(اسد محمد خان)
نئے اردو افسانے کی تاریخ پر اور نئی اردو نظم کی تاریخ پر اُن کے خدوخال مُتشکل ہونے کے زمانے پر نظر ڈالیے تو ایک طرف سعادت حسن منٹو، عزیز احمد، احمد ندیم قاسمی ، کرشن چندر وغیرہ اپنی کہانیوں میں نئے دَر کھولتے دکھائی دیں گے اور دوسری طرف راشد ، میرا جی، فیض، مدنی، مجید امجد اپنی نظموں میں نئی دنیائیں دریافت کرتے نظر آئیں گے۔
بیسویں صدی کی یہ تیسری اور چوتھی دہائیاں اردو نظم اور افسانے کو جس قدر مالا مال کر گئیں، میں سمجھتا ہوں برصغیر کی کسی اور زبان میں اس خاص زمانے میں یہ ثروت مندی دکھائی نہیں دیتی۔
میرے ہم عصر (پانچ سات برس پہلے یا بعد کے) پڑھنے والے اور تخلیق کار، بلاشبہ ، اِن معنوں میں خوش نصیب ہیں کہ کلاسیکی نظم و نثر کے شانے سے شانہ ملائے، ایک عصری آگہی، ایک نئی دانش ہمارے استقبال کو موجود تھی اور ہمیں وراثت میں بہت کچھ مل رہا تھا۔
اس طرح یقیناً فیض اور منٹو کی یہ صدی ، ہماری گراں مایہ موزونیت کی صدی کہی جائے گی۔
افسانے کی صنف کے بارے میں ستر کی دہائی میں دنیا کی سوچ کچھ اس طرح تھی کہ شمال میں واقع یورپ اور براعظم امریکا کے ترقی یافتہ ملکوں میں فکشن پر کام کرنے والوں نے عام طو رپر یہ سمجھ لیا تھا ۔۔۔ اور فیصلہ سنا دیا تھا کہ کہانی کی صنف ٹیلی وژن وغیرہ کے لیے تو خوب استعمال ہو گی لیکن ادبی اظہار کے لیے اب اس کے دن گنے جا چکے یعنی واضح طور پر وہاں یہ کہاں جا رہا تھا کہ Short Fictionکا مستقبل کوئی نہیں۔
مگر جنوب میں واقع ترقی پذیر ملک اس بارے میں بہت پرامید تھے؛ یہاں کے پڑھنے والے، لکھنے والے اور دانشور یہ کہتے تھے کہ شارٹ فکشن نہ صرف اپنی پہچان بنا چکی ہے اور سنِ بلوغت کو پہنچ گئی ہے بلکہ ایشیائی افریقی ملکوں میں تو اصنافِ ادب کی صف اول میں موجود ہے اور موجود رہے گی۔ پھر اعداد وشمار کی تحقیق کرنے والے یہ بتاتے ہیں کہ یورپ و امریکا میں اب افسانہ چند ہی رسائل میں چھپتا ہے اور اس صنف میں جنھوں نے باقاعدہ شہرت حاصل نہ کی ہو اور نام پیدا نہ کر لیا ہو، انھیں مشکل ہی سے کوئی ناشر ملتا ہے۔
اس کے برخلاف ایشیائی افریقی ملکوں میں صورت حال یہ ہے کہ ناول کے مقابلے میں افسانوں کے مجموعے زیادہ تعداد میں چھپتے اور ’کتاب بازاروں‘ کی رونق بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ترقی پذیر ملکوں میں کہانی کا معیار بہتر سے بہتر ہوتا جا رہا ہے۔
یورپ اور امریکا میں سادگی اور بے ساختگی ختم کر کے افسانے میں ایک طرح کی سو فسطائیت اور تصنع پیدا کیا گیا اور ایک نوع کی ضروری ’حدبندی‘ قائم کر کے گویا تخلیق کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ خیر، یہ صورت حال مغرب سے مخصوص تھی، یہ سب تو کہیں بھی کبھی بھی ہو سکتا تھا۔
اردوکہانی کے بارے میں عرض کرتا ہوں ہمارے افسانے کو اس کے اختصار کی وجہ سے بھی اور بیانیے کی طوالت کو دیکھتے ہوئے بھی الگ الگ پہچان دی گئی یعنی چند سو الفاظ پر مشتمل کہانی، محض’افسانہ‘ تھی اور ہزار ڈیڑھ ہزار الفاظ میں لکھا گیا ’طویل مختصر افسانہ‘ جو اگر واقعات اور کردار زیادہ ہوں اور پلاٹ کئی سمتوں میں پھیلے تو ’ناولٹ‘۔
ایک عرصے تک تو یہ علامتوں کے استعمال کے سبب سے ہر دو میں بھی So-calledعلامتی افسانے کا ورود ہوا۔ تاہم وہ تجرباتی دور تھا، اپنے اختتام کو پہنچا۔ اب اردو افسانے میں علامتوں کا استعمال واقعی ایک گہرائی کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ بات بڑی دل خوش کن ہے۔
افسانے کی جزئیات پر بات کرتے ہوئے کہا گیا کہ افسانہ وہ ہے جسے ایک دو واقعات سنا کر لپیٹ دیا جائے اور اس میں ایک دو، یا حد سے حد چار پانچ کردار ہوں۔ پھر یہ بھی کہ اس کا بیانیہ راست اور سادہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ ست رنگی دھنک کی طرح کھلتا چلا جائے یا اس کی منظر کشی ایسی ہو کہ پڑھنے والے کو اپنے رس، مٹھاس اور خوشبو میں لپیٹ لے ناں ناں ناں!کہا گیا کہ یہ نہ کیجیے یا د رکھیے، یہ ناول یا غزل نہیں لکھی جارہی ۔ مختصر کہانی لکھی جا رہی ہے۔ اسے متوازن لکھیے، یعنی اپنی اوقات میں رہنے دیجیے۔
افسانے کی فزیک یا جسمانی ساخت پر ستر کی دہائی میں اور بعد میں بھی با اصرار کہا گیا کہ تین حصے ہونے چاہئیں: اول تمہید یا تعاوف؛ دومThemeیا موضوع؛ آخر میں پنچ لائن کی طرح کا مورل جوش عقرب کی مثال پڑھنے والے کو اٹھا کے بٹھا دے۔
خود میں نے، اور میری طرح میرے ہم عصر رفیقوں نے بھی یہ سب سن رکھا ہو گا یادوران تعلیم ، کسب کیا ہو گا اور لکھنے کو قلم سنبھالے ہوں گے تو افسانے کی ساخت، اس کی جزئیات اور موضوعات کے بارے میں کہی گئی۔ یہ سبھی باتیں ذہن میں تازہ ہو گئی ہوں گی۔
اور پھر خواتین و حضرات ہم افسانہ لکھنے پر آمادہ رفیقوں کے دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایسا مظہر سامنے آیا کہ کئی جواں فکر دوستوں نے جو ہم سے پہلے لکھ رہے تھے۔ بندھے ٹکے اصولوں کو زیادہ خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایک طرح کا وہ منحرف، افسانہ لکھنا شروع کر دیا۔
انور سجاد نے اور احمد ہمیش، انور خان اور خالدہ حسین نے اور سریندر پرکاش نے اور بھی چند باہمت کہانی کا روں نے گویا خروج کیا اور ’گائے‘، ’مکھی ‘ ، کوؤں بھرا آسماں‘، ’سواری‘ اور ’بجوکا‘ جیسی کہانیاں سامنے آئیں۔ ہم نے کہا کیا بات ہے !
یہ نہیں کہ ہم قاریوں اور لکھنے پر آمادہ لکھنے والوں نے، اس فینامنن پَر، جوش مسرت میں بھنگڑے ڈالے ہوں اور کہا ہو کہ نوبہار کے دن آ گئے۔ اُوں نیک!جیسا کہ ہونا چاہیے، انحراف کے اس تجربے کو ہم برسوں کے پھیلاؤ میں سمجھتے، کتنے ہی پہلوؤں سے دیکھتے، نکتہ چینی کرتے، ثنا کرتے۔۔۔ ایک ڈھیلے ڈھالے ہم خیال گروہ کی صورت میں اکٹھا ہوتے رہے۔ اکٹھا ہونے کی بات میں روانی میں لکھ گیا ہوں۔ ہم کوئی تحریک چلانے یا اس میں شامل ہونے کی غرض سے کہیں جمع نہیں ہو رہے تھے۔ ہم اپنا لکھتے پڑھتے ہوئے، اپنی کھلی کھڑکیوں سے لگے بیٹھے، اپنے ٹھکانوں، آنگنوں، چوباروں سے لگے افسانے کے اس اجلتے آسمان کو دیکھ رہے تھے جو اوپر بیان کی گئی پانچ یا پچاس ۔۔۔یا کچھ کم زیادہ۔۔۔کہانیوں نے شامیانے کی طرح کھینچ دیا تھا۔
تو اچھی باتوں پر گاہے ماہے خوش بھی ہونا چاہیے؛ میں نے ، میرے کچھ رفیقوں نے ’انحراف‘ کرنے والے چھ آٹھ جواں فکر دوستوں کو بالمشافہ داد بھی دی؛ اُن کا دفاع بھی کیا، اس لیے کہ یہ محض ذاتی پسند نا پسند کا معاملہ نہیں تھا۔
عزیزو!یہ اردو افسانے کے امکانات۔۔۔یا نئے منظروں کی تلاش میں نکلے ہوئے پانچ یا اس سے زیادہ کہانی کاروں نے ایک چوٹی سَر کی تھی جس کے آگے دیکھیے تو اب جہاں تک نظر کام کرتی ہے، چھوٹی بڑی خوش منظر پہاڑیوں کا ایک سلسلہ چلا گیا ہے۔
یعنی ہمیں لکھتے رہنا ہے اور آگے چلتے رہنا ہے۔۔۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں۔ جیسا کہ ہمارے بڑوں نے لکھا؛ جیسا کہ آج کے لکھنے والے، چِٹے کورے کاغذ پہ اپنی شاداب انگلیوں میں قلم تھامے ہرے بھرے لفظوں میں لکھ رہے ہیں، لکھتے رہیں گے۔
خواتین و حضرات!اپنی بات ختم کرنے سے پہلے ایک بہت ذاتی تجربے کاحال سنانا چاہتا ہوں؛ کوئی بھاری بھرکم نہیں ایک چھوٹا سا حیران کن تجربہ تھا۔۔۔ سن لیجیے :
سب بچوں کی طرح میرے نواسا نواسیاں بھی اردو انگریزی میں شوق سے کہانیاں پڑھتے ہیں۔ بڑا اور بڑی تو اب یونیورسٹیوں میں مصروف ہو گئے ہیں، پر چھوٹی جو پانچویں جماعت میں ہے، اس نے قصہ طوطا مینا، الف لیلہ، طلسم ہوشربا سے لے کر ہیری پوٹرتک درجنوں کتابیں جمع کر لی ہیں۔ فرصت کا وقت وہ ان کے ساتھ گزارتی ہے۔ کبھی میں بھی عاریتاً کوئی کتاب مانگ لیتا ہوں اور پڑھ کے پابندی سے لوٹا دیتا ہوں۔
پچھلے دنوں ایک Fair Jale ، کسی بانوے سالہ انگریز مصنف کی ، میں اس سے مانگ لایا۔۔۔ اور بہت دنوں تک پڑھتا رہا۔ جستہ جستہ، ایک بار، دو بار۔۔۔ڈیڑھ مہینہ لگا رہا۔ یہ معمول کے خلاف تھا تو نواسی نے فون کیا کہ نانا ابو ، کتاب کہاں گئی؟ کیا گم کر دی؟ میں نے کہا بیٹا!ٹھہر جا۔ ابھی پڑھنے دے۔ عجیب کتاب ہے !
مختصر سی کتاب تھی ، ڈیڑھ سو صفحے کی ، مگر کمال دلچسپ۔ تین چار بے چین بچوں کی اچھی گتھی ہوئی مہماتی کہانی، جس میں یونان، اطالیہ، مشرقِ وسطیٰ، ایشیا اور مشرقِ بعید کے ہزارہا سال پرانے، مقدم اور نیم مقدس اساطیری، دیو مالائی کردار اپنی سب صفات کے ساتھ آتے ہیں اور ان بچوں کے لیے مسائل پیدا کرتے، یا انھیں سلجھا کے چلے جاتے ہیں: زیر زمیں بسے ہوئے ڈوارف،Werewolf ، یونیکورنWithes ، مینو تار، تمف، قفس، قنطور، جنات اور پریاں۔ بتیس یا پینتیس اقسام کے کوئی نیم جانور نیم انسان، کوئی آدھے پرندے آدھے چوپائے۔ بڑی محبت اور جبروت والے۔۔۔ یک غول بیابانی۔
میری حیرت بے محل نہیں تھی۔ یہ نانا ابو، نصف صدی پہلے، جن حیران کن کرداروں سے کلاسیکل شاعری، نثر اور بے مثال مصوری میں مانوس ہوا تھا۔۔۔ حوصلہ مند فکشن کے طفیل، آج کے نو دس برس کے ہشیار بچوں کے لیے وہ کردار، ایک کہانی کا روزمرہ بن گئے تھے۔
یہ ماننا پڑے گا کہ عالمی تناظر میں فکشن کے امکانات بے گنتی ہیں اور اردو افسانہ خود اپنے شب و روز سے اور کرۂ ارض کے گزرتے وقت سے فیض یاب ہو رہا ہے۔ اس کا سفر ثابت قدمی کے ساتھ ہمیشہ جاری رہنے والا اور ہرسمت میں ہو گا۔