یہ تصویر پاکستانی معاشرے کے اُن تعلیمی رجحانات کا پتہ دے رہی ہے جس سے تقریباً ہر طالب علم گزرتا ہے، بلکہ گزارا جاتا ہے۔ نہایت قابلِ افسوس مقام ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم ایک جبر اور اضافی سرگرمی تصور کی جاتی ہے۔ یونہی بچہ سکول جانے کا قصد کرتا ہے، اُسے تعلیم کے نام پر ایسی ایسی مصیبتوں سے گزرنا پڑتا ہے کہ تعلیم اور اُس کے تعلیمی ادارے اُس کے لیے زندگی کا سب سے خوفناک تجربہ قرار پاتے ہیں۔ سکول سے بچہ اس طرح بھاگتا ہے جس طرح کوئی مجرم جیل سے۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا بچہ (طالب علم) کوئی مجرم ہے؟ اُسے تعلیم سے اتنا خوف زدہ کیوں کر دیا جاتا ہے کہ اُس کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہش ہی ختم کر دی جاتی ہے۔ بچہ صرف ایک تعلیم کے علاوہ باقی ہر خواہش کو اپنی ذات میں پالتا ہے مگر تعلیمی اداروں کا رُخ کرنے سے کتراتارہتا ہے۔
طالب علم کے لیے معاشرہ اتنی توہین آمیز جگہ نہیں جتنی ایک تعلیمی ادارہ ہوتا ہے۔ اور مزے والی بات یہ توہین اور تشدد کا درس بھی وہی دیتا ہے جو بچے(طالب علم ) کے لیے زندگی بنانے کا ہنر لے کے آیا ہوتا ہے۔یعنی استاد____ استاد ہی بچوں کے لیے وبالِ جان بنتا ہے۔ طالب علموں کے لیے سب سے نفرت آمیز رویہ استاد اپناتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں آئے روز ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ استاد نے بچے پر اتنا تشدد کیا کہ بچے کی ہڈی ٹوٹ گئی یا معزور کر دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسے کرداروں کو محض سزا دے کر فارغ کرتے رہیں گے یا پورا تعلیمی نظام درست کرنے کی کوشش بھی کریں گے؟ کیا ہم اپنے اساتذہ کو کسی اخلاقیات سے گزاریں گے یا کسی واقعے کے بعد ہی انھیں سزا دیتے رہیں گے؟