(نوید احمد)
ایک وقت تھا جب ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں امیدوار اور عہدیدار کا تعین کرتے وقت مال و دولت کی بجائے سیاسی حسب نسب اور خاندانی پس منظر کو اہمیت دیتی تھیں۔ہمارے دوست علی سفیان ذیلدار نے ایک واقعہ روایت کیا ہے کہ 1990ء کے جنرل الیکشن کے دوران جہلم کے ایک مشہور ہوٹل کے مالک نے اپنی دولت کے ہاتھوں مجبور ہو کر پیپلز پارٹی کا انتخابی ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے درخواست دے دی۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو نے درخواست گزار کو انٹرویو کے لئے لاہور بلالی۔ انٹرویو کے دوران ان کو تعارف کرانے کے لئے کہا گیا تو موصوف نے اپنا نام بتایا۔ والد کا نام پوچھا گیا تو درخواست دہندہ سے پہلے چوہدری احمد مختار بول اٹھے”لینڈ کروزر”،جس پر سارا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔
چوہدری اعتزاز احسن نے صاحب ثروت سے پوچھا آپ الیکشن کیوں لڑنا چاہتے ہیں تو اس پر وہ گویا ہوئے کہ میرا بھائی امریکہ میں رہتا ہے اس نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ اگر مشہور ہونا چاہتے ہو تو کسی سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لو۔ باقی کام پارٹی خود کر لے گی۔ آخر میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے سوال کیا، آپ نے عوامی فلاح و بہبود کے لئے کیا خدمات سرانجام دی ہیں تو موصوف نے نہایت معصومیت سے جواب دیا میں ہر مہینے مقامی مسجد میں چندہ دیتا ہوں۔
پاکستان کا سیاسی نظام مسلسل ارتقاء پذیر ہے مگر اس کی کچھ روایات اتنی بری نہیں ہیں کہ ان کو بالکل بدل دیا جائے۔ خرابیوں کو دور کیا جانا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خوبیوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے،اچھی روایت بہرحال قابل تقلید ہوتی ہے۔ 2011ء کے بعد ہماری سیاست میں پیدا ہونے والے تبدیلی کے ارتعاش کی وجہ سے سیاسی کلچر بہتر کرنے میں مدد ضرور ملی ہے بلکہ کئی جمہوری روایات جو ہمارے ہاں ناپید تھیں انہیں تبدیلی پسندوں نے فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔
تاہم سیاست ایک سائنس ہے، کسی سیاسی قائد کے لئے اخلاقی اوصاف کے ساتھ ساتھ پختہ سیاسی شعور، بروقت اور صحیح فیصلہ کرنے کی استعداد، ماضی، حال اور مستقبل کے طلسم کو سمجھنے کی صلاحیت، تنظیمی، تکنیکی اور تحقیقی امور پر گرفت، عصری مسائل کا ادراک، ان کا حل اور جذباتیت کی بجائے تحمل اور بردباری کے عناصر ترکیبی کا حامل ہونا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ اخلاقیات سیاست کا جزو ہے، کل نہیں۔
یہ کہنا غلط نا ہو گا کہ اہلیان انصاف کی جماعت انتخابی، تنظیمی اور انتظامی معاملات میں دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں تاحال نا پختہ نظر آتی ہے۔ دریں اثناء پارٹی کے بزرجمہروں نے ارادی یا غیر ارادی طور پر کئی شہروں میں ایسے “خانہ بدوشوں”کو پلیٹ فارم مہیا کر رکھا ہے جواپنی دولت کے بل بوتے پر اس کو سیاسی جماعت کی بجائے ایک فرنچائز کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اسٹیٹس سمبل کے مارے ہوئے ان لوگوں نے سیاسی نظریے کو برانڈ میں تبدیل کر دیا ہے اور خود اس کے برانڈ ایمبیسڈر بن چکے ہیں۔ لہٰذا تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کو ذرا اپنی صفوں پر بھی نظر ڈالنی چاہئے، کیونکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لئے خطرہ خارجی کی بجائے داخلی محرکات ہو سکتے ہیں۔ یہ نہ ہو گھر کو آگ لگ جائے گھر کے چراغ سے۔