(پروفیسر محمد حسین چوہان)
صاحب ثروت حضرات نے تحقیق و دریافت میں ما ہرین کی مالی معاونت کرنی شروع کر دی تھی۔ ان کے لئے فنڈز کی فراہمی کو آسان بنا دیا تھا۔ کیونکہ سرمایہ دار کو کسی دریافت اور ایجاد میں ایک بہت بڑا فائدہ چھپا ہوا نظر آ رہا تھا۔ اور چیزوں کی در یافت کا شوق الگ اپنی جگہ انگڑائیاں لے رہا تھا، کسی بھی دریافت شدہ چیز و معلو مات کو ا یک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا نے میں تا خیر نہیں ہو تی تھی۔ نقل اور سرقے کا رجحان نہیں تھا۔ پرنٹنگ مشین چین میں تو چھٹی صدی عیسوی میں تیار ہو چکی تھی اور مصر میں تیر ہویں صدی میں اس کا آغاز ہو گیا تھا لیکن یورپ میں اس کی شرو عات ۱۳۷۵ اور۱۴۳۶ کو ہوئیں جس نے علوم کی ترسیل اور تبادلہء خیالات میں تیزی پیدا کی۔ پرنٹنگ مشین بذات خود میکانکی سائنس کا عملی و تجربی اظہا ر تھا۔ کوپر نکس نے اپنے تجربے سے ثابت کیا کہ زمین سورج کے گرد چوبیس گھنتوں میں ایک چکر پورا کرتی ہے اور زمین کائنات کا مرکز نہیں بلکہ سورج مرکز ہے گلیلو نے کوپر نکس کے تجربے کی تصدیق دوربین کے تجربے سے کی جسے چرچ کی عملداری کو للکا را گیا کیو نکہ چرچ کا ۲۰۰۰ سال سے تصور تھا کہ سور ج گردش کرتا ہے اور زمین ساکن ہے مگر سائنسدانوں کی تھیوری کا تعلق مظہر کے مشاہدے سے زیادہ تجر بے سے تھا کوپر نکس کی heliocentric theory نے 1543 میں علمی قضایا کی کایا پلٹ کر رکھ دی کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے اور سورج اجرام فلکی کا مرکز ہے اس کے تجربے کی تصدیق کرنے پر گلیلوکو اپنے گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور کوپر نکس کے کام کو اس کی موت تک شائع کرنے پر پابندی لگا دی گئی ،مگر گلیلو نے عقل عامہ کو للکار تے ہوئے کہا
in the question of science the authority of thousands is not worth the humble reasoning of a single individual
علوم و فنون کی تاریخ میں مسلم اطبا اور علما کی خدمات بالخصوص قرون وسظی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔انھوں نے یونانی علوم و فنون کی نہ صرف خدمت کی بلکہ دوسری اقوام کو بھی ان سے متعارف کرایا۔تا ریخ عالم کے صفحات اٹھاکر دیکھا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ اس کرہء ارض پر انہیں اقوام کو عروج حاصل ہوا جو علوم و فنون کی خد مات اور ترویج و اشاعت میں کوشاں رہیں۔جن میں یونان ،چین،ہندوستان،ایران اور عرب نمایاں طور پر قابل ذکر ہیں۔تجربی علوم،منطق و فلسفہ اور مدرسیت تیرہویں صدی عیسوی تک اکھٹے چلتے رہے۔مگر تجربی علوم کا دائرہ کار محققین کی انفرادی کاوٗشوں تک محدود رہا۔اس کو باقاعدگی سترہویں صدی عیسوی میں جا کر حاصل ہوئی جب جان لاک،بشب برکلے اور ڈیوڈ ہیوم نے تجربیت کو ایک نظریہ علم کے طور پر متعارف کرایا اور اس کے ساتھ ہی صنعتی انقلاب کا آغاز بھی ہوا۔تجربیت سے جہاں سائنسی ترقی اورمعاشی خوشحالی کا آغاز ہوا ساتھ ہی ساتھ اس کے تضادات بھی سامنے آنا شروی ہو گئے۔نئی ایجادات اور انکشافات سے طبقات کو جنم دیا ،بورژوا کلاس نے جنم لیا،امارت اور غربت میں ایک وسیع خلیج حائل ہو گئی۔معاشی استحصال ، قدر زائداور سرمایہ داروں کے لالچی ہتھکنڈوں نے انقلاب اور بغاوت کی راہیں ہموار کیں،کیونکہ تجربیت تجربے کی پیداوار تھی جس میں کلیت نہیں تھی اور تمام مسائل کا حل اس کے پاس نہیں تھا،یہ سائنسی فلسفے کا ایک جز تھا نہ کے کل ۔علم اور تجربے میں شے بالذات کا انکار بھی کرتی تھی۔انسان کے روحانی و باطنی مسائل کا حل اور ان کی تسکین کا فلسفہ بھی اس کے اندر موجود نہیں تھا۔صرف میکانیات،تجربہ اور آخر میں عملیت پسندی کے فلسفے پر اس کی عمارت قائم تھی،دیگر تمدنی علوم و فنون کو بھی ز یر بحث نہیں لاتی تھی،جز سے بحث کرتی تھی،دیگر علوم اور ان کے نظام فکر سے جو علم کا باطنی رشتہ ہوتا ہے اس سے اس کا سروکار نہیں تھا۔علمی اعتبار سے اس کا ربط ماضی سے تھا نہ کہ مستقبل کی انقلاب آفریں فکری دھاروں سے کیونکہ سرمایہ داروں،جاگیرداروں اور اسٹیٹس کو کو قائم رکھنا ضروری تھا،اس لئے کہ اس کی آبیاری استعماری قوتیں کر رہی تھیں۔اس بنا پر برٹش سامراج کے زیر اثر پروان چڑھنے والے مفکرین قومی اور طبقاتی مفادات کے لئے اس کو وسیع تناظر میں دوسرے علوم کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کرنا چاہتے تھے جسے براہ راست چھوٹے طبقات مستفید ہوں جس کی بنا پر یہ نظرےۂ ضرورت کی سائنس بن کر رہ گئی۔اینگلز اس حوالے سا بات کرتے ہوئے رقمطراز ہیکہ جب ہر سائنس کے لئے ضروری ہے کہ وہ چیزوں کے بارے میں ہمارے علم اور چیزوں کی عظیم کلیت کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرے تو اس کلیت کے متعلق کسی مخصوص سائنس کا وجود اضافی ہو جاتا ہے۔سارے ابتدائی فلسفے سے جو چیز آزاد حالت میں باقی بچتی ہے وہ فکر کی سائنس اور اس کے قوانین ہیں،۔۔۔باقی ہر شے فطرت اور تاریخ کی مثبت سائنس کا حصہ بن جاتی ہے۔،،
آگے چل کر اینگلز اس کی روائیت پرستی۔محدودیت اور علم کے نظام فکر سے اپنا رشتہ قائم نہ رکھنا اور صرف اعداد و شمار تک آپنے آپ کو قائم رکھنا پر یوں رقمطراز ہیں خالص تجربیت جو زیادہ سے زیادہ خود کو ریاضیاتی حساب کتاب کی شکل میں غور و فکر کی اجازت دیتی ہے یہ سمجھتی ہے کہ وہ محض ناقابل تردید حقائق کے ساتھ واسطہ رکھتی ہے۔تا ہم حقیقت میں یہ زیادہ روائیتی تصورات اپنے پیش روؤں کی سوچ کی زیادہ تر متروک پیداوار۔ مثبت اور منفی برقی بار،علیحدگی کی برقی قوت اور contact theory کے ساتھ کام چلاتی ہے۔یہ اسے لامتناہی ریاضیاتیحساب کتاب کے لئے بنیاد فراہم کرتے ہیں،جس میں ریا ضیاتی ضابطہ بندی پر سخت عمل در آمد کے باعث قضیات کی مفروضی نوعیت کو بڑی آسانی سے بھلا دیا جاتا ہے۔اس قسم کی تجربیت اپنے پیش روٗوں کے افکار کے نتائج کے سلسلے میں جتنی خوش اعتقاد ہوتی ہے،ہم عصر نتائج کے بارے میں اتنی ہی شکی مزاج ہوتی ہے۔اس کے لئے تجرباتی طور پر طے شدہ حقائق بھی رفتہ رفتہ اپنی روائیتی تشریحات کے ساتھ گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔انہیں ہر ظرح کے حیلے بہانوں،ناقابل مدافعت مصلحت کوشیوں اور نا قابل مصالحت تضادات کی حاشیہ آرائیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اس طرح آخر کار وہ تضادات کی ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں،جہاں سے ان کے لئے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہوتا،، اس کی محدودیت اور معروضیت صرف تجربے تک محدود ہے۔ناقابل گرفت اشیا علم کے دائرہ کار میں شمار نہیں کرتی۔علیت اور عقلیت کو وقوف علم میں درخور اعتنا نہیں سمجھتی۔مادیت اور جدلیات جو سائنسی فلسفے کے کلی مطالعے پر زور دیتے ہیں سے سروکار نہیں رکھتی جسے علم کی دنیا محدود ہو جاتی ہے۔ولیم جیمز جو ایک بڑا تجربیت پسند ہے کا قول ہے ایک تجربہ کار کو تجربے اور مشاہدے سے باہر کسی چیز کو قبول نہیں کرنا چائیے اور نہ ہی تجربہ میں شامل کسی عنصر کو خارج کرنا چائیے۔،،دوسرا بڑا نقص تجربیت میں یہ پایا جاتا ہے کہ ایجادات اور انکشافات کا سہرا اپنے سر پر باندھنے کے باوجود سائنسی اور معاشرتی ارتقا کے فلسفے پر ایمان نہیں رکھتی۔سائنسی تحرک اس کے مزاج میں شامل نہیں۔تجربیت کے معاشرتی زندگی پر اثرات اور ا س کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اخلاقی اور نفسیاتی مسائل کا تسلی بخش مداوا نہیں کرتی بلکہ انسان کو فکر کی بند گلی میں بند کر دیتی ہے۔جس کا مداوا صرف وصرف مادیت کے پاس ہے،اسی بنا پر ستیانہ نے کیا خوب کہا ہے جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے اس کو دہراتے ہیں،، جارج نویک جو ایک ترقی پسند نقاد اور تجربیت پر گہرا مطالعہ رکھنے والے امریکی دانشور ہیں نے اس کے منفی پہلوؤں اور دوسرے سائنسی فلسفیانہ علوم کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے اس کو ایک ادھورا اور غیر تسلی بخش نظریہ علم قرار دیا ہے کیونکہ علم کے بنیادی نظریات اور مسائل کی درست سمت میں راہنمائی نہیں کرتی۔وہ کہتے ہیں تجربیت انسان سے آزاد خارجی دنیا جس کا اس کو وقوف نہیں کے بارے میںیہ غیر واضح اور غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہے۔دوم اشیا کے درمیان جدلیاتی حرکت،باہمی ربط،اندرو نی کشمکش اور باہمی تبدیلی واقع ہوتی ہے سے بحث نہیں کرتی۔سوم یہ صداقت پر مبنی علم کے حصول میں تذبذب کا شکار ہو جاتی ہے اور اس کے پاس درست اور غلط علمی معیارات کے درمیان حد بندی قائم کرنے کا کوئی معیار نہیں۔چہارم یہ فطرت ،معاشرے اور انسانی ذہن مین موجود خیالات جن کا باہمی ربط ہوتا ہے اور فطرت میں قائم لزوم اور اتفاق کا سلسلہ قائم ہے کا انکار کرتی ہے ۔ سائنسی معروضیت اور عقلی سرگرمیوں سے علم کی بنیاد کو الگ کرتی ہے۔ پنجم مادی دنیا کا معروضی علم ،، اور سائنس کے حقیقی علم جو معاشرتی سطح پر ہماری ضرورت پوری کرتا ہے کو مسخ کرتی ہے۔ششم یہ تھیوری کو عمل سے جدا کرتی ہے۔ان کے مابین باہمی انحصار کی غلط تصویر کشی کرتی ہے جسے انسان کی کاوؤشوں کے دونوں پہلو کمزور ہو جاتے ہیں۔،،گرچہ تجربیت سائنس کا ایک جزوی علم ہے،کلیت سے بحث نہیں کرتی،مگر اس کی علمی اور تجربی قوت اور افادیت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا،کیونکہ تمام علوم حسیات کے دروازے سے گذر کرفہم وشعور کا حصہ بنتے ہیں اور خام مواد عقل کی بھٹی میں جل کر کندن بنتا ہے اور تجربہ اس کو ترکیبی تصدیقات کی سند عطا کرتا ہے۔
کسی بھی سائنسی اور معاشرتی تھیوری کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی معاشروں میں کیفیتی تبدیلی کے سفر کا آغاز ہمیشہ تھیوری سے ہوتا ہے،تھیوری اگر ناکام بھی ہو جائے تو وہ اپنے اثرات معاشرے پر چھوڑ جاتی ہے اور نئی تھیوری کے لئے راہ ہموار کر تی ہے،کیونکہ تھیوری زمینی حقائق اور معاشرتی و طبیعی زندگی کے خارجی قوانین کی تشریح کر رہی ہوتی ہے،اس کی ناکامی کی وجہ علمی تناقص وتضاد یا معاشر تی شعور کی کمی ہو سکتی ہے،مگر علم کی بڑھوتری کا بڑا ذر یعہ ثا بت ہوتی ہے۔مگر ایسا ان معاشروں میں ہوتا ہے جہاں معاشرتی شعور معاشرتی حرکت کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے۔اس کے برعکس اعتقادی معاشروں کی زبوں حالی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں سائنسی اور معاشرتی قضیوں پرتھیوریاں تخلیق نہیں کی جاتیں اور ان کی معاشرتی حرکت کا پہیہ جام ہو جاتا ہے،تاریخ عالم اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کی معاشرتی ترقی،انقلاب اور تبدیلی،جمہوریت اور خوشحالی ان ہی اقوام کو نصیب ہوئی،جو علم کو گیان دھیان کے برعکس مشق وعمل میں حرکت کرتا دیکھتے رہے اور اس علم،،کو اضافی سمجھتے رہے،جنھوں نے علم کو غیر متبدل جانا وہ خود بھی غیر متبدل ہو کر ماضی کے کباڑ خانے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن ہو گئے۔ عمرانی ،تجربی و سائنسی دونوں علوم معاشرے کے خار جی قوانین اور اعداد و شمار کا مظالعہ کرتے ہیں،مگر موخر الذکر تاریخی مادیت اور سائنس میں مدغم ہو کر انسان کا رشتہ مادی اور روحانی زندگی سے جوڑ دیتی ہے،جہاں تجربی معروضیت اور معاشرتی معروضیت کے تناقصات اور تضادات اپنے آخری درجے میں مطابقت پذیر ی کے مراحل میں داخل ہو جاتے ہیں اور اجتماعی شعور کو اپنی سمت متعین کرنے میں دشواری پیش نہیں آتی اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب طبقات اور معاشرتی گروہوں میں نظریاتی فرق کی خلیج اتنی وسیع نہ ہو۔طبیعی سائنس اتنی پچیدہ نہیں ہوتی کیونکہ وہاں علمی تکرار ہوتی ہے اس لئے وہاں پچیدگی پیدا نہیں ہوتی اور علمی سفر کا سلسلہ تیزی سے طے ہوتا ہے،تجربی علوم کے ساتھ ساتھ معاشرتی سائنس پر اس وقت کا م کرنے کی زیادہ ضرورت اس لئے محسوس کی جا رہی ہے کہ معاشرتی زندگی جس میں معاشیات وسیاسیات دو ایسے بڑے شعبے ہیں جن کو اب تک کہیں بھی مکمل طور پر معاشرتی سائنسی فلسفے کے قریب نہیں لایا جا سکا اور طبیعی سائنس میں ترقی کرنے کے باوجود انسان خوف ،غربت ، معاشرتی تفریق، تعصب ا ور وحشت کے زیر اثر جینے پر مجبور ہے۔ چہ جائیکہ انسان کو تمام اشیا پر تقدم اورمرکزیت حاصل ہے۔ یہ واحد معاشرتی سائنس ہی ہے جس نے اس کو اپنا اصلی مقام دلانا ہے،کیونکہ تجربی علوم کا معاشرتی سائنس کی عدالت میں جواب دہ ہونا باقی ہے۔بقول آئن سٹائن ایٹم کو توڑا جا چکا ہے،اب تعصب کو توڑنا باقی ہے۔،،
(جاری ہے)