بولتی تصویر: جیل میں تعلیم کی سہولیات
جیلوں میں قیدیوں کو تعلیم کا انتظام ایک احسن عمل ہے۔تعلیم نہ صرف اخلاق اور حسنِ معاشرت سکھاتی ہے بلکہ انسانی اور فطرت کے قوانین سے بھی آگاہ کرتی ہے۔ یہ تصویر فیصل آباد جیل کی ہے جس میں باقاعدہ تعلیم دینے کا آغاز کیا گیا۔ جیل میں ہر قیدی زندگی سے محروم نہیں ہوتا۔ کچھ ہی مجرم ایسے ہوتے ہیں جو جرم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا چکے ہوتے ہیں جن کی زندگی کو تبدیل کرنا ممکن نہیں رہتا۔ مگر قیدیوں کی نفسیات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بہت سے مجرم عادی مجرم نہیں ہوتے، اپنی کسی خاص کیفیت میں جرم کر گزرتے ہیں اور اُس کی سزا کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ کئی مجرم اپنی نوجوانی میں جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں اور مجرم یا قیدی بننے کے بعد انھیں احساس ہوتا ہے کہ وہ زندگی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں یوں تعلیم اُن کے بنیادی حق کے طور پر سامنے آتی ہے۔
جیلوں میں تعلیم دو سطحوں پہ دی جارہی ہے۔ پہلی سطح بالکل ابتدائی ہے یعنی بنیادی اخلاقیات اور دینی قسم کی تعلیم۔جس میں لکھنا پڑھنا بھی شامل ہوتا ہے۔پڑھنے کی مہارت اور لکھنے کا فن سکھایا جاتا ہے۔ دوسرے درجے کی تعلیم میں ڈگری پروگرام ہوتے ہیں۔ جیلوں میں بیٹھے ہزاروں نوجوان اپنی تعلیم مکمل کر لیتے ہیں اور باہر نکل کے باوقار زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔
اس سلسلے میں حال ہی میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد نے جیلوں میں ڈگری پروگرام شروع کرنے کا علان کیا ہے۔ انھیں جیلوں میں بیٹھے ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع دیے جائیں گے۔ انھیں کتابیں اور ٹیوٹرز فراہم کئے جائیں گے۔
تعلیم ہی واحد راستہ ہے جو جرم کو روک سکتا ہے اور سازگار سماج کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتا ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ایک مجرم کو بھی وہی سہولیات فراہم کرے جو ایک عام شہری کو میسر ہیں، ان سہولیات میں خاص طور پر صحت اور تعلیم کے مواقع صفِ اول میں شامل ہیں۔