(فارینہ الماس)
کہتے ہیں کہ ایک بستی میں صرف چار افراد آباد تھے۔ وہ چاروں کسی نہ کسی کمتری کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے۔ ایک نابینا، دوسرا بہرا، تیسرا نیم برہنہ اور مفلس اور چوتھا اپاہج۔ پھر بھی نابینا کو اپنی چشم بینا کا گمان اوراپنی دور بینی پر ناز تھا۔ اس کا گمان تھا کہ وہ دنیا میں رونما ہونے والے ہر واقعے کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بہرا کائنات کے نغمات سننے کا دعویدار تھا۔ اپاہج کو اپنی برق رفتاری پر مان تھا اور مفلس کو اپنے جاہ و جلال اور اپنی خلعت فاخرہ پر فخر تھا۔ یہ چاروں ہی جھوٹ جی رہے تھے۔ اپنے خود ساختہ مفروضوں اور گمانوں پر زندہ رہتے ہوئے حقیقت شناسی اور حقیقت پسندی سے کوسوں دور تھے۔ ایک دن چاروں اکٹھے بیٹھ کر اپنی بستی کی ترقی کے منصوبے بنا رہے تھے کہ یک دم ان پر مفروضوں اور گمانوں کا شدید حملہ ہوا۔ اندھا بولا، ’’صاحب! مجھے نظر آرہا ہے کہ بے شمار حملہ آور بستی کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔‘‘ بہرا بولا، ’’ہاں، ہاں مجھے تو ان کی توپوں کی گھن گرج بھی صاف سنائی دے رہی ہے۔‘‘ مفلس گویا ہوا، ’’انہیں تو آنا ہی تھا وہ مجھ سے میرا قیمتی لباس جو چھیننا چاہتے ہیں۔‘‘ آخر میں اپاہج نے با آواز بلند کہ، ’’تو بھائیو !سوچتے کیا ہو چلو سب بھاگ چلتے ہیں۔‘‘
غیر حقیقت پسندانہ رویہ ہمیں ہماری محرومیوں کو تسلیم کرنے کی راہ میں آڑے آتا ہے اور ہم انہیں تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی بجائے ان کے متعلق پیدا کردہ اپنے خود ساختہ واہموں کے یوٹوپیا میں جینے لگتے ہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ ہمارے سامنے ایک دیوار کھڑی ہے لیکن ہم اپنے تصوراتی آنکھ سے اسے ایک راستہ سمجھ کر اس کے پار نکلنا چاہتے ہیں تو یہ سراسر ہمارا ایسا مفروضہ ہے جو ہمیں نقصان اور ہزیمت کے سوا کچھ نہ دے گا۔ ایسے گمان اس بستی کے مکینوں کی طرح انسان کو جو اس کے پاس ہے اس سے بھی محروم کر دیتے ہیں۔ انسان جس حصے سے محروم ہے اس کے سراب میں اپنے حاصل سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ جو حاصل ہے یا حاصل ہو سکتا ہے اسی کی سعی و جستجو اہم ہے اور جو پانا ممکن ہی نہیں اس کی جستجو بھی سوائے سراب کے کچھ نہیں۔
ہم ایک ہی وقت میں ایک اور طرح کے گمانوں کا بھی شکار ہیں وہ گمان جو حاصل ہو سکنے والے حصے کی بھی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ جو ہمیں بے یقینی کے سوا کچھ نہیں دیتے۔ ایسے گمان ’’منفی گمان‘‘ کہلاتے ہیں مثلاً ہر کام کے آغاز سے پہلے ہی اس کے برے انجام کے وسوسوں میں گھرے رہنا۔ جیسا کہ ایک مفلس کو کھانا کھلانے سے پہلے سو بار سوچنا کہ آیا وہ شخص بھوکا ہے بھی یا نہیں۔ کسی ضرورت مند کی مدد سے پہلے بار بار دل میں وبال اٹھنا کہ اسے ضرورت مند سمجھا جائے بھی کہ نہیں؟ تعلیم کے حصول میں یہ فکر لاحق رہنا کہ کامیابی ہو گی بھی کہ نہیں؟ اچھی نوکری ملنا ممکن ہو گا یا نہیں؟ کسی مقابلے میں حصہ لیتے ہوئے وہم لاحق رہنا کہ جیت مقدر میں ہو بھی کہ نہیں؟ہر وقت اندیشوں ،وسوسوں سے بھرے گمانوں میں گھرے رہنا جسکا انجام یہ کہ ہم پہلے سے ہی ہار کے ڈر میں اس قدر مبتلا ہو جاتے ہیں کہ بہت سے کام سرانجام دینے سے ہی انحراف برتنے لگتے ہیں۔ یہ بدگمانیاں اور وسوسے ہم سے ہمارا اعتماد چھین لیتے ہیں۔ ہمارا ہنر ضائع ہونے لگتا ہے۔ ہماری ذہانتوں پر تالے پڑنے لگتے ہیں۔ سوچ منفی ہونے لگتی ہے۔ راستے بے سمت اور سفر بے جہت ہو جاتے ہیں۔ خواب ناپید ہوجاتے ہیں اور مقاصد بے عمل۔
اس کیفیت کی انتہا یہ ہے کہ ہماری سوچ مکمل طور پر منفی ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ ہمیں ہر شخص دغا باز اور فریبی دکھائی دینے لگتا ہے۔ ملالہ امریکہ کی ایجنٹ ، عبدالستارایدھی ملحدوں کے رفیق نظر آنے لگتے ہیں اورکینسر ہسپتال کی تعمیر کسی کی ذاتی شخصی و سیاسی مشہوری کا سبب دکھائی دینے لگتی ہے۔ گویا ہمیں کائنات کا ہر شخص کسی نہ کسی برے عزم یا مقصد سے جڑا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔ ہم کسی بھی معاملے کے روشن پہلو سے کوسوں دور رہ کر جینے لگتے ہیں۔ بدگمان لوگ اپنے وسوسوں کی دلدل میں ایسے دھنس جاتے ہیں کہ درست اور غلط کا فیصلہ بھی نہیں کر پاتے۔ وہ مردم شناسی کے وصف سے بھی خالی ہوجاتے ہیں۔ اور یہی حقیقت سب سے ذیادہ خطرناک ہے کہ ایک ’’ بدگمان‘‘ اور’’ بے یقین ‘‘قوم ہی بار بار دھوکے کھاتی ہے۔ ہزار بار ورغلائی جاتی ہے۔ اس قوم کے رہزن بھی رہبر کا بھیس بدل کر اسے بھٹکا دیتے ہیں۔ بہت سے ڈھونگی عظمت کا لبادہ اوڑھ کر ان کے جذبات سے کھیلنے لگتے ہیں۔ بظاہر خوش گفتار،خوش الحان لوگ اپنے فن خطابت کے زور پر کہانی بنتے اور کہتے چلے جاتے ہیں۔ ۔کہانی در کہانی۔۔ وہ کہانی جو بعد ازاں بڑے بڑے اور بھاری بھرکم صحیفوں کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔اس کا لفظ لفظ تبلیغ بن جاتا ہے جس کی تحریم و تکریم واجب ہو جاتی ہے۔ سب مبلغ ہیں، سب کہانی گو، آئینے تقسیم ہوتے ہیں، خود کو ماپنے کے پیمانے بانٹے جاتے ہیں۔
لوگوں کو خواب دکھائے جاتے ہیں۔ ہم ان مبلغوں کے ہاتھوں کا کھلونہ بننے لگتے ہیں۔ ہمیں ایک نظر نہیں بھاتا وہ شخص جو ہمیں اس آئیڈیلزم سے باہر نکالنا چاہے۔ وہ کہانی گو ہمارے سائیں ہیں ہمارے پیر ہیں۔ ایسے کھوکھلے آئیڈیلز ہمیں ہر طبقے میں مل جاتے ہیں۔ اساتذہ، سیاستدان، بڑے بڑے اداروں کو چلانے والے منتظمین، دانشو، فلاسفر، مصنفین۔ ہم ان کی خاطر اپنی زندگی اپنے حوالے،اپنی انا ،اپنے وجود کو بھی روند ڈالیں گے خود اپنے ہاتھوں ان کا قلع قمع کر ڈالیں گے ۔پھر ایک وقت آتا ہے کہ رفتہ رفتہ ملمع کاریاں اترنے لگتی ہیں۔ حقیقت منکشف ہونے لگتی ہے۔ چھپے ہوئے چہرے اس کی روشنی میں عیاں ہونے لگتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بظاہر عظیم دکھائی دینے والے تو خود محروم ہیں۔ کردار سے،عمل سے، تدبر سے، تفکر سے۔ آئینے تقسیم کرنے والے تو خود بے چہرہ ہیں۔ پھر آئیڈیلزم کی دھجیاں اڑنے لگتی ہیں۔ سب کچھ ٹوٹنے لگتا ہے۔ دل بھی، ہمتیں بھی اور خواب بھی۔ ہمیں ان کی کہی ہر بات بے روح اور بے عمل دکھائی دینے لگتی ہے۔ ان کا کہا ہوا اور لکھا ہوا ہمارے اندر کچھ بدل نہیں پاتا۔ ہم پہلے سے بھی ذیادہ بے یقین اور بد گمان ہو جاتے ہیں۔ ہمیں بد گمانی کے ان اندھیروں میں ایسی چشم کوری لاحق ہو جاتی ہے کہ کچھ اچھے لوگ بھی ہمیں دکھائی نہیں پڑتے۔ وہ بھی ہمارے یقین اور اعتبار کو جیتنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ یہ تو مردم شناسی کا وہ درجہ ہے جو ہمارے اندر توڑ پھوڑ پیداکرتا ہے ،حقیقت کے انکشاف پر ہمیں دکھی اور کمزور کرتا ہے۔ ہمیں مایوس کرتا ہے۔ مردم شناسی کا ایک عزاب وہ ہے جس کا شکار پڑھے لکھے اور ان پڑھ دونوں ہی ہیں۔جس میں ہم محض وعظ سنتے ہیں اور اپنی عقل و خرد سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ ایسی تبلیغ ہمیں فرقہ بندی میں اس طور جکڑ دیتی ہے کہ پھر ان زنجیروں کو توڑنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے ہی جیسے انسانوں اور یہاں تک کہ مسلمانوں سے ہی نفرت کرنے لگتے ہیں۔پھر یہ جعلی پیر فقیر،جاہل مبلغ، ہمیں خوب استعمال کرتے ہیں۔ہماری بے یقینی اور بے اعتمادی کو ہماری کمزوری بنا کر ہم پر پوری طرح حاوی ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ عامل ہیں اور ہم معمول،ان کا حکم ان کا فرمان ہی ہمارا مطمئع نظر ۔گویا سارا ہیر پھیر گمانوں کا ہی ہے ۔اور ان میں سے اچھے اور برے گمانوں کی کانٹ چھانٹ ٹھیک سے کرنا ہی کامیابی ہے۔کبھی کہیں اچھے گمان رکھنا ضروری ہیں تو کبھی کہیں برے گمانوں سے نجات احسن فعل۔ان کے درمیاں سے یقین کا راستہ نکالنا بہت ضروری۔یقین ایک کرشمہ ہے ۔یہی تعمیر روح اور تعمیر کردار کا سبب۔
یہ راستہ کرشموں کا راستہ ہے ،معجزات کا راستہ ہے۔یہ انسان کو خود پر فخر کرنا اور ناز کرنا سکھاتا ہے۔انسان کو اس کی صلاحیتوں کے اظہار کا اعتماد دیتا ہے۔یہ زندگی کو محرومیوں سے نکالتا ہے۔انسان کے ارادوں کو متزلزل ہونے سے بچاتا ہے۔یہ اچھے مقاصد عطا کرتا ہے اچھے انسانوں سے ملاتا ہے اور اچھے انسانوں کی پہچان کرنا سکھاتا ہے۔برے گمانوں میں دھنسے لوگ ورغلائے جاتے ہیں کھوکھلی آئیڈیلزم کا شکار ہوجاتے ہیں۔بے یقین اور بے سمت ہو جاتے ہیں۔جب کہ اچھے گمان ہمیں یقین کی طاقت عطا کرتے ہیں ۔ بحیثیت ایک قوم کے اگر ہم صاحب یقین ہو جائیں تو ہمارا سفر کامیاب ہو نے لگے گا۔ہم جھوٹی عظمتوں سے مرعوب ہونے کی بجائے اپنے وجود کی عظمت کو تلاشنے لگیں گے ۔ہم جو کچھ ہمارے پاس یا ہمارے اختیار میں ہے اس پر فخر کرنا اور اسے نکھارنا سیکھیں گے ۔حقیقت پسندی اور خود شناسی سے ہمارے اوصاف بلند اور اعلی مرتبہ پا سکیں گے ۔ہم کبھی ٹھکرائے نہ جائیں گے جھٹلائے نہ جائیں گے ۔ ہم جھوٹی آئیڈیلزم سے باہر آئیں گے اور پھرہم اپنی بستی کے اندھے،گونگے،بہرے مفلس نہ رہیں گے۔
MashaaaAllah bht acha likha Allah pak ilam ma sehat ma barkat dean.hamary moashry ma logo ko aksar baat karna nh ati andaaz he aisa hota ha k tobbha leakin jitna lehja naram hoga otna baat dil ma otry gi Aik badsha ny khoab daikha k mery mo k daant gir gy hn aik bacha wo bh thori dear bad gir gaia subha tabeer daan bola ley phly sy pocha batao kia tabeer ha wo bola g tabeer bht bori ha pocha kia tabeer ha bola ap k khandan k loog mar jaeen gy phr ap bh mar jaeen gy badshah ko gussa aia bola is ko jail dallo baat karny ki tameez nh dosry sy pocha ap tabeer batao wo bola g tabeer bht achi ha badsha ny kaha batao wo bola k ap k khandaan ma ap sab sy lami umer pao gy ap bht saal jio gy lambi umer k bad ap ko mauot ay gi . Andaaz ma farq tha garam andaaz tha natija garam nikla naram andaaz tha to natija naram nikla.
غیر حقیقت پسندانہ رویہ ہمیں ہماری محرومیوں کو تسلیم کرنے کی راہ میں آڑے آتا ہے اور ہم انہیں تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی بجائے ان کے متعلق پیدا کردہ اپنے خود ساختہ واہموں کے یوٹوپیا میں جینے لگتے ہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ ہمارے سامنے ایک دیوار کھڑی ہے لیکن ہم اپنے تصوراتی آنکھ سے اسے ایک راستہ سمجھ کر اس کے پار نکلنا چاہتے ہیں
bhat khkoob..