(شکیل احمد)
الطاف حسین مائنس فارمولہ آخر کیوں؟
الطاف حسین کے نکل جانے کے بعد کا منظر نامہ کیا کہتا ہے؟ کیا ایم کیو ایم سے شکایات اور خدشات کا ڈھیر ایک دم رائی ہو جائے گا؟ کیا الطاف حسین ہی وہ چڑیا تھی جس کے نشانے کے بعد پوری ایم کیو ایم کی ڈار کراچی کی شاخ سے اڑ جائے گی؟
یہ کچھ سوالات ہیں جن کی کھوج میں ہم اُن خفیہ ہاتھوں کی درآمدات و برآمدات تک پہنچ جاتے ہیں جو اس وقت پھر سرگرمِ عمل ہیں۔ کراچی اور اُس کے مضافاتی علاقے مہاجرین کی آماج گاہ تصور کئے جاتے ہیں۔ حالاں کہ اُردو سپیکنگ پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں، پاکستان کے تقریباً ہر بڑے شہر میں اُردو بولنے و الوں کی اکثریت نظر آجاتی ہے۔کراچی کے مہاجرین ایک پڑھی لکھی اور اپنی تہذیب میں مکمل منفرد کلاس ہے۔ اگر انھیں پاکستان کا سرمایہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔الطاف حسین نے جب اس کلاس کی نمائندگی کا بیڑہ اٹھایا اُس وقت اسے نسلی انفراد کی بنیاد مہیا کی گئی۔نسلی تفاوت اور تفاخر نے الطاف حسین کے نظریے کو ایک تعصب اور جمود میں منتقل کر دیا۔
کیا ہم بھول گئے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو کرش کرنے کے لیے کراچی ہی سے ایک بیانیہ تشکیل دیا گیا تھا۔ جس نے کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں بھی اپنا تسلط قائم کر لیا۔ اس مقصد میں طاقتوں کا ایک مقصد تو پورا ہو گیا تھا مگر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کوئی طاقت زور پکڑتی ہے تو وہ اپنے پیدا کردہ ہاتھوں سے منحرف ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ ’’پیدا کردہ اور پیداوار‘‘ دونوں اپنے مقاصد حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔ ایم کیو ایم نے اپنے تشکیل کردہ ہاتھوں کو خدا حافظ کہہ کے ملکی سیاست میں ’’مَثبت‘‘ کردار نبھانے کی کوشش شروع کر دی۔ یعنی اپنا حصہ وصولنے کی کوششیں ۔خفیہ ہاتھ بھی اپنے تشکیل کردہ بیانیوں کو بڑھتے پھولتے دیکھ کر خوش ہوتی رہی۔ مگر یہ ڈراما زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتاتھا۔ فطری تقاضا ہے کہ نیا جنم ایک دن خود دوسروں کو جنم دینے لگتا ہے۔
الطاف حسین کیا طاقتوں کا کہنا نہیں مان رہے تھے؟ کیا ’’مائنس الطاف فارمولہ‘‘ ایم کیو ایم کو نیا جنم دے سکتا ہے؟ اور اس جنم میں پھر انھی طاقتوں کا ہاتھ ہے جو ایم کیوایم کی اصلی پیدائش میں شامل رہی ہے؟
ظاہر بات ہے کہ نیا جنم نئے معاہدوں اور نئے تقاضوں کے ساتھ وقوع پذیر ہونے جا رہا ہے۔الطاف حسین کی دخل اندازی ناقابلِ برداشت ہو گئی تھی۔ ملٹری ونگز کی پسپائی بیہت ضروری تھی جو کسی وقت بھی الطاف حسین کی للکار کو خوش آمدید کہنے کو تیار ہوتی تھی۔ویسے بھی کراچی میں اب کچھ اور کمزور کردار مضبوط کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ اُن کا پہلا تقاضا ہی یہی ہے کہ پہلے اپنے تیار کردہ کرداروں کو ’’ڈھیلا‘‘ کریں تب ہم کچھ کر کے دکھائیں گے۔
بات ملک کی ہو اور عوام کی تو ہمیں کہیں بھی ملک اور عوامی مفادات نظر نہیں آتے۔ کاش اب کہ طاقتوں کو خیال آ جائے کہ عوام کو بھی کچھ ملنا چاہیے ، عوام کو بھی ایک پارٹی مان لیا جائے تو شاید یہ کھیل اتنا ضرر رساں معلوم نہ ہو۔ یا اس کھیل میں کچھ آگے بڑھتا ہُوا بھی نظر آئے۔
’’مائنس الطاف فارمولہ‘‘ اس وقت خوش آئند نظر آرہا ہے مگر کاش یہ واقعی خوش آئند ہی رہے۔ کمال کے کام کمال ہی انجام دیتے ہیں۔ اس وقت کمال کا کام ہونے جا رہا ہے۔ مگر ہم نے وہ محاورہ بھی سن ررکھا ہے :
’’جو کچھ نہیں کرتے وہ ’کمال‘ کرتے ہیں‘‘