عظمی فرمان
نسائیت کیاہے ؟
نسائیت / تانیثیت/ فیمنزم کی متعدد تعریفیں متعین کی جا سکتی ہیں اور کی جا چکی ہیں۔مثال کے طور پر انسائیکلو پیڈیا بریٹینکا کے مطابق
’’ فیمنزم ایک سماجی تحریک ہے جو عورتوں کے مساوی حقوق کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔‘‘ ایک لغت میں فیمنزم کی تعریف اس طرح درج ہے۔’’فیمنزم سیاسی،معاشی اور سماجی حوالے سے جنسی / صنفی(gender) مساوات کا نظریہ ہے ‘‘
ایک اور تعریف اس طرح ہے کہ :۔
’’فیمنزم ایک نظریاتی وابستگی بھی ہے اور ایک سیاسی تحریک بھی جو عورتوں کے لئے انصاف کے حصول اور معاشرے سے جنسی / صنفی امتیازات کے خاتمے کے لئے کوشاں ہے ‘‘
یا یہ کہ :
’’فیمنزم عورتوں کے حقوق اور مفادات کے لئے کام کرنے والی تحریک ہے ‘‘۔نینسی کاٹ(Nency Cott) کے خیال میں جنسی /صنفی مساوات پر یقین رکھنے اور عدم مساوات کے تصور پرقائم موجودہ نظام کو رد کردینے کا نام فیمنزم ہے
اسی طرح ایک نقاد کا خیال ہے کہ نسائیت یا فیمنزم دراصل کوئی ایک تحریک یا نظریہ نہیں بلکہ کئی تحریکات اور نظریات کا مجموعہ ہے۔
“Feminism is a discourse that involves various movements, theories and philosophies which are concerned with issues of gender difference, advocate equality for women and campaign for women rights and interests.”
مندرجہ بالا تمام عبارتوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فیمنزم ایک فلسفہء حیات اور انداز فکر کانام بھی ہے اور ایک عملی تحریک بھی ہے لیکن اس کے باوجود اس کے پیچھے نہ کوئی تنہا نظریہ یا فلسفہ موجود ہے اور نہ ہی اس میں باقاعدہ منظم جدوجہد کا وہ تصور نظر آتا ہے جو ’’تحریک‘‘ کی اصطلاح سے وابستہ ہے۔ اسی لئے ہر شخص ’’نسائیت ‘‘ یا فیمنزم کا ایک نجی تصوراپنے ذہن میں رکھتا ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر فیمنزم کی اصطلاح اس قدر وسیع یا با لفاظ دیگر اس قدر ڈھیلی ڈھالی ہے تو پھر وہ کون سی خصوصیات ہیں یا وہ کون سے رجحانات ہیں جن کی بنیاد پر کسی عمل یا تحریر یا شخص کو Feministقرار دیا جاسکتا ہے ؟ اس سوال کاجواب دینا تب ہی ممکن ہے جب ہم ان تمام نظریات وخیالات میں کوئی مقام اتصال تلاش کر سکیں جو فیمنسٹ کہلاتے ہیں اور وہ نقطہ جہاں پر یہ اتصال ممکن ہے صرف ایک ہی ہے۔یعنی :۔
’’ عورتوں کے حقوق کا حصول اور سوسائٹی کی hierarchyمیں منصفانہ تبدیلی ‘‘
جیساکہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔اس جدوجہد کے دورخ ہیں۔
۱۔ فلسفیانہ یا نظریاتی
۲۔ عملی
فیمنزم کے عملی رخ کی بات ہو تی ہے تو مغرب میں رونما ہونے والی تحریک ذہن میں آتی ہے جس کا اثر اردو ادب سمیت دنیا بھر کے علوم اور فنون پر مرتب ہوا۔
مغرب میں فیمنزم کی اس تحریک کو عموماً نظریہ موج (wave concept) کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔اس تصور کے تحت نسائیت یا فیمنزم میں تین امواج یا waves نظر آتی ہیں۔پہلی موج کا عرصہ انیسویں صدی عیسوی سے بیسویں صدی عیسوی کے نصف اول تک ہے۔ اس عرصے میں عورتوں کی ملازمت کی یکساں اجرت، جائیداد اور ملکیت کے حقوق، بیوی کے حقوق اور ووٹ کا حق جیسے مسائل کے لئے عملی جدوجہد ہوئی۔
دوسری موج کی عملی صورت ۱۹۹۶ء سے ۱۹۹۸ء کے درمیان واضح ہوتی ہے۔اس عرصے میں نجی اور گھریلو مسائل کو سیاسی مسائل قرار دیا گیا۔کیرل ہانش نے The personal is politicalکا نعرہ بلند کیا اور عورتوں میں اس خیال کی ترویج و اشاعت کی گئی کہ ان کے نجی معاملات دراصل ایک سیاسی مسئلے سے جڑے ہوئے ہیں۔اسی دور میں ’’آزادئ نسواں ‘‘ کا تصور سامنے آیا۔گھریلو کاموں،بچوں کی ولادت اور تربیت اور ضعیفوں کی خدمت جیسے کاموں کی قدر اور قیمت متعین کرنے کے سوالات اٹھائے گئے۔
۱۹۹۹ء کے بعد سے آج تک تیسری موج کا عہد تصور کیا جاتا ہے۔اس عہد میں فیمنزم کی عملی تحریک کے بے شمار رخ ہیں جن کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔
یہ تو مغربی فیمنزم کا عملی رخ تھا لیکن یہ پہلو فیمنزم کے نظریاتی رخ سے پوری طرح جڑا ہوا ہے۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ فیمنزم کی عملی تحریک کے پیچھے ان فلسفیانہ نظریات اور مباحث کا بڑا حصہ ہے جو فیمنسٹ ادیبوں نے اپنی تصانیف میں پیش کیے۔اس لئے بہتر ہوگا کہ فیمنزم کے ارتقاء کا مطالعہ نظریاتی اور فکری مباحث کے پس منظر میں بھی کیا جائے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیاجا چکا ہے کہ مغرب سے شروع ہونے والی فیمنزم کی تحریک کی ابتدا تواٹھارویں صدی میں ہو چکی تھی مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد اس تحریک نے خاص طور پر زور پکڑا اور عملی کامیابیاں بھی حاصل کیں۔اس سلسلے کا پہلا اہم اظہار یہ ۱۷۹۲ء میں شائع ہوا جسےMary Wallstone Craft نے تحریر کیا تھا۔ اس کا عنوان تھا۔
“A vindication of The Rights of Women”
۱۸۴۵ء میں مارگریٹ فلر نے “Women in the 19th Century” لکھی۔
تین سال بعد ۱۸۴۸ء میں مشہورSeneca Falls کنونشن میں عورتوں کے مساوی حقوق کا باقاعدہ مطالبہ کر دیا گیا ۔۱۸۶۹ء میں John Staurt Mill کی مشہورکتاب The Subjection of Women” ” شائع ہوئی جس کا ترجمہ افتخار شیروانی نے ’’عورتوں کی محکومیت ‘‘ کے عنوان سے کیا ہے اس کے بعد آزادی ء نسواں کا تصور تیزی سے مقبول ہوا۔۱۹۲۰ء میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے بالآخر امریکہ میں عورت کو ووٹ دینے کا حق مل گیا تاہم اس کے بعد بھی مغربی معاشرے میں ملازمتوں میں عورتوں کی شمولیت محدود رہی۔دوسری جنگ عظیم تک مغربی معاشرے میں عورت کاگھر سے تلاش معاش میں نکلنا ایک معیوب سی بات سمجھی جاتی تھی۔بہ حالت مجبوری ملازمت تلاش کرنے والی عورتیں نچلے درجے کی نوکریوں پر کم اجرت پر رکھی جاتی تھیں۔یہ سب برداشت کرلینے کے بعد بھی بے شمار دشواریاں اور سماجی ومعاشرتی مسائل،ملازمت پیشہ عورتوں کی زندگی کو کٹھن بنانے اور عملی زندگی میں ان کی حوصلہ شکنی کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے۔
اس صورت حال میں ورجینیا وولف (Virginia Woolf) نے ایک طویل مضمون A Room of One,s Own(1929) تحریر کیا جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئی۔دوسری جنگ عظیم کے بعد ۱۹۴۹،میں فرانسیسی ادیبہ سائمن ڈی بووا کی کتابThe Second Sexسامنے آئی۔ یہ کتاب فیمنزم کا بے حد اہم سنگ میل سمجھی جاتی ہے۔اسی کتاب میں نسائی وجودیت کی انقلاب انگیز بحث اٹھائی گئی تھی۔سائمن ڈی بووانے عورت کے وجود سے متعلق کئی مباحث چھیڑے مثلاً یہ کہ ’’عورت کیا ہے ‘‘،کیا عورت کا وجود قائم بالذات ہے یا اضافی ؟ کیا صنف مخالف کی موجودگی سے ہی اس کے وجود کا تعین ممکن ہے ؟ اور اگر تذکیر کے بغیر تانیث کا وجود نہیں تو پھر اس قاعدے کی رو سے تذکیر بھی اپنے وجود کے تعین کے لئے تانیث کی محتاج ہے۔تو پھر ایسا کیوں ہے کہ عورت ہی مرد کی نسبت سے پہچانی جاتی ہے ؟اور مرد کے لئے عورت کی نسبت سے پہچانا جانا تذلیل کی بات سمجھی جاتی ہے ؟
اپنی دوسری کتاب Women: Myth & Reality میں سائمن ڈی بووا نے عورت اور مرد کے روایتی تصور کو رد کر دیا۔اس کا خیال ہے کہ مرد کو اپنی مردانگی اور عورت کو اپنی نسوانیت جتانے یا ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس کے بجائے مرد اور عورت دونوں اپنی انسانیت ثابت کریں تو بہتر ہے کیوں کہ اس کے خیال میں ’’عورت پیدا نہیں ہوتی بن جاتی ہے ‘‘ سائمن ڈی بووا کو سارتر کے سائے سے نکالنے اور اس کا علیحدہ وجود ثابت کرنے کے لئے بھی فیمنسٹ نقادوں کو طویل عرصہ جدوجہد کرنی پڑی بہر حال سائمن ڈی بووا کی تحریروں نے نسائیت کا وجودیت اور نفسیات سے جو رشتہ استوار کیا اسے بعد میں آنے والوں نے مزید مضبوط کیا۔
بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں کئی فیمنسٹ تحریریں سامنے آئیں۔ بیٹی فرائڈن Betty) (Frieden کی کتاب”The Feminine Mystique” ۱۹۶۳ء میں شائع ہوئی۔اپنے عہد کی یہ بے حد مقبول مگر متنازعہ کتاب رہی۔بیٹی فرائڈن نے صدیوں پرانے اس معاشرتی تصور پر ضرب لگائی کہ گھر اور بچوں کے ذریعہ عورت کی تکمیل ہوتی ہے۔اس کا خیال ہے کہ ایسے روایتی باطل تصورات کا شکار ہو کر عورت اپنی شناخت گم کر بیٹھی ہے۔
اس کے بعد کئی دیگر کتابیں جلد ہی منظر عام پر آئیں جنہوں نے نسائیت کی بحث کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر :
۱۔ Mary Ellman کی کتاب” Thinking about Women” (1968)
۲۔ Kate Millet کی “Sexual Politics” (1969)
۳۔ Judith Fetterly کی “The Resisting Reader” (1977)
۴۔ Elaine Showalter کی”A Literature of Their Own”(1977)
ان مصنفین کے بعد وہ عہد شروع ہوتا ہے جسے Third Wave یا تیسری موج کہا جاتا ہے۔یہ تینوں امواج ایک دوسرے کا تسلسل بھی ہیں اور بیک وقت ایک ساتھ ہی فیمنزم کے سمندر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ فیمنزم کی اس تیسری موج میں جو آج تک جاری ہے کئی نظریاتی مباحث سامنے آئے۔ اس عہد میں نسائیت / فیمنزم کے تضادات اور ابہامات پر گفتگو کی گئی۔ نسائی ادبیوں کی انفرادیت، تحلیل نفسی اور ردِ تشکیل کے مسائل پر بحث کی گئی اور نسائیت کا رشتہ دیگر علوم سے جوڑ دیا گیا۔
عالم گیریت کے اس عہد میں کوئی علم ، فن یا نظریہ ایسا نہیں جس کا تعلق دیگر علوم و فنون سے استوار نہ ہو۔ فیمنزم بھی آج ایک دبستانِ فکر ہے جس کا اثر تمام شعبہ ہائے زندگی پر نظر آتا ہے۔دوسری طرف دیگر علوم اور نظریات کے زیر اثر خود نسائیت / فیمنزم کی شاخوں میں تقسیم کئی حوالوں سے ہو سکتی ہے۔مثال کے طور پر ایک بڑی تقسیم اس بحث کے نتیجے میں سامنے آئی کہ آیا عورت پیدا ہوتی ہے یا بنا دی جاتی ہے ؟ اس حوالے سے آج کے فیمنسٹ دو بڑے حصوں میں تقسیم ہیں۔ایک حلقے کا خیال ہے کہ جنسی/ صنفی تقسیم قدرتی نہیں بلکہ سماجی عمل ہے۔معاشرے میں رائج دیرینہ تصورات اور رسومات انسانوں میں تذکیر و تانیث کا فرق پیدا کر دیتے ہیں۔ سیاست اور طاقت سے وابستگی اس تفریق کو تحفظ فراہم کرتی ہے اور یوں عدم مساوات پر مبنی ایک تفریق معاشرے میں جگہ بنا لیتی ہے۔
اسی طرح جبر اور احساسِ جبر،مساوات اور عدم مساوات،محنت اور اس کی قدر و قیمت، عزت،انصاف، آزادی اور اس نوعیت کی دیگرکئی اصطلاحات ہیں جو بے انتہا وسیع مفہوم کی حامل
ہیں اور ان کے تعین میں اختلافات سامنے آنا ایک لازمی امر ہے۔یہی وجہ ہے کہ نظریاتی اعتبار سے فیمنزم کی بے شمار ذیلی شاخیں وجود میں آچکی ہیں۔یہ سب شاخیں ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ضروری نہیں کہ آپس میں متصادم بھی ہوں۔ذیل میں چند اہم شاخوں کا تعارف درج کیا جارہا ہے۔
لبرل یا آزاد خیال فیمنزم:
لبرل فیمنزم کے حاملی افراد کا خیال ہے کہ فیمنزم کا نظریہ تنگ نظری سے نہیں آزاد خیالی کی مدد سے کامیاب ہو سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ تحریک کا رخ مردوں کے خلاف نہیں بلکہ مردوں کے ساتھ عورتوں کی یکجہتی کی طرف ہونا چاہیے۔یہ افراد معاشرے میں بتدریج تبدیلی کے خواہاں ہیں جو مرد او ر عورت کے باہمی تعاون سے رونما ہو سکتی ہے۔لہٰذا لبرل فیمنسٹ معاشرے میں انقلابی اقدامات کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ معاشرے کے موجودہ ڈھانچے میں رہتے ہوئے بھی مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
انارکسٹ فیمنزم :
لبرل فیمنسٹ کے مقابلے میں انارکسٹ فیمنسٹ ایک عملی بغاوت کی حمایت کرتے ہیں۔ انارکسٹ فیمنزم کے حامی افراد کا خیال ہے کہ طاقت کے خلاف عملی جدوجہد مسائل کا حل ہے اور فیمنزم کے معاملے میں یہ جدوجہد یقیناًموجودہ پدرسری معاشرے کے خلاف عمل میں آئے گی ۔
مارکسی فیمنزم:
مارکسی فیمنزم یا سوشلسٹ فیمنسٹ عورت کے استحصال اور احساس جبر کا رشتہ مارکسی نظریات سے جوڑتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ عورت کی محکومی کا مسئلہ دراصل ایک وسیع تر اقتصادی مسئلے کا حصہ ہے۔پیداواری ذرائع کی غیر منصفانہ تقسیم معاشرے کو طبقات میں تقسیم کر دیتی ہے۔یہ طبقاتی نظام معاشرے میں تقسیم در تقسیم کرتا جاتا ہے۔سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام ختم ہو جانے کی صورت میں طبقاتی نظام دم توڑ دے گا اور اس کے ساتھ ہی عورت اور مرد جیسے امتیازات بھی ختم ہو جائیں
گے ۔
چونکہ مارکس اور اینگلز کے نظریات کے مطابق طبقاتی نظام کا خاتمہ جنسی امتیاز کا خود بخود خاتمہ کر دے گا اس لئے بعض مارکسی دانشور فیمنزم کی حمایت کرنے کے بجائے اس کے مخالفت بھی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اصل جدوجہد بورژوا طبقے کے خلاف ہونی چاہیے جبکہ بعض مارکسی دانشووں کا خیال ہے کہ نسائیت یا فیمنزم کو اگر صحیح معنوں میں کہیں دیکھا جا سکتا ہے تو مارکس اور اینگل کی تحریر میں۔
ریڈیکل فیمنزم:
مارکسی فیمنسٹوں کے برخلاف ریڈیکل فیمنسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کی محکومی کا مسئلہ طبقاتی نظام یا سرمایہ دارانہ نظام کے تابع نہیں بلکہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے۔ریڈیکل فیمنسٹ خیال کرتے ہیں کہ پدر سری معاشرہ ہی دراصل عدم مساوات کا ذمہ دار ہے۔جب تک معاشرے میں بنیادی تبدیلیاں نہیں لائی جا تیں او رموجودہ معاشرتی ڈھانچے کو مسمار کر کے سوسائٹی کی تعمیر نو نہیں کی جا سکتی اس وقت تک مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے۔ ریڈیکل فیمنسٹ بعض اوقات تہذیبی فیمنزم یا کلچرل فیمنزم کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں کیوں کہ ان کا لائحہ عمل سیاسی نہیں ہے،وہ تہذیب میں بنیادی تبدیلیوں کے خواہاں ہیں۔ان کا خیال ہے کہ تذکیر و تانیث کا فرق حیاتیاتی بنیادوں پر قائم نہیں ہے اور نہ ہی اس کا بدنی ساخت سے کوئی تعلق ہے۔ یہ تفریق سراسر تہذیبی بنیادوں پر کی گئی ہے اس لئے تہذیب کے ڈھانچے میں تبدیلی ناگزیر ہے۔
ریڈیکل فیمنسٹوں میں ہی ایک گروپ علیحدگی پسندوں Seperatist کے طور پر سامنے آیا ہے ۔اس گروپ کا خیال ہے کہ مرد کبھی بھی فیمنزم کی تحریک کا حصہ نہیں بن سکتے۔ان کا خیال ہے کہ نیک نیتی سے فیمنزم کی حمایت کرنے والے مرد بھی لاشعور ی طور پر پدر سری معاشرے کے تحفظ کا کام ہی سر انجام دے رہے ہیں لہٰذا عورت کو ارادتاً مرد سے قطع تعلق کر کے اپنی دنیا کے اصول خود طے کرنا ہوں گے۔
مشرقی فیمنزم:
مشرقی فیمنزم،فیمنزم کی وہ شاخ ہے جس نے مشرقی ممالک خصوصاً ان خطوں میں جو مغربی ممالک کے تسلط میں رہے،پرورش پائی،مشرقی فیمنسٹوں کا کہنا ہے کہ مشرقی ملکوں میں مغرب کا تسلط،ان کی لسانی،نسلی اور طبقاتی منافرتوں پر مبنی پالیسیاں ان خطوں میں عورت کی بد حالی کی ذمہ دار رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مغرب آج بھی اپنا معیار اور اپنا نظام فکر مشرقی ممالک بالخصوص تیسری دنیا کے ملکوں پر تھوپنا چاہتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ عورت مغربی تہذیب اپنانے کے بعد ہی روشن خیال،تعلیم یافتہ اور آزاد تصور کی جائے، اس کے برعکس ایک عورت اپنی تہذیبی اقدار کے اندر رہتے ہوئے بھی محکومی سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔یہ مشرقی فیمنسٹ لبرل اور ریڈیکل فیمنز م کی بعض صورتوں پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔مشرقی فیمنسٹوں کو یہ شکایت ہے کہ مغربی فیمنسٹ اپنے تجربات کو کلیت سمجھ کر سار ی دنیا پر اپنے نظریات لاگو کر دینا چاہتے ہیں حالانکہ مغرب اور مشرق کی عورت اور اس کے مسائل و افکار میں زمین آ سمان کا فرق ہے۔مشرق اور مغرب کے تصور عدل،جبر،مساوات اور خاندان میں بھی فرق ہے۔مشرقی فیمنسٹوں کا خیال ہے کہ مغرب ابھی تک Colonial سوچ سے نجات حاصل نہیں کر سکا اور اسی لیے وہ فیمنزم میں بھی Overgeneralise کرتا نظر آتا ہے۔یوں مشرقی فیمنسٹ عورتوں کی محکومی کے ساتھ مغربی استعاریت کے خلاف بھی آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ تو فیمنزم کی شاخوں کا ذکر تھا۔ بحیثیت ایک دبستان فکر فیمنزم نے ہر شعبہ زندگی کو متاثر کیا ہے۔ بشریات،سماجیات، معاشیات، ہر مضمون میں نسائیت کے فکر اور فلسفے کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں، چند مثالیں دیکھیے۔
جدید علوم و فنون اور نسائیت کا دبستان
نسائیت اور نفسیات :
نسائیت اور نفسیات کا رشتہ اول دن سے ہی قائم ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔کہ فیمنسٹوں کا ایک حلقہ تذکیر و تانیث کی بنیاد بدنی ساخت یا حیاتیاتی فرق کو نہیں قرار دیتا بلکہ وہ اسے نفسیاتی Conditioning سمجھتا ہے اور اس لیے مسئلہ کا حل بھی نفسیات کے ذریعے تلاش کرتاہے۔
نسائیت اور تاریخ :
ایک نسائی مؤرخ پر دو فرائض عائد ہوتے ہیں، اول تو یہ کہ وہ تاریخ کی نسائی نقطۂ نظر سے از سر نو تفہیم کرے۔دوم یہ کہ وہ تاریخ کے کونے کھدروں سے عورتوں کے نام تلاش کر کے اور انہیں درست مقام دلانے کی کوشش کرے۔
یہ عام تجربے کی بات ہے کہ ہمارے مؤرخ بڑی آسانی کے ساتھ عورتوں کے نام حذف کر جاتے ہیں۔آخر ہماری تاریخوں میں عورتوں کے نام نظر کیوں نہیں آتے ؟ میر تقی میر نے نکات الشعرا لکھتے ہوئے اپنی ہی گھر میں موجود شاعرہ کو نظر انداز کیوں کر دیا ؟ نسائی مؤرخ ایسی خواتین کا کھوج لگاتے ہیں جنہیں مؤرخ نے محض اس لئے نظر انداز کر دیا کہ وہ عورتیں ہیں اور پھر یہ مؤرخ ان کی اہمیت اور مقام کا تعین بھی کرتے ہیں ۔
نسائیت اور مذہب:
مذہبی نسائی مکتبہ فکر مذہبی رسومات،آثار اور روایات کا مطالعہ نسائی نقطۂ نظر سے کرتا ہے۔ایک طرف یہ دبستان مذہبی معاملات میں عورتوں کے کردار پر بحث کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مذہبی معاملات میں عورت کا دخل بہت کم ہے ۔مذہبی رہنمائی کے لیے خواتین نہ ہونے کے برابر ہیں ان کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے۔دوسری طرف ان کا خیال ہے کہ مذہب کی تشریح اور تفسیر پر بھی پدر سری سوچ حاوی ہے۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مقدس تحریروں کی از سر نو تفہیم و تشریح کی جائے۔ایسی تفہیم و تشریح جس کے پیچھے پدر سری معاشرے کی سیاست کا عمل دخل کم سے کم ہو۔مذہبی فیمنسٹ کا خیال ہے کہ مذہبی تحریروں کی درست تشریح کی جائے تو اس کے ذریعے مساوات پر قائم معاشرے کا حصول ممکن ہے۔
نسائیت اور معاشیات :
علم معاشیات کے ساتھ بھی فیمنزم کا پرانا رشتہ ہے۔عورتوں کی خود مختاری کا مسئلہ اٹھا تو محنت اور ملازمت کے مسائل بھی زیر بحث آئے۔بعض افراد کا خیال ہے کہ عورت کی محکومی کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ جسمانی مشقت میں مرد کی برابری نہیں کر سکتی لہٰذا لیبرمارکیٹ میں مرد کی محکوم بن جاتی ہے اور بالآخر معاشرے میں بھی محکوم ہو جاتی ہے (۳۳) یہاں نسائی ماہرین معاشیات جسمانی مشقت کے معیار اور پیمائش کا سوال اٹھاتے ہیں تو ساتھ ہی گھریلو کاموں کی قدر و قیمت کا مسئلہ بھی کھڑا ہوتا ہے۔نسائی اکنامسٹ گھریلو کام کاج ،کی تربیت اور ضعیفوں کی خدمت جیسے کام جو عورت بلا معاوضہ کرتی ہے ،ان کی درست قدر و قیمت ادا کرنے پر زور دیتے ہیں۔
نسائیت اور قانون :
قانون کا نسائی دبستانِ فکر قانون اورجنس(Gender) کے باہمی تعلق کا مطالعہ کرتا ہے۔نسائی ماہر قانون ایسے قوانین کی تبدیلی کے لیے کوشش کرتے ہیں جو خواتین کے مفادات میں نہ ہوں۔ ان کا مقصد ایسے قوانین کی اصلاح یا ترمیم یا تنسیخ ہے جو پدری معاشرے کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
نسائیت اور سیاست :
نسائی سیاست کا تذکرہ پہلے بھی کیا جا چکا ہے ظاہر ہے کہ فیمنزم کی تحریک کا عملی رخ بڑی حد تک سیاسی رہا ہے۔قوانین میں ترمیم،ووٹ کا حق اور دیگر مسائل کے حل کے لیے فیمنسٹ عملی سیاست میں قدم رکھتے رہے ہیں۔پدرسری معاشرے کے قیام اور عورتوں کی محکومی کی وجوہات بھی کسی نہ کسی اعتبار سے ایک سیاسی عمل کا حصہ ہیں۔ اس لیے سیاسی آگہی اور عورتوں میں سیاسی شعور کی بیداری بھی فیمنسٹوں کی اہم ذمہ داری رہی ہے۔یہی نہیں،سیاسی معاملات کی نسائی نقطہ نظر سے جانچ اور پرکھ بھی نسائی دبستانِ سیاست کا حصہ ہے۔
نسائیت اور فلسفہ:
نسائی فلاسفر ایک طرف فلسفیانہ نظریات کو نسائیت تحریک کے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں تو دوسری طرف نسائی نقطہ نظر سے مروجہ فلسفوں کو بھی پرکھتے ہیں۔
نسائیت اور میڈیا:
نسائی تحریک اس امر سے بھی خصوصی تعلق رکھتی ہے کہ میڈیا عورت کا کیا تصور سماج کے سامنے پیش کرتا ہے۔نسائی دبستان سے تعلق رکھنے والے فلمی نقاد اکثر شکایت کرتے ہیں کہ فلم اور ٹی وی پرعورت کو ایک تفریح بنا کر پیش کیا جاتا ہے عموماً عورتوں کے کردار پدر سری معاشرے کے تصور کو تحفظ دیتے نظر آتے ہیں۔وہ پردے پر ہیرو کی اور نتیجتاً ناظرین مردوں کی دلبستگی کا سامان بنا دی گئی ہے۔اس دبستان کا ایک فرض فلم اور ڈرامہ کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا بھی ہے۔ فیمنسٹ پروڈیوسر یا ہدایات کار، نسائی موضوعات اور مسائل پر فلم بنا کر عوام کی رائے ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
نسائیت اور ادب :
نسائیت اور ادب کا تعلق بھی روز اول سے قائم ہے۔ نسائی تحریک کی ابتدا اور فروغ میں سب سے پیش پیش ادیب خواتین رہیں۔اس لیے ادب کے نسائی دبستان فکر میں نسائی تحریک کے مقاصد واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو ابتدا سے ہی نسائیت کی تحریک میں سائمن ڈی بووااور ورجینیاوولف جیسی ادیب خواتین موجود ہیں۔نسائی ادیب تخلیق اور تنقیدی دونوں میدانوں میں نسائیتFeminism کا اظہار کر سکتا ہے یعنی فیمنسٹ کی تخلیق میں بھی فیمنسٹ رویہ کا اظہار ہو سکتا ہے اور وہ ادب کا مطالعہ بھی نسائی نقطہ نظر سے کر سکتا ہے جسے نسائی تنقید کا نام دیا جا تا ہے اور جس پر تفصیلی گفتگو آئندہ صفحات میں کی جا ئے گی۔
یہ چیدہ چیدہ شعبہ جات کا تذکرہ تھا۔عالم گیریت کے اس عہد میں دنیا کے تمام علوم و فنون ایک دوسرے کو Overlap کر رہے ہیں۔نتیجتاً نسائیت یا فیمنزم نے بھی دوسرے مکتبہ ہائے فکر اور مطالعاتی شعبہ جات سے تعلق قائم کر لیا ہے دیگر علوم و نظریات نسائی مکتبہ فکر پر اثر انداز بھی ہو رہے ہیں اور اس سے اثر پذیر بھی نظر آتے ہیں مثلاً Gender Studies, ،
Queer Studies, اور Women Studies نے ایک علیحدہ سماجی علم کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔
اینٹی فیمنزم :
دوررس اثرات کی حامل تحریک کا رد عمل بھی ضرور ہوتا ہے اور اسے مخالفتوں کا بھی سامناکرنا پڑتا ہے۔
فیمنزم کا بھی رد عمل سامنے آیا جسے فیمنسٹ عموماً اینٹی فیمنزم کا نام دیتے ہیں۔ اینٹی فیمنزم(Antifeminism) تحریک سے وابستہ افراد کا خیال ہے کہ فیمنزم نے اپنے مقاصد حاصل کر لئے ہیں اور اب اس کا مقصد مرد پر عورتوں کی برتری قائم کرنا ہے۔اینٹی فیمنسٹ کی تنقید کا نشانہ عموماً وہ مسائل بنتے ہیں جن میں عورت کے لیے مراعات کا مطالبہ ہوتا ہے۔یا پھر وہ قوانین جن کا جھکاؤ مرد کی نسبت عورت کی طرف زیادہ ہوتا ہے مثلاً بچے کی تحویل کا مسئلہ،تولید سے متعلق مسائل،طلاق اور جائیداد وغیرہ کے مسائل۔
اینٹی فیمنسٹوں کا خیال ہے کہ طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان کی ذمہ دار فیمنزم / یا نسائی تحریک ہے۔ان کا خیال ہے کہ فیمنزم نے عورت کو گھر کے محفوظ اور پرسکون ماحول سے نکال کر ایک لا حاصل مسابقت کی دوڑ میں لگا دیا ہے۔اینٹی فیمنسٹوں کا خیال ہے کہ عورت مرد کی برابری کرنے کے شوق میں بے انتہا مشقت کرتی ہے جس کی اسے چنداں ضرورت نہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض شعبہ ہائے زندگی ایسے ہیں جن میں عورتوں کی شمولیت،شعبے کی کارکردگی پر خراب، اثرات مرتب کرے گی،مثلا فوج میں عورتوں کی شمولیت،افواج کی صلاحیت کو کمزور کر دے گی۔فیمنزم کی مخالفت عموماً،طلاق، ابارشن،شادی، تولید،جنسی تعلقات اور مرد بیزاری جیسے مسائل پر دیکھنے میں آئی۔ اس کے مقابلے میں صنفی امتیازات،تشدد Sexual Harassment، استحصال کرنا پڑتا ہے ملازمت اور تعلیم کے یکساں مواقع اور بہتر ماحول جیسے مسائل پر فیمنزم کو ان حلقوں سے بھی مدد ملی جو اپنے آپ کو فیمنسٹ نہیں کہلاتے یا جو دیگر معاملات پر غیر جانب دار رہتے ہیں۔آج دنیا بھر میں عورتوں کی لیڈر شپ اور علمی و فنی میدانوں میں عورتوں کی برتری نے دانشوروں،طالب علموں اور اساتذہ کو ایک بار پھر نسائیت کی تحریک کے مطالعے پر مجبور کر دیا ہے۔اس صورت حال میں جنوبی ایشیا کی نسائی تحریک ایک جدا گانہ اہمیت اور حیثیت رکھتی ہے۔
(عظمیٰ فرمان کے مضمون ’’اُردو ادب میں نسائیت‘‘ سے ملخص)
Bhut umda.I hv read her artical in tehqeeq.a pleasure to read its abridged version