(عظیم نور)
ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی مرحوم کا جنم دن تھا- گوگل سمیت دنیا بھر نے ان کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ پاکستان سے بہت سے لوگوں نے دل کھول کر ان کے لیے عقیدت و احترام کا اظہار کیا- زبردست تحریریں لکھی گئیں- میں ابھی میری فرینڈ لسٹ میں موجود محترم دوستوں کی جذبات میں گندھی ہوئی تحاریر پڑھ رہا تھا- ایک دوست نے لکھا کہ اس عظیم ہستی کا ذکر سنتے ہی میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کو نوبل انعام ضرور ملنا چاہئے اگرچہ بعد از وفات نوبل انعام نہیں ملتا- بعض اس بحث میں ہیں کہ ان جیسی شخصیت نوبل انعام کی محتاج نہیں- بہر حال کوئی شک نہیں کہ عبدالستار ایدھی ایک عظیم انسان تھے- دنیا ان جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی امن کا گہوارہ ہے لیکن- (کہتے ہیں کہ اگر یہ جاننا ہے کہ کوئی شخص کیا کہنا چاہتا ہے تو لیکن سے پہلے والے الفاظ کو نظر انداز کر دو-)
ہم شخصیت پرستی کی ایک ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں کہ اس سے باہر نکلنا مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا- ہمیں یہ بات سمجھنی ہو گی کہ ادارے شخصیات کے محتاج نہیں ہوتے- جانے والا چلا جاتا ہے اور باقی رہتا ہے اس کا کام– سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ آج بھی چیخ چیخ کر جنرل راحیل شریف کو بلا رہے ہیں- خدارا آ جائیں جنرل صاحب! یہ ملک آپ کے بغیر نہیں چل سکتا وغیرہ وغیرہ- بہت سے لوگ ہر سانحہ کے بعد ضیاءالحق کو یاد کرتے ہیں کہ اے کاش آج وہ ہوتے۔ بھٹو کو زندہ رکھنے کے پیچھے بھی یہی ایک سوچ کارفرما ہے۔
لیکن میرے بھائیو! ادارے سلامت رہتے ہیں، ادارے شخصیات کے محتاج نہیں ہوتے۔ اور ایدھی فاؤنڈیشن بھی ایک ادارہ ہے۔ ایسا ادارہ جو اس ملک میں زلزلہ، سیلاب، دہشت گردی کے واقعات میں ریسکیو کے کاموں میں سب سے آگے ہوتا ہے- جہاں یتیم و نادار بچوں بچیوں کو چھت ملتی ہے- بھوکوں کو کھانا ملتا ہے- عبدالستار ایدھی نے ایدھی فاؤنڈیشن جیسا انمول ادارہ ہمیں دیا ہے- وہ جا چکے ہیں لیکن فیصل ایدھی اس ادارے کو آج بھی چلا رہے ہیں- ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینسز آج بھی ہر حادثہ ہر دہشتگردی کے واقعہ کے بعد سب سے پہلے زخمیوں کو ہسپتال پہنچاتی ہیں۔
فیصل ایدھی نے گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں کہا کہ میرے والد کی وفات کے بعد ایدھی فاؤنڈیشن کو ملنے والے عطیات میں شدید کمی آئی ہے جس کی وجہ سے ایدھی فاؤنڈیشن کے مختلف فلاحی کاموں کو مکمل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ سہیون بم دھماکہ کے بعد فیصل ایدھی نے میڈیا کو بتایا کہ ہماری جدید ایمبولینسز اور دیگر سامان بندرگاہ پر پڑا ہے جسے حکومت ریلیز نہیں کر رہی اور بھاری ٹیکسز کا مطالبہ کیا جا رہا ہے- اگر وہ ایمبولینسز ہمیں مل گئی ہوتیں تو ہم بہت سے لوگوں کی جانیں بچا سکتے- یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ عطیات پر دنیا بھر میں کوئی ٹیکس کٹوتی نہیں ہوتی تو پھر بندرگاہ پر ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینسز کیوں روکی جا رہی ہیں؟
ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والی ایمبولینسز، یتیم خانے اور دیگر امدادی ادارے آپ کی اور ہماری توجہ کے طلب گار ہیں- اگر ہم واقعی عبدالستار ایدھی کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان کے ادارے کی بالکل ویسے ہی امداد جاری رکھنی ہو گی جیسے ان کی حیات میں کرتے تھے- ہمیں فیصل ایدھی کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہو گا- وہی فیصل ایدھی جس نے اپنے والد کی وفات کے بعد میڈیا والوں کو کہا کہ مجھے نا فون کیا کریں مجھے میرے ادارے کے لیے کام کرنے دیں-
جنرل راحیل سے کہیں زیادہ ان کا ادارہ مقدم ہے اور بالکل ویسے ہی ایدھی فاؤنڈیش۔
یتیم کے سر پر ہاتھ رکھئیے، نادار کی مدد کریں- ایدھی صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا یہی ایک راستہ ہے۔