(قاسم یعقوب)
انتہا پسندی بنیادی طور پر ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جو نظریاتی طور پر کسی عقیدے، بیانیے کے ساتھ جذباتی وابستگی کے ساتھ قائم رہنے کا نام ہے۔ جذباتی میں اس لئے کہہ رہا ہوں کیوں کہ انتہا پسند فکریات میں دلیل کی بنیاد بھی جذباتی وابستگی پر ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک ’’رویہ‘‘ ہے، سماج کو سماجی حقیقتوں کو اور اپنے اردگرد معروض کو دیکھنے کا۔ یہ رویہ ہی ہے جو سوچ، دلائل اور مطالعات پر اس قدر حاوی ہو جاتا ہے کہ ایک فرد کی فہم (Understanding)کو یک رُخا اور کسی حد تک سماج سے تنہا کر دیتا ہے۔
انتہا پسند فکرکے پاس دلائل کی جا بجا کثرت بھی ملتی ہے مگر ان دلائل کی اہمیت صرف اتنی ہوتی ہے کہ وہ جو بیانیہ پیش کرتی ہے، ان کو دلائل کی رُو سے بھی ماننے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر دلیل یا عقل انتہا پسند فکر کے دلائل کے خلاف نتائج سامنے لائے تویہ اُسے رد کر دیتی ہے۔ سو عقل یا دلیل کے نتائج ہوں یا بغیر چوں چراں کیے عقیدے کے طور پر قبولنے کا سوال، دونوں صورتوں میں انتہا پسند فکر کے پیش کردہ بیانیے کے حق میں نتیجہ نکلنا چاہیے، ورنہ یہ فکر اُسے قبول نہیں کرے گی۔
انتہا پسندی عموماً اُن سماجوں میں زیادہ پروان چڑھتی ہے جہاں عقیدے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور سائنسی یا مدلل سوچنے پر پابندی ہوتی ہے۔ یا ایسے سماج جہاں دوسرے عقیدے یا فکریات دخل اندازی نہیں کر پاتیں۔بند سماج عرصے تک محدود معاشرت میں قید رہتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے عقائد یا دلائل کو ہی حتمی سمجھتا ہے۔ ہم اسے ایک فرد پر بھی لاگو کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ فرد بھی جب ایک بند سماج میں سانس لیتا رہے گا تو اُس کی ذہنی پرداخت نہیں ہو پائے گی اور وہ اپنے سماج کی محدود فکریات کو ہی حتمی سمجھنا شروع کر دے گا۔ کوئی بھی دوسری فکر اُس فرد کی تاریخ، اُس کے جغرافیے کی تاریخ، اُس کے مطالعات، اور اُس کے عقیدائی سرچشموں پر کاری ضرب لگاتی ہوئی نظر آئے گی۔
ابراہم مذاہب میں ایک خاص رویہ’’ صوفیانہ ‘‘طرزِ فکر ہے جو اپنے عقیدے، رویے، اور اپنی ترجیحات کو دوسروں پر مسلط کرنا گناہ سمجھتا ہے۔ وہ صوفی ہی نہیں جو اپنے بیانیے کو حتمی اور آخری سمجھنے کے بعد اُسے دوسروں پر لاگو کرنا اپنے مقاصد میں شامل سمجھتا ہو۔ صوفی فکر نے برصغیر میں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی اور احترام کے رشتے کو پیدا کیا۔یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ ایسا پیار بھرا رویہ جدید معاشروں میں بھی ناپید تھا مگر برصغیر میں اسی رویے نے دنیا بھر کو ایک پیغام بھی دیا۔
کچھ دن پہلے میں نے ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر صاحب (جو چشتی صوفیا کے پیروکار اور خود ایک صوفی فکر کے نمائندے ہیں) کوایک گفتگو میں اُردو نعت میں ہونے والے نئے تجربات کا بتایا اور کہا کہ ہمارے ہاں اب نعت کا روایتی لہجہ تقریباً بدل چکا ہے۔ نعت میں عقیدت کے نئے اور آج کے تازہ تجربات کی روشنی میں اظہار کیا جا رہا ہے۔ جیسے:
ساتھ ہوتا میں ترے شعبِ ابی طالب میں
گٹھلیاں پیستا اشجار کے پتے کھاتا
جب میں نے اپنے عزیز دوست شاہد اشرف صاحب کی یہ نعت سنائی تو ساحر صاحب کا جوابی اظہارپسندیدگی کے باجود کچھ مختلف سا تھا۔ وہ کہنے لگے کہ اگر میں عہدِ نبی (صلعم) یا اُن کے بعد کے قریبی زمانوں میں ہوتا تو شاید مجھ پر کفر حاوی ہوتا اور میں نبی پاک (صلعم) کی رسالت پر دیر سے ایمان لاتا۔ میں نے کہا کہ مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ کو یہ کیسے معلوم کہ آپ دعوتِ حق کے بعد دیر سے اس طرف راغب ہوتے۔ آپ نے ’’شاید‘‘ کا لفظ کیوں کہا۔ ساحر صاحب نے جواب دیا ’’کیوں کہ میں اب جس عہد میں ہوں ، وہاں سے حق و باطل، ہر چیز نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے اور میں پھر بھی حق کی طرف کم ہوں، میرے اندر آج بھی گناہ زیادہ ہیں تو اُس دور میں تو کچھ بھی واضح نہیں تھا تب کیسے میں فوراً ایمان کی دعوت پر بھاگا آتا، میں حسین ؑ کے ساتھ ہونے کی بجائے یزید کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا، کیوں کہ اُس وقت کچھ واضح معلوم ہی نہیں ہو رہا تھا، آج تو سب کو حسینیتؑ اور یزیدیت کا واضح علم ہے‘‘
ساحر صاحب کی یہ بات بظاہر اُن کی عاجزی کا اظہار ہے مگر درپردہ بہت گہرے حقائق ہمارے سامنے کھلتے ہیں۔ جب ہمارے سامنے ایک فلسفہ یا نظریہ اپنی موت مر رہا ہوتا ہے یا معرکۂ حق باطل برپا ہوتا ہے تو ہم حق و باطل کو پہچان نہیں پاتے۔ یہ بڑے اور دوررس دماغ ہی ہوتے ہیں جو فوراً حقائق کو کانٹ چھانٹ لیتے ہیں اور اپنے گذشتہ رویوں کو ترک کر لیتے ہیں۔ یہ رویے ایسے ہی نہیں پیدا ہو جاتے۔ یہ صوفیانہ مسلک کا پہلا تربیتی مرحلہ ہے کہ اپنے ارد گرد سماج کو اپنے اندر جذب کیا جائے۔ اُسے ہر سمت کو راہ دی جائے۔ مگر انتہا پسند رویہ اپنے تربیتی مرحلوں میں یہی ایک چیز سیکھتا ہے کہ دوسرے کی نفی کیسے کرنی ہے اور خود کو کیسے سب پر حاوی کر کے دکھانا ہے۔
قریشیوں کا یہی تو جھگڑا تھا کہ وہ پرانی تاریخ کو بدلنا نہیں چاہ رہے تھے۔ وہ انتہا پسند تھے، متشدد تھے اور خود کو مکمل اور عقلِ کل سمجھتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے ردعمل کی سیاست اور نفرت کو بنیاد بنا کر اپنا مقدمہ لڑا۔ مگر یہ بھی وقت کا فیصلہ ہے کہ انتہا پسند ہار جاتا ہے ، شکست کا وار اُس کے عقیدے کی جڑی کھول دیتا ہے مگر وہ ماننے سے انکاری ہی رہتاہے۔ نئے فیصلے، نئے رویے اور نئی روشنی اُس کے بھرم کو ریزہ ریزہ گراتی رہتی ہے اور بلاخر وہ ایک دن ہار جاتا ہے۔ حبشہ کا نجاشی اوربازنطینی مقوقس آج کے انتہا پسند مذہنی علما سے بہت بہتر تھے جو اپنے عقیدوں پر قائم بھی رہے مگر دوسرے مذہب کو احترام بھی دیا اور اُن کو بھر پور جگہ بھی دی۔
ہمارے سماج میں انتہا پسندی کا زہر خوف ناک حد تک بڑھ چکا ہے۔بات اب مذہب سے نکل کر مسلک تک آ ٹھہری ہے۔ افراد کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔ زبانیں، لباس اور کلچر کی تقسیم پہلے مذہب کی بنیاد پر ہوتی تھی ، مقامِ افسوس یہ ہے کہ اب مسلک نے اس کی جگہ لے لی ہے۔مسالک میں شدت پسندی نے مذہنی صوفیانہ رویوں کو شدید ضرب لگائی ہے۔ ایسا مذہبی فرد جو کسی دوسرے مسلک کی شدت پسندی کے خلاف جہاد کر رہا ہوتا ہے ،وہ( معصومانہ طور پر) خود ایک مسلک کا سخت گیر رویہ بھی اپنائے ہوتا ہے۔
انتہا پسندی اپنے اندر جھانکنے سے ختم ہوتی ہے، کسی دوسرے کو اپنے اندر جگہ دینے سے مرتی ہے۔ ایسے میں فرد کی تخلیقی اور ذہنی زندگی کو جِلا ملتی ہے۔ انتہا پسندی کو ختم کرنا ہے تو ہمیں ہر نئی چیز کو جگہ دینی چاہیے۔ ہر نئی چیز، خیال، رویے کو ماننا ضروری نہیں ہوتا مگر اُسے اپنے ارد گردقبول کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا صوفیانہ مسلک ہوتاہے۔
موجودہ صورت حال اور اس کے حل کی بالکل درست نشاندہی کی ہے آپ نے!