(تنقیدی جائزہ: نعیم بیگ)
افسانوی مجموعہ ’’ گیلا کاغذ‘‘
مصنفہ امرت مراد
سنہِ اشاعت مارچ ۲۰۱۶.ء
زیر اہتمام مہر در کوئٹہ بلوچستان
سیلز اینڈ سروسز کبیر بلڈنگ جناح روڈ کوئٹہ بلوچستان
۔۔۔
’’فقیرے نے حسرت سے اس پراٹھے کو دیکھا اور سوچا، اے کاش! میں بھی کتا ہوتا تو یوں خوراک حاصل کر لیتا۔ اس نے خود کو گھسیٹ کر کتے کے بچے کے قریب کر لیا۔ کتے کے بچے نے پراٹھے کا ٹکڑا منہ میں ڈالا اور غراہٹ سے فقیرے کو ہٹانا چاہا ، حالانکہ کتے کا بچہ فقیرے سے اس عرصے میں مانوس ہو چکا تھا۔‘‘
یہ چند سطری اقتباس امرت مراد کے افسانوی مجموعہ ’ گیلا کاغذ‘ کے پہلے افسانے ’کتے کا بچہ‘ سے ہے۔ جب یہ مجموعہ میرے ہاتھ لگا تو میں نے سرسری طور پر اسے دیکھا لیکن اس افسانوی مجموعے کے عنوان ’ گیلا کاغذ‘ ۔۔۔ اسکا پہلا افسانہ ’ کتے کا بچہ‘۔۔۔ دیگر افسانوں کے عنوان جیسے ’ جلی ہوئی گڑیا‘ ، ’ننگا پن‘ ، ’ لغڑی‘ اور ’فالتو گھاس‘ جیسی علامتوں اور استعاروں نے مجھے لمحوں میں اسیر کر لیا ۔ ان افسانوں کو پڑھتے ہوئے میرے اندر کے انسان کو ایک بار امرت نے دہلا دیا ۔ کیا کوئی ادیب اسقدر سفاکی سے سماجی تلخی کو روح میں اترتے دیکھ سکتا ہے، میں سوچ میں پڑ گیا، مجھے ان لفظوں کو محسوس کرنا ہے، مجھے امرت کی اس تلخ نوائی کو شیریں آبِ حیات کی بوند سمجھتے ہوئے اپنے اندر اتارنا ہے ۔۔۔ یوں میں پوری کتاب پڑھ گیا۔
یہ میرا امرت مراد سے پہلا تعارف تھا۔ مجھے احساس ہوا سنگلاخ پتھریلی چٹانوں کے اندر کس قدر درون بینی کا وہ فکری رنگ نظر آتا ہے جو ابدی سچایؤں کا امین ہے۔ اس کے افسانے مٹی سے اٹھتی ہوئی خوشبو کا ایک جھونکا بن کر اپنی مہک لئے کہاں تک پہنچ جائے گا۔ امرت بلوچستان کی سرزمین کی کہانیاں بیان کرتے ہوئے فصاحت و بلاغت کے دریا نہیں بہاتی لیکن وہ اپنے قلم سے درماندہ مزدور اور سراسیمہ کسان کی محنت کو مکروہ اجارہ داروں کی بھینٹ چڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی ۔ اسکا درد مند دل سماجی و معاشی ناانصافیوں کے خلاف تڑپ اٹھتا ہے ۔ اس کی اکثر کہانیاں غربت و افلاس کے گرد گھومتی ہیں۔ یہ اسکے بیانیہ کی خوبصورتی ہے کہ وہ بیک وقت سپاٹ بیانیہ میں لکھتے ہوئے استعاراتی علامتوں کو اپنے قلم سے یوں آشکار کرتی ہے کہ بیانیہ تہ در تہ ہوکر کئی ایک مفہوم سے قاری کو روشناس کرواتا ہے۔
’’میزان ‘‘ میں وہ کہتی ہے ’’ مین نے طے کر لیا کہ کل جاکر اس بچے کے والد سے کہوں گی کہ صرف وزن کرنے کے لئے اس بچے کو خوار نہ کرو، اسکول جانے دو ، اسکول جانے کا جو خرچہ ہوگا میں پورا کرونگی۔ کیونکہ ایک دن قبل میں نے بچے کی آنکھوں میں عجب ، خوشی ، تجسس، امید کے رنگ دیکھے تھے۔‘‘
’میزان‘ میں ہی وہ لکھتی ہے ۔ ’ باجی!میرا ابا پاگل ہو گیا تھا، اماں کہتی ہے پاگلوں جیسی حرکتیں کرتا ہے۔ کیا زمین بھی وزن کرنے والی مشین جیسی ہوتی ہے؟ اس پر ابا کا کتنا وزن تھا؟
امرت کے الفاظ اس کی روح کا کرب ہیں جو قرطاس ابیض پر پھیل جاتے ہیں۔ ’’ جلی ہوئی گڑیا‘‘ اور ’’ لغڑی ‘‘ میں اسکی تانیثیت عروج پر ہے ۔ نسائی ادب میں اپنی ہم عصر ادیباؤں میں وہ الگ نظر آتی ہے ۔ نوجوان لڑکیوں کے دلوں میں مچلتی ہوئی زندگی اور بے فکری کی مہا جولانیاں مقید ہو کر’ جلی ہوئی گڑیا‘ اور ’لغڑی‘ میں ایک ایسے دکھ کا نغمہ بن جاتی ہیں جو صرف ایک عورت ہی محسوس کر سکتی ہے۔ اسٹوو سے جلی ہوئی لاشوں کا بوجھ اٹھانا کس قدر دشوار ہوتا ہے۔
’’ ننگا پن ‘‘ میں وہ خانگی برائیوں اور سماجی ناانصافیوں کو تانیثی نگاہوں سے بے نقاب کرتی ہے۔ نسائی احساس کو وہ بیان کرتی ہے ۔’ ’ زندگی کا ساتھی اسے مانا جاتا ہے جو آپ کو ساری دنیا سے الگ لگے اور تصور و احساس اسکی تصدیق کرے، جس کی خوشی اور غم اپنے ہو جائیں اور وہ فنا ہو جائے۔‘‘
’آڈر آف دی ورلڈ‘ میں وہ اجتماعی زندگی کے ان حسین نفسیاتی منظر نامہ کو اسکی نیگیشن کے طور پر بیان کرتی ہے جہاں انسانیت کو اکٹھا کام کرنے سے روک دیا جاتا ہے ۔۔۔۔’’ کسی نے بھی کوئی چیز کسی بھی قوم، ملک، مذہب، زبان ، ذات، رنگت، نسل اور فرقہ کے افراد کی استعمال کی تو وہ عمل فوری ہلاکت کا باعث بنے گا۔‘ فطری رنگوں سے رو گردانی کس قدر عذاب ہے ۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ امرت مراد کا قلم جہاں متنوع موضوعات کا احاطہ کرتا ہے وہیں اسکے فن میں شعور کا اتنا گہرا ادراک ہے کہ اس کے مشاہدے کی قوت فوراً نثری وجدان میں مرقوم ہو جاتی ہے۔
جب ہم کوئٹہ یا بلوچستان کے پس منظر میں ان افسانوی فن پاروں کو دیکھتے ہیں تو مجھے امرت کی آواز کہیں بلند نظر آتی ہے ۔ وہ کائنات کی عقدہ کشائی سے کہیں زیادہ عصری انسانی مسائل پر نظر رکھتی ہے۔ اسکا یہی یقین محکم قاری کو معاشرے کے ان پہلوؤں کی طرف دیکھنے کو آمادہ کرتا ہے جو عمومی حالات میں مخفی رہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ’ گیلا کاغذ ‘ ایک ایسے افسانوی نوحہ کے طور پر دنیائے ادب میں اپنا مقام بنائے گا جو عمومی طور پر چندے ادب پاروں کو ملتا ہے۔
اس مجموعے میں زبان و بیاں کے معاملات اور زیر و بم پر بات کی جا سکتی ہے لیکن میں کوئٹہ کو خصوصی رعایت دیتا ہوں اور وہ یہاں امرت کو بھی دینا ہوگی، سوا اسکے کہ بلوچستان میں اردو زبان و بیاں کا اپنا ایک الگ مزاج بن چکا ہے اسے اسی لسانی پس منظر میں دیکھنا از حد ضروری ہے۔