سفیر اللہ خان
ہمارے ملک میں فن کی قدر کا شکوہ رہتا ہے ۔ بہت سے لوگ فن کی نا قدری کو غربت سے جوڑتے ہیں تاہم پاکستان سے زیادہ غریب ممالک بھی اپنے فنکاروں کی قدر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ فن کی اہمیت ہی کو نہیں سمجھا جاتا سو فن کار کی اہمیت بھی نہیں رہتی اور ہمارے اکثر فن کار اپنے آخری ایام بہت برے حالات میں گزارتے ہیں۔
میں جب بھی اس کے پیچھے وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو فوجی آمریتوں کو نظر انداز نہیں کرپاتا۔ باقی کسی کو فنون اور فنکاروں کی اہمیت کا اندازہ ہو کہ نہ ہو، فوجی آمروں کو اُن کی اہمیت کا بخوبی احساس ہوتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فوجی آمروں کے ادوار میں ایک طرف حبیب جالب، فیض احمد فیض اور احمد فراز جیسے فنکاروں پر پابندیاں لگتی رہیں تو دوسری طرف اشفاق احمد اور قدرت اللہ شہاب جیسے جعلی فنکاروں کی سرپرستی ہوتی رہی۔
شاعروں پر پابندیوں کی یوں تو کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ نہ توانہیں وزیر اعظم یا صدر بننے کے خواہش ہوتی ہے ، نہ اُن کے ہاتھوں میں کوئی بندوقیں ہوتی ہیں ، نہ اُن کے چاہنے والے کوئی منظم جماعت کی شکل میں ہوتے ہیں کہ اُن سے جرنیلوں کو خطرہ ہو ، مگر پھر بھی ایسے فنکاروں پر پابندیاں، جلاوطنیاں اور جیلیں …اسی سے اندازہ لگا لیں کہ فن کار کتنا اہم ہوتا ہے!۔
فن کار ، چاہے وہ شاعر ہو، گلوکار ہو، رقاص ہو، مصور ہو یا مجسمہ ساز، وہ قوم کے اندرونی احساسات کو اپنے فن کے ذریعے منظر عام پر لے آتا ہے۔ چونکہ ہماری قوم مسلسل غاصبوں کی زد میں رہی ہے اور غاصب نہیں چاہتے کہ قوم کے اندرونی اور سچے احساسات سامنے آئیں ( یہ احساسات عموماًغاصب سے نفرت اور اُس کے ظلم و ستم کے خلاف جذبات پر مبنی ہوتے ہیں) لہٰذا یہ بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ ایسے احساسات کو دبائے رکھا جائے ، ایسے فنکاروں کو دبائے رکھا جائے۔ ورنہ وہ باہر نکل کر
“ایسے دستور کو میں نہیں مانتا”
کا نعرہ لگا دیتاہے اور ساری قوم جو اپنی نفرت اور غصہ دبائے بیٹھی ہوتی ہے، اُٹھ کر اُس کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے۔ یہ صورت حال غاصبوں کے لئے بڑی خطرناک ہوتی ہے۔
اب تک کی بحث سے یہ نتیجہ نہیں نکال لینا چاہئے کہ فنون کی اہمیت صرف آمریت یا ظلم و جبر کے دور ہی میں رہتی ہے۔ جمہوری اور انصاف پر مبنی ادوار میں بھی فنون کی اہمیت برقرار رہتی ہے۔ بات یہ ہے کہ عام ادوار میں بھی معاشرے میں موجود مختلف طبقات اور گروہوں (چاہے وہ لسانی بنیادوں پر ہوں یا مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر) کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے۔ فنون لطیفہ اس کشمکش کو مہذب انداز میں منظر عام پر لانے اور اس پر بحث مباحثہ کرنے کی گنجائش پیدا کرتے ہیں ۔ اس طرح یہ کشمکش درونِ خانہ جاری رہنے کی بجائے کھُل کر سامنے آجاتی ہے اور معاشرہ اُس پر بحث مباحثہ کر کے اُس کا کوئی نہ کوئی حل نکال لیتا ہے۔ اگر فنون لطیفہ نہ ہوں تو دلوں میں جاری دبی دبی کشمکش ایک دن دھماکے سے پھٹ پڑتی ہے۔ یہ کشمکش تشدد کا راستہ اختیار کر لیتی ہے جیسا کہ پاکستان میں ہمیں تشدد کی ایک قابو میں نہ آنے والی لہر کا سامنا ہے۔
اگر ہم اپنے ماضی قریب کا جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں تشدد کا عنصراُس وقت بہت کم تھا جب دوسری طرف فنون لطیفہ/ثقافتی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ہماری فلم انڈسٹری عروج پر تھی، موسیقی ، تھیٹر، مشاعرے عام تھے۔ ایک طرف لاہور جیسے شہروں میں مہدی حسن جیسے فنکاروں کے کلاسیکی و نیم کلاسیکی موسیقی کے پروگرام ہوتے تھے جو رات رات بھر جاری رہتے تھے تو دوسری طرف عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی ، زرسانگہ اور الن فقیر جیسے لوک فنکار تھے جن کو سننے کے لئے ہزاروں لوگ اکٹھے ہو جاتے تھے ۔ فلم انڈسٹری میں عام لوگوں کی دلچسپی سے لے کر پڑھے لکھے لوگوں کی پسند کے مطابق طرح طرح کی فلمیں بن رہی تھیں جنہیں دیکھنے کے لئے سینما ہالوں میں رش لگا رہتا تھا۔ مشاعرے اتنے بڑے بڑے ہوتے تھے کہ ہزاروں لوگ سننے آتے تھے۔
پھر ضیاء الحق کا زمانہ آیا جب ایسی سرگرمیوں پر روک ٹوک شروع ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی بتدریج معاشرے میں برداشت کی کمی اور تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ آج یہ صورت حال ہے کہ فلم انڈسٹری تقریباً بند ہو چکی ہے، تھیٹر سے کمال احمد رضوی جیسے لوگ کب کے جاچکے ہیں، مشاعروں میں پچاس لوگ نہیں اکٹھے ہوتے، ہزاروں لوگوں کا موسیقی سننے کے لئے اکٹھے ہونا ایک خواب ہو گیا ہے۔ دوسری طرف قتل و غارت، بم دھماکے ، گھیراؤ جلاؤ روز کا معمول بن گیا ہے۔
ہمارے ہاں آج صرف مذہبی نوعیت کے اجتماعات ہو رہے ہیں جو لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی بجائے ایک دوسرے سے دور کررہے ہیں۔ ثقافتی سرگرمیاں لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہیں کیونکہ جب مہدی حسن غزل گانے بیٹھتا تھا تو اسے سننے کے لئے اکٹھے ہونے والے یہ نہیں سوچتےتھے کہ یہ شیعوں کی محفل ہے یا سنیوں کی، یہ عیسائیوں کی محفل ہے یا مسلمانوں کی ۔ جب عطاء اللہ عیسٰی خیلوی کہیں گانے بیٹھتا تو اُسے سننے کے لئے پنجابی، پختون سرائیکی سب اکٹھے ہو جاتے تھے۔ شاید یہی بات مولوی کو پسند نہیں اسی لئے وہ موسیقی کو حرام قرار دیتا ہے۔
اس وقت بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک میں فنون لطیفہ اور ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دیں تاکہ لوگوں میں مل بیٹھنے کا رجحان دوبارہ پیدا ہو، ایک دوسرے کی بات سننے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت پھر سے فروغ پائے اور ہم دوبارہ ایک پرامن معاشرہ بن سکیں۔