(نیلم احمد بشیر)
ٹیگور کی ایک خوبصوت نظم ہے:
شام کے ڈوبتے ہوئے مغرور سورج نے سوال کیا:
’’کوئی ہے جو میرے بعد میری جگہ لے سکے؟‘‘
مٹی کے ننھے سے دیے نے سر اُٹھا کر کہا:
’’میں کوشش کروں گا‘‘
باجی پروین نے جب مجھ سے مفتی جی کے بارے میں کچھ لکھنے کو کہا تو ایک لحظے کے لیے چونک کر رہ گئی۔ کانپ گئی۔ تھرتھری چھوٹ گئی۔ کہاں مفتی جی اور کہاں میں ناچیز۔ ادبی لحاظ سے تو وہ یقیناً روشن، چمک دار سورج ہیں مگر مجھے تو مٹی کے ننھے دیے کی بھی حیثیت حاصل نہیں۔
پھر خیال آیا۔ مجھے بھلا اتنا ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں کون سا ان کی مفتیانے یا دیگر پہاڑ جیسی عظیم ادبی تخلیقات پر قلم اُٹھانے جا رہی ہوں۔ اس کے لیے تو مجھ سے کہیں بہتر قابل لوگ، بڑے بڑے ادبی جنات موجود ہیں۔ یہ کام میرا نہیں۔ میں تو صرف ان مفتی جی کے بارے میں ہی بات کر سکتی ہوں جن کو میں اپنے طور پر جانتی پہطانتی اور چاہتی ہوں۔ جن کا مجھ سے ایک ذاتی تعلق ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔
بچپن میں پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کمرشل دیکھا کرتے تھے۔
ایک خاندان کے افراد مل جُل کر بیٹھے ہیں۔ کیمرہ باری بارے ان کا بیان ریکارڈ کرتا ہے۔ پہلے ابا بولتے ہیں۔ حبیب بینک میرا بینک۔ پھر امّی کہتی ہیں میرا بینک__آخر میں بچہ توتلی زبان میں فخریہ انداز میں کہتا ہے ’’میلا بھی تو ہے‘‘
مفتی جی ہمارے خاندان کا ہمیشہ سے وہ والا حبیب بینک رہے ہیں جو سب کا ہے، سانجھا ہے۔ اس کو کھولا تو ہمارے ابا احمد بشیر نے تھا لیکن دھیرے دھیرے اس میں خاندان بھر ے دیگر افراد نے حسبِ ضرورت اکاؤنٹ کھولنے شروع کر دیے۔ بچوں تک نے چیک کیش کروانے اور اپنی قیمتی چیزیں لا لا کر اس محفوظ ’’لا کر‘‘ میں جمع کروانی شروع کر دیں۔ گھر کا پنا بینک کا سبھی نے فائدہ اُٹھایا۔
میں نے جب سے آنکھ کھولی مفتی جی کو اپنے گردوپیش، اپنے ماحول، اپنی فیملی میں ایک فعال رُکن کے طور پر موجود پایا ہے۔ آفیشلی تو وہ اس فیملی میں ابا کے دوست ہیں لیکن میری امی، میری پھوپھی، میری بہنوں اور میرے بھی اتنے ہی پکّے دوست ہیں جتنا ابا کے۔
آپ شاید یہ سوچیں کہ ہم نے اپنے ابا کے دوست پر مل مار لیا ہے۔ خوامخواہ چپک بیٹھے ہیں۔ لیس لسوڑھے ہو گئے ہیں تو جناب ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔ مفتی جی نے ساری گڑ بڑ خود ہی کی ہے۔ محبتیں بانٹ بانٹ کر اس صفائی سے ہم سب کی زندگی میں اہم جگہ بنا ڈالی ہے کہ ہمیں ہتھیار پھینکنے ہی پڑے۔ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہ رہا کہ مفتی جی کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں۔ وہ ہم سب کے مشترکہ محبوب قرار پائے۔
ہماری باجی پروین کی کہی ہوئی یہ بتا تو آپ نے سن رکھی ہو گی کہ مفتی جی کی دوستی ہمارے خاندان میں نسل در نسل چلنے والی ذیابطس کی بیماری کی طرح ہے۔ وہ انھیں اس پائپڈیائپر سے بھی مشابہ قرار دیتی ہیں جو اپنا بگل بجا کر شہر بھر کے بچوں کو شہر سے باہر کھینچ لے جانے کی طاقت رکھتا ہے۔ میرے خیال میں مفتی جی ایک اور طاقت ابھی استعمال کرتے ہیں۔ وہ ہے ہم آہنگ ہو جانے کی طاقت۔
وہ جس کے پاس بیٹھے ہوں اسی کے رنگ میں خود کو یوں رنگ لیتے کہ اس کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ ایک مشترکہ ویو لنگتھ پر بات کرتے اور سنتے ہیں۔ ان کی صحبت میں بیٹھ کر کبھی کسی جنریشن گیپ کا احساس نہیں ہوتا اور انسان ان کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہونے کو اپنی خوش بختی سمجھنے لگتا ہے۔ اپنے اپنے کٹورے آگے رکھ کر پُر امید ہوجاتا ہے کہ شیرینی اسے بھی ضرور ملے گی۔
جب میں اور میری بہنیں مفتی جی کے گھٹنے سے لگے ان کی مزیدار باتیں سن رہے ہوتے تو وہ یوں رَل مل جاتے ہیں جس طرح وہ بھی ہماری چہیتی بہن ہوں۔ پانچویں تو پروین باجی ہیں اور جب کبھی ہم چھ بہنیں اکھٹی ہو جائیں جو کبھی کبھار ہی ہوتا ہے تو ایسی مزیدار رنگین دلچسپ باتوں کی پھلچھڑیاں چھوٹنے لگتی ہیں کہ روح تک سرشار ہو جاتی ہے۔ چودہ طبق روشن کر دینے والی باتوں کی آبشار کی پھوار میں بھیگتے گھنٹوں گزر جاتے ہیں اور گزرتے وقت کا پتہ بھی نہیں چلتا
سب کی ساقی پہ نظرہو یہ ضروری ہے مگر
سب پہ ساقی کی نظر ہو یہ ضروری تو نہیں
مفتی جی ہمارے وہ ساقی ہیں جن کی نظر انفرادی طور پر ہم سب پر موجود رہتی ہے۔ وہ کبھی کسی کو نظر انداز نہیں کرتے۔ مجھے کالج کے زمانے کی ایک بات یاد آ رہی ہے۔ میرا ایک افسانہ بنام ’’لمحوں کا سفر‘‘ اخبارِ جہاں میں شائع ہوا تھا۔ مفتی جی کو شاید یاد بھی نہ ہو لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مفتی جی نے مجھے اسلام آباد سے اپنے مخصوص ٹیلی گرافک انداز میں لکھا ہُوا خط ارسال کیا۔
نیلم ’’لمحوں کا سفر‘‘ مبارک باد___
میں خوشی سے اچھل پڑی ۔ اس لیے نہیں کہ اتنے عظیم پائے کے ادیب نے میری ادنیٰ تحریر کا نوٹس لیا بلکہ اس لیے کہ ساقی نے مجھ پہ انفردای توجہ کی لیزر بیم پھینکی تھی۔ میں چمکنے لگی۔ اُن کے اس ننھے سے خط نے مجھے ایک گہرا اثر چھوڑا۔ میں عرصے تک اِتراتی اِتراتی پھرتی رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ان کی طرف سے ننھی منی پیار بھری توجہات کے پھولوں کی بارش ہوتی اور میں نہال ہوتی رہتی۔
اسی طرح خاندان کے دیگر افراد کے بھی ذاتی مسائل کے سلجھانے ، کرائسس نمٹانے ، ہر ایک کی فکر کرنے ، ہر ایک کا بھلا کرنے اور ہر معاملہ ٹھیک ٹھاک کرنے میں مفتی جی پیش پیش رہتے۔ کسی کو نا امید نہیں کرتے تھے۔ ان کی شفقتوں کے خزانوں کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے۔
امی، ابا کی شادی کے وقت حق مہر کے جھگڑے پر بارات کو اپس جانے سے روکنے کے کام سے لے کر اگلی نسلوں کے بچوں، بچیوں کے نام تک رکھتے وقت ان سے یوں مشورہ مانگا جاتا جیسے وہ ہمارے کوئی قبائلی سردار ہوں۔ کسی کی منگنی ٹوٹ رہی ہو یا کسی کا دل۔ کسی کے بچے ان کا کہا نہ مان رہے ہوں یا کسی دل لیڈری کرنے کو چاہ رہا ہو ، کسی کا جسم فربہی کی طرف مائل ہو رہا ہو یا کسی کے چہرے پر دانے نکل رہے ہوں، کسی کی کتاب چھپنے والی ہو یا کسی تحریر کو حوصلہ افزائی کی ضرورت ہو۔ ہم سب اپنے اپنے دکھڑے ، اپنی اپنی خوشیاں اور محرومیاں ، اپنی کاوشیں لے جا کر مفتی صاحب کے قدموں میں ڈال دینے کو بے قرار، ان کے تھڑے پر جا بیٹھتے۔ ان سے شےئر کر کے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتے۔ ان سے بات کر کے سکون حاصل کر لیتے کیوں کہ وہ آپ کی کسی بھی کسی قسم بات سنتے وقت آپ کا فیصلہ صادر نہیں کرتے تھے۔ آپ سمجھتے، آپ کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔ آپ کی پوشیدہ خوبیوں کی نشان دہی کرتے وقت اور آپ حیران ہو کر پوچھتے۔
’’اچھا مجھ میں یہ خاصیت بھی ہے، مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا‘‘
وہ آپ کا آپ کی ذات سے مزید تعارف کرواتے چلے جاتے۔ ہاتھ تھامتے ، اعتماد دیتے تھے۔
میرے بارے میں جب انھوں نے بہت عرصے پہلے پشین گوئی کی تھی کہ ’’میں قلم چلا سکتی ہوں‘‘ تو میں نے حیرت زدہ ہو کر کہا تھا:
’’نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ میں بھی لکھ سکوں، یہ تو بہت بڑی بات ہے۔‘‘ اور پھر ایسا ہی ہُوا۔
مفتی جی ، میرے اور میری بہنوں سنبل کے Teen Ageسالوں سے دوست بھی رہ چکے ہیں۔ کتنی ہی دوپہریں ہم تینوں دوستوں نے رکشے میں شہر کے سنیما گھنگالنے میں گزار دیں۔ ان کا سلام آباد سے آنا، آ کر ٹھہرنا۔ ایک ایسا مزیدار واعہ ہوتا کہ ہم مہینوں اس کے منتظر رہتے، ان کی راہ تکتے۔ وہ ہمیں سنیما کی عیاشی کرواتے اور اس کے بدلے میں ہم سے ایک مطالبہ کرتے:
’’ چلو کڑیوگون سناؤ۔‘‘
انھیں نور جہاں کے پنجابی گانے بہت پسند تھے۔ سنبل اور میں ، ’’ڈاہڈا بھیڑا عشقے دا روگ‘‘ ٹائپ گانے پھاڑ پھاڑ کر گاتے اور وہ تعریفی کلمات ادا کرتے نہ تھکتے۔ گھڑی گھڑی چائے بنواتے اور پان کھاتے۔ ہم بھی ان سے پان چھینتے اور مزے اُڑاتے۔ اسی زمانے میں ’’علی پور کا ایلی‘‘ کا پہلا ایڈیشن چھپنا تھا۔ مفتی جی نے ایک کاپی ہم دونوں بہنوں کو عیانت کرتے وقت اس پہ لکھا تھا ’’ نیل اور سنبل کے لیے اور رس کی دو پیاری گاکریں۔‘‘
وہ ہمارے اتنے سہیلے تھے کہ ہم سے سہیلیوں کی طرح روٹھ بھی جایا کرتے مگر ناراض کبھی نہ ہوتے تھے۔ سنبل اور میں انھیں منانے کی فکر میں کھلے چلے جاتے۔ جب وہ من جاتے تو پھر وہی فلم بینی ، گپیں، رنگ بھری باتیں اور موسیقی کی محفلیں سجنا شروع ہو جاتیں۔
بعد میں مفتی جی لاہور کم آنے لگے۔ ملاقاتیں کم ہو گئیں لیکن ہماری آپس کی انڈرسٹینڈنگ اورSharingپُرانی دوستی کی بنیادوں پر ہمیشہ جاری رہی۔ وہ ہمارے لیے اہم اور محبوب تو اتنے ہی رہے مگر قیمتی زیادہ ہو گئے۔ پھر انھوں نے ایک بری عادت اپنا لی۔ جب بات کرو بیچ میں ’’جانے‘‘ کی بات چھیڑ دیتے۔ ’ ’پلیٹ فارم تے بیٹھے آں‘‘ ٹائپ بور جملے ان کے منہ سے سننا ذرا بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ ایک افسانے ’’معروف فارانی‘‘ میں بھی انھوں نے جانے کی باتیں ہی کیں۔
میں مفتی جی سے کہنا چاہتی تھی ، مفتی جی معاف کریں مگر ماشااللہ نوے سالہ ینگ آدمی کے منہ سے ایسی باتیں سجتی نہیں۔ ابھی تو ہمیں آپ کی بہت ضرورت ہے۔ آپ نے بہت سے کام نپٹانے ہیں۔ پلیز بڈھے بننے کی ایکٹنگ نہ شروع کر دیں کیوں کہ آپ ایک’’ ایور گرین ٹین ایجر‘‘ ہیں۔ Over Grownبڈھے یابابے نہیں۔ جانے کی ضد نہ کریں یونہی پہلو میں بیٹھے رہیں کہ
دل ابھی بھر ا نہیں۔ We Love You
باتیں کرتے کرتے مفتی جی اچانک بیچ میں رُک کر کہتے:
’’تیرے وچ اک خوبی اے!‘‘ سننے والا ششدر رہ جاتا۔ سوچ میں پڑ جاتا کہ یہ کیا کہ رہے ہیں؟ کیا واقعی مجھ میں کوئی خوبی بھی ہے؟ حیرت کی بات ہے مجھے کبھی کسی اور نے کیوں نہیں بتایا۔ اتنی اہم بات کا علم مجھے بھلا خود کیوں نہ ہو سکا؟ اتنی بڑی حقیقت میری اپنی آنکھ سے اوجھل کیوں کر رہی؟
پھر مفتی جی وہ پوشیدہ خوبی ، دھو مانجھ کر کے اس کی اپنی نظروں میں اس کی وقعت کتنی بڑھا دی ہے۔ اس کے اندر ایک نئی انرجی کے کتنے سرچشمے جاری کر دیے ہیں۔
آج جب مفتی جی وہ ہمارے درمیان میں سے اُٹھ کر اُس پار چلے گئے ہیں تو میں سوش رہی ہوں، آخر اُن میں ایسی کون سی خوبی تھی جس کی وجہ سے ہم لوگ آج بھی اُن کی جدائی میں اتنے دکھی ہو جاتے ہیں؟ اُن میں ایسی کون سی مختلف بات تھی جس کی وجہ سے اُن کے چلے جانے کو اپنا بڑا ذاتی نقصان سمجھتے ہیں۔ وہ کس نگری سے آئے ہوئے جادوگر تھے؟ جس سے لوگ اتنے والہانہ انداز میں پیار کرتے تھے۔ آخر ان کے پاس ایسا کون سا مقناطیس تھا جس کی وجہ سے لوگ سالہا سال اُن کے گھٹنوں سے چپکے ، جڑے بیٹھے رہتے تھے؟ ان سب باتوں کا ایک ہی جواب میری سمجھ میں آتا ہے اور وہ جواب ہے محبت! انھوں نے تمام عمر لوگوں سے محبت کی۔ محبت بانٹی اور جواباً بھی محبت ہی وصول کی۔ محبتیں لوٹنا اُن کی تقدیر ٹھہرا۔
اُن کی محبت ایک ٹھاٹھیں مارتا ہُوا سمندر تھی۔ ایک ایسا سمندر جس کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا۔ جو کائنات کی طرح لامحدود وسیع تر ہوتی ہے۔ زندگی میں جو بھی اُن کے قریب آیا ان کی محبت کی پھوار میں بھیگ بھیگ گیا اور اس نے ان کی محبت سے خوب خوب جھولیاں بھریں۔
میں کوش نصیب ہوں کہ میں نے مفتی جی کو آنکھ کھولتے ہی اپنے گھر، اپنے خاندان ، اپنے ماحول پر چھایا ہُوا ، اثرانداز پایا۔ ان کے اثرات سب گھر والوں نے ہی قبول کیے جن میں ، میں اور پروین عاطف دونوں شامل ہیں۔ ہم سب کسی نہ کسی طور پر ممتاز مفتی میں لتھڑ گئے اور ہم پر ہماری شخصیتوں کے ایسے ایسے رنگ آشکار ہونے لگے جن کا ہمیں خود بھی قطعی طور پر علم نہ تھا۔ مجھے لکھنے کی طرف مائل کرنے والے بھی ممتاز مفتی ہی تھے۔ انھوں نے میرے لکھنے کی (جو چھوٹی موٹی صلاحیت مجھ میں تھی) خاص نوٹس لیا۔
مجھے احساس ہُوا کہ مفتی جی مجھے اہمیت دیتے ہیں۔ پھر میں اسی زعم میں رہی کہ مفتی جی سب سے زیادہ مجھی سے پیار کرتے ہیں لیکن یہی تو مفتی جی کی چالاکی تھی۔ وہ محبت کے معاملے میں بڑے ہرجائی تھے۔ اپنے قریب آنے والے کتنے ہی مردوں ، عورتوں کو انھوں نے اسی دھوکے میں رکھا کہ وہ سب سے زیادہ پیار انھی سے کرتے ہیں۔ اسی احساس کو اپنے سینے پر تمغے کی طرح سجائے کتنے ہی لوگ زندگی پھر اپنی قسمت پر نازاں رہے مگر ایک بات ہے۔ مفتی جی ہرجائی ضرور تھے لیکن جھوٹے ہرگز نہیں تھے۔ وہ واقعتاً سب سے خلوصِ دل سے پیار کرتے تھے۔ سچ مش کے تعلق دار تھے۔
آج کئی لوگ سر جوڑے بیٹھے یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ مفتی جی عورتوں کے زیادہ چہیتے تھے۔ وہ ان کی زیادہ دیوانی تھیں تو میں بحیثیت ایک عورت کے معاملے اس پر اظہار رائے کرنے کی کوشش کرنا چاہوں گی۔
دراصل مفتی جی کے معاملے ایک عجیب و غریب فہم و ادراک کے مالک تھے۔ جس کی صرف اور صرف یہ وجہ تھی کہ وہ عورت کے بھیتر سے دیکھتے اور جان لیتے تھے۔ وہ ہر عورت کو یہ احساس دلاتے تھے کہ وہ اہم ہے۔ اس کا اپنا ایک تشخص ہے اور وہ تشخص بھی غیر اہم نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں جہاں کہ عورت کو ہمیشہ رواج اور روایت کے پیمانوں سے ہی ناپا تولا اور جانچا جاتا ہے۔ مفتی صاحب ایک ایسے انوکھے شخص تھے جو اس کی ایک علیحدہ راستے پر چلنے کی ضرورت پر اسے لعن طعن کرنے کی بجائے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے تھے اور اس کی اجازت بھی دیتے تھے۔ یہ ایک ایسی اجازت ہے جو اسے اور کوئی نہیں دیتا۔ وہ ایسے شخص تھے جو اس کی آنکھوں میں چھپے ہوئے آنسو دیکھ لیتے تھے اور اس کے دل کی دنیا کا کرب بھی محسوس کر لیتے تھے۔
وہ معمولی عورتوں کو یہ کہ کر عزت بخشتے تھے کہ تم عورت ہونے کی وجہ سے افضل ترمخلوق ہو کیوں کہ تم تخلیق کار ہو ۔ محض اسی وجہ سے تم سے حساسیت بھی زیادہ ہے۔ وہ جانتے تھے کہ توجہ کی طلب عورت کے ضمیر میں گندھی ہوتی ہے اور اس کے دل کے آبگینے اتنے نازل ہوتے ہیں کہ انھیں ہر وقت ٹھیس لگ جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کی انگلی میں کانٹا چبھ جائے تو اسے کوئی کہے ’’ارے تمھارے سینے میںیہ خنجر کیسے گھب گیا۔ تمھیں تو بہت تکلیف ہو رہی ہو گی۔ ادھر لاؤ میں تمھارے زخم پر پھاہا رکھ دوں۔ تمھارا دکھ کچھ کم کر دوں کیوں کہ تمھارا دُکھ بہت اہم ہے۔ معمولی نہیں ہے۔‘‘
مفتی جی عورتوں کی اس ضرورت کو بھی خوب جانتے پہچانتے تھے۔ میں اور مجھ جیسی کتنی ہی زخمی انگلیوں والی عورتیں ان کے پاس جاتیں اور اپنے Bleedings Heartsپر پھاہے رکھوا کر واپس لوٹتیں جس کے بعد ہم میں دوبارہ کھڑے ہونے کا، اپنے پیروں کی طاقت کو آزمانے کا اور جینے کی خواہش کا حوصلہ بھی پیدا ہوجاتا اور ہم نئے سرے سے زندگی کے گمشدہ سرے پکڑنے کے قابل ہو جاتیں۔
عورتیں اس لیے بھی انھیں اپنے سے زیادہ قریب محسوس کرتی تھیں کیوں کہ مفتی جی وقت پڑنے پر اُن کے لیے وہ گھنی چھاؤں والا ہرا بھرا جنگل بن جایا کرتے جہاں پہنچ کر وہ سر میں راکھ ڈال ، بال کھول کر جی بھر کے رولیا کرتی تھیں۔ آج اس ہری بھری چھاؤں والے جنگل کا راستہ بھول بھلیاں بن کر میری پہنچ سے دور ، آنکھوں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گیا ہے تو میں سوچ رہی ہوں ، میں اور مجھ جیسی بہت سی گواچی عورتیں ، اپنے بال کھول کر اب کس جنگل میں جا کر رویا کریں گی؟