(دانش حسین خان)
جب ہم اقبال کا مطالعہ کر تے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اقبال نے اپنی شاعری کو مختلف النوع افکار سے سجایا ہے ۔ جن میں خودی ، حرکت وعمل ، مر د مو من ، فلسفہ ، انسانی عظمت اور حب الوطنی وغیر ہ کافی اہم ہیں ۔ اقبال جو ایک حساس دل رکھتا ہے جس کی شاعری میں موضوعات کا تنوع ہے جو ہندوستان کے پہاڑ ، ندی ، صحرا، پھول اور تہواروں سے متعلق نظمیں لکھتا ہے ، مناظر فطرت میں گم ہوجاتا ہے وہی اقبال اپنی شاعری میں ہندوستان کی عظیم ہستیوں کے تعلق سے بحث کرتا ہے اور شخصیات کے عظیم کارناموں سے ہمیں آگاہ کر تا ہے ۔ اقبا ل نے اپنی شاعری میں ہندو، سادھو سنتوں کے ان تعلیمات کو بھی پیش کیا ہے جنہوں نے انسانیت کی فلاح و بہبود میں ایک اہم رول ادا کیا ہے ۔
کسی نے بہت خوب کہا ہے کہ اقبال نے اردو شاعری کو صرف ’’ حسب ‘‘ ہی نہیں بلکہ نسب بھی دیا ہے ۔ حسب سے میری مراد شاعری کی مختلف اصنا ف اور موضوعات ہیں جبکہ نسب سے مراد ایسی نظمیں ہیں جو کسی شخص یا شخصیت سے متاثر ہوکر لکھی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک انسان اگر مسلمان ہوتا ہے تو قرآن مجید سے اثرات ضرور قبول کر تا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اقبال جیسا حساس دل شاعر جو وطن کی محبت سے لبریز ہے وہ وطن کے ان عظیم شخصیات سے اپنی محبت کا اظہا رنہ کر تا ہو ۔ سر کار دوعالم ﷺ کی حدیث ہے جس کے مطابق وطن سے محبت جزو ایما ن ہے ۔
اردو شاعر ی میں شخصیات سے متعلق نظمیں اور جابجا اشارات ملتے ہیں لیکن جب اقبال شخصی شاعری کر تا ہے تو اس کا انداز منفرد اور مؤثر ہوتا ہے ۔ اقبال کسی خاص قوم ، مذہب اور رنگ ونسل کے شخصیات پر ہی اظہار ِ خیا ل نہیں کرتا بلکہ مختلف شخصیات پر اقبال کی نظمیں ملتیں ہیں ۔ اقبال نے ان شخصیات کا ذکر صرف اسی وجہ سے کیا ہے کہ ساری دنیا ان شخصیات کے عظیم کارناموں سے واقف ہوجائے اور انہیں پتہ چل جائے کہ ان کی ذات کتنی دلچسپ اور حیرت انگیز ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جب نر گس اپنی بے نوری پر روتی ہے تب اس چمن میں کوئی دیدور پیدا ہوتا ہے ۔
چونکہ مجھے اقبال کی شاعری میں ہندوستان کے کچھ عظیم غیر مسلم شخصیات کے تعلق سے اپنے مضمون کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہے اور جن سے اقبال کسی نہ کسی حدتک متاثر تھے اور جن پر اقبال نے نظمیں بھی لکھی ہیں ان میں رام چندر ، شری کرشن ، گوتم بدھ ، گرونانک ، بھرتری ہری ، وشو امتر ، سوامی رام تیرتھ وغیرہ اہم نام ہیں ۔
بھرتری ہری :۔
بھرتری ہری سنکرت کا ایک عظیم الشان شاعر ہے بھرتری ہری کا زمانہ پہلی صدی عیسوی قبل مسیح کا ہے۔بھرتری ہری کا تعلق شاہی خاندان سے تھا جس کا دارالحکومت اجین تھا ۔ بھرتری ہری نے سنکرت زبان میں شلوک لکھا تھا جو حسب ِ ذیل ہیں۔
(۱) شرنگار شتک : اس شتک میں سو شلوک ہیں اس میں بھرتری ہری نے عشق و محبت کی باتیں کی ہیں ۔
(۲)نیتی شتک: کہا جاتا ہے کہ جب بھرتری ہری اجین کا راج کمار تھا تب اس نے نیتی شتک لکھا تھا جس کا مطلب سیاست ہے ، اس شتک میں اس دور کی سیاست کی عکاسی ہے ۔
(۳)ویراگیہ شتک : جب بھرتری ہری نے سنیاس لے لیا اور اپنا راج پاٹ چھوڑ کر فقیری اختیار کیا تو اس نے ویراگیہ شتک لکھا اس کا مطلب ہے معرفتِ الہٰی اور فقیری ۔
علامہ اقبال بھرتری ہری کے بہت بڑے مداح ہیں اور ان کی عظمت کا گن گاتے ہیں ۔ اس بات کی شہادت یوں پیش کی جاسکتی ہے کہ اقبال نے سنکر ت کے اور شاعروں کو چھوڑ کر بھرتری ہری کو ایک الگ اہمیت عطا کی ہے اقبال بھرتری ہری کے قول وعمل سے بہت متاثر ہیں اور تمام انسانوں کی فلاح کا راستہ بتاتے ہیں ۔ بھرتری ہری کے اس فکر وعمل سے اقبال نے بہت فائدہ اٹھایا اور ہم دیکھتے ہیں کہ بھرتری ہری کے اس فکر کا اثر اقبال کے کلام میں ہمیں جابجا نظر آتا ہے ۔ اسی لیے علامہ اقبال نے بال ِ جبریل کا آغاز اس شعر سے کیا ہے ۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مر د ناداں پر کلام ِ نر م و نازک بے اثر
جاوید نامہ علامہ اقبال کا شاہکار مانا جاتا ہے علامہ اقبال نے اس کو ایک شعری ڈرامے کے روپ میں ہمارے سامنے پیش کیاہے جاوید نامہ میں اقبال نے مختلف کرداروں کی زبان سے اپنے فکر و فلسفے کو بیان کیا ہے ۔ اقبال بھرتری ہری کی عظمت کے اس قدر قائل تھے کہ بھرتری ہری کو فلک الافلاک پر جگہ دی ہے جس کو ہم جنت الفردوس کے نام سے جانتے ہیں ، کہا جاتا ہے یہ مقام اقبا ل نے عظیم شاعر مرزا غالب کو بھی نہیں دیا الغرض ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عمل کا نکتہ بھرتری ہری سے حاصل کیا ہے اور جس انسانی عظمت اور خودی کا درس دیا ہے اس میں بھی بھرتری ہری کا عکس نظر آتا ہے اقبال بھرتری ہری کے اندازِ فکر سے اپنے کلام کو مزین کر تے ہیں ۔
وشوامتر :۔
وشوامتر ایک ہندوستانی سنت تھا اس کے والد کانام گادھی تھا وشوامتر کا تعلق کھتری خاندان سے تھے ۔ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ وشوامتر کنوج کی سلطنت کا سپہ سالا ر تھا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ جو بات وشوامتر کو سب سے زیادہ ممتاز کر تی ہے وہ یہ کہ وشوامتر ہندؤں کے بھگوان رام چندر کے استاد بھی تھے ۔ وشوامتر کے زندگی کے بہت سارے حالات واقعات کا پتہ ہمیں بالمیکی رامائن سے چلتا ہے ۔ وشوامتر بہت بڑے پہلوان تھے اور رشی وششٹھ سے جنگ میں ہار جاتے ہیں اس کے بعد برہما دیوتا کی تپسیا کرتے ہیں اور ہزاروں سال کی محنت اور لگن کے بعد برہمن پد کو حاصل کر تے ہیں ۔
جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب ’’ Iqbal Mind and Art‘‘ میں جہان دوست کو شیو جی کے نام سے پکارا ہے مگر علامہ اقبا ل نے جس طرح سے جہان دوست کا تذکر ہ کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کا جہان دوست وشوامتر ہی ہے شیو جی نہیں ۔
اقبال نے جاوید نامہ میں وشوامتر کو ایک الگ مقام اور اہمیت عطا کی ہے اور وشوامتر کی زبان سے پیغام بھی دیا ہے ۔وشوامتر کے اسی پیغام کو یوسف سلیم چشتی نے اس طرح پیش کیا ہے :
’’ فرشتے نے کہا میں مشرق (ہندوستان ) میں بڑے ہنگامے دیکھ رہا ہوں ، کتنی مبارک وہ قوم ہے جو اپنے آپ کو دوبارہ پیدا کر سکے یعنی جس کے دل میں آزادی بیدار ہوجائے ۔ ہم عرشیوں کے لیے وہ مبارک گھڑی ہے جب کوئی قوم بیدار ہوجائے ‘‘
بحوالہ ۔فکر اقبال کے مشرقی مصادر ، ڈاکٹر محمد نفیس حسین ، ص۔ ۱۴۳
جاوید نامہ میں اقبا ل کی حب الوطنی کا جذبہ بھی کار فرما نظر آتا ہے اسی لئے علامہ اقبال وشوامتر اور فرشتے کی زبان سے ہندوستا ن کی آزادی کی بابت بھی بات کر تے ہیں ۔ جاوید نامہ میں وشوامترکی موجودگی اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ اقبال کی نظر میں ہندوستان کے اس سنت کی کیا اہمیت تھی ۔
رام چندر:۔
رام نام ہے ایک ایسی شخصیت کا جو کروڑوں ہندوستانیوں کے دل کی دھڑکن ہے ، جس کے نام پر عقیدت مند حضرات صبح و شام پھولوں کی بارش کر تے ہیں اور ہر عقیدت مند انہیں بھگوان کے نام سے یاد کر تا ہے ۔ رام چند ر جی کے اندر اعلیٰ صفات پائے جاتے ہیں ، وہ ایک فرمابردار بیٹے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے دوست ، بھائی ، شوہر اور ہر دل عزیز حکمراں بھی تھے وہ غیر ت اور خوداری کی مثال تھے ۔ ان کے دل میں شاہی تاج اور ایک فقیر کے کشکول کی اہمیت یکساں تھی ، وہ ایک اصول پسند اور انصا ف پرور انسان تھے اور اپنے اصولوں پر اس طرح قائم رہتے تھے جیسے ہمالہ اپنی جگہ قائم ودائم ہے ۔اسی لئے کروڑوں لوگوں کے بیچ میں بھی رام کو ایک عظیم رہنما اور سچا انسان مانا جاتا ہے ۔
رام چند ر جی اپنی کم عمری کے زمانے سے ہی بہادری اور شجاعت کی مثال تھے اور وشو ا متر جیسے استاد سے انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی ، رام چندر جی تیاگ وبلیدان کی مثال ہیں کیونکہ والد کے کئے گئے وعدے کو پورا کر نے کے لئے وہ راج پاٹ کو چھوڑ کر جنگل کی زندگی گذارنے کو چلے گئے تھے ۔ آج کے اس دور میں جس میں بھائی بھائی کا دشمن ہے اور دولت کی خاطر قتل وغارت گری عام ہوگئی ہے رام جی نے بھائی کی محبت میں شرابور ہوکر دنیا کی اس دولت کو ٹھوکر ماردیا تھا ۔ رام چندر جی ذات پات کے جھمیلے میں نہیں پڑتے تھے بلکہ چھوٹے اور بڑے کے فرق کو مٹانے کے لئے ایک نیچ ذات کی بھیلنی کے یہاں بھی کھانا بھی کھاتے ہیں رام بھی انسانوں کو قیدو بند سے نجات دلانے کا کام کر تے ہیں ۔
رام کی انہی صفات کی بنا پر علامہ اقبال رام سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں ۔ اقبال رام کی بہادری ، عدل و انصاف ، والدین کے ساتھ اطاعت ، بھائیوں سے محبت ، سیرت وکردار کی پاکیزگی ، ایثار و قربانی ، قول کی پاسداری ، ظلم کے خلاف برسر پیکارہونے کی وجہ سے رام پر اپنی جان نچھاور کر تے ہیں ۔ رام سے محبت کی مثال علامہ اقبال کے اس نظم سے بھی ملتی ہے ۔
لبریز ہے شراب ِ حقیقت سے جام ِ ہند
سب فلسفی ہیں خطہ مغر ب کے رام ِ ہند
یہ ہندیوں کے فکر فلک رس کا ہے اثر
رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بام ہند
اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت
مشہور جن کے دم سے ہے دنیا میں نام ِ ہند
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ِ ہند
اعجاز اس چرخ ہدایت کا ہے یہی
روشن تراز سحرہے زمانے میں شام ہند
تلو ار کا دھنی تھا شجاعت میں مر د تھا
پاکیزگی میں جو ش محبت میں فرد تھا
گوتم بدھ :۔
لگ بھگ ڈھائی ہزار سال پہلے بھارت اور نیپال کی سرحد پر کپل وستو میں گوتم بدھ پیدائش ہوئی تھی ۔ بدھ کا اصلی نام سدھارتھ اور خاندانی نام گوتم تھا ۔گوتم کے والد راجہ تھے اور بہت ہی عیش وآرام کے ساتھ ان کی زندگی بسر ہورہی تھی ۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ اس وقت کے ایک بہت بڑے بزرگ اسیتا نے گوتم کو دیکھا تو یہ پیشن گوئی کی کہ یہ مہاتما یا بڑا آدمی بنے گا ۔ پھر اس کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ بچہ دنیا کو تیاگ کر کے ایک نئے دھرم کی بنیاد ڈالے گا اور انسانوں کی نجات کا وسیلہ بنے گا چنانچہ وہ پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی اور بدھ دھرم وجود میں آیا ۔
بدھ دھرم کو پھیلانے میں گوتم بدھ نے طرح طرح کی تکلیفیں اور اذیتیں برداشت کی ہیں ۔۲۹ سال کی عمر میں ہی گوتم بدھ اپنا گھر بار چھوڑ کر گیان کی تلاش میں نکل پڑے اور ۳۵ سال کی عمر میں آپ کو گیان حاصل ہوا تھا ، کئی کئی دن تک آپ نے فاقہ کیا ۔ حقیقت کی تلاش و جستجو میں اپنی زندگی بسر کی اور اخلاق ومحبت اور اچھے کاموں کی تبلیغ کی ۔ گوتم بدھ نے ۸۰ سال کی عمر پائی اور بنارس سے ۱۹۰ کلومیٹر کے فاصلے پر کسی نارا میں انتقال فرمایا ۔
آج کے زمانے میں جب گوتم بدھ کی تعلیم کی طرف اشارہ کر تے ہیں تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ قومِ گوتم اس تعلیم کو یکسر نظر انداز کر چکی ہے ، گوتم بدھ نے آپس میں مساوات ، ہمدردی اور محبت کا درس دیا تھا ، انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوانوں سے بھی محبت کر نے کو کہا تھا ۔ گوتم بدھ کسی کے دکھ و درد کو اپنا غم بنا لیتے تھے ۔ جیسا کہ آج کے اس دور میں قوم گوتم ان سبھی تعلیمات کو فراموش کر چکی ہے اور محبت و رواداری کی باتیں کتابوں میں ہی گم ہوگئی ہے شاید اسی لئے اقبال نے بھی کہا ہے کہ :۔
قوم نے پیغام ِ گوتم کی ذرا پرواہ نہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
برہمن شرسار ہے اب میے پندار میں
شمع گوتم جل رہی ہے محفل ِ اغیار میں
لہذا ان تمام باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال گوتم کے پیغام ان کی تعلیم ، ان کا اخلاق ومحبت و روا داری کی باتوں کو اہمیت عطا کر تے ہیں اور اپنے کلام کو گوتم بدھ کی تعلیم اور درس اخوت سے مزین کر تے ہیں ۔
شری کرشن :۔
ہم سبھی یہ بات جانتے ہیں کہ جب دنیا میں حد سے زیادہ ظلم و ستم ، قتل و غارت اور گناہ بڑھ جاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ یا تو اس قوم کو نیست و نابود کر دیتا ہے یا کوئی پیغمبر اس قوم کے لے بھیج دیتا ہے جو اس قوم کو راہ ِ راست پر لانے کی کوشش کر تا ہے ۔ اسی طرح ہندومذہب کا یہ عقیدہ ہے کہ جب دھرتی پر ظلم و جبر کی انتہا ہوگئی تو کرشن بھگوان کا جنم ہوا ۔ شری کرشن نے اپنی تعلیم سے اس دنیا میں پھیلی ہوئی تاریکی کو دور کیا اور لوگوں کے دلوں میں سچی محبت ، ہمدردی ، خوشحالی اور بے داغ مسرت کو پیدا کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہندومذہب کے لوگ انہیں بھگوان کہتے ہیں اور پوجا کر تے ہیں ۔ بھگوت گیتا میں شری کرشن نے خدا کی ذات اور وحدانیت کا اقرار کیا ہے اور کہا ہے خدا ضرور ہے ، اس کو چاہے کسی بھی نام سے پکارو ، پوری دنیا میں اسی کا نو ر وظہور ہے ۔ چاند اور سورج میں بھی اس کا عکس دکھائی دیتا ہے ، گیتا کے ادھیائے 12/15میں خدا کے وجود کو اس طرح پیش کیا ہے :۔
یہ سور ج کی تابش مرا نور ہے
جہاں جس کے جلوے سے معمور ہے
رہے چاند درخشاں مرے نور سے
تو آتش درخشاں مرے نور سے
شری کرشن اپنی تعلیمات میں عمل کو کافی اہمیت دیتے ہیں اور ان کے اندر حب الوطنی کا جذبہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہو ا ہے ۔ شری کرشن نے پوری عمر اپنے وطن اور قوم کی خدمت کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ذات پات کی تفریق کو ختم بھی کرنا چاہتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ گائے سے ان کی محبت بہت زیادہ تھی اسی لئے ہندو دھرم کے لوگ انہیں گوپال بھی کہتے ہیں ۔ شری کرشن کی تعلیم میں دو لفظ کی اہمیت کافی زیادہ ہے اور وہ ہے نشکا اور کرم ۔ یعنی بلاخواہش صلہ اجر کا کام کرو اور نتیجہ بھگوان پر چھوڑ دو ۔ شری کرشن کی ان تعلیمات پر جب علامہ اقبال کی نظر پڑتی ہے تو ان کے دل میں کر شن کی ایک الگ اہمیت اور محبت پروان چڑھتی ہے ۔ اقبال بھی کرشن کی طرح بے غرض عمل کی تلقین کر تے ہیں اور آپس میں محبت و ہمدردی کا درس دیتے ہیں ، اقبال بھی حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار نظر آتے ہیں ۔ اقبال گیتا کے فلسفے سے بہت زیادہ متاثر نظر آتے ہیں اور جابجا عمل کی تلقین کرتے ہیں مثلا ً :
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
یقیں محکم ،عمل پیہم ،محبت فاتح ِ عالم
جہاد ِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
اقبال نے اپنی نظم’’ سرگزشت ِ آدم‘‘میں بھی شری کرشن کی تعریف کی ہے اور ان کی فکر کو پیش کیا ہے لہذا ان تمام باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ اقبال شری کرشن کی تعلیم اور فلسفے سے متاثر تھے اس لئے ان کے کلام میں شری کرشن کی فکر کا عکس نظر آتا ہے ۔
گرونانک :۔
یہ بات ہم سبھی پر عیاں ہے کہ جب سے دنیا بنی ہے لوگوں کی پیدائش اور موت کا سلسلہ جاری وساری ہے ، دنیا میں بہت سارے لوگ پیدا ہوتے ہیں اور مر جاتے ہیں ان کے مر نے کے بعد لوگ چند دنوں تک انہیں یاد کر تے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں ، لیکن کچھ عظیم ہستیاں ایسی بھی ہیں جن کے مر نے کے بعد بھی ان کی یادیں ہمارے ذہنوں میں قائم ودائم رہتی ہے اور ان کے کارنامے ان کو زندہ رکھتے ہیں ۔ انہیں عظیم شخصیتوں میں ایک شخصیت گرونانک کی ہے ۔ سکھ دھرم کے بانی گرونانک صاحب ہندوستانی برگزیزہ بزرگوں میں سے ایک ہیں جو انسانوں کو محبت و اخوت کے ساتھ زندگی گزارنے کی تلقین کر تے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ان کی تعظیم ہر قوم و مذہب کے لوگ کر تے ہیں ۔ گرونانک صاحب نے عوام کو محبت و رواداری کا درس دیا اور ایک دوسرے کے دل سے بھید بھاؤ ختم کر ایا شاید اسی لئے گرونانک کے بارے میں کہا گیا ہے کہ :
بابا نانک شاہ فقیر
ہندو کا گرو ، مسلمانوں کا پیر
گرونانک نے بھی وہی تعلیم دی جو قرآن نے دی ہے اور اگر دونوں میں کوئی بنیادی فرق ہے تو وہ طرز تحریر کا ہے ۔ گرونانک کی شخصیت ایک عظیم الشان شخصیت تھی جس طرح سے گرو نانک نے آپسی رواداری کا درس دیا ہے انہیں تمام باتوں کی تعلیم اقبال بھی دیتے ہیں ۔ گرونانک بھی عمل کے بغیر زندگی کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور اقبال بھی عمل کو انسانی زندگی میں لازم و ملزو م مانتے ہیں ۔ گرونانک بھی آپس میں اختلاف نہیں رکھنا چاہتے ہیں اور اقبال بھی آپس میں خلوص و ہمدردی اور محبت کے حامی ہیں۔ علامہ اقبال گرونانک کو عظیم رہنما کے طور پر پیش کر تے ہیں مثلا ً :
چشتی نے جس زمیں پہ پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
تاتار یوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشت ِ عرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
علامہ اقبال نے اس نظم کے ذریعے گرونانک کو خراج ِ عقیدت پیش کیا ہے ۔
سوامی رام تیرتھ:۔سوامی رام تیرتھ ایک عظیم شخصیت تھے جن کی ذات سے ہندوستان کے علاوہ بیرون ِ ممالک کے لوگوں میں بھی استفادہ کیا وہ ایک صوفی اور یوگی تھے ۔ سوامی رام تیرتھ نے مغرب کے بہت سارے ممالک میں ہندوستانی فکر و فلسفے کو عام کیا تھا اور ہندوستان کی عوام کو قدیم علوم سے روشناس کر ایا تھا ۔
ایک روایت سے منسوب ہے کہ جب سوامی رام تیرتھ کی پیدائش ہوئی تو ان کے والد نے جو تشیوں کو ان کی کنڈلی دکھائی تو جوتشیوں نے رام تیرتھ کے بارے میں یہ پیشین گوئی کی :
یہ بچہ اپنی ماں کے دودھ سے نہیں پلے گا ،یہ ودیایعنی تعلیم بہت حاصل کر ے گا ، تپ یعنی تپسیا کر ے گا اور بھجن میں مشغول رہے گا ، ۲۸ برس کی عمر میں اداس ہوکر بنوں کو دیدار ِ الٰہی کی لالسا کے لئے چلا جائے گا ، ۴۰ برس کی عمر میں پانی میں وفات پائے گا ۔
لہذا جب ہم ان ساری باتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ جوتشی کی ساری باتیں سچ ثابت ہوئیں کیونکہ جب سوامی رام تیرتھ کی پیدائش ہوئی تو ان کی ماں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں ، تعلیم حاصل کر نے کا شوق انہیں بچپن ہی سے تھا اور تعلیم کی بدولت پوری دنیا میں مشہور ہوئے ، بچپن سے ہی رام کتھا سنتے تھے اور سنیاسی ہوکر ایشور کا دیدار کرنا چاہتے تھے اور ۳۹ سال کی عمر میں رام کی بھکتی میں اس قدر محو ہوئے کہ پانی کی لہروں میں ان کا انتقال ہوگیا ۔
سوامی رام تیرتھ جیسی شخصیت سے علامہ اقبال بہت متاثر تھے ۔ عطیہ فیضی کے نام لکھے گئے بیسوں نظموں میں ہندوستان کے کسی اور شخص کا نام نہیں لکھا ہے بلکہ صرف سوامی رام تیرتھ کا ذکر آیا ہے ۔ اقبال کے خودی کے فروغ میں سوامی رام تیرتھ کی تعلیمات کا بھی اثر رہا ہے ، علامہ اقبال اور سوامی رام تیرتھ ایک ہی کالج میں پڑھاتے تھے کہاجاتا ہے کہ جب سوامی رام تیرتھ امریکہ سے واپس آئے تو بہت دنوں تک زندہ نہیں رہے اور وفات پا گئے ۔ جب ان کے انتقال کی خبر علامہ اقبال کو ملتی ہے تو وہ بے چین اور مضطرب ہوجاتے ہیں اور سوامی رام تیرتھ کی یاد میں ایک نظم لکھتے ہیں :۔
ہم بغل دریا سے اے قطرۂ بے آب تو
پہلے گوہر تھا اب بنا گوہر ِ نایاب تو
آ ہ کھولا کس ادا سے تونے راز ِ رنگ و بو
میں ابھی تک ہوں اس پر امتیاز رنگ و بو
مٹ کے غوغا زندگی کا شورش محشر بنا
یہ شرارہ بجھ کے آتش ِ خانہ ٔ آزر بنا
نفی ہستی اک کر شمہ ہے دل آگاہ کا
لاکے دریا میں نہاں ہے موتی الا اﷲ کا
چشم ِ نابینا سے مخفی معانی انجام ہے
تھم گئی جس دم تڑپ ، سیماب سیم خام ہے
توڑ دیتا ہے بتِ ہستی کو ابراہیم عشق
ہوش کا دارو ہے گویا مستی تسنیم عشق
اقبال کی سوامی رام تیرتھ سے عقیدت و محبت کا پتہ اس بات سے بھی چلتا ہے کہ جب سوامی رام تیرتھ نے کالج سے استعفیٰ دے دیا تو ان کے کلیگ اور ماہرین تعلیم نے ان کا مذاق اڑا یا اور یہ کہا کہ وہ پاگل ہوگئے ہیں تو ایسے نازک وقت میں اقبال نے ان کی حمایت کی اور یہ کہا کہ :
’’ اگر سوامی رام تیرتھ پاگل ہیں تو دنیا میں عقل و ہوش کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا یہ وہی دیوانگی ہے جو Spinozaکو لاحق تھی یا کسی پیغمبر کو عظمت عطا کر تی ہے ۔ ‘‘
بحوالہ ۔ اقبال شاعر اور سیاست داں ، ڈاکٹر رفیق زکریا ۔ص ۔۶۶
سوامی رام تیرتھ کا ذکر جاوید نامہ میں بھی کیا اور نظم لکھ کر خراج ِ عقیدت پیش کیا ہے ۔
اقبال کے کلام میں کم از کم ۱۲۵ اشخاص کا ذکر ملتا ہے اقبال کی ان شخصی نظموں میں تنوع ہے اور ہر فکر اور مرتبے کے لوگوں پر اقبال نے اظہار خیال کیا ہے ۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں