(فہد فاروق)
ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح نے امریکیوں کو ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے سیاسی مبصرین کو حیران کر دیا ہے۔ حیرانی کی ایک وجہ تو اُن تجزیات کو دھچکا ملنا تھا جنھوں نے ہیلری کی فتح کو لازم و ملزوم قرار دے رکھا تھا، دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکیوں نے کس طرح ایک غیرمتوازن شخصیت کو اپنا صدر چن لیا۔ گو کہ ہیلری کے ووٹ ٹرمپ سے زیادہ ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کی مخالفت میں امریکہ میں جگہ جگہ مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہ واقعہ بھی امریکہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے کہ ایک منتخب صدر، جس کو اُس کی حریف نے قبول بھی کر لیا ہے مگر عوام اُسے قبول کرنے کو تیار نہیں۔
امریکہ کا نیا صدر اب ایک عبوری مرحلے میں آ چکا ہے۔ یہ عبوری مرحلہ(Transition Period)امریکہ کی سیاست میں بہت اہم ہوتا ہے۔نَو منتخب صدر جس کی حلف برادری بیس جنوری تک متوقع ہے ، نے موجودہ حکومت سے وہ تمام امور ڈسکس کرنے ہیں جو آئندہ اُسے ایک پالیسی کے طور پر لے کے چلنے ہیں۔ ایسے موقعوں پہ بعض اوقات تلخ واقعات بھی رونما ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ مراحل خوش گوار طور پر حل ہو جاتے ہیں۔ اسی مرحلے میں نئی حکومت اپنی گذشتہ حکومت سے دنیا کے مختلف خطوں کے متعلق خارجہ پالیساں مرتب کرتی ہیں اور باہمی مشاورت سے زیادہ بہتر سطح پر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسیاں بہت حد تک امریکہ کے مرہونِ منت ہیں۔ یہ غلط یا درست ہوسکتا ہے مگر حقائق کے منافی نہیں، لہٰذا اب یہی وہ مرحلہ ہے جس میں پاکستان کی نظریں بھی امریکہ کی نئی قیادت پر لگی ہوئی ہیں۔ کون سے نئے لوگ بطور وزرا کابینہ میں شامل ہوں گے، نئی پالیساں کیا ہوں گی اور اُن کا پاکستان یا اس پورے خطے کے متعلق کیا رائے ہوگی؟ پاکستانی محکمۂ خارجہ اس حوالے سے ان دنوں سرگرم ہے۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ امریکہ میں مستقل سول بیوروکریسی (جس طرح پاکستان میں ہوتی ہے ، جسے عموماً سول اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے)کے علاوہ غیر مستقل سول اسٹیبلشمنٹ بھی ہوتی ہے جو بہت ’’کِی پوزیشنوں‘‘ پر حکومت کا ساتھ دے رہی ہوتی ہے، نئی حکومت کے آنے کے فوراً بعد اُن میں سے تقریباً90 فیصد رخصت ہو جاتی ہے۔بہت کم غیر مستقل (Temporary) سول آفیسرز ہیں جنھیں نئی حکومت جاری رہنے کا عندیہ دیتی ہے۔اس غیر مستقل بیوروکریسی نے بھی 20جنوری تک تبدیل ہونا ہے۔اور اس کی جگہ نئی غیر مستقل بیوروکریسی نے آنا ہے۔ پاکستان کی نگاہ اس بیوروکریسی پر بھی لگی ہوئی ہے کہ اُن میں کون سے لوگ شامل ہوں گے اور وہ پاکستان کے متعلق کس طرح کے خیالات رکھتے ہیں؟
پاکستانی ’’اسٹبلشمنٹ‘‘ کا ایک بہت سنجیدہ معاملہ(Concern)کشمیر پالیسی ہے، ٹرمپ نے روایتی بیانات تو دے رکھے ہیں کہ وہ کشمیر مسئلہ کو اہمیت دے گا مگر یہ معاملہ اتنا آسان نہیں۔امریکیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنی خارجی پالیسی کو ملکی مفاد سے ہٹ کے بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے موقف کی حمایت انڈیا کو ناراض کرنا ہوگا جو امریکہ جیسے ملک کے لیے ناممکن حد تک مشکل ہے۔
امریکہ جیسے ملک میں سیاست میں غیر متوازن شخصیات کا تاثر شاید اقتدار سے پہلے کا ہوتا ہے مگر اقتدار اور اُن کی مستقل ’’پینٹاگون‘‘ پالیسیاں اتنی سخت اور حتمی ہوتی ہیں کہ اُن کو نئی سول بیوروکریسی اور وزرا کے لیے بھی بدلنا مشکل ہوتا ہے۔ غیر متوازن شخصیات ہمارے جیسے خطوں میں ہوتی ہیں۔ مودی ایک غیر متوازن شخصیت تھا اور قتدار کے بعد بھی رہا۔ اسی طرح ہمارے ہاں عمران خان جیسی شخصیت ایک غیر متوازن شخصیت کے طور پر سامنے آئی جس کو ایک پورے صوبے میں حکومت ملی مگر غیر سنجیدہ بیانات ، پالیسیوں اور سیاسی ’’حرکات‘‘ میں کمی نہیں آئی بلکہ صوبے کے آئینی امور اور سیاست میں کوئی خاطر خواہ فاصلہ نہیں رکھا گیا۔ اس معاملے میں پیپلز پارٹی سب سے بہتر جماعت ثابت ہوتی رہی ہے جو اپنی اینٹی اسٹیبلشمنٹ پالیسی کو حکومت اور اپوزیشین دونوں پوزیشنوں پر برقرار رکھتی آ رہی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کیرئیر ایک غیر متوازن شخصیت کا ہی ہے مگر فی الحال اُسے غیر متوازن کہنا قبل از وقت ہوگا۔
مگر یہ بھی طے ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا ’’مودی‘‘ ثابت ہوتا ہے تو دنیا ایک نئے بحران کا شکار ہونے والی ہے۔