بدعنوانی کی آکاس بیل
(حُرثقلین)
آج کل پاکستانی معاشرے میں کرپشن یعنی بد عنوانی کا لفظ بہت زیادہ استعمال ہونے لگا ہے۔بد عنوانی کے مختلف پیمانے ہیں۔نچلی سطح سے لے کر حکومتی سطح تک اس کی جڑیں پھیل چکی ہیں۔اس کی کئی اقسام ہیں مگر جن کا ان دنوں چرچا عام ہے ان میں سیاسی ،مالی،اخلاقی اور مذہبی بدعنوانی سرِ فہرست ہیں۔سیاسی بد عنوانی میں ذاتی مفاد کے لیے حکومتی وسائل اور اہلکاروں کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔مالی بد عنوانی میں رشوت لینا یا اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کسی دوسرے کا وہ کام کرنا جس کا وہ اہل نہ ہو۔اخلاقی بد عنوانی میں قول و فعل میں تضاد کا پایا جانا ہے اور جب لوگ مذہب جیسے مقدس مشن کو پیشہ بنا لیں تو اسے مذہبی بد عنوانی کہتے ہیں۔
جب کوئی معاشرہ انصاف اور قانون کی بالادستی سے محروم ہو جاتا ہے تو وہاں کرپشن اپنا ڈیرا جما لیتی ہے۔کرپشن آکاس بیل کی مانند پورے نظام اور معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جس قدر یہ بیل پرانی ہوتی ہے اسی قدر یہ اپنا اثر اور رنگ جماتی ہے۔ یہ بیل جس درخت کے ساتھ لپٹ جائے اس کا رس آہستہ آہستہ چوس لیتی ہے اور آخر ایک دن وہ درخت سوکھ کر گر جاتا ہے۔ کرپشن سے نجات جس قدر جلد ہو حاصل کرلینی چاہیے ۔کرپشن جس قدر پرانی ہو گی اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے اسی قدر زیادہ جدو جہد اور بڑی قربانی کی ضرورت ہو گی۔
کرپشن نے پا کستانی معاشرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔یہ معاشرہ اپنی اعلیٰ روایات،تہذیب اور ثقافت سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اس معاشرے کا یہ خاصہ رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ ظالم،بدعنوان ،چور اور ڈاکو سے نفرت کی ہے۔اس معاشرے کے افراد نے ہر اس شخص سے دوری اختیار کی جس کے قول و فعل میں تضاد ہوتا تھا۔پاکستانی معاشرے میں مذہب کے نام پر دھوکا دینے والوں کا کوئی مقام نہیں تھا۔مگر جب سے بد عنوانی کی آکاس بیل نے اس معاشرے پر اپنا رنگ جمایا ہے یہاں کی ہر شے تبدیل ہو گئی ہے۔لوگ ہر ظلم پر خاموش ہیں۔جن پر اربوں کی کرپشن کے الزام ہیں ان ہی کو سونے کے تاج پہنائے جاتے ہیں۔جو اسمبلیوں اور قوم سے خطاب میں جھوٹ بولتے ہیں ان کو آنکھوں پر بیٹھایا جاتا ہے۔ ملکی خزانے کی چابیاں منی لانڈرنگ کا اعتراف کرنے والوں کے سپرد کی جاتی ہیں۔ جس پر آرٹیکل 6کا مقدمہ بنا اسے عزت اور وقار کے ساتھ ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔ نچلی سطح پر تمام سرکاری محکمے دھڑلے کے ساتھ رشوت وصول کرتے ہیں۔سوال کرنے پر جواب دیتے ہیں کہ جب بڑوں کا کچھ نہیں ہوا تو ہمارا کوئی کیا بیگاڑ لے گا۔
اب ملاوٹ کرنے والے اور ناپ طول میں کمی کرنے والے بھی رزقِ حلال کمانے کا دعویٰ کرنے لگے ہیں۔جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ سمجھا جانے لگا ہے۔ پراسیکوشن کے عمل کو جان بوجھ کر اس قدر کمزور کر دیا گیا ہے کہ عدالتیں مجرموں کو سزا دینے سے قاصر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ لوگ اب قانون اور عدلیہ سے شکوہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اب پاکستانی معاشرے میں ہر شخص بد عنوانی کا شکار ہے۔جو شخص ایک دن اپنے دفتر میں رشوت لے رہا ہوتا ہے وہ اگلے روز کسی دوسرے کو رشوت دے رہا ہوتا ہے۔ صبح دودھ میں ملاوٹ کرنے والا شام میں ملاوٹ شدہ آٹا اور مصالہ جات خرید رہا ہوتا ہے۔یہاں ہر شخص ایک وقت میں ظالم اور دوسرے لمحے میں مظلوم بنا ہوتا ہے۔یہ صورتِ حال انتہائی خطرناک ہے۔
جس قوم نے 1947میں تاریخی جدو جہد کے بعد اپنے لیے ایک ملک حاصل کیا تھا اسی قوم کو آج پھر ایک تاریخی جدوجہد کی ضرورت ہے۔اسے بد عنوانی کے خلاف ایک بھر پور اور فیصلہ کن جنگ لڑنی ہے۔ اس قوم کو ایک بہت بڑی تحریک کا آغاز کرنا ہے۔ ہر فرد کو یہ عہد خود سے کرنا ہو گا کہ وہ کسی بھی قسم اور کسی بھی سطح کی بد عنوانی سے پرہیز کرے گا۔ہر اس شخص سے نفرت کرنی ہو گی جو کرپٹ ہو گا۔ قوم یہ عہد کرے کہ وہ کسی بھی بد عنوان کو ووٹ نہیں دے گی۔ہر اس قیادت کو مسترد کرے گی جس پر کرپشن کے الزامات ہوں۔ عدلیہ بھی اس قوم او ر معاشرے کا حصہ ہے اس پربھی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے۔انصاف فراہم کرنا ان ہی کا کام ہے۔انصاف کی عدم فراہمی ہی کرپشن کا سبب بنتی ہے۔انصاف میں تاخیر بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے۔اس تحریک میں عدلیہ کو رہنمائی کا کردار ادا کرنا ہو گا ۔
قوم یہ عہد کرے کہ اسے بد عنوانی کی آکاس بیل کو ضرور کاٹنا ہے کیونکہ یہ بیل جس معاشرے کے ساتھ لپٹ جائے اس کی اچھی اقدار آہستہ آہستہ چوس لیتی ہے اور آخر ایک دن وہ معاشرہ بدحالی کا شکار ہو کر مٹ جاتا ہے۔