(قاسم یعقوب)
درختوں کی عزاداری کروں گا
میں فطرت کی طرفداری کروں گا
علی زریوں کا یہ شعرمجھے اسلام آباد کی سڑکوں کے کنارے گرے ہوئے درختوں اور خشک ٹہنیوں کودیکھتے ہوئے یاد آیا۔کہتے ہیں کہ پنڈی سے جب کوئی مسافر( اسلام آباد بسنے سے پہلے )یہاں پر موجود اپنے گاؤں آتا تو اسے درختوں میں گھرے اپنے گھروں کی نشان دہی کرنی مشکل ہو جاتی۔ آج بھی اسلام آباد کے وہ گاؤں جو پہاڑوں کے دامن میں سمٹے ہوئے ہیں کچھ اسی قسم کا منظر پیش کرتے ہیں۔ رُملی، شاہدرہ اور سید پور جس کی مثال ہیں۔ اسلام آباد ایک جنگل تھا، پہاڑوں کے درمیان پھیلا جنگل___ایسا جنگل جو پہاڑوں کی چوٹی سے شروع ہو کر پہاڑوں کے پائیدان تک پھیلا ہوا تھا۔ ایک حاکم کا دل آ گیا اُس نے جنگل کے اندر ایک شہر بسانے کی ٹھانی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے یہاں ایک خوبصورت اور نیچر کے گھر میں شہر بسا دیا گیا۔جنگل اور شہر ایک ہو گئے۔ اسلام آباد کو ایک عمر لگی شہر بنتے ہوئے۔ لوگ یہاں آتے تو طرح طرح کی کہانیاں بھی اپنے ساتھ اپنے گھروں کو لے جاتے۔لوگ کہتے کہ یہاں سرِ شام گھروں میں سمٹ جانے کا رواج تھا۔ اس شہر کا کوئی کلچر نہیں تھا۔ یہاں پانی میسر نہیں جس کی وجہ سے اس شہر کی کوئی تہذیب نہیں وغیرہ وغیرہ__پھر جنگل کی رومان پرور فضا کے ساتھ بھی کئی کہانیاں وابستہ تھیں۔ مگر رفتہ رفتہ نہیں بلکہ اچانک پچھلی ایک دہائی سے اسلام آباد عجیب تیزی سے بڑے شہروں کا ’’روپ‘‘ دھارنے لگا ۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کٹنے لگا۔ جنگلوں کی جگہ سڑکوں نے چیخ چیخ کر اپنی ضرورت کا نوحہ پڑھنا شروع کر دیا۔ نیچر کے نام نہاد دلدادہ لوگوں نے اسلام آباد کا رُخ کر لیا اور پہاڑوں کی خاموش فضاؤں میں اپنی گرد آلود سانسوں کا جال پھینک دیا۔ پہاڑ کاٹ کر سڑکیں اور راستے بنائے جانے لگے۔ چشموں کی آوازوں نے پانی کے اندر ہی اپنا منہ چھپا لیا۔وہ سبزہ جسے جگہ نہیں ملتی تھی تو کائی سے جھانکتا تھا ،اُبکائی بننے لگا۔
میں اسلام آباد جیسے خوبصورت شہر کا اپنی ہوش کے شروع دن سے ہی دلدادہ رہا ہوں۔ میں کوئی گذشتہ دو دہائیوں سے اس شہر سے وابستہ ہوں اور اب تو مستقل طور پر اس شہر کے دامن کو اپنا اور اپنے بچوں کا مسکن بنا چکا ہوں۔ میں اپنے شہر فیصل آباد کے شور سے بھاگ کے اسلام آباد آ جاتا اور میلوں پیدل چلتا ۔ خشک پتے میرے ساتھ ساتھ سفر کرتے اور بہار کی تازہ کونپلیں مجھے مسکراتی ہوئی ملتیں۔ پچھلے دس سالوں سے میں نے اپنے شب و روز بھی اسی شہر کو دے دیے۔ افسوس کہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس کا فطرت بھرا حسن خراب ہوتا گیا۔ ایک خبر پڑھ کر مجھے پرانا اسلام آباد یاد آ گیا۔ایک فرانسیسی سفیر نے ماحولیاتی تغیرات پر ایک کانفرنس ’’ایشیائی مون سون اور ماحولیاتی تغیرات‘‘ میں کہا کہ ماحولیاتی تغیرات سے پاکستان جیسے متاثرہ ممالک کو مطابقت پذیری (Adaption) ، تدارکِ اثراتِ آفات (Mitigation)سبز ماحولیاتی سرمایہ (گرین کلائمنٹ فنڈ) کا فوری قیام، جنگلات کے رقبے میں اضافے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے کو ششیں کرنا ہوں گی۔‘‘ میں اس کانفرنس کی رپورٹ کو پڑھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اسلام آباد میں ہونے والی اس کانفرنس جس میں سبز ماحولیاتی سرمایہ زیرِ بحث تھا،میں اسلام آباد کے جنگلات کا نوحہ پڑھنے ولا کوئی نہیں تھا۔ اس سرسبز شہر کو جو دھواں اگلتے کارخانوں کی طرح بنا دیا گیا، کسی نے اپنا موضوع نہیں بنایا۔ شاید ہم خود بھی اب سمجھوتہ کر چکے ہیں کہ اس شہر کو اب جنگل کے فطرت آمیز کلچر سے نکال کے میٹروپولیٹن شہر بنا دیا جائے۔ ایک وقت تھا کہ روئیداد خان اسلام آباد کے چند درختوں کے کٹنے پر بھی احتجاجی جلوس لے کر نکل آتے مگر اب شاید ہمارے اور بھی دکھ ہیں جو ہمیں اس طرح کی محبت نہیں کرنے دیتے۔
میں ذرا ماضی میں جاؤں تو مجھے یاد ہے میرا سکول ایک سرسبز علاقے میں واقع تھا۔میرا سکول کے ابتدائی دنوں سے ہی فطرت کے اس حسین شاہکار جنگل سے واسطہ رہا۔ میں فیصل آباد کے لیبارٹری سکول، سمن آباد کا طالب علم تھا جو نہایت گھنے جنگل میں آباد ایک چھوٹا سے تعلیمی ادارہ تھا۔ میرے ہم جماعتو ں میں ایک عامر مشتاق بھی ہوتا جس کا گھر بھی اسی جنگل کے سبزے میں گھرا ہوا تھا۔ عامر کے والد اسی چاردیواری میں مقید ایک سرکاری کالج سے بطور پروفیسر منسلک تھے۔ ہم اپنی کلاسوں سے نکلتے تو سیدھا عامر کے گھر چلے آتے جو درختوں کی طویل قطاروں کے بعد نظر نواز ہوتا۔ گھر کے دوسری جانب فیصل آباد کا معروف اور بڑا زرعی تحقیقی ادارہ ’’ایوب ایگری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ تھا جس کے درمیان سے ایک نہر گزرتی۔ نہر کیا تھی سبزبیلوں کا رستہ تھا۔ ہم عامر کے گھر سے سبزے سے بھرے خوشگوار دنوں کو اپنی آنکھوں میں بھر کے نکلتے اورکبھی کبھار اس نہر پر بھی جمع ہو جاتے۔ خوب کھیلتے اور قہقہے لگاتے۔میرے تعلیمی ابتدائی سات سال اسی جگہ گزرے۔ پھر میں انٹرمیڈیٹ میں بھی تواتر سے عامر کے گھر کے سبزے سے اپنی آنکھوں کو اوس بھری طروات اور دل کو سبزہ فطرت جمالیات دیتا رہا۔ بعض اوقات سخت سردیوں میں ہم درختوں سے باتیں کرنے کھلی فضا میں بیٹھ جایا کرتے مگر درختوں کی ٹھنڈک ہمارا ساتھ نہ چھوڑتی۔
میں اسلام آباد کی فطرت سے بھری شاہراہوں میں اپنا بچپن ڈھونڈنے آیا تھا مگر میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اس منظر کو ذبح ہوتے دیکھا ہے۔ وفاقی ترقیاتی ادارہ جہاں اس شہر کے لیے بے پناہ کام کر رہا ہے اس ایک مسئلے کی طرف بالکل توجہ نہیں دے رہا۔ اگر جنگل کاٹنا اور درخت اکھیڑنا ضروری بھی ہے تو اسی تناسب سے کسی دوسری جگہ سبزہ لگانا لازمی ہونا چاہیے تا کہ تناسب میں فرق نہ آئے۔
گذشتہ کچھ دہائیوں سے اسلام آباد پاکستان کا مرکز بن گیا ہے۔ ایجوکشن، سیاست اور میڈیا کا مرکز بن جانے کی وجہ سے پاکستان بھر سے لوگ اس شہر میں اُمڈے چلے آ رہے ہیں اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ مگر یہ بھی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے کہ اسلام آباد پاکستان کا سب سے مہنگا شہر بھی ہے۔ اس کے باوجود اس شہر کو کمرشل بنیادوں پر کھڑا کرنے کی کوشش جاری ہے جو فطرت کے قتل کا موجب بن رہا ہے۔
کیا فطرت کا نوحہ پڑھنا فطرت کی بازیابی کا عمل ہو سکتا ہے؟ کیا سبزے سے اظہارِ محبت محض ایک واک یا احتجاجی جلوس کافی ہوگا؟ ظاہری بات ہے کہ یہ سب ناکافی ہے ۔ ہمیں عملی سطح پر کچھ کرنا چاہیے۔ جس کا بہترین آغازیہ ہے کہ ہم فطرت دوست بنیں اور اپنی آنکھوں سے فطرت کی تباہی کو محسوس کریں۔