، بہتوں نے تو اس خطرے میں قلم کو کنارے ڈال دیا کہ نقاد زندگی بھر اُنہیں گھاس نہیں ڈالیں گے۔
نتیجہ کے طور پر ایک گمراہ کن فضا تیار ہوئی۔ شاطر نقاد اپنے کیمپ کے چند لوگوں کو اچھال کر خاموشی سے سارا تماشہ دیکھتا رہا۔ در اصل اردو فکشن کی تنقید پر تنگ نظری اور تعصب کا دبیز پردہ حاوی رہا ہے۔ نئی روشنی میں اس ’منظرنامہ‘ کی وضاحت یوں ہوسکتی ہے۔
پہلے کے نقاد ہشیار تھے،مطالعہ وسیع تھا۔اپنی اہمیت کا اندازہ تھا۔وہ کسی بھی طرح کی ’ادبی چھیڑخانی‘ کا نمونہ پیش کر سکتے تھے۔ وسیع مطالعہ نے نقاد کے اندر کی چنگیزیت کو جگا دیا تھا۔ یعنی نقاد پڑھا لکھا تو تھا مگر جینوئن نہیں تھا۔ وہ کیمپ بنا رہا تھا۔ تخلیق کاروں کو اپنی شاگردی میں قبول کر رہا تھا۔ اپنے نظریاتی کیمپ‘ میں ان کے لیے جگہ بنا رہا تھا۔
آج کے نقاد کا مطالعہ وسیع نہیں ہے۔وہ فکشن کی برادری سے، نظر انداز کیے جانے اور احتجاج کے رویوں سے مایوس ہے۔
حقیقتاً، دیکھا جائے تو اردو فکشن کو سب سے نقصان اس کے نقادوں نے پہنچایا ہے۔یعنی یہ نقاد کی ہی ذات تھی، جس کی چنگیزیت یا غیر سنجیدہ رویے نے تخلیق کاروں کی نسل ختم کردی۔ نئی نسل کے سامنے آنے کے راستے مسدود کر دیئیاور اس کے بعد بھی اردو فکشن کے اس میں’نیرو بادشاہ‘ کا قہقہہ اگر گونج رہا ہے تو اسے روم، کی بدقسمتی کہی جائے گی۔ بقول گوپی چند نارنگ، فکشن کی اس صدی میں، نقادوں کے لیے، تخلیق کاروں کے تخریبی رویہ کا جائزہ لینا ضروری ہو گیا ہے۔
کیا نقاد کو ریجکٹ کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔
نیّر مسعود کہتے ہیں:
’’آج تخلیق کار، نقاد کو ریجکٹ کر رہا ہے۔ نقاد سے مراد پوری تنقید ہرگز نہیں, اگر کوئی نقاد حکم نامہ نافذ کرتا ہے اور تحکمانہ گفتگو کرتا ہے اور اس کے ہدایت ناموں اور مکالموں سے افسانے کو نقصان پہنچا ہے تو تخلیق کار کا غم و غصہ بجا ہے,لیکن نئے لکھنے والوں کا پوری تنقید کو کوسنا صحت مند رویہ نہیں۔ یہ بالکل ایسا ہے کہ آپ باتھ ٹب کے پانی کے ساتھ بچے کو بھی پھینکنا چاہتے ہیں۔ جدید افسانے نے قاری کو ریجکٹ کرنے کی غلطی کی تھی، آج افسانہ قاری کی بحالی چاہتا ہے۔ یہ نہ ہو کہ افسانہ تنقید کو ریجکٹ کرے اور اسے دس بیس برس اپنی نادانی پر پچھتانا پڑے۔ تخلیق، تنقید اور قاری ایک تثلیث ہے۔ ادب کا تصور ان تینوں کے بغیر ممکن نہیں,‘ (آزادی کے بعد اردو فکشن: مسائل و مباحث)
ظاہر ہوا، نقاد کو ریجکٹ کرنے کا مسئلہ کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ باتیں پہلے بھی اٹھتی رہی ہیں۔ ہم نے ترقی پسندی کا عروج اور جدیدیت کا زوال بھی دیکھا ہے۔ جدیدیت کے زوال کے بعد ہی اس مسئلہ نے خوفناک صورت حال اختیار کرلی، جیسا کہ نیر مسعود لکھتے ہیں۔جدید افسانے نے قاری کو ریجکٹ کرنے کی کوشش کی تھی۔در اصل میں اس مکالمہ میں تھوڑی سی تبدیلی چاہتا ہوں۔غلطی جدید افسانے نے قاری کو ریجکٹ کرنے کی نہیں کی تھی، افسانہ نگار اردو رسائل سے وابستہ تحریک کے پالتو جانور بن گئے تھے۔ اُن کے پاس سے نہ صرف ان کا IGO غائب تھا بلکہ سر پر شفقت بھرے شاہی ہاتھوں کی ’رسم ادائیگی‘ کا لالچ اتنا بڑھ چکا تھا کہ تخلیق کار، یعنی شکار پوری طرح شارک یا وہیل مچھلی کے پیٹ میں تھا۔

قلم اس کا تھا، دماغ نقاد کا
پاؤں اس کے تھے، ڈور نقاد کے ہاتھ میں تھی۔
تحریر کا اک ایک لفظ نقاد کے پاس گروی تھا۔
وہ نقاد کے اشارے پر چلتا تھا، گھومتا تھا، لکھتا تھا اور خوش ہوتا تھالیکن یہ خوشی کتنے دنوں تک اس کے کام آئی،اچانک ہونے والے صدمے کا احساس اتنا گہرا تھا کہ تخلیق کار کسی اونچی پہاڑی سے لڑھک کر گر پڑا۔ یہ سوال کچھ اسی قسم کا تھا، جیسے بہادر بچے نے بدھو بادشاہ کے قریب آکر کہا ہو، بادشاہ تو ننگا ہے۔
تخلیق کار سے اچانک پوچھا گیا،کہانی تو ہے نہیں۔
اس نے قاری کو اونچی پہاڑی سے دیکھنے کی کوشش کی تو قاری ندارد،یہ حیرت کا وہی لمحہ تھا جہاں بہت سے افسانہ نگاروں کو باتھ ٹب کے ساتھ بچے کو بھی باہر پھینکنا پڑا اور اس المیہ سے بھی دوچار ہونا پڑا، کہ بھائی کہانی بھی گئی۔ دس بیس برس بھی گئے۔ ہم بھی گئے اور نقاد بھی گیا،کوئی شک نہیں کہ شوکت حیات کے بعد کی نسل نے اسی ادبی المیہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہو لیکن ابھی بھی باتھ ٹب کا پانی اور بچہ دونوں اس کے ہاتھ میں ہے،بچہ اس سے گھل مل گیا ہے اور باتھ ٹب کے پانی کو پھینکنے، نہ پھینکنے میں اس کے لیے کوئی خاص کشش نہیں رہ گئی تھی۔
گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں، در اصل نیّر مسعود ادب کے، بیس پچیس برسوں کے المیہ، سے بخوبی واقف ہیں۔وہ تسلیم کرتے ہیں کہ نقادوں سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ نیر مسعود کا اتنا تسلیم کرلینا ہی ہمارے لیے بہت ہے۔ اس لیے کہ نئے ہزارہ میں فکشن پر گفتگو کے لیے اس سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوسکتا۔ وہ بھی تب، جب نیر مسعود جیسا افسانہ نگار بھی خاموشی سے اس الزام کو قبول کر لیتا ہو اور آپ دیکھئے، نیر مسعود نے کس خوش اسلوبی سے اردو افسانہ سے جڑے ہوئے اس کڑوے سچ کو تسلیم کر لیا ہییعنی نقاد کوئی حکم نامہ نافذ کرتا ہے۔ یا تحکمانہ گفتگو کرتا ہے اور اس کے ہدایت ناموں اور مکالموں سے افسانے کو نقصان پہنچتا ہے تو تخلیق کار کا غم و غصہ بجا ہے۔
آزادی کے بعد کے اردو فکشن کی تنقید کو اس روشنی میں دیکھنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ سچ یہی ہے،نقاد خدا بن گیا تھا وہ حکم نامہ نافذ کرتا تھا۔ تحکمانہ گفتگو کرتا تھا، اور آج بھی کرتا ہے۔ افسانے کی حمایت‘ میں اس کی باغی تحریریں اس قدر شعلہ اگلتی ہیں کہ فکشن رائٹر جل جاتا ہے۔کل حسین، شوکت حیات یا شموئل احمد ایسے نقاد سے سمجھوتہ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے، کلام حیدری کی زندگی تک اس تحکمانہ گفتگو کی فضا قائم رہیلیکن ۹۰ کے بعد کے افسانہ نگار کے لیے یہ زہر پینا دشوار سے دشوار ہوتا چلا گیا.

غصہ کے اس لاوا کو آتش فشاں کی شکل میں پھٹنا مقصود تھا۔ سو یہ آتش فشاں پھٹا اور تخلیق کار کی نقاد سے دوریاں بڑھتی چلی گئیں۔
یہ حقیقت ہے کہ تخلیق، تنقید اور قاری ایک ایسی تثلیث ہے کہ ہم ان تینوں کے بغیر ادب کا تصور نہیں کرسکتے، ہم جانتے ہیں، تخلیق کار کے اندر نقاد چھپا بیٹھا ہوتا ہے۔ لیکن ہر لکھنے والا اس نقاد کو جگانے کا کام نہیں کرتا، جیسا کہ اردو فکشن میں آج ہو رہا ہے، یہ بھی صحیح ہے کہ یہ کوئی صحت مند رویہ نہیں ہے۔
شوکت حیات، ساجد رشید ہوں یا حسین الحق، ذوقی ہوں یا شموئل، کبھی کبھی افسانوں پر گفتگو کرنا اور بات ہے، تنقید کو خود پر حاوی کر لینا اور بات151 ظاہر ہے ایسے میں نقصان تنقید کا نہیں، تخلیق کا ہو رہا ہے۔ تنقید کے دھارے میں، تخلیقی سوتے سوکھتے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی خوش آئند بات نہیں ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئے،لیکن یہ وہی غصہ ہے جو مدتوں سے، آہستہ آہستہ تخلیق کار کے اندر جمع ہو رہا تھا۔ اور اس کے درپردہ ہم وہی کر رہے تھے، جیسا کہ نیر مسعود نے کہا، ہم باتھ ٹب کے پانی یعنی (تنقید) کے ساتھ بچے (تخلیق) کو بھی باہر پھینک رہے تھے۔

 

باتھ ٹب ، گندہ پانی اور بچہ
باقر مہدی نے اپنے ایک مضمون (مغربی تصورات کا اثر اردو فکشن میں)، مطبوعہ آئندہ (پاکستان، بیسویں صدی نمبر، دسمبر ۲۰۰۰ء) میں تحریر کیاتھا:
’میں ہندستانی افسانہ نگار مشرف عالم ذوقی سے متفق نہیں ہوں کہ افسانے کو ’نئے افسانہ نگاروں نے داغدار کیا ہے‘
اس ’نئے افسانہ نگار‘ نے ہر بار چکر میں ڈالا ہے،نیا کون؟ بلراج مینرا، انور خاں مرحوم، خورشیداکرم، احمد صغیر یامیں باقر مہدی کے الفاظ کو کاٹ نہیں رہا ہوں، یا تو، میرے پچھلے مضامین کی روشنی میں وہ میری باتوں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے۔ یا پھر میں ہی مجرم کہ میں اپنی بات کی وضاحت نہیں کر پایادر اصل، ہر بار نیا افسانہ نگار اپنے عہد کے نقادوں کے زیر اثر معتوب و مصلوب ہوا ہے اور یہ مضمون لکھ جانے کا محرک بھی یہی ہے کہ دوچار کی واہ واہی کے پیچھے ایک بڑی بھیڑ ’مذبح کی بھیڑ‘ بنا دی گئی ہے۔ مغرب کی تنقیدی تھیوری سے آشنائی نے بھی اردو تنقید کو خاصہ نقصان پہنچایا۔نتیجہ کے طور پر شاطر نقاد اسی تھیوری کے آئینہ میں اردو فکشن کی بوطیقا تحریر کرنے پر آمادہ تھا، اور اس کی آنکھیں، محدود روشنی میں دوچار سامنے کے افسانہ نگاروں کے علاوہ دور تک دیکھنے کی کوشش میں ناکام رہی تھیں۔
قارئین، در اصل غلطی یہیں ہوئی تھی، ہم نے ہندستانی گھر میں مغربی طرز کا باتھ ٹب بنا لیا تھا،ہم اور ہمارے بچے اس ٹب میں نہا تو سکتے تھے لیکن ہمیں مغرب کی بہت سی باتوں کا علم نہیں تھا۔ مثلاً باتھ ٹب کے گندے پانی کو باہر نکالنے کے لیے ہم اپنے ہندستان گھر میں مغرب کی تکنالوجی استعمال نہیں کرسکتے تھے۔
بچے کے لیے، نقاد کا حملہ غیر ارادی تھا۔وہ اس نئے مغربی طرز کے ٹب سے قطعی نا آشنا تھا، یعنی معاملہ کچھ کچھ یوں تھا کہ لکھنے والے جو لکھ رہے تھے، نقاد اس کا تجزیہ یا تشریح بالکل نئے انداز میں کر رہا تھا اور لکھنے والا پھونچکا، اپنے لکھے پر نقاد کے آراء کو پڑھ کر سر دھن رہا تھا۔ یعنی آخر میں یہی ہوا۔ تنقید کے بھولے ہونے مغربی راستوں سے تخلیقمتاثر ہوئی۔مغربی تھیوری کے زیر اثر لکھی جانے والی تنقید نے تخلیق کاروں کو نقصان پہنچایا اور بقول نیر مسعود’’دس بیس برس کا عرصہ تخلیق کاروں کو اپنی نادانی پر بچھتانا پڑا‘‘
**
آج آہستہ آہستہ جب ہم اس بھیانک صورت حال سے باہر نکل آئے ہیں تو المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس سے لکھنے والے ہی دور چلے گئے۔ نئے لکھنے والوں کے نام پر ایک ایسی خاموشی ہے کہ دل لرز جاتا ہے۔ ممکن ہے جدیدیت کے بعد کے سفر ما بعد جدیدیت پر آپ اتفاق رائے نہ رکھتے ہوں، لیکن تسلی کا ایک مقام یہ بھی ہے کہ اس نے لکھنے والوں کے منصب کو پہچانا۔ اُنہیں ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوششیں بھی کیں۔ نارنگ کا مابعد جدید رویہ در اصل نئی نسل کی انگلی تھامنے کے لیے اختیار کیا گیا تھا۔بد قسمتی یہ تھی کہ ان دس برسوں میں جب یہ مابعد جدیدیت آہستہ آہستہ اپنی سیڑھیاں طے کرنے کی کوشش کر رہی تھی ، اردو کی نئی تخلیقی نسل تیزی سے گمنامی کے غار میں گم ہو رہی تھی۔
ایک حقیقت یہ بھی تھی کہ بیشتر نقاد ابھی بھی پرانے وقتوں کا ڈھول پیٹنے میں لگے تھے۔ نئے افسانے اور نئے زمانے پر ان کی نظر نہیں تھی۔ نیا افسانہ نگار نقادوں کے ’علم‘ سے خائف تھا اور اس قدر خائف تھا کہ اس کے کندھے جھک گئے تھے اور وہ اردو افسانہ سے راہِ فرار اختیار کرنا چاہتا تھا۔
یہ وہی کمزور کندھے (نقاد) تھے جو پچھلے بیس تیس برسوں سے لگاتار اردو فکشن کو نقصان پہنچاتے آئے تھے۔ یہ وہی نقاد تھے جن کی غیر سنجیدہ مغربی تھیوری نے اردو کے معصوم لکھنے والوں کو ایک ایسے ڈائلیما میں لاکھڑا کیا، جہاں ان کے فن نے گھٹنے ٹیک دیئے۔
حسین ہوں یا شوکت حیات افسانے کی تاریخ میں ان سب کی حصہ داری ہے۔دیکھا جائے تو شاطر نقاد نے ان سب کا استعمال کیا ہے اور جب سنبھلنے کی باری آئی تو تخلیقی نسل اردو سے اپنا رشتہ توڑ چکی تھی۔
ادھر ہندی میں راجندر یادو بار بار اس بات کی دہائی دے رہے ہیں کہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک منچ، مہیا کرایا جائے۔ ہندی والوں کو تو پھر بھی منچ ملا ہوا ہے مگر ہندستان کے اردو منظر نامہ کا کیا ہوگا۔ حسن جمال ، قاسم خورشید، خورشید حیات، احمد صغیر، صغیر رحمانی، خورشید اکرم، شاہد اختر، نور الحسنین، غزال ضیغم، سہیل وحید، معین الدین جینا بڑے ۔ہم جیسے جیسے ناموں کی قطار میں آگے بڑھتے ہیں، ایک بہت تیز ٹھنڈ لہر ہمارا راستہ روک کر کھڑی ہوجاتی ہے۔۔۔ آگے گنو۔۔۔ بس،کیا یہیں تک گنتی آتی ہے.
تخلیق، تنقید اور قاری, ہم خود اس تثلیث کے قائل ہیں، مگر نقادوں کے بے رحم رویے، غیر سنجیدہ فکر، مغربی تھیوری کے غلط استعمال اور کیمپ نے آہستہ آہستہ ہمیں اس ’روشن تنقید‘ کی قندیل سے محروم کر دیا، ہم جس کی روشنی میں خود بھی پروان چڑھ سکتے تھے اور اپنے ادب کو بھی پروان چڑھا سکتے تھے اور آج حال یہ ہے کہ ہم ہی نہیں ہوں گے تو ادب کو پروان کون چڑھائے گا؟
یہ افسوسناک امر ہے کہ نئے ہزارہ کے شروعاتی برسوں میں ہی اردو فکشن کا آسمان دھندلا دھندلا ہوگیا ہے، کیوں؟ کا جواب دینے کی اب ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ اردو فکشن کا باتھ ٹب ایک ایسا حمام ہے، جس کے پس پردہ ’ننگے بادشاہ‘ کو دیکھا جاسکتا ہے۔