(ترجمہ:عارف بخاری)
نوم چومسکی
اقبال احمد کی تحریر پڑھتے ہوئے تخلیق کار کا نقشہ واضح طور پر اُبھرتا ہے : ایک قابلِ قدر دوست اور قابلِ اعتماد رفیق‘ ایک مشیر اور ایک استاد ! ان انٹرویوز میں محفوظ ان کی ناقابل فراموش آواز علم‘ سمجھ بوجھ اور ترحم کے جذبے سے بھرپور ہے۔ ایسی آواز جو فولادی انہماک تو رکھتی ہے مگر جو کٹر عقیدہ پرستی سے آزاد ہے۔
اقبال احمد خود کو ’’کٹر سیکولر‘‘ کہتے ہیں ۔ اور باقی سب کی طرح میں بھی اُن کو ایسا بیان کرنا پسند کرتا ہوں۔ تاہم وہ اس مذہبی فکر و عمل کی توصیف کرنے میں بھی پیش پیش ہیں جو ان کے خیال میں قابل قدر ہے۔ مثلاً ہند کے اُن عظیم دانشوروں کا کام جنہوں نے تقسیم اور قومیت کے نظریئے کو غیر اسلامی خیال کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی‘ یہ کہہ کر کہ اسلام سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتا۔
اقبال احمد کے نزدیک قومیت کے خطرات اور مذہبی جنونیت کی لعنت ایک ہی طرح تباہ کن ہیں بلکہ اول الذکر زیادہ مہلک ہے‘ اگر وہ ایک ’’بعد از نو آبادیاتی‘‘ (Post Colonialist) ریاست کو لاحق ہو جائے۔ اقبال مزید کہتے ہیں کہ شہنشاہیت مخالف تحریکوں کی سب سے بڑی ناکامی ان کا قومیت کا مغربی نظریہ اپنانا تھا۔ ایسے میں ان تحریکوں نے رابندر ناتھ ٹیگور جیسے قابل احترام دانشوروں کی انتباہ کو بھی اہمیت نہ دی۔ یہ بھی قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ ٹیگور جیسے قومیت مخالف نے جنوبی ایشیاء کے اُن دو ممالک کا قومی ترانہ تخلیق کیا جنہوں نے ان کی تعلیمات رد کرکے نقصان اُٹھایا۔
اسی طرح کی ستم ظریفی دوسری جانب علامہ محمد اقبالؒ کے معاملے میں بھی نظر آتی ہے جن کی خاکہ کشی بطور بانئ نظریہ پاکستان کی جاتی ہے اور یہ وہی اقبال ہیں جنہوں نے لکھا : ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ اور یہ اُن کا تحریر شدہ واحد قومی ترانہ ہے جو ہندوستان کے سواء کسی کا نہیں ہو سکتا۔
علامہ اقبال کا تصور اپناتے ہوئے جناح نے ایسے پاکستان کا نظریہ پیش کیا جو ’’بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ رویہ برتے گا‘‘۔
اقبال احمد تنبیہہ کرتے ہیں کہ قومیت اور مذہبی جنونیت کی دُہری لعنت نے قومی تحریکوں کو خطرناک شکنجے میں جکڑ رکھا ہے ! اور یہ تحریکیں کلنٹن اور بُش جیسے قرونِ وسطیٰ کی جنگجویانہ ذہنیت رکھنے والی قیادت کے زیرِ اثر اپنی تباہی کی طرف آپ بڑھ رہی ہیں۔ اقبال احمد اس سلسلے میں فرانزفاناں کا حوالہ دیتے ہیں جن کے ساتھ انہوں نے ’’قومی شعور کے پوشیدہ جال‘‘ (The Pitfalls of National Consciousness) پر کام کیا۔ یہ فاناں کے بصیرت انگیز آخری افکار کا عنوان ہے جس کی توثیق اقبال احمد نے زور و شور سے کی۔ فاناں کو قومیت کے پوشیدہ پھندے صاف نظر آتے تھے۔ قومیت سے کس طرح کی ساخت وجود میں آئے گی‘ کس طرح کی محکومیت پیدا ہوگی‘ کیسی بعد از نو آبادیاتی ریاست وجود میں آئے گی‘ جو دراصل شاہی تسلط کی ہی ایک جدید شکل ہوگی جو صرف طبقۂ اشرافیہ کے لیے موافق ہوگی۔
اقبال احمد خودبھی بعد از نو آبادیاتی ریاست کو نو آبادیاتی ریاست کی ہی ایک بگڑی ہوئی شکل سمجھتے تھے جس میں وہی ارتکازِ قوت‘ حاکمانہ افسرِ شاہی اور فوج اور اشرافیہ کا گٹھ جوڑ موجود ہے۔ نیا طبقۂ اعلیٰ پرانے کا وارث ہے۔ صاحبِ جائیداد طبقات‘ اہل دانش‘ سرمایہ دار‘ یہ سب غریب طبقات سے لاتعلقی کے سلسلے میں اتنی ہی بے حس ہیں جتنا کہ نو آبادیاتی تھے۔ یہ لوگ نسلی عصبیت کا ایک نیا نظام تخلیق کر رہے ہیں جس میں غریب امیر سے دور ہوں گے اور امیر مغرب اور مرکز سے جڑے ہوں گے۔
پرانی نو آبادیاتی ریاستوں کو نئے سرے سے آباد کرنے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں محسوس ہوتی کہ دراصل نو آبادیاتی نظام ختم ہی نہیں ہوا۔ پیداوار اور خرچ کا نظام بمشکل ہی بدلا ہے‘ اگرچہ ’’انحصارانہ‘‘ تعلقات میں مزید تنوع پیدا ہوا ہے۔
اقبال احمد نے جنوبی ایشیا پر ایک دستاویزی فلم بنائی ہے جس میں انہوں نے فیض احمد فیض کی ایک نظم شامل کی ہے۔ فیض کو سن کر پتہ چلتا ہے کہ وہ نو آبادیاتی ریاستوں کی آزادی کے بعد کی مایوسی کے بارے میں کس قدر پیش بین تھے !
اس سلسلے میں عرب دنیا جیسی تکلیف دہ مثالیں کم ہی ہوں گی۔ عربستان کو امریکی حکومت نے ساٹھ برس قبل کلیدی قوت کے ایک حیرت انگیز منبع اور عالمی تاریخ کی سب سے بڑی مادی نعمت کے طور پر دریافت کیا مگر بقول اقبال احمد یہ غیر معمولی دولت عربوں سے چھین لی گئی اور ان ذخائر کا رُخ مغرب کی طرف موڑ دیا گیا اور یہ سب کچھ اُس بعد از نو آبادیاتی اعلیٰ طبقہ کے ذریعے ہوا جنہیں برطانوی حکمران اپنے عروج کے زمانے میں اپنا آلۂ کار بناتے رہے تھے۔
مغربی ایشیا کی بعد از جنگ تاریخ انہی مثالوں کو ہولناک درستی کے ساتھ دہراتی ہے۔
اگر یہ بیس کروڑ لوگ جلد ہی اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینے کی کوئی سبیل نہیں کرتے‘ تو یہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی نسل کُشی پر مجبور ہوجائیں گے‘ کیونکہ ایک دن ان سے چھینی گئی دولت کے سوتے بھی سوکھ جائیں گے۔
یہی صورتِ حال دنیا کے بہت سے دوسرے حصوں میں موجود ہے۔ امریکہ کے بعد از جنگ پلاننگ کے اندرونی ریکارڈ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ افریقہ کو یورپ کو پیش کیا گیا تھا تاکہ اس کے ذخائر یورپی تعمیر نو کی خاطر کام میں لائے جاسکیں۔ سابقہ شاہی طاقتوں کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ طاقت اور استحصال کی خوفناک اور شرمناک ساختیات بگڑنے نہ پائیں۔
امریکی قلمرو کے نمایاں دانشور کھلے دِل سے تسلیم کرتے ہیں کہ اگرچہ ’’افزائشِ جمہوریت‘‘ کے پروگرام انقلابی تبدیلیوں کا دباؤ کم کرنے کے لیے شروع کیے گئے تھے مگر دراصل ان کا منشاء فقط ایسی محدود اور درجہ وار جمہوری تبدیلیاں تھیں جو امریکہ کی روایتی قوت کی ساخت کو متاثر نہ کرسکیں‘‘۔ (ٹامس کیروتھر Thomas Carothers)
اس علاقے کی خستہ حالی ایسی ہی مطلق العنان سوچ کی مظہر ہے۔ امتیازات بہرحال موجود ہیں۔ ان میں دو امیر علاقے مشرقی ایشیا اور لاطینی امریکہ کی ڈرامائی صورتِ حال کے حامل ہیں۔ سنجیدہ مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ترتیبِ صَرف (Patterns of Consumption) اور اشرافیہ کا سماجی مقابلہ (Elite Status Competition) بالکل مختلف ہیں۔ مثلاً لاطینی امریکہ میں مغربی اشرافیہ کے لیے تیار کی گئی اشیائے تعیش ایشیائی سوسائٹیوں کے لیے بنائی گئی اُن دیسی اشیاء سے کلیتاً مختلف ہیں جو نسبتاً بڑے اور مرکز گریز فنی شعبوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں۔ ایشیاء نے صارفین کے لیے پائیدار اشیائے صرف مہیا کرنے سے پہلے ایک ٹھوس انسانی سرمائے کی بنیاد رکھنے پر توجہ دی۔
لاطینی امریکہ میں‘ جہاں امیر ہر ذمہ داری سے مبرا ہوتے ہیں‘ وہاں بقول ایک ممتاز برازیلی ماہرِ معاشیات کے‘ مسئلہ ’عوامیت‘ (Populism) نہیں ہے بلکہ ریاست کا امیر کی اطاعت کرنا ہے۔ مشرقی ایشیاء میں صورتِ حال یکسر مختلف ہے اور یہ اختلاف پچھلی ربع صدی کی عالمگیریت (Globalization) کی وجہ سے مزید بڑھا۔
’آزاد خیالی‘ کے عشرے کا جائزہ لیتے ہوئے لاطینی امریکہ کے معاشی کمیشن کے ڈائریکٹر انتہائی افسوس سے بیان کرتے ہیں کہ لاطینی امریکہ وہ علاقہ ہے جہاں معاشی اصلاحات تو انتہا تک پہنچ گئے مگر شرحِ منافع تیزی سے گرتی گئی ! جبکہ مشرقی ایشیا میں شرح منافع میں انتہائی تیزی کا رجحان دیکھنے میں آیا جہاں مغرب کے معاشی اصولوں سے مکمل انحراف کیا گیا تھا۔
اقبال کا معاصر دُنیا اور اُس کی اصل کا جائزہ خطرات و تکلیفات سے پہلوتہی نہیں کرتا مگر اُس میں سے ان کی اٹل رجائیت بہرحال جھلک رہی ہے۔ پاکستان میں ہونے والی تعمیر و ترقی کے کٹر نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ وہ یہاں کی نسائی تحریکوں اور اصلاحی غیر حکومتی تنظیموں کے کارہائے نمایاں اور یہاں کے پریس (جسے وہ تیسری دنیا کا زوردار ترین پریس کہتے ہیں) کی دِل کھول کر تعریف کرتے ہیں۔
اپنی زندگی کے آخری برس اقبال احمد نے خلدونیہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے کے لیے وقف کر دیئے۔ اس یونیورسٹی سے انہیں امید تھی کہ وہ ایسے ’’جدید ترقی پسند سیکولر تعلیم یافتہ‘‘ لوگوں کی جماعت پیدا کرے گی جو اپنی روایات سے واقف ہوں گے اور ان کی بہترین خصوصیات کو اپنائیں گے۔ وہ ایسی جماعت ہوگی جو مقامی سطح پر عوامی قوت اور معاشی ترقی کے نئے رُخ وضع کرنے والوں کے ساتھ مل کر کام کرے گی اور نام نہاد جمہوریت کے برعکس نچلی سطح پر صحیح معنوں میں عملی جمہوریت قائم کرے گی۔
اقبال احمد صوفی روایت کا بہت دلچسپی اور گرم جوشی سے ذکر کرتے ہیں۔ اسی سلسلے میں وہ اپنی بچپن کی یاد داشتوں کا حوالہ دیتے ہیں کہ صوبہ بہار کے ایک گاؤں میں کیسے صوفی مشقوں کے ذریعے ہندو مسلم متحد ہوئے۔ وہ سیدھے سادھے‘ منکسر مزاج صوفیاء مثالوں کے ذریعے تبلیغ کرتے تھے اور ان کی زندگی خدمت اور تمام لوگوں کے ساتھ بلا تخصیص حسنِ سلوک کی اعلیٰ مثال تھی۔ لہٰذا صوفی جماعت کی جانب زیادہ تر معاشرے کے پسے ہوئے طبقات راغب ہوئے کیونکہ یہ جماعت سب کو سماجی حیثیت‘ مرتبہ اور معاشرتی مساوات عطا کرتی تھی۔
میں سمجھتا ہوں یہ بات اقبال احمد کے لیے بہت امید افزاء ہے کہ وہ ایک ایسے ’’سیکولر‘‘ صوفی کے طور پر جانے جاتے ہیں جو اپنی زندگی کی مثالوں سے اور اپنے حرف و فکر کی قوت سے ہمیں درس دیتے ہیں۔