اردو میں مرثیہ گوئی کی روایت

اردو میں مرثیہ گوئی کی روایت

اردو میں مرثیہ گوئی کی روایت

از، پروفیسر شارب ردولوی

اردو شاعری کے عظیم ذخیرے میں مرثیے کو ایک بڑی اہم اور انفرادی حیثیت حاصل ہے یہ اس لیے نہیں کہ اس کا تعلق مذہب یا عقیدے سے ہے حالاں کہ دنیا کے ادب میں جن نظموں کا آج تک کوئی ثانی ہے ان میں بیشتر نظموں کے محرک مذہبی واقعات اور عقائد تھے اس لیے یہ بات معذرت کی نہیں ہے کہ مرثیے مذہبی واقعات سے متعلق ہیں لیکن در اصل نہ مرثیوں کی عظمت کا سبب مذہب و عقائد ہیں اور نہ ان عالمی ادب کے عظیم رزمیوں کی عظمت کا سبب ان کے لکھنے والوں کے عقائد تھے، عظمت ان واقعات کی انسانی قدروں میں ہے۔ ان واقعات کو اپنے تخلیقی عمل میں ڈھالنے میں اور اظہار کے ان طریقوں میں ہے۔ اور ان سب چیزوں نے مل کر اسے عالمی کلاسیک یا کسی ادب کی عظیم تخلیق کا درجہ دیا ہے۔

مرثیہ بھی کیا تھا؟ عربی میں بھی مرثیے تھے۔ فارسی میں بھی مرثیے تھے، فارسی کے مرثیے ہندوستان میں بہت مقبول تھے اور عام مجالس میں پڑھے بھی جاتے تھے لیکن ان کی ادبی و فنی حیثیت کیاتھی؟ عربی و فارسی کے مراثی آج بھی ادبی شہ پاروں کی حیثیت سے نہیں پڑھے جاتے۔ اس کے بعد دکن کے قطب شاہی دور میں اردو میں مرثیے لکھنے کا آغاز ہوا۔ پہلا مرثیہ اشرف نے لکھا یا وجہی یا محمد قلی قطب شاہ نے یہ اس وقت زیر بحث نہیں ہے، لیکن اردو کے پہلے مرثیہ نگار سے لے کر مسکین، سودا اور سکندر تک تقریباً ڈھائی سو سال میں جو مرثیے لکھے جاتے رہے ان کی کیا حیثیت تھی اور ادب میں ان کا کیا مقام تھا؟ ظاہر ہے کہ اگر صرف مذہبی جذبات کااظہار کسی تخلیق کو بڑا بنا سکتا تو ایسی بے شمار تخلیقات جن سے آج کوئی واقف بھی نہیں ہے ادب کا بیش قیمت حصہ ہوتیں۔

مرثیہ اردو کی واحد صنفِ سخن ہے جس نے ہیئت کا طویل سفر طے کیا ہے۔ غزل، مثنوی، اور قصیدہ بھی قدیم اصناف میں ہیں لیکن ان کی ہیئتیں ابتدا ہی سے طے تھیں لیکن مرثیے کی کوئی ہیئت طے نہیں تھی شروع میں جو مرثیے دکن میں لکھے گئے وہ غزل کی طرح مفرد اشعار پر مبنی تھے۔ فارسی میں بھی مرثیے کی یہی روایت تھی کہ وہ غزل کے انداز پر لکھے جاتے تھے۔ اور ان کے اشعار میں کوئی اندرونی ربط نہیں ہوتا تھا۔ لوگ مجالس عزا کے لیے مرثیے لکھتے تھے۔ ان کا مقصد ثواب حاصل کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ جس کا لکھنا پڑھنا اور سننا سب ہی ثواب میں داخل ہو تو ایسے لوگ بھی اسے لکھنے لگیں گے جو فن شعر گوئی سے واقف نہیں ہیں۔

اس لیے فنی اعتبار سے مرثیے کو کم تر مانا جاتا تھا۔ لوگ بے جھجھک جس طرح چاہتے تھے مرثیے لکھتے تھے اور زبان و بیان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ مذہبی عقیدت میں چوں کہ غلطیو ں پر کوئی اعتراض نہیں کرتا تھا اس لیے ان کے معائب پر پردہ پڑا رہتا تھا۔ بعض تذکرہ نگاروں اور شعراء نے اس کی طرف اشارے کیے ہیں سودا نے توبہت صاف صاف الفاظ میں تنبیہ کی کہ:

”لازم ہے کہ مرتبہ در نظر رکھ کر مرثیہ کہے۔ نہ برائے گریہ عوام اپنے تئیں ماخوذ کرے۔“


متعلقہ تحریر: شہرہ آفاق مرثیہ نگار چنو لال دلگیر


آنے والے ادوار میں مرثیے کوبہتر بنانے کی خواہش میں اس کی ہیئت میں بھی تبدیلیاں ہوئیں اور وہ مرثیے جو پہلے چند مختلف اشعار پر مبنی ہوتے تھے ان میں واقعات کو ربط اور تسلسل کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے غزل یا قصیدے کی ہیئت کافی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لیے مربع مرثیے لکھے گئے۔ اس کے بعد ایک عرصے تک مربع اور مربع ترجیع بند میں مرثیے لکھے جاتے رہے۔ مربع مرثیوں نے پہلی بارمرثیے کو بند کا تصور دیا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بیان میں وسعت پیدا ہوئی اور واقعے کو اس کی تفصیلات کے ساتھ پیش کرنے کی گنجائش نکل آئی اور ان تجربات نے مرثیے کے مسدس تک پہنچنے کی راہیں ہموار کیں۔ اس طرح کے مرثیے دکن میں ہی کہے جانے لگے تھے۔ درگاہ قلی خاں کے مرثیوں میں مخمس، دہرہ بند، اور ترجیح بند مرثیوں کی مثالیں مل جاتی ہیں۔

مسدس مرثیوں کی ابتدا شمالی ہند میں ہوئی، ابتدائی مسدس میاں مسکن اور سودا کے یہاں ملتے ہیں۔ جن میں مرثیوں کو سادہ بیانیہ سے آگے لے جانے کی کوشش کی گئی ہے۔ واقع کے تسلسل اور ربط کے لحاظ سے بھی یہ مرثیے گذشتہ مرثیوں سے بہتر ہیں۔ ان میں مختلف موقعوں پر جذبات نگاری اور کردار نگاری کی کوشش بھی ملتی ہے لیکن اصل توجہ واقعہ سازی پر ہے۔ سودا کے مرثیوں میں اس بات کی کوشش زیادہ ملتی ہے کہ واقعہ کو زیادہ بہتر اور پر اثر طریقے پر بیان کیا جائے لیکن اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ یہ ابتدائی کوششیں ہیں۔

دہلی سے ادبی مرکز کے لکھنو منتقل ہونے پر وہاں کی سر زمین مرثیے کو بہت راس آئی خلیق و ضمیر نے اس کے ادبی خد و خال کو درست کیا اورایک ایسی صنف جسے غلطی الفاظ بسیار کی وجہ سے قدرت اللہ شوق نے اپنے تذکرے میں جگہ دینے کے قابل نہیں سمجھا تھا اور مصحفی نے مرثیہ گوئیوں کے طرز کو مطلقاً نا پسندیدہ قرار دیا تھا۔ اسے ایک نئی صنف سخن بنا دیا۔ میر خلیق نے بیانیہ کی بنیاد کو مضبوط کیا اور مرثیے میں سفر کا حال، رخصت اور شہادت کو تفصیل سے بیان کیا، میر ضمیر نے جنگ کی تفصیلات کا اضافہ کرکے مرثیہ میں رزمیہ کے امکانات کو روشن کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سراپا بیان کرنے پر خصوصی توجہ دی اور اس طرز نوی، کو مرثیے میں اپنا contribution قرار دیا۔

سراپا کے بیان جنگ کی تفصیلات رخصت اور سفر کے حالات نے مرثیے کو جذبات نگاری کا بہت بڑا میدان فراہم کر دیا۔ جسے میر انیس و مرزا دبیر نے معراج کمال تک پہنچا دیا۔ کسی چیز کی اس سے زیادہ معراج کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے بعد اس میں کوئی اضافہ نہ ہو سکے۔ میر انیس اور مرزا دبیر نے مرثیے کی ظاہری ہیئت ہی کی تکمیل نہیں کی بل کہ زبان و بیان اوراسلوب و اظہار کی جو خوبیاں بھی ہوسکتی تھیں وہ سب مرثیے میں پیدا کر دیں۔ اسی لیے اگر توجہ سے مرثیے کا مطالعہ کیا جائے تواس میں غزل کی دل کشی، قصیدہ کا طمطراق مثنوی کی سبک روی اور جذبات نگاری، رزمیے کا شان و شِکَوہ ساری چیزیں نظر آ جائیں گی۔ مرثیے کی اثر انگیزی کا یہ بھی ایک سبب ہے یہ انیس و دبیر کا کمال ہے جنہوں نے مرثیے کو ایک مکمل فن پارہ بنا دیا۔ اوراس میں وہ طاقت پیدا کردی کہ وہ عالمی ادب سے آنکھ ملا سکے۔

مرثیے کی انفرادیت اور اہمیت کاسبب بھی وہی ہے جو عالمی ادب کی ان تخلیقات کا ہے جن میں مذہبی عقائد کااظہار کیا گیا ہے۔ یعنی واقعہ کی انسانی و اخلاقی قدریں، زبان و بیان کی سِحَر کاری، اظہار و اُسلُوب کی دل پذیری واقعہ نگاری اور جذبات نگاری پر مکمل قدرت، انیس و دبیر نے مرثیے میں یہ تمام محاسن جمع کر دیے تھے۔ اسی لیے آج اردو مرثیے کو ادب میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اس میں جو وسعت اور تنوع ہے اردو کی کسی دوسری صنف میں نہیں ہے۔ وہ اپنے عہد کی تہذیبی و معاشرتی تاریخ اور اعلٰی اخلاقی اقدار کا نمونہ ہیں۔

میر انیس و دبیر کے بعد مرثیہ آج تک ان کے سِحَر اور اثر سے نہیں نکل سکا۔ خود خاندان انیس اور خاندان دبیر کے شعرا نے مرثیے میں بعض جدتیں کر کے نئی راہیں پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن نہ مرثیے میں ساقی نامہ مقبول ہو سکا اور نہ تبلیغی نے متاثر کر سکی۔

جدید مرثیہ نگاروں میں بہت سے مقبول مرثیہ نگاروں کے نام لیے جا سکتے ہیں جن میں سب سے زیادہ اہمیت جوش ملیح آبادی کو حاصل ہے۔ انہوں نے مرثیے کو بالکل نئے طریقے سے استعمال کیا۔ ان کے یہاں مرثیے کی ہیت تو مسدس ہی ہے لیکن موضوع کی حیثیت سے انہوں نے انیس و دبیر کے راستے سے انحراف کر کے واقعے کو تسلسل سے بیان کرنے کے بجائے امام حسین کے کردار کو اہمیت دی۔ امام حسین اور ان کے انصار و اعزا کو انقلاب کی سب سے بڑی طاقت کی شکل میں پیش کیا۔

جدید مرثیہ نگاروں میں نجم آفندی، رزم ردولوی، نسیم امروہوی، سید آل رضا، رئیس امروہوی، مہدی نظمی، وحید اختر، محسن جونپوری، اور بہت سے ایسے شعرا ہیں جنہوں نے مرثیے میں نئے امکانات کی تلاش کی اور اردو مرثیے کو نئی جہتوں سے آشنا کیا۔

اردو مرثیے کی اس اہمیت کے با وجود اس کی طرف بہت کم توجہ دی گئی۔ اپریل ۱۹۵۷ء میں میر انیس صدی تقریبات کے سلسلے میں میر انیس اور اردو مرثیے پر کچھ کام ہوا۔ مختلف شہروں میں انیس صدی سیمینار ہوئے اور محققوں اور ناقدوں نے میر انیس اور ان کی شاعری کے بارے میں اَز سرِ نو غور و خوض کیا اورانیس شناسی کے نئے پہلوؤں کی تلاش و جستجو کی۔ لیکن ان تمام تحقیقی و تنقیدی مقالات میں زیادہ تر توجہ میر انیس کی شخصیت، ان کے سلام و مراثی اور رباعیات پر رہی، بحیثیت مجموعی مرثیے کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی گئی اور صدی تقریبات کے اختتام کے بعد یہ موضوع پھر ذہنوں سے اوجھل ہو گیا۔