(ڈاکٹر شیراز دستی)
امریکا روانگی سے دو دن پہلے میں اپنے مہربان دوست ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد سے ملنے گیا۔ کچھ دیر کی ہنستی مُسکراتی گفت گُو میں کئی باتیں سیکھ کر اِجازت طلب کی تو انہوں نے اپنی ایک تازہ تصنیف ’’کِتاب نامہ‘‘ ہدیہ کی اور دعائیں دے کر رخصت کیا۔
کچھ اور دوستوں سے ہو، ہُوا کر شام کو جب میں گھر لوٹا تو کتاب ابھی بھی میرے ہاتھ میں تھی۔ اور جیسا کہ ہم سب کرتے ہیں، میں نے اپنے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر جوتے اتارنے سے پہلے اسے اپنے بستر اچھال دیا۔ کتاب ناشاد سی ہو گئی، سفید رنگ کی بیڈ شیٹ پر ایک کلابازی کھائی اور مجھے گھور کر دیکھا۔ میں نے جلدی سے جوتے اتارے، کپڑے بدلے اور روٹھی ہوئی کتاب کے پاس جا بیٹھا۔ کچھ دیر اس کی آنکھوں میں جھانکنے کے بعد میں نے اسے اٹھایا اور چوم لیا۔ وہ خوبصورت آنکھوں والی مجھے سچے زمانوں کی اپنائیت سے دیکھنے لگی۔ تاہم میں غیر کتابی کاموں میں اس قدر الجھا ہوا تھا کہ میرے پاس اس کے لیے وقت نہ تھا۔ سو میں نے اسے اٹھایا اور زادِسفر میں شامل کر لیا کہ کبھی کوئی کتاب دوست وقت میسر آیا تو اس ’’کتاب نامہ‘‘ کی سنوں گا۔
بولڈر کا موسم گرمی کو رخصت کرنے کے بعد حقِ خزاں ادا کیے بغیر ہی مضافات کے پہاڑوں سے سردی اتار لایا۔ تاہم میں نے سردی کی اس بے وقت آمد پر سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً کھڑکیاں اور دروازے بند کر دیے۔ بند رہ کر دو ہی دنوں میں کمرہ مُشک بار ہو گیا۔ ماحول یا بدن کو معطر کرنے کے لیے میں مصنوعی خوش بوئیں استعمال نہیں کرتا۔ لہٰذا میں اٹھا اور وہ بیگ کھولاجس میں ایک پرانی کتاب تھی اور اس کتاب میں کچھ مہکتے ہوئے خط۔
وہیں میری نظر ’’کتاب نامہ‘‘ پر پڑی جو زعفران تھی۔ اس سے پہلے کہ میں اسے ایک طرف کر کے ان خطوط تک پہنچتا، یہ کتاب اک دلآویز ادا سے مسکرانے لگی۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں بھی مسکرا دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں اسے اٹھاتا، اُس نے میری انگلی پکڑ لی۔
تھوڑی ہی دیر میں، مَیں ’’کتاب نامہ‘‘ کی گلی گردانی کر رہا تھا۔
میرا یہ سفر کائناتِ کتاب میں طلوعِ سحر کو شروع ہوا اور وحشتِ شب تک جاری رہا۔وہ مجھے اپنی کتھا سناتی گئی اور میں اس کے لفظوں کی پگڈنڈیوں پر چلتا گیا۔ اس نے اپنا کرہِ ارض پر اترنا، نبیوں کے سینوں میں پناہ پذیر ہونا، ولیوں کے دلوں کو روشن کرنا، عامیوں کے دماغوں کو سیراب کرنا اور شہروں کو بام بخشنا بتایا۔ حمدِ ربِ ذوالجلال کر کے بتایا کہ کیسے کتاب کی ہمیشگی کی صورت گری خود خالقِ کائنات نے کی۔ پھر اپنے باکمال زمینی روپ بھی دکھائے۔ اپنی مرمریں اور کاغذی تختیاں دکھائیں۔ پرویں سے لے کر اسلم کمال تک، اپنے خطاطوں اور کاتبوں سے ملوایا۔ ارسطو سے لے کر اقبال تک تخلیق کاروں سے تعارف کروایا۔ بخارہ و بصرہ سے لے کر بغداد اور لاہور تک علم کے وہ شہر دکھائے جہاں اس نے فیض بانٹا تھا۔
دن ڈھل گیا تو کتاب مجھے شہرِ موجود لے آئی۔ یہ زمانہ حال کا ایک ایسا ویرانہ تھا جس کی گلیاں رنگ برنگے قمقموں سے سجی ہو کر بھی اندھیری ہیں۔ اس بستیِ بے مہر کے لوگ حرمتِ کتاب سے اس قدر عاری ہیں کہ خود کتاب نوحہ گربن گئی۔ پھر اس نے مجھ سمیت اس بستی کے سبھی باسیوں کو ہماری بے حسی پہ خبردار بھی کیا۔
سو اگر آپ کو بھی اس کائنات کی سب سے بزرگ ہستی کی کتھا سننی ہو، شیراز و اشبیلیہ کی سیر کرنی ہو، رحمان بابا اور ٹیگور سے ملنا ہو ، کسی نوجوان کو کتاب دوستی پر مائل کرنا ہوتوناصحین کی اس معلمہ ’’کتاب نامہ‘‘ کو پڑھیئے۔
بہت شکریہ شیراز صاحب۔ اللہ کریم آپ کو آسودہ رکھیں۔
بہت اعلی تحریر