وصی حیدر
۴؍ جنوری ۲۰۰۴ء کو روبوٹ سے چلنے والے اسپرٹ نام کے روور (Rover) نے جب مریخ کی سطح کی پہلی تصویر زمین پر بھیجی تو ناسا کی تجربہ گاہ میں بیٹھے ہوئے سائنس دان خوشی سے جھوم اُٹھے۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور گل جی کی تخلیقات بھی اس قدر جدید اور فنّی اعتبار سے مکمل ہیں کہ انہیں دیکھ کر ناظر خوشی سے جھوم جاتا ہے اور اُس میں بھی وہی جستجو اور اضطراب پیدا ہو جاتا ہے جو پینٹنگ کرتے ہوئے گل جی کے اندر ہوتا ہو گا۔
گل جی نے ۱۹۴۵ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے بی ایس سی آنرز کیا۔ ۱۹۴۷ء میں کولمبیا یونیورسٹی سے ہائیڈرالک میں ایم ایس کیا۔ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے بھی تعلیم حاصل کی۔ انجینئر ہونے کے باجود انہوں نے مصوری میں دلچسپی برقرار رکھی اور ۱۹۵۰ء میں اپنے فن پاروں کی پہلی نمائش سوئیڈن میں کی۔ اسٹاک ہوم میں قیام کے دوران انہوں نے متعدد انفرادی اور اجتماعی نمائشوں کے ذریعے اپنی تخلیقات پیش کیں۔ انجینئرنگ کے مستقبل کو یک سر نظرانداز کر کے انہوں نے اپنی تمام تر توجہ مصوری پر مرکوز رکھی۔ ۱۹۷۰ء میں پاکستان کی حکومت کی جانب سے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔ ۱۹۸۲ء میں ستارۂ امتیاز اور پھر یہی اعزاز ۱۹۸۸ء میں مسجد شاہ فیصل میں Monumental Sculptural Work پر حاصل کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اندرون اور بیرونِ ملک متعدد ایوارڈ حاصل کیے، جن میں ۱۹۷۹ء میں ملنے والا جاپان فاؤنڈیشن ایوارڈ بھی شامل ہے۔ گل جی کہتے تھے کہ:
’’اللہ تعالیٰ کی مہربانیاں میرے شاملِ حال ہیں۔ اس کے ساتھ ہی لوگوں کی بھی مہربانی ہے کہ وہ مجھے ہجوم میں بھی پہچان لیتے ہیں اور مسکراتے ہوئے آٹو گراف لیتے ہیں۔ یہ پہچان میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔‘‘
گل جی نے مصوری کی کئی اصناف میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔ پورٹریٹ ڈرائنگ میں اپنی مہارت دکھانے کے ساتھ قیمتی پتھروں کو اپنی تخلیقات کا حصہ بنایا، جسے ’’Lapiz Lazulu‘‘ کا نام بھی دیا گیا۔ گل جی کی لیپز لازولو کی کمپوزیشن ان کی انتہائی مشّاقی اور مہارت کا پتا دیتی ہے۔ ۱۹۶۰ء میں ان کی پینٹنگز میں ایک نمایاں تبدیلی آئی اور انہوں نے ایکشن پینٹرز کی طرز پر مصوری کی۔ یہ وہی طرزِ مصوری ہے جسے گیسچر (Gesture) بھی کہا جاتا ہے۔ یہی وہ اُسلوب ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد بہت سے جدید مصور رہنماؤں نے اختیار کیا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم نے بہت سے یورپی مصوروں کو بطورِ پناہ نیویارک کا رُخ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ یورپی مصور امریکی مصوروں سے بہت زیادہ متاثر ہوئے اور جنگ کے اختتام پر امریکہ ایونٹ گریڈ آرٹ (Avant Grade Art) کا مرکز بن گیا اور اِس نئی تحریک کو یورپین اشتراک سے زیادہ کامیابی کے ساتھ آگے بڑھنے میں مدد ملی۔ امریکی مصوروں نے جب یہ محسوس کیا کہ سریلزم (Surrealism) اور دیگر مصوری کے انداز بہت زیادہ واضح ہونے کے باوجود اپنے اندر قوت نہیں رکھتے تو انہوں نے ایسا آرٹ تخلیق کرنا چاہا جو زیادہ طاقتور ہونے کے علاوہ آزاد اور براہِ راست جذبات و احساسات کی عکاسی کرتا ہو۔ نیویارک سکول کے ان ایبسٹریکٹ ایکسپریشنسٹ(Abstract Expressionist) مصوروں نے ایسے ہی فن پارے تخلیق کیے جو کہ بڑی بڑی تصاویر پر مشتمل ہونے کے علاوہ مکمل طور پر تجریدی تھے۔ ان مصوروں سے بیشتر نے پینٹنگز تخلیق کیں، جنہیں دیکھتے ہی ناظر نہ صرف مصور کے احساس کو چھو لیتا تھا بلکہ ایک ہی اشارہ میں اس کو مکمل طور پر سمجھ بھی لیتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان مصوروں کی پینٹنگز ایکشن یا گیسچر (Action or Gesture) کہلانے لگیں۔ ان تخلیقات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ویسلی کانڈاسکی (Wesley Kandansky, 1866-1944) کے کام کو آگے بڑھایا گیا ہے، حالاں کہ یہ کام زیادہ واضح، وسیع اور پُراثر ہونے کے علاوہ خیالی یا تصوراتی ہونے کے باعث سریلزم سے مشابہہ تھا۔ ایبسٹریکٹ ایکسپریشن ازم کو امریکہ میں جنم لینے والے مصور آرشلے گورکی (Arshile Gorky, 1904- 1948) کی رہنمائی حاصل تھی۔ ابتدا میں ایکشن پینٹرز میں جیکسن پولا ک کو شہرت حاصل ہوئی۔ اس شہرت کی وجہ اس کی وہ نئی تکنیک تھی جس کے تحت وہ لکڑی کے ذریعے کینوس پر رنگ بکھیرتا تھا اور ایسے فن پارے تخلیق کرتا تھا جو کہ ایک لمحے میں کینوس کے تاثر کو ذہن کے پردے پر عیاں اور مرتسم کر دیتے تھے۔ اس تکنیک کو چند برس پیشتر ایکسپریشنسٹ مصوروں کا ہم عصر جرمن مصور ہینز ہاف مین اپنا چکا تھا۔ یہی وہ ہاف مین ہے جو روحانی طور پر نیویارک کے مصوروں کا استاد تھا۔ نیدر لینڈز (Netherlands) کے ولیم ڈی کوننگ (William De Kooning, 1904-1997) نے بھی بڑے بڑے کینوس پر برش کے اسٹروک کی مدد سے بھڑک دار رنگوں کے انتہائی غیر معروضی فن پارے تخلیق کیے، جب کہ فارنز کلائن (Franz Josef Kline, 1910-1962) نے سیاہ رنگوں میں اپنی تخلیقات پیش کیں۔ فرانسیسی مصور نکولس ڈی اسٹیل (Nicholas De Steal, 1914-1955) نے بھی اس فن میں خوب اپنی مہارت کے جوہر دکھائے۔ امریکہ کے دیگر ایبسٹریکٹ ایکسپریشنسٹ مصوروں نے بھی رنگوں کے وافر مقدار میں استعمال پر خصوصی توجہ دی۔ ایکشن پینٹنگ کے روحِ رواں جیکسن پولاک کی طرز پر گل جی نے اپنی تخلیقات میں رنگوں کا استعمال خوب صورتی سے کیا ،لیکن انہوں نے اس میں نمایاں تبدیلیاں کیں اورنئی جہتوں کو شامل کیا، جس نے انہیں ہم عصر مصوروں میں نمایاں کیا۔
گل جی کی مصورانہ صلاحیتوں میں جو خصوصیا ت ہیں ان میں انتہائی چابک دستی اور مہارت کے ساتھ دبیز رنگوں کے اسٹروکس ہیں۔ وہ رنگوں کے مزاج اور کیفیات سے بھی خوب واقفیت رکھتے تھے۔ انتہائی برجستگی اور مہارت سے رنگوں کا استعمال ان کی مصوری پر نہایت مضبوط گرفت کی علامت ہے۔ چوڑے بڑے برش کے مخصوص اسٹروک، چمکتے اور واضح معنویت لیے ہوئے رنگ، اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کو نہ صرف عیاں کرتے ہیں بلکہ ان کے برجستہ اسٹروک، جو کینوس کو آلودہ نہیں ہونے دیتے، نہ صرف حیران کن ہیں بلکہ ان کی بے پناہ مشق کا مظہر ہیں۔
گل جی کی تخلیقات دو ثقافتوں کو یکجا کرنے میں ایک Fuse کی سی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسلامی خطاطی اور ایبسٹرکٹ ایکسپریشن ازم میں برش کے اسٹروکس، دونوں کا امتزاج ایک ہی کینوس پر اِس انداز میں کرتے تھے کہ فن پارہ مجموعی طور پر اعلا درجے کی تخلیق بن جاتا تھا۔
ان میں وہ تمام صلاحیتیں اور تخلیقی محرکات موجود تھے جن کے ذریعے وہ پتھروں کو شبیہ اور کینوس کو رنگ دیتے تھے۔ انجینئر ہونے کے باوجود اُن کا شوق صرف اورصرف آرٹ تھا۔ انہوں نے دنیا کی بڑی بڑی شخصیات کے پورٹریٹ بھی بنائے جن کا شمار عدیم المثال پورٹریٹس میں ہوتا ہے۔ ان کے کینوس پر بکھرے ہوئے رنگ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا نہ صرف منہ بولتا ثبوت ہیں بلکہ ناظر کو چونکا دینے کے ساتھ اپنے ہونے کا احساس بھی اجاگر کرتے ہیں۔
دراصل ان کے اسٹروکس نہایت طاقتور ہونے کے علاوہ ایبسٹریکٹ ایکسپریشن ازم سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک ایسے مصور تھے جنہیں ہم دنیا کے بڑے بڑے مصوروں کی صف میں شمار کر سکتے ہیں۔ وہ میورال بنانے والے مصوروں کی صفِ اوّل میں شامل ہیں۔ ان کی پورٹریٹ ڈرائنگ اور تجریدی، روغنی اسٹروکس میں بجلی کی سی توانائی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے برش یا اسٹروکس کی کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی۔
پاکستانی مصوری کے غیر معمولی فن کار گل جی حقیقی معنوں میں اپنی طرز کے ایسے مصور تھے جن کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ نہ صرف حقیقت پسندانہ مصوری بلکہ تجریدیت میں بھی انفرادیت رکھتے تھے۔