تباہی سے تباہی کی طرف
از، نسترن احسن فتیحی
آج صبح اخبار پڑھتے ہوئے بچوں کےلئےمختص صفحہ پر کئی کہانیاں بکھری ہوئی تھیں،چلبلی کہانی، سنجیدہ کہانی نصیحت آمیز کہانی … ہزار بار کی پڑھی ہوئی کہانیاں پھر بھی ان کا اپنا ایک لطف ہےجودل و نظر کو تھامتے ضرور ہیں ، مگر اب کتنے گھروں میں کتنے بچے اخبار کی طرف دیکھتے ہیں اور وہ بھی اردو کا اخبار ، ان کے سامنے برقی ترسیل اتنی تیزگام ہے کہ اخبار پڑھنا تو دور اس کی طرف دیکھنا بھی نئی جنریشن کے لئے اولڈ فیشن بن چکا ہے . اگر دنیا میں ہو رہی اتھل پتھل سے انہیں واقف کرانا چاہو تو ان کے پاس اس سلسلے میں آپ سے زیادہ معلومات ہوتی ہیں ،اپنی بھاگتی دوڑتی زندگی میں ہر عمر کے یہ بچے ایک ہاتھ میں برگر یا چکن رول پکڑ کر اور دوسرے میں موبائل لئے اپنی سا ری تعلیم، تربیت، تفریح اور ضروریات پوری کرتے نظر آتے ہیں . یہ تبدیلی ہماری زندگی میں ،ہمارے معاشرے میں ایک دم سے نہیں آگئی وقت رفتہ رفتہ ہی بدلتا ہے اور اپنے اثرات زمانے پر ثبت کرتا جاتا ہے ہم اور آپ چاہیں یا نہ چاہیں بدلتے ہوئے وقت کا شکا ر ہونا ہر ذی نفس کا مقدر ٹھہرا … مگر ذرا رکئے … پہلے بتا تو دوں کہ یہ خیال آج اخبار پڑھتے وقت اتنی شدت سے مجھے کیوں آیا … بچوں کی کہانیوں میں چھپی نصیحت کیسے ہما ری نشو نما میں اہم کردار ادا کرتے تھے ، مگر اب یہ نصیحتیں ہمارے بچوں تک نہیں پہنچ پاتیں . بلکہ سچ تو یہ ہے کہ نصیحت ، عبرت ، سبق اور صبر جیسے الفاظ اپنے معنی کھوتے جا رہے ہیں.. اگر بچوں میں سبق اور اور نصیحت لینے صبر جاتا رہا ہے تو بڑوں کے پاس بھی ایسی تربیت دینے کا وقت نہیں بچا ہے . ہمارے فرصت کے اوقات میں ایسی ایسی دخل اندازیاں اور دلچسپیاں در آئی ہیں کہ اب ہم ہر جگہ موجود ہوتے ہیں بس ان کے ساتھ ہی نہیں ہوتے جو ہما رے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں . تین چار سال پہلے چار پانچ سال کی عمر میں جو بچے گوگل سرچ پر اپنے لئے کارٹون ڈاؤن لوڈ کر لیتے تھے تو ہم حیران رہ جاتے تھے اب ڈ یڑ ھ سال کی میری نواسی اس موبائل کو زور سے دور پھینک دیتی ہے جس میں وائی فائی نہیں ہوتا تو بھی حیرت نہیں ہوتی . سب ابھی اس تبدیلی پر قہقہے لگا لیں مگر یہ لمحہ فکریہ ہے . ہماری تہذیب کی بنیاد اچھی تربیت پر ٹکی ہے . اور اچھی تربیت کے لئے عمدہ کتابیں ، مطالعے کی عادت اور سماجی اور گھریلو ذمہ داریوں کا احساس ہونا بے حد ضروری ہے . ہم اپنی زندگی کو ان ذمہ داریوں سے آزاد نہیں کر سکتے .جن تبدیلیوں کو ہم نہیں روک سکتے وہ ہمیں پتہ ہے مگر ان تبدیلیوں میں بہ جانا ہماری تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا . مگر کیا ہم خود کو اس میں بہنے سے روک پا رہے ہیں۔
.سب اپنی اپنی روزی روٹی سے جڑے ہیں اور اس جڑ ت میں کوئی جذبہ کار فرما ہے تو اپنے اپنے حصے کی روٹی کو چھین کر کھانے کا جذبہ … ایک اندھی دوڑ ہے جس میں ہر انسان شریک ہے منزل کا پتہ نہیں بس وہ گول دائرے میں دوڑ رہا ہے … کیونکہ وہ ناک کی سیدھ میں دوڑنا ہی نہیں چاہتا .. ایک سمت کا تعین کرکے دوڑنے سے منزل تو مل سکتی ہے یہ اسے بھی پتہ ہے مگر ایک کسی منزل پر پہنچنے کی تمنا اب اس کے لئے قصہ پارینہ بن چکی ہے اسے تو اس دوڑ میں یوں شامل ہونا ہے کہ اسکی دسترس سے کوئی بھی امکانات دور نہ رہ جائے وہ کارپوریٹ ورلڈ کا بادشاہ ہو تو ادبی دنیا کا بے تاج بادشاہ ، اور سیاست کا بے لگام بادشاہ ..حضرت موسی کے عصا کا ذکر کیا کرنا . اب سب کے ہاتھ میں چھوٹی سی ایک جادوئی ڈبیا آ گئی ہے جس نے انہیں کھل جا سم سم کا سا نشہ عطا کر دیا ہے .. ایک ایسا جن جو غیر مرئ ہے ،اور ہر مشکل میں آپکے کا م آتا ہے اس کا وجود نہ ہو کر بھی ہماری زندگیوں میں اتنا مستحکم ہو چکا ہے کہ اس نے ہر رشتے کی اہمیت کو ختم کر دیا ہے اب نہ بچوں کو والدین کی ضرورت ہےاور نہ دوستوں کو دوست کی ، اگر آپ جذباتی ہیں رشتوں کے لئے ،اصولوں کے لئے ، جزا اور سزا کے لئے ،محبت اور بقا کے لئے ،صحیح اور غلط کے لئے تو آج کے حالات میں آپ فٹ نہیں ہیں پھر اس معاشرے پر آپ ایک بوجھ کی صورت زندہ رہنے کے لئے تیار رہیں … کیونکہ اپنی ہی نظر میں آپ خود پر بہت جلد بوجھ بن جائیںگے . ورنہ اس دوڑ میں خود کو شامل کرلیں تاکہ فنا کی طرف دوڑ کا یہ سفر آپ کے لئے بھی آسان ہو جائے … کیونکہ فنا ہی ابن آدم کی تقدیر ہے ، ایسے یا ویسے ہماری یہ دوڑ فنا کی طرف ہی ہمیں لے جا رہی ہے .طوفان نوح کا ذکر پڑھتے ہوئے مجھے ٢٠١١ میں جاپان میں آئی سونامی کی تباہی یاد آ گئی میں نے رات میں یو ٹیوب پر اس سونامی کے منظر دیکھے … بارہا آپ نے بھی دیکھے ہونگے … میں جب بھی کوئی ایسا منظر دیکھتی ہوں قادر مطلق کی طاقت اور ترقی کے با م عروج پر پہنچی ہوئی انسانیت کی بےبسی کا موازنہ کرنے سے باز نہیں آتی … پھر بھی ہم انسان اپنی چھوٹی چھوٹی کار گزاریوں پر کتنے مغرور ہوتے ہیں اور وہ مسب الاسباب کتنا پروقار اور لا تعلق۔
متعلقہ: ’’رات کی رانی‘‘: عورت کے باطن کو موضوع بناتی کہانیاں از، حمیرا اشفاق
بہر حال مجھے سونامی کی وہ ویڈیو دیکھ کر ایک اور احساس بھی ہوتا ہے ، کہ آج سا ری انسانیت … خواہشات ،آسائش ،شہرت ،طاقت سیاست کی ایسی بپھری ہوئی موجوں کی زد میں ہے کہ وہ اپنی پوری طاقت لگا کر مخالف سمت میں دوڑ لے یہ موجیں کہیں نہ کہیں اسے آ ہی لینگی اور وہ تنکے کی طرح اس میں بہ جائیگا اور بہ رہا ہے … اس لئے ان کی زد میں وہ بھی آ جاینگے جو بھاگنا نہیں چاہتے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ان بپھری ہوئی موجوں پر بند نہیں باندھنا ہے . آج یہ برقی آلات ہماری زندگی میں شامل ہوکر ہمیں ایک ایسی ہی سونامی کے زد میں ڈ ال چکا ہے جسکے کچھ فائدے ہیں تو ایک بڑا نقصان بھی ہے … اس نے ہماری زندگی سے عورت مرد ،چھوٹا بڑا ، شریف رذیل ،گھریلو بازارو، اصلی نقلی کی سا ری تخصیص مٹا دی ہے، رشتوں کے تقدس کو ختم کر دیا ہے ، اعتبار کو ریزہ ریزہ کر دیا ہے اور اوقات کو نگل لیا ہے . بس ہم بھاگ رہے ہیں اور اس بھیڑ میں کبھی کوئی مہربان ہاتھ ہاتھ میں آتا بھی ہے تو وہ اس افراط تفریط میں جانے کب چھوٹ کر الگ ہو جاتا ہے . مگر ہم اس مہربان چہرے کے لئے رک نہیں سکتے کیونکہ بھاگنا ہی اب مقدر ٹھہر چکا ہے .تباہی سے بچنے کے لئے تباہی کی طرف .