(’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ مطبوعہ ۲۰۰۷ ء کی تقریبِ تقسیم کے موقعے پر محفوظ کردہ وڈیو ریکارڈنگ سے نقل کی گئی گفتگو)
منظر نقوی:
رفیق سندیلوی کی شخصیت پہلو دار ہے جہاں خاموشی بھی جلترنگ کے مانند ہے۔یہی جلترنگ اسے جدوجہد کرنے والا ایک عملی انسان بناتی ہے۔اُس کی عملیت پسندی اس کی فکری اٹھان کا پتہ دیتی ہے۔رفیق سندیلوی سیلف میڈ انسان ہے۔ زندگی اُسے ہر موڑ پر جذبے کی ندرت،احساس کی شدّت اور مشاہدے کی لذّت سے ہمکنار رکھتی ہے۔اُس کی حقیقت پسندی اُسے متضاد اور منافقانہ رویوّ ں سے مزاحمت کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا اپنی فکری بشارت کے ساتھ کرتا ہے جس میں اساطیری حوالے اُس کی واضح سمت متعین کرتے ہیں۔مزاحمت اور اساطیری حوالے، یہ دو منطقے رفیق سندیلوی کی شخصیت کی تفہیم بھی کرتے ہیں اور اُس کی شاعری کا مرغوب موضوع بھی بنتے ہیں۔رفیق سندیلوی نے اپنی نظمیہ شاعری میں اِن دو حوالوں سے بھرپور کام لیا ہے۔میں ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ کی اشاعت پر اُنھیں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور احباب کو گفتگو کی دعوت دیتا ہوں۔
ڈاکٹریٰسین آفاقی:
رفیق سندیلوی نے نظم میں اپنا الگ تشخص قائم کیا ہے اور فنی وفکری سطح پر ایک نئی جہت روشن کی ہے۔اُن کی نظمیں ہندوستان اور پاکستان کے معروف رسائل میں چھپتی رہتی ہیں اور قارئین و ناقدین بھی اُن کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔جن سنجیدہ لکھنے والوں نے اُن کی نظموں کے تجزیاتی مطالعے کیے ہیں اِن میں اردو ادب کے بڑے بڑے نام شامل ہیں۔رفیق سندیلوی ایک تمثال ساز اوراستعارہ آفریں شاعر ہیں۔ اُن کی نظم نامیاتی سطح پرتمثالوں کا ایک مرکب ہوتی ہے۔اُن کے ہاں تمثالیں بکھری ہوئی نہیں،موتیوں کی ایک لڑی کی طرح پروئی ہوئی ہوتی ہیں جو غائب اور موجود کو یکجا کرتے ہوئے اپنی معنوی تشکیل و تکمیل کرتی ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ جب تک اُن کی تمثال سازی کے طریق کارکی وضاحت نہیں کی جائے گی‘ اُ ن کی نظمیں کھل کر سامنے نہیں آ سکیں گی۔غور کیجیے تو یہ تمثالیں ایک وسیع تر ماحول سے اخذکی گئی ہیں جو قدیم سے لے کر جدید زندگی تک محیط ہے۔رفیق سندیلوی نے اِن تمثالوں کے ذریعے قدیم اور جدیددونوں کو آمیخت کیا ہے۔اِس پھیلاؤ کے پیشِ نظر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان تمثالوں کی اساس یا بنیادکن مشابہتوں اور مما ثلتوں پررکھی گئی ہے اور وہ ہماری جدید زندگی سے کس طرح relate کرتی ہیں اوراِن کی جڑیں ہماری معاصر صورتِ حال میں کس گہرائی کے ساتھ پھیلی ہوئی ہیں۔اُن کی نظموں میں تمثالیں کس طرح معنی آفرینی کے عمل سے گزرتی ہیںیااُن کی امیجری میں متھ کس طرح استعارے میں تبدیل ہو جاتی ہے اور پھر یہ استعارہ سازی کس طرح علامتوں کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔اِس transitionکا مطالعہ تمام سطحوں سے باریک بینی کے ساتھ ہونا چاہیے۔رفیق سندیلوی کی نظمیں ہر لحاظ سے سنجیدہ مطالعے کی متقاضی ہیں،اِس لیے کہ رفیق سندیلوی ایک گہرے اورمدوّرشاعر ہیں اور اپنا ایک طریقِ کار رکھتے ہیں۔ اُن کی نظموں کے ذریعے اُردو نظم میں ایک دریچہ وَا ہواہے اورفنی حوالے سے اُردو نظم کی ایک نئی ہیئتی تشکیل ہوئی ہے۔
ڈاکٹر روش ندیم:
رفیق سندیلوی کی کتاب کا ایک عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔میری طرح سب ہی اِس کے منتظر تھے کیوں کہ ہم سب رفیق سندیلوی کی نظمیں ایک مدّت سے پڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ اُس کی نظموں کو ایک ساتھ پڑھ کر لطف اندوز ہونے کا موقع اب جا کے نصیب ہوا ہے۔رفیق سندیلوی سے ملیں تو وہ ایک مختلف سا آدمی نظر آتا ہے،اپنے out lookمیں ، اپنے رویوّ ں میں اوراپنے اظہار میں بھی۔اگر ہم مانتے ہیں کہ فن کار کی تخلیق اُس کی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے تو جتنا مختلف رفیق سندیلوی ہے اتنی ہی مختلف اُس کی نظمیں ہیں۔شخصیت مضبوط سطح پر منفرد ہو اور اپنی تخلیقیت کے ساتھ گہرے طور پر جُڑی ہوئی ہوتو تخلیق شخصیت کو اورشخصیت تخلیق کو اور بھی مختلف بنادیتی ہے اور اِس کی مثالیں تاریخ میں نظر آتی ہیں۔مجھے یادہے کہ رفیق سندیلوی نے کچھ برس پہلے اکادمی ادبیات کی سیڑھیوں پردوستوں کے درمیان کہا تھاکہ لکھنے والا اپنی زندگی اور ذات کے غارِ حرا میں گاہے بہ گاہے داخل ہوتا رہتاہے اور جب وہ باہر آتا ہے تو اپنے ساتھ کوئی کتاب لے کر آتا ہے اور دُنیا کو ہِلا دیتا ہے۔رفیق سندیلوی کی کتاب ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ اُس کی شخصیت کے اِسی پہلو کی ترجمان ہے۔رفیق سندیلوی کم آمیز بھی ہے اور کم گو بھی لیکن جب بولتا ہے تو اُس کی باتیں بحث کا در واکرتی ہیں کیوں کہ اُس کا بولنا بھی اُس کی شخصیت کی طرح مختلف ہوتا ہے ۔ غرض یہ کہ رفیق سندیلوی کی شخصیت ،اُ س کے بولنے کا انداز،اُ س کی شخصیت کا اظہاراُس کی نظم میں اور بذاتِ خود اُس کی نظم اپنی خارجی اور داخلی سطح پر مختلف نظر آتی ہے۔ آپ اُس کے موضوعات دیکھ لیں۔ہماری نظم میں عمومی طور پر socio.political موضوع حاوی رہا ہے مگر اس کے مقابلے میں رفیق سندیلو ی وجودیت کی عمرانیات کو اپنے موضوعات کے ساتھ زیادہ جوڑتا ہے۔ اُس کے سارے موضوعات social existencielism سے پھوٹتے ہیں اور تکنیک کی سطح پر ایک چھوٹی سی چیز،ایک عمومی سی بات اور ایک ننھی سی اکائی کووہ اس طرح آگے لے کر بڑھتا ہے اور ایک ایسا twist دیتا ہے ؛ایک ایسا دھماکا کرتا ہے کہ وہ ایک اکائی اور وہ ایک عمومی سی بات ایک بہت بڑے اجتماع ،ایک بہت بڑی قدر اور ایک بہت بڑی حقیقت سے جُڑ جاتی ہے۔یہ خاص وصف ہے رفیق سندیلوی کی نظموں کا جسے بعض نقادmetamorphosisکی طرح یک لخت تبدیلی سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔اِسی طرح آپ اُس کا ڈکشن دیکھ لیں۔اُس کا ڈکشن اُس کا اپنا ہے اور بہت مختلف ہے جس سے اُس کی نظم ڈھیر کے اندر بھی پہچانی جاتی ہے۔آج کا نظم گو غزل کی totality اور dictionکی جبریت سے آزادی کی جو جنگ لڑ رہا ہے،اِس میں رفیق سندیلو ی کا contributionبہت نُمایاں ہے۔ رفیق سندیلو ی نے اپنی نظموں میں بعض جگہوں پر ایسے ایسے الفاظ اور تمثالوں کا استعمال کیا ہے جنھیں استعمال کرنا بڑی جُرات کا کام ہے۔ذائقے اور مزاج کی سطح پر بھی آپ کو رفیق سندیلو ی کی نظم مختلف نظر آئے گی۔ علی محمد فرشی کی نظم ’’ علینہ ‘‘کے متعلق ہمارے ایک سینئراستاد،نقاد اور افسانہ نگار نے کہا تھا کہ اِس نظم میں شیرینی بہت زیادہ ہے یا بہ الفاظِ دیگر یوں کہہ لیں کہ تَری ضرورت سے زیادہ ہے مگر رفیق کے ہاں یہ چیز نہیں ہے۔رفیق کے ہاں وہ خشکی بھی نہیں ہے جو ستیہ پال آنند کے ہاں نظر آتی ہے۔رفیق کی نظم میں ایک balance ہے،بڑا مناسب blendہے جو ہمیں اپنے ساتھ رکھتا ہے۔مجھے یاد ہے سعید احمد نے جب ’’معاصر شاعری‘ ‘نکالا تو اُس نے پہلے پرچے کے بعد ہی یہ کہہ دیا کہ میں تو سمجھتا تھا کہ نطمیں لکھنے والے بہت ہیں،اتنا شوروغوغا ہے نظم کا مگر میرے پاس جو چیزیں پہنچی ہیں ،وہ کوالٹی کے لحاظ سے بہت تھوڑی ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اچھے نظم نگاروں کی تعداد بہت کم ہے۔اِس صورتِ حال میں رفیق سندیلوی کا موجود ہونا اور اُس کی نظموں کی کتاب کا آنا بہت اہم ہو جاتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اُس کی کتاب سے نظم کے رجحان کو تقویت ملے گی۔
اختر عثمان:
رفیق سندیلوی کا شعری مجموعہ’’ ایک رات کا ذکر‘‘ ۱۹۸۸ ء میں آیا۔بیس برسوں کے بعد اُنھوں نے اپنی نظموں کی کتاب دی ہے۔رفیق کی یہ کتاب میرے ہاتھ میں آئی تو میرا دھیان رفیق کی کتابوں کے ناموں سبز آنکھوں میں تیر،گرز،ایک رات کا ذکر،غار میں بیٹھا شخص کے امیجزم کی طرف گیا‘اور جیسا کہ ستیہ پال آنند نے بھی بطورِخاص رفیق سندیلوی کے امیجزم کا ذکر کیا ہے تو میں نے سوچاکہ رفیق کے امیجزم کوالگ سے کیا نام دینا چاہیے کیوں کہ اُن کے امیجز سب سے مختلف ہیں۔مجھے لگا کہ رفیق primitive man کے امیجز کا شاعر ہے۔آج کے دور میںprimitive images والے شاعر کاsocial ideal کیا ہونا چاہیے۔رفیق کا سوشل آئیڈیل primitiveہے۔آج کل پوسٹ ماڈرن ازم نے مائتھولوجی اور primitive society کا شعبہ ایک شخص کلاڈ لیوی سٹراس کے سپرد کیا ہوا ہے۔ لیوی سٹراس کے سارے انٹرویو اورکتابیں اس بات کو ثابت کرنے میں زور لگاتی ہیں کہ primitive mindآج کے انسان کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہے مگر وہ primitive society کے ثمرات کی بات نہیں کرتا کیوں کہ یہ اس کے نقطۂ نظر کے بالکل خلاف جاتی ہے۔primitive society میں زمین پر مخصوص لوگوں کا اجارہ نہیں ہوتا۔ زمین سب کی ہوتی ہے ۔بقولِ ا قبال دیہہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں میری نہیں،تیرے آبا کی نہیں۔اِس نکتے کو پوسٹ ماڈرن ازم والے چھوڑ جاتے ہیں۔اِس حوالے سے دیکھیں تو رفیق کی نظم کے سب سے اہم نقاد اور کتاب کے دیباچہ نگار نے اِس خاص نظم کی پذیرائی کے لیے بڑی محنت کی ہے۔رفیق کی کچھ نظمیں ایسی ہیں جو آج کے سارے مسائل کا احاطہ کرتی ہیں لیکن بہرحال یہ سوال ضرور قائم رہتا ہے کہ آج کے معاشرے میں اگر ایک شاعر کا سوشل آئیڈیل primitive man ہے اور لیوی سٹراس یہ کہتا ہے کہ محدود ذرائع کے باوجود primitive man طاقتور ذہن اور جسمانی قوّت کا حامل ہوتا ہے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ محدود ذرائع والوں کو یعنی تھرڈ ورلڈ کے لوگوں کو اہلِ مغرب primitive man کی ترغیب دیتے ہیں۔ایک تو میں اِس نکتے پر سوچ رہا تھا ،دوسرا نکتہ میرے ذہن میں یہ تھا کہ رفیق نے فنی حوالے سے بحور کون سی استعمال کی ہیں۔اُن کی نظموں میں مفاعلن مفاعلن اور متفاعلن متفاعلن زیادہ نظر آئیں گی۔اِس آرڈر کے حساب سے دیکھیں تو اُنھوں نے مصرعوں کو اتنا توڑا ہے کہ مصرع چار یا پانچ چھ لفظوں سے زیادہ کانہیں رہا۔عام تأثر یہی ہے کہ وہ لمبا مصرع نہیں کہتے حالانکہ اُن کے مصرعے آدھے آدھے صفحے تک جاتے ہیں بلکہ نظم شروع ہوتی ہے تو ایک ہی سانس میں آخر تک چلتی چلی جاتی ہے۔رفیق سندیلوی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جس زمانے میں اُن کی غزل اور نظم دونوں معروف ومشہور تھیں ‘اس زمانے میںیہاں بیٹھے ہوئے بہت سارے دوستوں کو کوئی جانتا تک نہیں تھا۔ایک اور رشک جوایک طالب علم کی حیثیت سے آنا چاہیے وہ یہ ہے کہ رفیق نے غزل کہی اور داد سمیٹی،رفیق نے ننقید لکھی اور داد سمیٹی،رفیق نے نظم کہی اور داد سمیٹی۔میں سمجھتا ہوں کہ ہم سے جوفوری سیئر ہیں اُن میں وہ واحد شخص ہے جوہماری طرح باتیں نہیں بناتا،بیٹھ کر کام کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کا بہت ساکام مختلف جہات میں ہمارے سامنے آیا ہے۔ میں اُن کی نظموں کی اشاعت پر اُن کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
پروین طاہر:
میں فی البدیہہ اچھا نہیں بول سکتی لیکن مجھے رفیق سندیلوی کی کتاب کی اِس قدر خوشی اور excitementہے کہ میں نے اِس کتاب پرکچھ بولنے کی جرأ ت کی ہے۔رفیق سندیلوی کی طرح میں بھی نظم لکھتی ہوں مگر رفیق ہم سب میں ایک مختلف لیول پر نظم لکھ رہا ہے۔وہ حیران اور سرشار کر دینے والا شاعر ہے۔میں یہ بات محض بول کر ہی نہیں کہہ رہی،قارئین جانتے ہیں کہ میں نے اُس کی نظم کا تجزیہ بھی کیا ہے اورجب حلقۂ اربابِ ذوق میں اُس کی نظموں پر بات ہوئی تھی تو میں نے مضمون بھی پیش کیا تھا۔یہ تحریریں اُس کی نظموں کے بارے میں میری پسندیدگی کو ظاہر کرتی ہیں۔میں کہنا چاہتی ہوں کہ رفیق کی نظموں میں صرف primitive manہی کا آئیڈل موجود نہیں ہے ،وہ primitiveانسان بھی ہے جس کے اندر تصوف کا ایک پہلو بھی پایا جاتا ہے مگر یہ تصوف اِس طرح کا نہیں جس طرح ہمارے صوفیاکے ہاں تھا۔ تصوف کے ساتھ شرفِ انسانیت کا احساس ،انسان کے عظیم ہونے اور کائنات میں اُس کے اہم ہونے کا احساس ایک اسٹائل کے ساتھ اُس کے ہاں آیا ہے۔انسان اور ذہنِِ انسان کے ارتقا کے بارے میں اُس کا واضح نقطۂ نظر ہے۔مثلاً اُس کی ایک نظم ہے’’ لال بیگ اُڑ گیا‘‘ جس میں پتہ چلتا ہے کہ اُسے انسان پر کتنا اعتماد ہے اور وہ انسان کے evolutionپر کتنا یقین رکھتا ہے۔یہ نظم میری پسندیدہ نظم ہے ۔اِسے پڑھیں توآپ کو پتہ چلے گا کہ یہ کیسی نظم ہے۔کافکا جیسے لوگوں نے انسان کو کاکروچ بنایا لیکن رفیق کی نظم میں لال بیگ کی ٹانگ جب ہست کی گرہ میں پھنس جاتی ہے تو ایک دَم اُس کے ذہن میں آتا ہے کہ اُس کی دسترس میں سنہری اور صندلیں پَر بھی ہیں۔آپ دیکھیں کہ ذہن پر انسان کی دسترس اورانسانی ذہن کی جو رفعت اور جمالیات ہے،اُس پر رفیق نے کیسے زور دیا ہے۔رفیق کی نظموں میں طبقاتی شعور کی بھی کوئی کمی نہیں۔’’تندوروالا‘‘ کو ذہن میں لائیے۔بہت حسین اور دلکش نظم ہے،بالکل جیسے کہانی بیان کی جا رہی ہو۔دھیرے دھیرے ،سادہ اور چھوٹی چھوٹی لائنیں آ رہی ہیں جن میں تندورکا نقشہ اور تندور والے کا احوال ظاہر ہو رہا ہے مگر جب وہ کہتا ہے کہ۔۔ زمانے!ترے ساتھ میں پھول چننے چلوں گا۔۔ تو اِس ایک لائن سے نظم بلند ہوجاتی ہے ۔اس طرح کی نظموں میں رفیق کا کمال ظاہر ہوتا ہے۔بعض احباب رفیق سندیلوی کی جمالیات پر تنقیدکرتے ہیں۔واضح رہے کہ جمالیات خوبصورتی ہی کی نہیں بدصورتی کی بھی ہوتی ہے ۔رفیق نے اپنی نظم میں خوبصورتی اور بدصورتی ،دونوں کی جمالیات سے کام لیاہے۔رفیق سندیلوی بہت گہرا ،بہت پوٹنشل والا اور ایک دَم mutate اور changeکردینے والا شاعر ہے جیسا کہ ادب کے اندرتبدیل کرنے کی قوت ہوتی ہے۔رفیق سندیلوی خود بھی قلبِ ماہیت پر یقین رکھتا ہے اور ہماری بھی قلبِ ماہیت کرتا ہے۔وہ خود بھی ارتفاع کے عمل سے گزرتا ہے اور ہمیں بھی ارتفاع کے عمل سے گزارتا ہے۔وہ یقیناًہمارے لیے قابلِ رشک شاعر ہے۔
محمد حمید شاہد:
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ رفیق سندیلوی کی کتاب آج ہمارے ہاتھوں میں ہے۔میں اِس کتاب کا ایک مدّت سے منتظر تھا۔جب یہ کتاب ترتیب پا چکی تھی تو تب بھی میں نے اِسے پڑھا تھااور سچ پوچھیے تو رفیق کی نظمیں پڑھتے ہوئے قاری ساتھ ساتھ چلتا ہے۔سارے مناظراس کی آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں۔رفیق کی نظم سیدھی لکیر میں نہیں چلتی،ایک دائرہ بناتی ہے،ویسا ہی دائرہ جس طرح ایک کہانی بنایا کرتی ہے۔تو جب میں کہانی کا آدمی ہوں تو ایسی نظموں کا عاشق ہونا میرے لیے ضروری ہو گیا تھا۔اب یہ بات کہ رفیق کوقدیم آدمی کیوں اچھا لگتا ہے۔۔اس لیے کہ وہ خودقدیم آدمی ہے،اپنی سرشت میں،اپنی روح کے ساتھ،اپنے جسم کے ساتھ،اپنے وجود کے ساتھ،اپنی تہذیب کے ساتھ،اپنی باقیات کے ساتھ یہ آدمی قدیم کے ساتھ چلتا رہے گا۔جس طرح کا جدید آدمی اسے بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے،یہ ویسا بن نہیں سکتا۔قدیم رہنا ہی اس کی مجبوری ہے۔رفیق سندیلوی کی پوری کتاب پڑھ جائیے ۔یہاںآپ کو ایک کروڑبرس پُرانا انسان نظر آئے گا اور اپنے پورے دُکھوں کے ساتھ نظر آئے گا۔ آپ کو ایسے خوابوں کا تذکرہ ملے گا جن کے ساتھ مزدوری کا عمل جاری ہے۔آپ کو ایک جسم نظر آئے گاجو پل صراط کی طرح ہے،جس کے اوپر سے انسان کو گزرنا ہے ،آپ کو ایک سوار نظر آئے گا جو اُونٹ کی پیٹھ پر بیٹھا ہے اور اسے قدیم بستیوں سے گزرنا ہے مگر فاصلہ ہے کہ کم ہونے میں نہیں آرہا،راستہ ہے کہ پاٹا ہی نہیں جا رہا۔اسے آگے نکلنا ہے لیکن گلی ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آ رہی۔اسے انتظارہے کہ کوئی آئے اور اسے اس گلی سے نکال کر لے جائے۔غور کیجیے کہ رفیق سندیلوی نے وقت کو کاٹ کر آگے لگانے کی کوشش کی ہے یا اپنی زندگی کو قدیم وقت کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ قدیم وقت کے ساتھ اپنے آپ کوجوڑنا۔۔یہی وہ بنیادی طاقت ہے جو لکھنے والے کے پاس ہوتی ہے ۔جتنا بڑا تخلیق کار ہوتا ہے ،ماضی اتنی بڑی قوت بن کر اُس کی گرفت میںآجاتا ہے۔یہ ماضی ،یہ قدیم انسان،یہ غار میں بیٹھا شخص رفیق کے لیے اہم ہے۔۔اُس کے لیے اجلی روشنی کوئی معنی نہیں رکھتی۔اُس کے لیے اندھیرا بہت بامعنی ہے ،قدامت بہت بامعنی ہے۔حتّیٰ کہ اُس کے لیے مینگنیاں بہت بامعنی ہیں۔رفیق سندیلوی بکری یا بھیڑ کی دُم کے ساتھ لگی ہوئی مینگنیوں سے بھی جمالیات کو تلاش کرنے کی جرأت رکھتا ہے۔مجھے آج کی نظم میں کوئی ایسا شاعر نظر نہیں آ یا جواتنا حوصلہ رکھتا ہو ،جواتنے بھدّے امیجز لے کر،انھیں نظم میں پَرو کراور پھر ان سے معنی بھی نکالے اور خوبصورتی سے آگے بھی بڑھ جائے۔ رفیق کی نظموں میں کھردرے مناظر، بہت ٹوٹے پھوٹے علاقے اور بہت قدیم وقت ہے۔اُس کے ہاں پُرانی سواری کا طریقِ کار ہے۔’’سواری اُونٹ کی ہے‘‘بہت غیر معمولی اور اتفاق سے خلق ہونے والی نظم ہے جسے پڑھیں تو بہت لطف آتا ہے۔رفیق کا کمال یہ ہے کہ درد پوری شدّت کے ساتھ اُس کے ہاں موجود رہتا ہے۔ایک جگہ پراُس نے شریان کے پھٹنے اور ایک جگہ گھر میں صفِ ماتم کے بچھنے کا تذکرہ کیا ہے۔اِس اظہار کے پیچھے اتنی شدّت موجود ہے جوقوّ ت کے ساتھ چیزوں کو پھاڑ دیتی ہے،جُداکر دیتی ہے۔یہی وہ درد ہے جورفیق سندیلوی کی نظم کی صورتِ حال اور صورتِ واقعہ میں پھیلے ہوئے امیجز کو استعارے سے آگے علامت کی سطح پر لے آتاہے اورقاری کومسلسل اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔
علی محمد فرشی:
رفیق سندیلوی اور میں مشترکہ طور پر کئی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔دوستی کا رشتہ بھی ہے اور نظم کا رشتہ بھی ۔ پھر یہ کہ ہم ایک ہی شہر میں رہتے ہیں اور ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے ہمیں ایک طریقِ کار کے رشتے میں بھی پَرو دیاہے۔میرے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ رفیق سندیلوی ،نصیر احمد ناصر اور میرا نام ایک ساتھ لیاجاتا ہے۔اِن ناموں میں وحید احمد اور جاوید انور کا نام بھی شامل کیا جا سکتاہے۔ایک دو اور نام بھی آسکتے ہیں۔ایک عہد میں متعدداچھے شعرا ہو سکتے ہیں۔اگر کسی میں کوئی انفرادی پوٹنشل ہے تو کوئی دوسرا شاعر اُس کے رستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔جینوئن شاعر کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ دوسرے جینوئن اور اصیل شاعر کوقبول کرنے کی جرأت بھی رکھتا ہے۔جب حلقہ اربابِ ذوق میں خصوصی طور پررفیق سندیلوی کی نظموں کا مطالعہ کیا گیاتھا تومیں نے اُس کی اصالت و انفرادیت کو تسلیم کیا تھالیکن رفیق،میرا اور نصیر کا نام اگر ایک سانس میں لیا جاتا ہے تو ہمارے لیے کچھ challengesبھی بن جاتے ہیں جنھیں ہم نے ہمیشہ جرأت کے ساتھ faceکیاہے۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے نظم کی جو مثلث بنائی،وہ ہمارے لیے فائدہ مندثابت ہوئی مگر محض امیجسٹ ہونا اعزاز کی بات نہیں۔ضیا جالندھری سے رفیق سندیلوی تک امیج ازم کے دو اَدوارپروان چڑھ چکے ہیں۔جس طرح ایلیٹ اور ایذراپونڈ کے ہاں امیجری میں یکسانیت نہیں تھی، اِسی طرح ہم تینوں کی امیجری میں بھی نوعیت اور استعمال کا فرق ہے،اور اِس کا اعتراف ناقدین نے بھی کیا ہے۔ہر اچھا شاعر فطری طور پر دوسرے شاعر سے مختلف ہوتا ہے اور اسے مختلف ہونے کے لیے کوئی کوشش نہیں کرنی پڑتی۔جس طرح ایک پرندہ آسانی سے اپنا گھونسلہ بنا لیتا ہے، بالکل ا سی طرح رفیق سندیلوی کو کوئی کوشش نہیں کرنی پڑتی۔وحید احمد اور نصیر احمد ناصر کو کوئی کوشش نہیں کرنی پڑتی ۔رفیق سندیلوی ایک جینوئن اورخلّاق شاعرہے ۔ اُس نے غزل بھی لکھی اور نظم بھی۔غزل میں اُس کی جمالیات روایت سے مختلف تھی۔نامانوسیت اُس کی فطرت کا خاصہ ہے۔نظم میں بھی اُس کی جمالیات ہماری شعری روایت کے ساتھ مکمل انسلاک نہیں رکھتی۔رفیق نے اپنی نظم میں رینگتے ہوئے کیڑوں مکوڑوں کو جگہ دی ہے۔ لال بیگ،چیونٹی ،مکھّی،سوَر،مکڑی اور مینگنیوں کا ذکر کیا ہے۔بلغم بھری ناک،مردود بوڑھی کھانس ،موریوں اور بدروؤں کا نقشہ کھینچا ہے۔ یا جس طرح اُس کے ہاں کمزور طبقہ بھیڑ کی حالت میں ہے یا سرخ کمبل کے اندرتپِ دق کے مریض کی حالت ہے یا قبر جیسی کھاٹ میں مزدور کی حالت ہے۔رفیق کے ہاں جو اِس طرح کی جمالیات معرضِ وجود میں آئی ہے،وہ ہمیں چونکاتی ہے۔ اصلاً اِس کے پیچھے رفیق کا وہ خاص مزاج ہے جس نے اسے تشکیل دیا ہے۔ہماری ادبی اور شعری روایت میں اِس جمالیات کا رواج نہیں یا یہ اتنی راسخ نہیں،لیکن ہماری ثقافت اور سماجی روایت میں اِس کا عمل دخل ہمیشہ سے رہا ہے۔حضرت علیؓ کا ایک شعر ہے کہ جب میں چمگادڑ کے پَروں پر ہاتھ پھیرتا ہوں تو اللہ کی محبت کا لمس ریشم کی طرح میرے دل میں اُتر جاتا ہے۔ جمالیات میں پھول کی پتّی اور کانٹے کی حیثیت ایک سی ہوتی ہے۔رفیق کی نظم میں جمالیات کی یہ دونوں سطحیں عمل آرا ہیں۔بلاشبہ رفیق نے اپنی جمالیات،اپنے اُسلوب اور اپنی امیجری سے نظم کوایک بڑے امکان سے ہم کنار کر دیا ہے۔
ڈاکٹراحسان اکبر:
آج کی شام بہت اہم ہے۔رفیق سندیلوی کی نظموں کی کتاب کے ساتھ آپ سب احباب کا یہاں پر یکجا ہونامیرے لیے بہت خوبصورت تجربہ رہا۔نقادوں اور دانشوروں نے اتنی اچھی باتیں اور اتنی عمدہ یافتیں اپنے اپنے زاویوں سے ہمارے سامنے رکھیں جو یقیناًذہن کُشا تھیں۔میں چونکہ رفیق سندیلوی کے سفر کو ایک مدّت سے جانتا ہوں ،اِس لیے مجھے اُ س کی نظم میں آگے کی بات دکھائی دیتی ہے۔ اِس ارتقاکے لیے وہ یقیناًمبارک باد کا مستحق ہے۔بیس برس پہلے میں نے اُس کی کتاب’’ ایک رات کا ذکر‘‘ کی شاعری کو دیکھا تھاتو میں نے کہا تھاکہ وہ نئے جہان کو دیکھنے کا آرزو مند ہے۔تب اُس کاسفر سیّارگاں کا سفر تھا اور وہ سمندروں،خلاؤں اور وجود کی اُڑانوں کی بات کرتا تھا،بیچ میں زمینِ دل پڑتی تھی اورموت کا پڑاؤ آتا تھا۔اُن زمانوں میں افسانہ لکھنے والا بھی سائنس فکشن لکھ رہا تھامگرسائنس کا اثر رفیق کی شاعری پر بڑا معنی خیز اور انتہائی مثبت تھا۔اِس میں خیر کا ایک پہلو تھا،یہ بہت ادب نواز تھا اور اِس نے رفیق سندیلوی کو بڑی تخلیقی جہات دیں۔میں نے اِس کتاب کا دیباچہ لکھا تھا اوراُس کی شاعری کی تہہ کو اپنے طور پر کھولنے کی کوشش کی تھی۔اِس کتاب میں رفیق کوبدن اور اَسرارِ بدن بُلاتے تھے۔تب رفیق کی عمر بھی ایسی تھی کہ بدن کی دیدو دریافت میں کوئی ہرج نہ تھا۔لیکن رفیق کا سفر آگے کی طرف گیا،وہ وہاں رُک نہیں گیاورنہ جسمانیت روک لیتی ہے،اُٹھنے نہیں دیتی۔رفیق نے بدن کے رموز کو بھی گہری جہت دی ہے۔جہاں تک اُس کی نظموں کی بات ہے ،رفیق کے ہاں صورتِ حال کو زاویہ ہٹا کر دیکھنے کی روش موجود ہے۔ہم سب جانتے ہیں جو ’’ تبت یداابی لہب وتب ‘‘پڑھتے ہیں کہ صورتِ حال کیا تھی لیکن جب راشد نے کہا کہ: شبِ زفافِ ابو لہب تھی،مگر خدایا وہ کیسی شب تھی ،ابو لہب کی دُلہن جب آئی تو سر پہ ایندھن ،گلے میں سانپوں کے ہار لائی،۔۔۔تو یہ راشد کی شاعری کی ایکformation تھی۔یہ اُس کا ایک اور زاویہ تھا چیزوں کو دیکھنے کامگررفیق کی کتاب میں آپ کو جگہ بہ جگہ راشد سے آگے کی منقلب صورتِ حال دکھائی دے گی۔رفیق الف لیلیٰ سے ایک چیز اُٹھاتا ہے اور اِس کے اَسرار کو نظم میں اپنے طور پر کھولتا ہے۔پھر یہ کہ بد صورتی کو اپنی جمالیات کا حصہ بنانے کا اُس میں بڑا حوصلہ ہے۔رفیق چیزوں کو totality میں دیکھتا ہے۔اُس کی نظر کُل پر رہتی ہے۔وہ خیر کو شر سے الگ نہیں کرتا ،دونوں کی بات کرتا ہے اور انھیں کُل کے اندر ملا کر دیکھتا ہے۔’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ کی نظمیں ایک دَم ظہور میں نہیں آئیں۔اِن کے پیچھے برسوں کی فنی ریاضت موجو د ہے۔ ایک ایک نظم نے رسائل میں شائع ہو کر داد حاصل کی ہے اوررفیق سندیلوی کو نظم نگاروں میں سر بلندکیا ہے۔
ڈاکٹر توصیف تبسّم:
آج کی شام انتہائی خوشگوار ہے۔ایک عرصے کے بعدنظم کو ایسی کوئی شام نصیب ہوئی ہے اور ایسا ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ کی اشاعت سے ممکن ہوا ہے۔ دوستوں نے رفیق سندیلوی کی نظموں پربہت عمدہ گفتگو کی اورخود رفیق سندیلوی نے اپنی نظمیں سُنا کر سماں باندھ دیا۔ہم سب رفیق سندیلوی کی نظم کے قدردان ہیں۔ رفیق سندیلوی کی نظم میں بڑی وسعت اوربڑاتنوّع ہے۔اُس کی نظموں میں جہاں کہیں کھردرا پن ہے ،وہ اصل میں زندگی کا کھردراپن ہے مگراُس کے ہاں غنا کا تسلسل ہے اور اِس تسلسل میں ایک ٹکڑا دوسرے ٹکڑے سے جُڑ کر نظم کو مکمل کرتا ہے، جیسے مصوری میں ایک رنگ دوسرے رنگ سے مل کر معنی خیز ہو جاتا ہے اور دیکھنے والے کو حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے۔مجھے یقین ہے کہ رفیق سندیلوی کی نظمیں قارئین کے دِل میں اور ادبی تاریخ کے حافظے میں محفوظ رہیں گی۔