راجہ گدھ : ایک افسانوی پروپیگنڈا

بانو قدسیہ کی فوٹو
بانو قدسیہ اور ان کی تصنیفات کا ایک عکس

(نعیم بیگ)

بانو قدسیہ اپنے اُس رب کے پاس پہنچ گئی ہیں جو سب کے دلوں کا حال جانتا ہے۔ اُن کے لئے مغفرت کی دعائیں۔ لیکن یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ بانو قدسیہ کی وفات کے بعد بجائے اسکے کہ  پے در پے تعزیتی اجلاسوں میں انکی مغفرت اور اچھے انسان ہونے کا دعویٰ کیا جاتا اور اچھے الفاظ سے انہیں یاد کیا جاتا ، شاید وہ بھی ہوا ہو، لیکن جس تن دہی سے انہی اجلاسوں کی معرفت حسبِ موقع  فائدہ اٹھانے کی جو ترکیب استعمال کی گئی یہ وہی کاریگری تھی ۔ جن سے اشفاق احمد اور  انکے گروپ کو لوگ پکارا کرتے تھے ’’ ادبی کاریگر ‘‘۔۔۔۔۔ جس کی بدولت انہوں نے اس وقت کے ادبی منظر اور میڈیا جو صرف ریڈیو اور پی ٹی وی ہی تھا پر قبضہ کئے رکھا۔ جوش ملیح آبادی اور فیض و جالب و دیگر بہت سے ادباٗ و شعرا کو حکومتی اثر و رسوخ سے بین کئے رکھا تاکہ عوامی سطح پر انکی یکطرفہ ٹریفک جاری رہے۔
انہی تعزیعتی اجلاسوں میں انکے علمی و ادبی کاوشوں کی طومار نے سنجیدہ ادبی طبقے کو اس جانب راغب کیا کہ وہ ان ’’شہ پاروں‘‘ کی حقیقت کلی طور پر عام قاری کے سامنے افشا کریں۔
میرے ایک دوست ان کو ’’شہابیہ گینگ آف فائیو‘‘ کہتے تھے۔ جنہوں نے سرکاری سرپرستی میں خانقاہی ، سجادہ نشینوں اور مجاوروں کے گنجلک ، ضعیف اور بدعتی بابا کلچر فلسفے کو اپنی تحاریروں سے پروان چڑھایا ، جو حکمرانوں کے امپیرئیلسٹک خیالات کے محافظ تھے ۔۔۔ ایک طرف انہوں نے یہ حملہ ادبی میدان میں کیا ، دوسری طرف انہوں نے بین ہی نسیم حجازی جیسے ادیبوں و اساطیری کہانیوں کو پرموٹ کیا اور انسانی عقل و فکر و دانش کے وہ تمام راستے مسدود کرنے کی کوشش کی جہاں فیض احمد فیض ، جالب  کے قدم میسر تھے۔۔۔۔۔۔
یہی وہ سیاسی و سماجی گھٹن تھی جس نے پاکستان کو ۱۹۷۱ میں  دولخت کیا
آمدم بر سر مطلب ۔۔۔ ہم  اس وقت راجہ گدھ پر بات کرتے ہیں ۔
سب سے پہلے یہ عرض کرونگا کہ کوئی صاحب قابل ذکر مثال پیش کر دیں جہاں راجہ گدھ پر ادبی حلقوں میں نقد و نظر کے مستند استادوں نے اپنی تنقیدی رائے یا مضمون لکھا ہو ۔۔۔ میرے علم میں تو نہیں ۔۔۔۔ شاید ہی کوئی ہو۔ ہاں البتہ وقتاً فوقتاً میڈیا میں ، اخباروں میں، سرکاری ٹی وی میں یا ریڈیو میں تاثراتی رائے پیش ضرور ہوئی جس میں بلا جواز اور بے تحاشا  توصیفی جملے ۔۔۔ زبان و بیاں کی بارے میں تعریفی لفاظی ہوئی ۔۔۔ اور ناول کے مجموعی تاثر پر گفتگو کی گئی۔  جس میں ایک عام قاری کے لئے دلچسپی کا بہت سامان تھا ۔۔۔ کالج کی لائف ، کرداروں کے بے ساختہ کھُلے پن میں وہ جملے جس میں مغرب پسندی پر تنقید زیادہ تھی۔۔۔۔
بالآخر پروفیسر صاحب بھی ناول کے درمیان ہی ما بعد طبعیات سے رجوع فرما لیتے ہیں۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ کرداروں کو باقاعدہ بقول فاروق سلہریا استعمال کیا گیا۔

اب رہی بات کہ زندگی کو گدھ سے مشاہبت دے کر انہوں نے اپنے تعیں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ زندگی میں حرام سے بچنے کے لئے خانقاہی تعلیم ، مبینہ مجاوری صوفیت (حقیقی طریقت کے ضوابط نہیں) ہی آخری حل ہے ۔۔۔۔ شیطان کے غلبے پر قابو پانے کے لئے انہوں نے شریعیت کو انہوں نے مبہم رکھا، لیکن طریقت اور تزکیہ نفس کے راستے حرام سے بچنے کی وہ لایعنی ، مہمل ، سستی و کاہلی پر مبنی فلاسفی کو ترویج دی۔ جس میں ہندوستان کے میدانی گرم
علاقوں میں رہنے والی یہ قوم پہلے سے ہی مبتلا تھی ۔ تارک الدنیا ہو جانا کسی قیمت پر مذہبِ اسلام میں قبولیت کا درجہ نہیں رکھتا ۔ میں کوئی مذہبی تعلیمات کا پروہت یا مولوی نہیں لیکن اسلام کی بنیادی تعلیمات کو ایک مسلمان کی حیثیت سے خوب جانتا ہوں ۔ اگر واقعی ایسا ہوتا تو سب سے پہلے حضور اکرم و صعلم کی ذات مبارک و متبرک اسکی گواہی دیتی۔ انکی ذات میں تو ایک مکمل انسان بس رہا تھا جس نے الوہی اقدار کی ایسی امثال پیش کیں کی پورا عالم گواہ ہے۔  یوں اس تناظر میں یہ خانقاہی اور مجاوری فلسفہ اسلامی تعلیمات کی رد ہے اور علاقائی ملوکیت اور فیوڈل ازم سے مطابقت رکھتا ہے۔  چونکہ جاگیر دارانہ نظام میں ایسے فلسفیانہ عناصر حکمرانی میں مد و معاون ثابت ہوتے ہیں ۔۔۔۔
ہاں جو اولیا کرام ہندوستان میں آئے اور رہے اور اسلام کی ترقی و ترویج و اشاعت پر دھیان دیا، انکی یہ شان تھی کہ وہ شریعیت پر پوری طرح عمل کرتے تھے اور ساتھ ہی اسلام کے فروغ کے لئے طریقت کے چند اصولوں پر کاربند تھے ۔۔۔ آپ ’’کشف المعجوب ‘‘ پڑھ لیجیئے ۔ سب کچھ عیاں ہو جائے گا۔

ان چند گزارشات کے بعد  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس سارے مفروضہ پر کھڑی عمارت دھڑام سے گر گئی ہے تو ناول کا ورلڈ ویو کیا ہے ؟
تصورِ زندگی کیا ہے؟
کیا ’راجہ گدھ‘  صرف حرام و حلال کے درمیاں فرق کے وضاحت ہی کرتا ہے ؟
یا اس میں کچھ اور بھی ہے؟
کیا ایک عام قاری کے فطری تجسس اور جنسیاتی گھٹن اور نفسیاتی ذہنی مشقت سے چھٹکارا پانے کے لئے ایک ایسے  مرکزی خیال کو تجسیم کیا گیا ہے جس میں اس قاری کی کہنے سننے اور سمجھنے کی جسارت و مہارت و دانش بیانیہ کے زیر اثر آ جاتی ہے ۔۔۔

اس کے لئے آپکو دوبارہ راجہ گدھ سے ہی رجوح کرنا ہوگا ۔۔۔
کہانی کے مطابق قیوم کی زندگی میں سیمی کے بعد دوسری آنے والی لڑکی عابدہ سے گفتگو کرتے ہوئے ( صفحہ نمر ۱۷۸ )
[’’تمیں کیا پتہ عابدہ،  شکر کرو، شکر تم سوچتی نہیں ہو۔ وجوہات تلاش نہیں کرتی ہو ۔۔۔ معنیٰ کی جستجو نہیں ۔۔۔ نہیں کرتی  ورنہ تمیں بھی سورج کے ارد گرد کئی غلاف نظر آنے تھےَ۔ ‘
’اب کیا سوچ رہے ہو ، موم بتی بجھا دوں کہیں آگ ہی نہ لگ جائے۔ ‘
’ لگ جانے دو آگ‘
ایسے جملوں  سے اس پر کوئی اثر نہ ہوتا وہ کند چھری سے حلال ہونے والی نہ تھی۔ ‘
’میں نے تو محبت کے متعلق کبھی زیادہ نہیں سوچا۔ ‘ عابدہ بولی۔
’ اور میں اس کے علاوہ کسی اور چیر کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ ‘
’تو پھر کیا سوچا ہے تم نے آج تک‘
’ یہی کہ دولت اور محبت کی ایک ہی سرشت ہے۔  دولت کبھی انجانے میں چھپر پھاڑ کر ملتی ہے ۔  کبھی وراثت کا روپ دھار کر  ایسے ڈھب سے ملتی ہے کہ چھوٹی انگلی تک نہیں ہلائی ہوتی۔ اور آدمی مالا مال ہوجاتا ہے۔ پھر اکلوتے لاڈلے کی طرح دولت کو  اجاڑنے برباد کرنے میں مزہ ملتا ہے۔ ۔ کبھی پائی پائی جوڑتے رہنے سے روپیہ پورا نہیں ہوتا۔ کبھی دولت اور محبت ملتی رہتی ہے سیری نہیں ہوتی۔  چادر پوری نہیں ہوتی تن پر۔  کبھی محبت رشوت کے روپیہ کی طرح ڈھکی چھپی ملتی ہے، لوگوں کو پتہ چل جائے بڑی ٹھڑی ہوتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

’دوسرا اقتباس‘  ( صفحہ نمبر ۱۹۸)
’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’عورت اور مرد کے درمیاں آٹھ قسم کا لگاؤ ہوتا ہے  اور ہر لگاؤ سے انسان کو ایک خاص قسم کی شکتی ملتی ہے ۔ ‘
وہ حیرانی سے میرا منہ تکنے لگی۔ پہلا تعلق خیال کا ہوتا ہے جب کسی کا خیال دل میں بس جاتا ہے اور نکالے نہیں نکلتا تو اسے سمرنانام کہتے ہیں ۔  جب اس تعلق کا ذکر کسی دوسرے سے کریں تو یہ دوسری سٹیج ہے ۔ جنس لطیف کی صحبت میں رہنا تیسرا تعلق ہے۔  عورت کے ساتھ ہنسی دل لگی چوتھا۔ عورت سے دلی گفتگو کرنا پانچواں ۔  اس کے بعد جسمانی تعلق کی آرزو چھٹی حالت ہے ۔ اس ارادے کو پختہ کرنا ساتواں تعلق ہے۔  اور آخری اور مکمل سیڑھی وہ ہے جب  شوجی اور شکتی ملتیک ہیں اور ایسی روح کو جنم دیتے ہیں جو نہ مرد ہوتی ہے نہ عورت۔ ‘‘

غور کیجیئے کہ ’راجہ گدھ‘  بیانیے کے مندرجہ بالا دومختصر اقتباس ایک عام قاری کو کس طرف لے جا رہے ہیں ؟
جن خواتین وحضرات نے ’کوک شاستر‘ کا مطالعہ کیا ہوا ہو تو انہیں احساس ہوگا وہاں مرد کی سہولت کے لئےعورت کی سات قسمیں رقم ہیں۔ جن سے  دوران قراٗت جہاں لفظیاتی حظ اٹھایا جاتا ہے وہیں انسانی جنسیات (سیکسچولیٹی) کی مکمل تفسیر اور بیانیہ میں عورت کے استعمال کے طریقے کار کو کو بھی بیان کیا گیا ہے ۔
مجھے یہ کہنے دیجیئے کہ جب معاشروں میں جنسیاتی گھٹن بڑھ جاتی ہو ۔۔۔  سماج میں جاری و ساری صدیوں پرانی تہذیب  میں مخلوط معاشرے کی بنیادوں میں گمراہوں کے پہاڑ کھڑے کر دئے جائیں ،  جنڈر ڈیسکرمینشن  کو زندگی کا حصہ بنایا جائے اور سانئسی بلکہ عام تعلیم کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہوں ۔ جب مذہب کی غیر ضروری پاپندیوں اور فروعات کو سماج کے اندر اتنا پھیلا دیا جائے تو یقینی طور پر ایک بڑے خلاٗ کو پر کرنے کے لئے  لامحالہ معاشرتی  جسمانی اور روحانی انتشار سے بچنے کے لئے ایک ملفوف اور پیچیدہ  بیانیہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جس میں سماج  کی باغیانہ سرگرمیوں کو روکنے کے لئے نہ صرف  جعلی امن و سکون مہیا کیا جائے  بلکہ کسی حد تک تارک الدنیا کے نشے کے انجکشن لگائے جائیں تاکہ مکمل انسانی انفرادی بے حسی سماج کے اندر اتی رچ بس جائے کہ اسکی قوت مدافعت ہی ختم و جائے۔

اب راجہ گدھ کی اشاعت کا وقت ذہن میں لایئے ۔ یہ ناول ۱۹۸۱ میں اس وقت منصہٗ شہود پر آیا جب ضیا الحق کا دور تھا ۔ افغان جنگ عروج پر تھی۔ سیاسی محاز پر مجاہدین کی ترویج و ترقی کی سرکاری سرپرستی جاری تھی۔  مدرسوں کومعاشی آسودگی کے بدلے کرایہ کے جنگی فائیٹر (جہادی ) تیار کرنے کا حکم تھا۔  ادب و ادیب دونوں پابند سلاسل یا جلاوطنی کی سزا وار ٹھہرے، میڈیا میں سسنر شپ کی  انتہا بلکہ بلیک آؤٹ ۔ ٹی وی پر اینکز کے سر ڈھانپ دئے گئے۔ صحافیوں اور سٹوڈنٹس اور سیاسی ورکرز کو کوڑوں کی ٹکٹکی پر باندھ دیا گیا ۔
ایسے میں جو سیاسی ، نفسیاتی اور سماجی گھٹن پیدا ہوئی ۔ اسکا درماں کیا تھا؟
تب سرکاری ادیبوں نے قوم کے ساتھ ایک چال کھیلی  کہ قوم کو ایک نئی راہ دکھائی جائے جہاں سے بیک وقت ہمہ جہت اہداف مکمل کئے جائیں ۔ ایک طرف نوجوان نسل کو ایسی سماجی بے حسی ، خانقاہی اور مجاوری کلچر کی طرف متوجہ کیا جائے جو پہلے سے ہی کسی نہ کسی درجہ پر غیر تعلیم یافتہ عوام کے درمیاں مقبول تھا۔ دوسری طرف سیاسی ، معاشرتی و سماجی علوم میں سے دانش و فکر کو نکال کر ایسا ماحول بنایا جائے جو  اس وقت کے طاقت کے سرچشموں اور ملکی و قومی حکومتی ڈیمانڈ کو پورا کرے اور دوسری طرف مقبول ادب کے حوالوں سے ملوکیت ، اسطوری ، تفرقہ بندی کے ان تمام عوامل کو سرگرم کر دیا جائے جن سے انکے ذاتی غمِ دوراں دور ہوں اور آسودگیاں حاصل ہوں
اس ناول سے ہٹ کر میں چند سطریں کہنا چاہوں گا ۔ اُس وقت حکومت وقت نے سیاسی میدان میں تقسیم در تقسیم کی پالیسی اپنائی ۔ سندھ میں جہاں ایک طرف ایم۔ کیو۔ ایم اور دوسری طرف جئے سندھ کی آواز جنم دی تو پنجاب میں براددری سسٹم کو الیکشن موٹو بنا کر مجلسِ شورہٗ کو پیدا کیا گیا۔ بین ہی صوبہ سرحد اور فاٹا کے علاقوں میں مدرسوں کے حوالے سے سعودی امداد سے ایسی فقہ پرستی کو جنم دیا گیا جن سے ان مدرسوں میں پلنے والے لوگ آگے چل کر دھشت گرد بنے ۔ بلوچستان میں پٹھان اور بلوچ کی تقسیم کو ہوا دی۔
سماجی سطح پرتقسیم کو ممکن بنانے کے لئے انہوں نے اسی طرح  تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کیں ۔ سرکاری مشینری اور میڈیا کے تحتہ دانش و فکر کو تقسیم کیا گیا ۔ ایسے میں ضروری تھا کہ ایک ایسا ’’ادب پارہ‘‘ بھی سامنے لایا جائے جو مکمل طور پر پروپیگنڈا کی حقانیت کو ثابت کر دے اور ساتھ ہی نوجوانوں کی سوچ پربری طرح اثر انداز ہو ۔
یہی وجہ تھی کہ ’راجہ گدھ ‘ لکھنے کے لئے اشفاق احمد صاحب پر الزام لگا کہ یہ ناول  دراصل انہوں نے لکھا ہے ۔۔۔۔ گو اس عرصہ میں انہوں نے کمزور تردیدیں ضرور کیں لیکن مماثلت بیانیہ و اسلوب نے انکی تردید کو نہ مانا ۔
محمد ظہیر بدر مدیر خبرنامہ مجلسِ ترقیِ ادب لاہور نے اپنے حالیہ کالم میں بھی اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اشفاق احمد صاحب پر یہ الزام تھا ۔  تاہم بقول انکے ’’ بہرحال ان افوہوں کی یہ گرد جلد ہی  بیٹھ گئی‘‘

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔

1 Comment

  1. جس معاشرہ کے نام نہادRole Modles ذہنی بد دیانتی اور فکری دورغ کے شکار ہوں اور جہاں انفرادی واجتماعی سطح پر منافقت(مصلحت پسندی) زما نے کی لازمی ریت سمجھ کر قبول کرلیا گیا ہو۔ جہاں آزادی اظہار کے نام سے کہیں ملکی اور کہیں غیر ملکی خفیہ اداروں کے ایجنڈوں کو فروغ دیا جارہا ہو وہاں انسان کس کی بات پر یقین کرے اور کس کو جھوٹ سمجھ کر اس کی بات کو نظر انداز کرے۔ یہاں کہنے کو بھی black & White نہیں ہے یہاں سب گرےgrey ہے۔ایسے معاشروں میں راجہ گدھ ہی لکھیں جائیں گے، راجہ گدھ ہی پیدا ہوں گے اور مرنے کے بعد انہی فکری ،روحانی اور مذہبی گدھوں کے مزار بنیں گے اور عقیدت مند آکر اپنی دولت ،عزت اور عصمت کی بلی دیں گے!

Comments are closed.