تخلیق و تنقید اور ہمارے فکری رویے

(جلیل عالی)

[معزز حاضرین !سب سے پہلے تو مجھے سیکریٹری صاحب حلقۂ اربابِ ذوق کھوڑ ،مجلسِ عاملہ اور تمام اراکینِ حلقہ کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ انہوں نے مجھے اس تقریب میں مدعو کرکے میری عزت افزائی فرمائی اور آپ سے ہم کلام ہونے کا اعزاز بخشا۔کھوڑ کے اربابِ ذوق شعر و ادب کے بڑے مراکز سے دور ہونے کے باوجود اپنی بے لوث ادبی وابستگی، محنت اور لگن سے تخلیق و تنقید کے میدان میں جس سرگرمی سے حصہ لے رہے ہیں وہ بے حد لا ئقِ تحسین ہے۔یہ اسی محنت اور لگن کا ثمر ہے کہ آج حلقۂ اربابِ ذوق کھوڑ ادبی دنیا میں اپنی ایک معتبر پہچان بنا چکاہے۔]

انجمن ترقی پسند مصنفین کی چلائی ہوئی ترقی پسندتحریک بلا شبہ اردو ادب کی سب سے بڑی تحریک کی حیثیت رکھتی ہے۔لیکن ہماری ادبی و فکری زندگی پر حلقۂ اربابِ ذوق کے اثرات کی وسعت و گہرائی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔بلکہ حلقے کو تو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ جہاں وقت گزرنے کے ساتھ ترقی پسند تحریک کا زور شور ماند پڑ گیا وہاں حلقۂ اربابِ ذوق کی نشستوں کی رونق بدستور قا ئم و برقرار ہے۔ یہ ساری رونق حلقے کے ایک آزاد فکری و ادبی فورم ہونے کی عطا ہے۔اگرچہ حلقے کا آغاز بڑی حد تک ترقی پسند تحریک کی سیاسی و معاشرتی منشوریت کے مقابل فن پارے کی ادبی و تخلیقی قدر و قیمت کو اوّلیت دینے کے حوالے سے ہوا تھامگر اظہارِ رائے کی آزادی کے ناتے کسی بھی فورم کا مزاج آخر آخر اس میں باقاعدہ اور فعال شرکت کرنے والے اصحابِ فکرو دانش کے مجموعی فکری رویوں ہی سے متعین ہوتا ہے۔چنانچہ مختلف ادوار میں شرکاء کے مجموعی رجحانات کے اتار چڑھاؤ سے حلقۂ اربابِ ذوق کا مزاج بھی تبدیل ہوتا رہا ہے۔حلقے کی تاسیس کے کچھ ہی عرصے بعد اس کی بحثوں میں بھی سماجی و سیاسی حوالے نمایاں ہونے لگے ۔اور ایک زمانے میں نظریاتی شدّت پسندی کا درجہ حرارت اس حد تک بڑھ گیاکہ حلقۂ اربابِ ذوق لاہور کو تقسیم کے المیے سے دو چار ہونا پڑ ا۔اور حلقۂ اربابِ ذوق ادبی کے نام سے ایک اور حلقے کی بنیاد پڑی جس میں انتظار حسین کے ساتھ حبیب جالب بھی موجود تھے ۔ان تمام باتوں کے باوجود حلقے کے زندہ و متحرک رہنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں ہر کسی کوکسی بھی نقطۂ نظر سے اپنی بات کہنے کی پوری آزادی ہوتی ہے۔یوں یہ حلقے ادبی مکالمے ، اختلاف رائے کو برداشت کرنے اور نئے لکھنے والوں کی
تربیت کے لحاظ سے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ان حلقوں میں ہونے والی بحثوں کی باز گشت ادبی جریدوں، ادبی و فکری تقریبات میں پڑھی جانے والی تحریروں اور نظری و اطلاقی تنقید کی مبسوط کتابوں تک میں سنی جا سکتی ہے۔حلقے کی ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ خرابی کے کچھ پہلو بھی ہیں۔مثلاً
۱۔بعض اوقات اختلافِ رائے ایسی مناظراتی صورت اختیار کر جاتا ہے کہ ایک دوسرے کو مات دینے کی کوشش میں زیرِبحث موضوع یا فن پارہ بُری طرح نظر انداز ہوجاتاہے اور بات کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے۔
۲۔یہ بھی ہوتا ہے کہ بحثوں کے دوران تخلیق کار سے ایسے ایسے غیر تخلیقی فکری و نظریاتی مطالبے کئے جاتے ہیں جو تخلیقی عمل کی لطافت اور بے ساختگی سے مطابقت نہیں رکھتے۔ایسے مطالبوں کی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ ایک جینوئن تخلیق کار کوحلقے کے فوائد سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے مضر اثرات سے بچنے کی حکمت سے بھی لیس ہونا چاہیئے۔کیونکہ دیکھنے میںآیاہے کہ کئی اچھے تخلیق کار ان بحثوں کے زیرِ اثرکامیاب بحثئے تو بن جاتے ہیں مگر اپنے تخلیقی جوہر سے یا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہاتھ دھو لیتے یا اسے بُری طرح مجروح کر بیٹھتے ہیں۔
باقی رہ گئی ذاتیات اور اگلے پچھلے حساب چکانے کی بات تو اسے میوزک آف دی گیم سمجھئے۔

تمام تر جمع تفریق کے بعد بڑے وثوق کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ نقصانات کے مقابلے میں حلقے کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔حلقے کی ایک نہایت اہم خوبی یہ ہے کہ یہاں شعبۂ تنقید کے خصوصی ماہرین کے ساتھ ساتھ ہمیں معتبرتخلیق کاروں کے تنقیدی خیالات سے مستفید ہونے کا موقع بھی ملتا ہے۔تخلیق کار چونکہ خود بار بار تخلیق کے پیچیدہ اور پُراسرا رعمل سے گزرتے ہیں ، لہٰذا صاحبانِ حال ہونے کے با وصف ان کی باتوں میں بعض ایسے قیمتی نکات اور لطیف اشارے سامنے آتے ہیں جو نہ صرف زیرِ بحث فن پارے کی بہتر تفہیم میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں بلکہ تنقید کے خصوصی ماہرین کو بھی بہت کچھ سجھا جاتے ہیں۔
حاضرینِ کرام!حلقے کے فوائد و نقصانات سے ہٹ کر میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قلمکاروں کے عمومی فکری رویوں کے حوالے سے کچھ باتیں آپ کے ساتھ شیئر کروں ۔تقریباً پیتالیس سال سے حلقے کی نشستوں میں حاضر ی دیتے چلے آنے، ادبی تنقیدی تحریروں، ادبی و فکری دنیا کی معتبر شخصیتوں کے مصاحبوں اور دیگر اظہاریوں کامطالعہ کرتے رہنے سے مجھے ہمیشہ یہ احساس ہوا ہے کہ ہماری تنقیدی تحریریں ،تبصرے اور تجزیے ہماری تخلیقی کاوشوں سے پورا انصاف نہیں کر پاتے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی فکری و تہذیبی اور تخلیقی روایت کی کُلیت سے بے تعلق ہو کر ہم مغرب سے مستعار تنقیدی معیارات پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔تخلیقی واردات ایک معاشرے میں رہتے ہوئے تخلیق کار کے شعور ولاشعور ، معلوم و نامعلوم ، یقین و تشکیک ، حقیقت و خواب ،اور موجود و امکان کا پیچیدہ اور مرکب مظہر ہوتی ہے۔لہٰذا کسی بھی زبان کے شعر و ادب کی صحیح تفہیم اس کی فکری و تہذیبی اور تخلیقی روایت کی تمام سطحوں کے گہرے شعور کے بغیر ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔مغرب بے شک صنعتی اور مادی ترقی میں ہم سے بہت آگے ہے،مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ادبی و تہذیبی تجزیوں اور محاکموں میں بھی اسی کے معیارات کو حتمی تصور کر لیا جائے۔ہماری فکری و تہذیبی روایت ایک ایسے کلی تصورِ حقیقت پر استوار ہے جو جملہ مراتبِ وجود کو تسلیم کرتا ہے۔مغربی علم و فکرمدتوں پاپائیت کے ہاتھوں یرغمال بنے رہنے کے جس تجربے سے گزرا اس کے ردِ عمل میں اس کی فکریات نے زندگی کے روحانی و مابعدالطبیعیاتی پہلو سے لا تعلقی کی راہ اختیار کرلی۔ پھر سرمایہ دارانہ نظام کے مزعومہ مفادات کے تسلسل اور یک قطبی دنیا میں عالمی سامراج کے گھناؤنے مقاصدسے ہم آہنگ فلسفوں نے عالمگیر انسانی وفاداری پر مبنی کسی بڑے نصب العین کی خاطر اشتراکِ فکر و عمل کے راستے ہی دھندلادئیے ۔نتیجہ یہ کہ آج دنیا چنگیزی کے نت نئے خونی تماشے دیکھنے اور بھگتنے پر مجبور ہے۔
ہمارے ہاں نیچر کے مادی مظاہر ہی کو سب کچھ سمجھ لینے کے مغربی اندازِ فکر کے تفریطی اثرات کا آغاز سر سید تحریک کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔تعلیمی میدان میں شاندار خدمات کے باوجودمغربی فکر و تہذیب سے سر سیدکے مطابقت پذیر افکار کا ایک اثر یہ ہوا کہ جس زمانے میں ہماری غزل اپنے روحانی و مابعدالطبیعیاتی جوہر کی سلامتی اور حیات افروزکارفرمائی سے صیاد، گل چیں،دانہ و دام،زندان و زنجیر اور جنون و سوداکی علامتوں کے ذریعے انگریز سامراج کے خلاف مزاحمتی رویے ابھار رہی تھی مولانا الطاف حسین حالی جیسے صاحبِ ایمان دانشور نے اپنی فطری سادگی میں جہادِ آزادی کی پاداش میں پھانسی پا جانے والے باپ کے فرزندمولانا محمد حسین آزاد کے ساتھ مل کرانجمن پنجاب کے زیرِ اہتمام چاندنی رات ، برسات اور بہارجیسے بے ضررعنوانات پر نظموں کے موضوعاتی مشاعروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔یہ الگ بات ہے کہ ہماری فکری تہذیبی روایت کی توانائیوں نے بہت جلدنظم کو بھی اپنی جملہ جہتوں کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ آزادی و مزاحمت کا آئینہ دار بنا دیا۔پاپائیت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہوئے عدم توازن کا شکار ہوجانے والی جدیدیت کے پھیلتے اثرات  کے زمانے میں ہمیں اقبال کی عظیم شعری واردات اور فکری تشکیلات نے احساس دلایا کہ ہماری فکری تہذیبی روایت میں نہ تو پاپائیت کی کوئی گنجائش ہے اور نہ اسلام ان معنوں میں مذہب ہے جن معنوں میں تاریخ کوعیسائیت کے تجربے سے گزرنا پڑا۔اسلام تو فروغِ خیر کے حوالے سے اقدام و عمل کی ایک مسلسل سماجی و تہذیبی تحریک کا نام ہے۔مگر ہم نے دیکھا کہ جب اقبال اپنے عہد کی عالمی دانش اور بعض تحفظات کے ساتھ اشتراکیت کی غالب انقلابی سوچ کو سمو کرایک ایسا مربوط اورہمہ جہتی ویژن سامنے لا چکے تھے جس میں اسلام کے چہرے سے عرب کلچر کی استعماری چھاپ اتارنے کاعندیہ بھی موجود تھا،اس وقت مغربی جدیدیت کے پروردہ دانشوروں کے ساتھ ساتھ ہماری سب سے بڑی ادبی تحریک کے نظریہ ساز بھی کلی تصورِ صداقت سے رشتہ توڑ کر اپنی فکری تہذیبی روایت کے مرکزی بہاؤسے الگ راستے پر چل پڑے۔اور بھول گئے کہ ترقی پسندی خلا میں معلق نہیں رہ سکتی ۔کسی بھی معاشرے کی زندہ و حیات پرور قدروں اور اس کی معروضی صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کی گئی نظریہ سازی ہی نتیجہ خیز ہو سکتی ہے ۔چنانچہ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی روایت کی حقیقی توانائیوں سے لا تعلقی پر مبنی منشوری پیغام کے مربوط ابلاغ کے مطالبے کی بنا پر ایک بار پھر غزل زیر عتاب آئی اور اسے منتشرالخیال اور نیم وحشی صنفِ سخن قرار دے دیا گیا۔یہ شاید اس لئے بھی ضروری سمجھا گیا کہ فراق جیسااہم شاعربھی غیر مسلم ہونے کے باوجود یہ کہہ رہا تھا کہ اسلامی فکری و تہذیبی روایت سے بے تعلق ہو کر غزل لکھی ہی نہیں جاسکتی۔
اقبال کے ہمہ جہت فکری و شعری ویژن سے بدکنے کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے ایک اجلاس میں انہدامِ اقبال کے لئے باقاعدہ قرارداد منظورکر ڈالی گئی۔فیض کے سوانح نگار ڈاکٹر ایوب مرزا ’ہم کے ٹھہرے اجنبی‘ میں لکھتے ہیں کہ فیض صاحب ناراض ہو کر اس اجلاس سے اٹھ آئے اور پھر کبھی شریک نہ ہوئے۔انجمن کے مجموعی اندازِ فکر میں تو کوئی اہم تبدیلی واقع نہ ہو ئی تاہم اتنا ضرور ہوا کہ اجتماعی ردِعمل کے احساس سے دو اڑھائی سال کے بعد اس فیصلے پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے قرارداد واپس لے لی گئی۔اقبال کے حرکی و انقلابی نظریات کی روحانی بنیاد کو قبول کرنا تو در کنار
مغربی جدیدیت کے پیروکار اہلِ فکر ہوں یا ترقی پسند دانشور دونوں کواپنی فکری تہذیبی روایت کے روحانی و مابعدالطبیعیاتی پہلو سے اتنی اعتنا بھی گوارا نہ ہوئی جتنی کہ کلچر کا ایک جز وِ ترکیبی ہونے کی حیثیت سے لازم ٹھہرتی ہے۔پروفیسر ممتاز حسین
نے فیض صاحب پر اپنے ایک مضمون میں لکھ تو دیا کہ’’ دنیا کا کوئی بھی علم ایسا نہیں جو شعری معرفت کی جگہ لے سکے‘ ‘ مگر ترقی پسند نقادوں سے عملی طور پرہماری ہمہ پہلو شعری معرفت سے پورا رشتہ جوڑنے کا مرحلہ سر نہ ہو پایا۔دوسری طرف رینے
گینوں کے سکونی تصورِحقیقت پر یقین رکھنے والوں نے بھی اقبال کے بر عکس روایت کا ایساماورائی نظریہ پیش کیا جو تاریخی عمل سے بے اعتنائی کے سبب زندگی کی تگ و دَو میں فعال شرکت کے ولولے ہی سے تہی تھا۔

اشتراکی روس کے زوال کے بعد یک قطبی دنیا میں عالمی سامراج کی طرف سے نئے عالمی نظام کے آغاز کے ساتھ ہی خاتمۂ تاریخ کااعلان کر دیا گیا اور مابعد جدیدیت کا چرچا شروع ہوگیا۔ اُن دنوں یو۔ایس۔اے میں یونیورسٹی کی سطح پر ایک طویل عرصے سے تدریسِ ادب کی خدمات سر انجام دینے والے نقاد اور دانشور ستیہ پال انندحلقۂ اربابِ ذوق راولپندی میں تشریف لائے۔پہلے تو انہوں نے فیض کی شاعری کے خلاف کھل کر دل کا غبار نکالاپھر ہمیں مشورہ دیا کہ ایک تو عربی عروض کے اوزان سے پیچھا چھڑاکر مقامی اوزان استعمال کریں ،دوسرے غزل کی بجائے نظم لکھا کریں اوروہ بھی ایسی جو ترجمہ ہوسکے۔مطلب وہی کہ ہماری تخلیقی واردات کی سا لمیت قبول نہیں۔اگر کسی کو ہماری تہذیبی کلیت پسندنہیں تو اس کی کوئی معذوری ہو گی ،ہمیں اپنے تہذیبی تشخص اور تخلیقی واردات کی تخفیف کیسے قبول ہو سکتی ہے۔ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہئیے کہ یہ جو وقفے وقفے سے غزل کے خلاف محاذ کھول دیا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ غزل دنیا جہان کے موضوعات سمیٹ لینے کے باوجوداپنے تہذیبی تشخص سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوتی۔
ایک اور مؤلہ شعر و ادب کے تخلیقی و تنقیدی اور علمی و تحقیقی مطالعے میں فرق کو نظراندازکرنے کا بھی ہے۔علمی و تحقیقی مطالعے میں تخلیق کار یافن پارے کے کسی ایک پہلو کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے،جب کہ ادبی تنقید تخلیق کار کے کلی تشخص اور فن پارے کی مجموعی ادبی وفکری قدرو قیمت تک رسائی کاجتن کرتی ہے ۔یونیورسٹیوں کے ادبی شعبوں میں زیادہ ترعلمی و تحقیقی نوعیت کے تعلیمی مقالے لکھوائے جاتے ہیں۔اس طرح کے تحقیقی کاموں کی اہمیت اپنی جگہ،مگر انہیں کسی صورت تخلیقی تنقیدی کاوش قرار نہیں دیا جا سکتا۔آج کل ہمارے ادبی جریدوں میں تنقید کے نام پر ایم۔ اے ،ایم ۔ فل اور پی ۔ایچ ۔ڈی کے تحقیقی مقالات کے مختلف ابواب شائع کرنے کی روش عام ہو رہی ہے ۔ان تحریروں کے لکھنے والے اتنا بھی نہیں کرتے کہ ادبی پرچوں میں چھپوانے سے پہلے ان پر نظرِثانی کر کے ایسے حصے ہی حذف کر دیں جو تحقیق کے خالص درسی و اکادمیاتی تقاضوں کو سامنے رکھ کر شامل کئے گئے ہوتے ہیں اور تنقیدی لحاظ سے غیر ضروری باتوں کے باعث تحریر کوبے  جاطوالت سے ہمکنار کر تے ہیں۔

پھرحد سے بڑھی ہوئی نظریہ پسندی بھی ادبی تخلیقات پر محاکمہ کاری کے ایسے ایسے نمونے سامنے لاتی ہے جو افراط و تفریط کا شاہکار ہوتے ہیں۔ایسی تحریروں میں جن مندرجات کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ تخلیق کار کی تخلیقات میں موجود تو
ہوتے ہیں مگر اس کے پورے کام میں ان کی حیثیت ایک جزو کی ہوتی ہے۔مثال کے طور پر اگر مجید امجد کی شاعری میں
طبقاتی شعور کی موجودگی کی طرف اشارہ کیا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔لیکن مجید امجد کو مجموعی حیثیت سے طبقاتی شعور کا شاعرقرار دے ڈالنااس کی تخلیقی و فکری کلیت سے سراسر نا انصافی کے مترادف ہو گا۔ اسی طرح ن،م راشدکے سر احیائے اسلام کے نصب العین کا سہرا باندھنے یافیض کو مولانا روم جیسا مسلمان ثابت کرنے کی کوشش یا دوسری طرف دونوں کو اپنی تہذیبی اقدار کا دشمن بنا کر پیش کرنے کی کارروائی نظریاتی انتہا پسندی ہی نہیں دیانتِ حر ف کی پاسداری کے بھی خلاف متصورہو گی۔
بڑے بڑے نقادوں اور اور ثقہ قلمکاروں کی ذاتی پسند و ناپسند بھی بعض اوقات مبالغے کی ایسی انتہاؤں کو چھونے لگتی ہے کہ منصفانہ نقد و نظر کے تقاضے بری طرح پامال ہوتے ہیں۔ کوئی ظفر اقبال کو غالب سے بڑا شاعر قرار دینے کا مضمون باندھتا ہے تو کوئی اسے صرف مقدار کا شاعر ٹھہرانے پر اُتر آتا ہے ۔
عدم توازن کی ایک اور صورت یہ ہے کہ ہم تخلیقات کی اپنی مرکزی معنویت کو سامنے رکھنے کی بجائے متداول فکری کلامیوں کے مقبولِ عام خیالات کی تکرار سے آگے نہیں بڑھتے۔یہاں تک کہ اچھے بھلے تخلیق کار خود اپنی تخلیقات کے مرکزی خیالات و معانی کے برعکس نقطۂ نظر کو بڑے شد و مد کے ساتھ پیش کر رہے ہوتے ہیں ۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہماری تخلیقات میں ہماری فکری تہذیبی روایت اپنی جملہ جہتوں کے ساتھ پوری طرح زندہ و سلامت ہے ۔اگر ہم اپنے فکری رویوں کی تشکیل میں خود اپنی مرکزی تخلیقی واردات کی معنویت کو پیشِ نظر رکھیں اوراظہارِ خیال میں اس سے مخلص رہیں تو اِدھر اُدھر بھٹکنے سے بچ سکتے ہیں۔آج اگر یوسف حسن جیسا سنجیدہ مارکسی دانشور اور نقاداس نتیجے پر پہنچتاہے کہ اقبال کی روحانی ترقی پسندی نے ہمارے فکری اور سماجی رویوں کو جتنا آگے بڑھایا ہے اتناسائنسی ترقی پسند اہلِ فکر سے نہیں ہو سکا،تو مرے خیال میںیہ بات بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہماری فکری تہذیبی روایت اپنی ہمہ جہت اور ہمہ گیر اپروچ کے باعث ہر چیلنج کا جواب دینے اور اور تاریخی عمل میں فعال و متحرک رہنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(حلقۂ اربابِ ذوق کھوڑکے سالانہ اجلاس 2011 میں پڑھا گیا)