(تالیف حیدر)
عہد سر سید جس طرح اپنی کئی ایک خصوصیات کی بنیاد پر اردو زبان و ادب میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ، اسی طرح تدوین متن کی روایت کے آغاز و ارتقا کے لحاظ سے بھی اس کی بہت اہمیت ہے۔ تدوین متن کی شروعات اردو میں سر سید سے ہوئی ،جب انہوں نے آئینہ اکبری کا متن ایڈیٹ کیا۔ یہ ایک تاریخی کتاب ہے جو علم تاریخ کے علاوہ کئی اور اعتبار سے بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ حالاں کہ تدوین متن کے جن اصولوں پر سر سید نے آئینہ اکبری کی تدوین کی تھی بعد کے عہد میں اس سے بہت جامع اصول وضع ہوئے جن اصولوں کی روشنی میں اردو کے کئی اہم محققین نے مختلف کتب کو مدون کیا۔ سرسید کے تعلق سے یہ بات بھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ انہوں نے صرف آئینہ اکبری کو ہی ایڈیٹ نہیں کیا تھا ،بلکہ دیگر تاریخی کتب پر بھی ان کا اسی نوع کا کام ہے۔ مثلاً تاریخ فیروز شاہی از ضیا الدین برنی کے فارسی الاصل نسخے پر بھی ا ن کا مقدمہ ہے ،جسے انہوں نے ترتیب بھی دیا تھا، اسی نوع کے اور بھی کام سر سید نے کیے تھے ، پر یہ ایک المیہ ہے کہ اردو میں سرسید کو بحیثیت مدون بہت کم لوگ جانتے ہیں۔سر سید کے بعد اس حوالے سے اور بھی کئی نام قابل ذکر ہیں پر بحیثیت محقق و مدون جن لوگوں کو ہمارے یہاں بہت زیادہ شہرت نصیب ہوئی ان میں حافظ محمود شیرانی،قاضی عبدالودود، امتیاز علی خاں عرشی اور رشید حسن خاں وغیرہ کے نام سر فہرست آتے ہیں۔
رشید حسن خاں نے اردو میں باغ و بہار اور فسانہ عجائب جیسے کلاسکل متون کی تدوین کا کام انجام دے کر اردو میں تدوین کی روایت کو جتنا عروج و ارتقا بخشا ہے اس سے تمام اردو والے واقف ہیں۔ اپنے عمیق مطالعے اور کل وقتی مشاہدے سے خاں صاحب نے اردو میں املا ، انشا اور قوائد کے ایسے اصول وضع کیے جس سے جدید اردو رسم خط کی بنیاد پڑی اور اس رسم خط سے اردو میں تدوین کے حوالے سے نئے انقلابات رونما ہوئے۔ رشید صاحب سے قبل ایک نام قاضی عبدالستار کا بھی آتا ہے جو املا و انشا کے حوالے سے بڑا اہم ہے۔ پر تدوین کی رو سے قاضی صاحب کے بالمقابل رشید صاحب نے زیادہ اہم کارنامے انجام دیئے ہیں ۔ تدوین متن کے تعلق سے خاں صاحب نے فسانہ عجائب اور باغ و بہار دونوں کے مقدمات میں جو باتیں کی ہیں در اصل وہی ان کی تدوین متن کے توسط سے نظری تنقید کا نمونہ ہیں۔ جس کا implicationہمیں ان دونوں کلاسکل متون پر ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ مثلا ً اگر فسانہ عجائب پر خاں صاحب کے لکھے ہوئے مقدمے اور اس داستان کے متن کو غور سے پڑھا جائے تو متن کی تدوین کی ضرورت کے متعلق یہ اہم باتیں سمجھ میں آتی ہیں:
٭ قدیم متن کو پڑھنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔
٭ قدیم لفظیات پر حرکات کا اضافہ ہو جاتا ہے تاکہ ان کے صحیح تلفظ سے واقفیت حاصل ہو جائے۔
٭ متروک لفظیات کی حاشیے میں وضاحت کر دی جاتی ہے اور قدیم لغات سے اس کے معنی بھی دے دیئے جاتے ہیں۔
٭ متن میں punctuation (توقیف نگاری)کا اضافہ کر دیا جاتا ہے، تاکہ قاری کے لئے جملہ سمجھنا آسان ہو جائے۔
٭ گنجلک عبارت کی حاشیہ میں یا حوالے کے طور پر وضاحت پیش کر دی جاتی ہے۔
٭ آخر میں مشکل الفاظ کی فرہنگ دے دی جاتی ہے۔
یہ اصول رشید صاحب نے کہیں واضح طور پر لکھے نہیں ہیں ،پر جب تدوین متن کے حوالے سے ان کی نظری اور عملی تنقید کا مطالعہ کیا جائے تو ان باتوں کا علم ہوتا ہے۔ رشید صاحب کا فسانہ عجائب کی تدوین میں کافی عرصہ اسی لئے خرچ ہوا کیوں کہ انہوں نے اس کلاسکل متن کو متذکرہ بالا اصولوں کی روشنی میں مدون کیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اردو کے دیگر دو اہم محققین نے ان کے اس کارنامے کا اعتراف بھی کیا ہے اور اپنے تئیں اس کارنامے میں ہر طور شریک بھی رہے ہیں ۔ میری مراد ڈاکٹر خلیق انجم اور ڈاکٹر قمر رئیس سے ہے۔ ان دونوں حضرات کی رائے رشید صاحب اور ان کے اس کام کے متعلق کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں :
اس کام کو کس طرح کیا گیا ہے اس کا اندازہ اس ایک واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کام مکمل ہو چکا تھا ،متن کی کتابت بھی ہو چکی تھی،کہ اچانک ان کو اس کتاب کا ایک ایسا نسخہ ملا جس پر مصنف نے آخری بار نظر ثانی کی تھی۔رشید صاحب نے بلا تکلف پچھلے پانچ سال کے سارے کام کو کالعدم قرار دے دیا اور اب اس نئے نسخے کی بنیاد پر متن کو نئے سرے سے مرتب کیا۔غرض کہ اس کی تکمیل میں اس طرح کم وبیش آٹھ سال صرف ہوئے ہیں۔
(ص10،پیش لفظ،قمر رئیس ،فسانہ عجائب ،مصنفہ: رجب علی بیگ سرور،مرتبہ: رشید حسن خاںانجمن ترقی اردو ہند ،نئی دہلی)
فسانہ عجائب کا زیر نظر اڈیشن رشید حسن خاں صاحب کے تقریبا تیس سالہ تجربے اور ان کی سات ،آٹھ سالہ غیر معمولی محنت اور دیدہ ریزی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے پہلی بار طلبہ اور ان کے اساتذہ کے لیے ایسا متن تیار کیا ہے جو کلاسکی نصابی متنوں کی ترتیب کے نئے انداز سے ہمیں روشناس کراتا ہے اور مثال و معیار کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس میں مشکل الفاظ کا صحیح تلفظ نظروں کے سامنے آجاتا ہے ،فارسی ترکیبوں کو صحیح طور پر پڑھا جا سکتا ہے اور پیچیدہ جملوں کو صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے ۔ ضمیموں میں جو تشریحات ہیں ، ان کی مدد سے اس کتاب کے مشکل مقامات واضح اور روشن ہو جاتے ہیں ۔ میں اس تنقیدی اڈیشن کے بارے میں پورے یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ استاد اور طالب علم اس مشکل متن کو اب آسانی کے ساتھ پڑھ سکیں گے۔
(ص14،حرف آغاز ،خلیق انجم، فسانہ عجائب ،مصنفہ: رجب علی بیگ سرور،مرتبہ: رشید حسن خاںانجمن ترقی اردو ہند ،نئی دہلی)
فسانہ عجائب کے مقدمے اور متن کا مطالعہ کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ رشید صاحب نے فسانہ عجائب کا متن ایڈیٹ کرتے وقت کئی ایک اہم نکات کو اپنے پیش نظر رکھا تھا،جس کی بنیاد پر یہ کام اتنے جامع انداز میں مکمل ہوا۔ مثلا ً انہوں اپنے مقدمے میں مصنف کے متعلق صرف اہم اہم معلومات فراہم کی ہیں اور زیادہ تر اس کے متن کے متعلق بات کی ہے ، حالات زندگی کے تعلق سے انہوں نےنیر مسعود کی کتاب کی طرف اشارہ کر دیا ہے ، اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی کی ہےکہ ایک مدون کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ غیر ضروری مباحث میں نہ پڑتے ہوئے متن کے معاملات کی جانب زیادہ متوجہ ہو۔ متن کی طرف رجوع کرتے ہوئے انہوں نے اولین صورت میں متن کی اشاعتوں کے تعلق سے اہم معلومات فراہم کی ہیں اور علی الترتیب یہ بتایا ہے کہ فسانہ عجائب کس کس سن میں مصنف کی زندگی میں شائع ہوا اور کس کس سن میں ان کی حیات کے بعد ،مثلا ًمصنف کی حیات میں 1259،1263، 1267،1276،اور1280میں کل ملا کرپانچ مرتبہ شائع ہوا، اس کے بعد منشی نول کشور نے فسانہ عجائب کے حقوق اشاعت ان سے خرید لیے جس کے بعد یہ مستقل کئی مرتبہ منشی نول کشور کے پریس سے شائع ہو کر مناظر عام پر آیا۔ اس کے علاوہ 1862 میں مطبع مصطفائی سے اور 1882،1883 اور1912 میں مختلف مطابع سے شائع ہوا۔ الہ آباد سے پہلی مرتبہ 1928 میں اور دوسری مرتبہ 1976میں شائع ہوا جسے مخمور اکبر آبادی نے ترتیب دیا تھا اور اس کے ناشر رام نرائن لال بینی مادھوتھے۔ مصنف نے اپنی زندگی میں آخری بار جس نسخے کو دیکھا تھا وہ 1880 کا نسخہ تھا جس کے متعلق رشید صاحب نے بحیثیت مدون یہ انکشاف ظاہر کیا کہ اس نسخے کو ان سے قبل کسی مدون نے نہیں دیکھا ہے ، اس کے برعکس اس کی نقل جو 1882 میں مطبع منشی نول کشور سے شائع ہوئی تھی اس کو بنیادی متن بنا کر زیادہ تر مدون حضرات نےتدوین کا کام انجام دیا ہے۔ اس انکشاف کے بعد رشید صاحب نے بنیادی نسخے کو بنیاد نہ بنانے کی باعث دیگر مدون حضرات سے جو غلطیاں ہوئی ہیں اس کی بھی نشان دہی کی ہے۔ رشید صاحب کی اس تدوین سے اصول تدوین کے تعلق سے جو باتیں معلوم ہوتی ہیں ان میں ایک بات یہ بھی ہے کہ کسی متن کےنسخوں کی بہتات ہونے پر ان کو مختلف علامتوں کے ذریعے الگ کرنا اور اس میں سے بنیادی نسخے کو چننا کتنا اہم ہوتا ہے۔مثلاً از اول تا آخر نسخوں کو الف،ب،ج کی علامتوں سے نواز کر الگ کیا جاتا ہے یا کسی ایسی علامت کے ذریعے جس سے اس نسخے کے متعلق اہم معلومات اس علامت سے ہی فراہم ہو جائے۔ اس طور پر رشید صاحب نے فسانہ عجائب کے ان تمام نسخوں کو جو مصنف کی زندگی میں شائع ہوئے مختلف علامتوں سے واضح کیا ہے ۔مثلاً1259کانسخہ ح ہے، 1263 کانسخہ ض، 1267کانسخہ ک،1276کانسخہ ف اور1280کانسخہ ل ہے۔ اس سے نسخوں کی نشان دہی واضح انداز میں ہو جاتی ہے اور کسی قسم کا دھوکا ہونے کے امکان کافی حد کم ہو جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ فسانہ عجائب کے مقدمے کے طور پر بحیثیت مدون رشید صاحب نے جو باتیں کی ہیں اس سے اور تدوین شدہ متن کا مطالعہ کرنے سے جو اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں ان میں چند ایک مندرجہ ذیل ہیں :
٭ متن پر معاشرتی اثرات کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے ۔(حالاں کہ یہ خالص تنقید کا موضوع ہے۔)
٭ زبان کے ذیل میں املا ، انشا ، بیانیہ، قوائد، الفاظ کی نشست و برخاست، فصاحت و بلاغت ان تمام پہلووں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔
٭ اسلوب کی بحث سے خاظر خواہ واقفیت ہو جاتی ہے۔
٭ حوالہ و حواشی دینے کے طور طریقے سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔
٭ جملہ معترضہ تحریر کے درمیان کس طرح پیش کیا جاتا ہے اس سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔
٭ تدوین متن سے الفاظ کو درست انداز میں لکھنے کا طریقہ بھی معلوم ہوتا ہے ،مثلا ً خاں صاحب نے بلکہ کو ہر جگہ بل کہ لکھا۔
رشید حسن خاں نے تدوین فسانہ عجائب کے دوران وہ الفاظ اور جملے جس سے دبستان دہلی اور لکھنو کی بحث میں اضافہ ہو ا ان کو بھی نشان زد کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تدوین متن کے دوران ادبی ،تاریخی ،لسانی اور سماجی و معاشرتی باتوں کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے۔اسی طرح لکھنوی زبان کی ساخت کو بنانے اور سنوارنے میں فسانہ عجائب کا کیا کردار ہے اس پر بھی اپنے مقدمے میں روشنی ڈالی ہے۔ مثلا ً ایک جگہ لکھتے ہیں :
جس طرح ناسخ کی شاعری کی اندرونی فضا اور اس کا مزاج لکھنو کی اس نئی معاشرت کا آئینہ دار ہے۔ اسی طرح سرور کی نثر ،آرایش پسندی کے وسیلے سے اس معاشرت کے انداز و اطوار کی آئینہ داری کرتی ہے۔ناسخ اور سرور دونوں اپنے اسالیب بیان کے واسطے سے دبستان لکھنو کے نمایندہ افراد ہیں۔
(ص21،مقدمہ ، رشید حسن خاں، فسانہ عجائب ،مصنفہ: رجب علی بیگ سرور،مرتبہ: رشید حسن خاںانجمن ترقی اردو ہند ،نئی دہلی)
یہ بات ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ تدوین میں اصل بات متن کی صحت اور متعلقات متن کی وضاحت ہوتی ہے۔اور متعلقات متن میں وہ ساری باتیں آجاتی ہیں جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا۔اس کے علاوہ :
٭ تصحیح متن کے لئے نسخوں کا انتخاب تدوین متن میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
٭ منشائے مصنف/صحت متن/تذکیر و تانیث/زمانہ تصنیف/مختلف نسخوں کی نشاندہی اور ان کا تعارف
یہ تمام باتیں بھی اتنی ہی اہم ہیں ۔
فسانہ عجائب کی رشید صاحب نے جس نوع کی تدوین کی ہے اس کی وقعت کا اندازہ ان چند باتوں سے لگایا جا سکتا ہے کہ فسانہ عجائب کے عنوان سے انہوں نے جس طرح کی بحث کی ہے ، جس ضمن میں فسانہ عجائب/فسانہ عجیب/قصہ انجمن آرا اورقصہ جان عالم وغیرہ کے عنوانات کو مختلف حوالوں سے پیش کرتے ہوئے فسانہ عجائب کو ہی مدلل انداز میں درست ثابت کیا ہے ۔ وجہ تصنیف پر جس طرح مفصل بحث کی ہے اور زمانہ تصنیف سے بحث کرتے ہوئے جن اہم نکات کو پیش کیا ہے یہ سب باتیں ان کو ایک سنجیدہ مدون کے طور پر پیش کرتی ہیں ۔ متن پر کتنی سنجیدگی سے کام کیا ہے اس کی بہترین مثال محبوب/ صاحب فرمائش /آشنائے پر مزہ یابامزہ کی بحث سے ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً یہ بات دیکھنے میں کچھ زیادہ اہم معلوم نہیں ہوتی کہ ایک مقام پر جہاں لفظ محبوب کا استعمال پہلے نسخے میں کیا ہو وہاں بعد کے نسخے میں صاحب فرمائش لکھ دیا ہو ۔ پر جو لوگ رشید صاحب کا مقدمہ پڑھیں گے اور فسانہ عجائب کے متن کا مطالعہ کریں گے انہیں اس بات کا علم ہوگا کہ لفظ محبوب اور صاحب فرمائش یا پر مزہ یا پھر با مزہ سے مصنف کی زندگی کے کئی راز اجاگر ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ایک جملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے صحیح معنی کی جس طرح نشان دہی کی ہے اس سے تدوین متن کے لئے لغت اور معنی کی فہم ایک مدون کے لیے کتنی ضروری ہے اس کا انکشاف ہوتا ہے۔ فسانہ عجائب کے اس جملے کو کوٹ کرتے ہوئےکہ:
اسی دن سے ہمیشہ اس خیال میں رہتا تھا،عدم فرصت سے نہ کہتا تھا:
لکھتے ہیں:
نہ کہتا تھا یہاں نہ لکھتا تھا کے مفہوم میں آیا ہے ۔اس طرح کی خامیاں سرور کی عبارت میں اچھی خاصی تعداد میں پائی جاتی ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رشید صاحب کو اس عہد کی لکھنوی زبان پر کتنی دسترس حاصل تھی۔
آخر میں میں چند ایک ضروری باتوں کی جانب بھی اشارہ کرنا چاہوں گا جس کا ادراک مجھے فسانہ عجائب پر لکھے ہوئے رشید صاحب کے مقدمے اور فسانہ عجائب کے متن کو پڑھ کر ہوا کہ ایک مدون کے لیکن ان تمام باتوں کے علاوہ جن کو ہم اوپر گنوا چکے ہیں اور کیا کیا ضروری ہے:
٭ ترتیب متن میں اشخاص اور جگہوں کی تفصیل حاشیہ ، حوالے یا اشاریہ کے ذریعے دینا ناگزیر ہے۔
٭ متن میں موجود مجہول باتوں کی گرفت بھی مدون کو کرنا چاہیئے، جس کی ایک اچھی مثال سرور کا کان پور میں رہنے کا واقعہ ہے جس کی گرفت رشید صاحب نے کی ہے اور اس کی حقیقت نیر صاحب کی زبانی بیان کی ہے۔
٭ ہجری اور سنین کےتبادلے پر گہری نگاہ بھی ایک مدون کی خاصیت ہے۔ جس کےلئے مدون کی معیاری تقویم پر نگاہ ہونا ضروری ہے۔
٭ فسانہ عجائب میں زیادہ تر اشعار نوازش کے ہیں ۔جو انہوں نے اپنے شاگر کی داستان لکھنے کے دوران یا اس کی تصحیح کے دوران اس میں شامل کیے یا کروائے ہیں ۔ایسے واقعات کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ مدون کی تاریخ ادب اور متن کے متعلقات پر نگاہ ہونی چاہیئے۔
ان سارے معاملات پر رشید صاحب کی گرفت بہت زیادہ مضبوط تھی، لہذا اسی لیے انہیں ایک ماہر مدون قرار دیا جاتا ہے۔