ناصر عباس نیر
اردو میں مابعد جدیدیت پر اعتراضات ایک طرف مذہب ؍روایت پسند وں نے کیے ہیں،اور دوسری طرف ترقی پسندوں نے ۔روایت پسندوں کا بنیادی اعتراض اپنی اصل میں مابعد الطبیعیاتی نوعیت کا ہے،جب کہ ترقی پسندوں کے اعتراضات کا مرکزی نکتہ سماجی ہے۔ روایت پسندوں کا مفروضہ ہے کہ مابعد جدیدیت ،مصنف کی نفی کے تصور اور متن کی کثیر تعبیروں کی حمایت کرکے دراصل الہامی متن کے خالق کا انکار کرنا چاہتی ہے ،اور اس کے بنیادی ، واحد معنی کے سلسلے میں ابہام کو فروغ دینا چاہتی ہے؛نیز کبیری بیانیوں کی مخالفت سے دراصل مذہب کے کبیری بیانیے کا خاتمہ چاہتی ہے۔ گویا مابعد جدیدیت کا اصل ایجنڈا ادبی نہیں ،مذہب شکنی ہے۔ دوسری طرف ترقی پسندوں کا اصرار ہے کہ مابعد جدیدیت خالی لسانی مباحث ہیں ،جو ہمیں حقیقی مادی سماجی مسائل سے دور لے جانا چاہتے ہیں؛مابعد جدیدیت، کبیری بیانیے کی مخالفت سے مارکسی کبیری بیانیے کا خاتمہ چاہتی ہے۔ چوں کہ یہ مباحث سرمایہ دارانہ مغرب سے آئے ہیں ، اس لیے یہ سامراجی وسیاسی ایجنڈا رکھتے ہیں۔جدیداردو ادب کی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ ہے کہ روایت پسند اور ترقی پسند ،ایک تھیوری کی مخالفت میں ہم آواز ہیں۔ایک نکتہ ء اعتراض تو دونوں میں مشترک ہے: متن کی کثیر تعبیروں کا۔ روایت پسندوں کی نظر میں’ واحد الہامی معنی ‘ اور ترقی پسندوں کے نزدیک’ واحد سماجی معنی ‘کثرتِ تعبیر کا نشانہ بنتا ہے۔
معلوم نہیں، کتنوں کی توجہ ان تناقضات کی طرف گئی ہے ،جو ان اعتراضات کے پس پشت ،اور ان کی بنیاد میں موجود ہیں۔ پہلا تناقض یعنی پیراڈاکس یہ ہے کہ روایت پسند اور ترقی پسند ،اپنی فکر اور تاریخ کے اعتبار سے قطبین کا فرق رکھتے ہیں۔روایت پسند مادے پر شعور ؍روح کو فوقیت دیتے ہیں، جب کہ (کلاسیکی)ترقی پسند فکر کا اساسی نکتہ یہ ہے کہ شعور ،مادے کی پیداوار ہے۔ایک کی نظر میں معنی ،شعور فاعلی کی تخلیق ہے ،اور دوسرے کے نزدیک معنی ،سماجی رشتوں کی پیداوارہے۔( یہاں تخلیق اور پیداوار کا فرق بھی پیشِ نظر رہے) ۔ لہٰذا ایک کے یہاں معنی واحد ،حتمی، مطلق ہے ،کیوں کہ مابعد الطبیعیاتی ہے ، جب کہ دوسرے کے مطابق معنی ، آئیڈیالوجی کی طرح واضح ،منظم اور مکمل ہے ،کیوں کہ حقیقی طبقاتی کشمکش کی پیداوارہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ ترقی پسند علمیات میں معنی کے مطلق یعنی لازمانی ہونے پر اصرار نہیں(جس طرح کہ روایت پسند علمیات میں ہے)،کیوں کہ تاریخی حالات کی تبدیلی سے معنی اور آئیڈیالوجی بد ل سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو ترقی پسند علمیات میں کثرتِ تعبیر کی ،مخصوص تاریخی حالات میں گنجائش نکل آتی ہے۔لیکن معاصر اردو ترقی پسند تنقید کی توجہ ا س گنجائش کی طرف نہیں۔ مذکورہ اعتراضات میں دوسرا تناقض یہ ہے کہ دونوں باہم متحارب تنقیدی نظریے، کثرتِ تعبیر کی مخالفت میں ،خود کثرتِ تعبیر کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ وہ بہ یک وقت مابعد جدیدیت کے مذہب دشمن ہونے اور سامراج حامی ہونے کی قطعی متضاد تعبیریں کرتے ہیں،اسی طرح مابعد جدیدیت کے کبیری بیانیے سے مراد بہ یک وقت ، مذہب اور مارکسیت لیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا دو متحارب نظریوں نے مابعدجدیدیت کی صورت میں ایک مشترکہ دشمن تلاش کرلیا ہے ،اوراپنے اختلافات پس پشت ڈال کے، اس کے خلاف اپنے روایتی ،کلاسیکی ہتھیاروں سے مورچہ بند ہوگئے ہیں؟یا دونوں نے اپنے اپنے تصورِ حقیقت و معنی پر سمجھوتہ کرلیا ہے؟ یعنی دونوں نے یہ تسلیم کرنا شروع کردیا ہے کہ الہیاتی وسماجی معنی ایک ہی جگہ ،اور ایک ہی وقت میں موجو دہوسکتے ہیں؛ یعنی مابعد جدیدیت جب واحد سماجی معنی کی تحلیل کا تصور پیش کرتی ہے ،تو اس کی زد میں واحد الہیاتی معنی بھی آجاتا ہے۔اسی طرح اگر یہ سمجھا گیا ہے کہ ما بعد جدیدیت کے کبیری بیانیے کے تصور میں بہ یک وقت مذہب اور مارکسیت کے کبیری بیانیے شامل ہیں تو پھر ہمیں مابعد جدیدیت کے نظری تخیل کی ہمہ گیری کی داد دینی پڑے گی ،جس میں کئی عظیم نظریات کو بہ یک جنبش متزلزل کرنے کی صلاحیت ہے۔ مابعد جدیدیت کے ضمن میں ترقی پسندوں اور روایت پسندوں کے اشتراکِ نظرکا ایک ممکنہ باعث یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں اپنی اصل ،اپنی ابتدایعنی Originسے جڑے رہنا چاہتی ہیں،اور اس کے لیے ضروری سمجھتی ہیں کہ وہ ’اصل ‘کے وحدانی اور قدیمی اور اساسی تصور کی حفاظت کریں۔دنیا کے تمام شدت پسندانہ تصورات کا بڑاسبب،کسی ’قدیمی اساس‘ کو اس کی حقیقی شکل میں ،ہر حال میں ،اور ہر قیمت پربرقرار رکھنے پر اصرارہے۔یہ اصرار ہر اس تبدیلی کے خلاف صف آرا ہونے کی ترغیب دیتا ہے، جو ’قدیمی اساس‘پر نئی تعبیر کے لیے دباؤ ڈالتی محسوس ہو۔ نئی تعبیر کے دباؤ کو ’قدیمی اساس’ پرحملہ تصو ر کیاجاتا ہے۔حالاں کہ نئی تعبیر کا دباؤ، کسی بھی ’قدیمی اساس‘ کو اپنے خول سے باہر آنے ،اور رفتہ رفتہ طاری ہونے والی بیگانگیت سے آزاد ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے ؛وہ اس بات کے لیے زمین ہموار کرتا ہے کہ ’قدیمی اساس‘ نئے سرے سے، نئی زبان میں ،نئے استدلال میں خود کو دنیا کے سامنے پیش کرے،اور اسی دوران میں خود اپنے اندر مضمر ان معانی کو بھی سامنے لائے ،جو پہلے سامنے نہیں آسکے تھے،اور جن میں نئے زمانے کے سوالات کا سامنا کرنے کی سکت ہے۔
ایک اور زاویے سے دیکھیں تو یہ سب اعتراضات ، مابعد جدیدیت کی بعض بنیادی شقوں کو بالواسطہ،اور قدرے معصومانہ انداز میں قبول کرنے کی گواہی دیتے محسوس ہوں گے۔ مثلاًیہ کہ ہم متن کے ایک ایسے معنی تک نہیں پہنچ سکتے ،جو معروضی ہو،یعنی سب ( لوگوں، ہر صنف کے افراد، ہر زبان اور ہر قوم کے افراد، مختلف ذہنی و نظریاتی وابستگی کے حامل افراد)کے لیے یکساں ہو، اورہر طرح کے تاریخی حالات میں اپنی واحد صورت کو قائم رکھے۔’معروضی معنی ‘کا تصور سائنسی عقلیت پسندی کا قائم کردہ ہے۔ سائنس ،مادی اشیا و مظاہر کی تحقیق میں جس ایک بے خطا نتیجے پر پہنچتی ہے،اسے سائنسی عقلیت پسندی ،تما م سماجی و ادبی مطالعات تک لے گئی؛چناں چہ جدیدیت کے عہد میںیہ سمجھا جانے لگا کہ ہر سماجی مظہر ،ہر ادبی متن اور ہر ثقافتی علامت یا نشان کا ایک ، معروضی معنی ہے،جس کی تصدیق کوئی بھی شخص ،کسی بھی طرح کے تناظر میں کرسکتاہے؛گویا معنی:تناظر ،لمحہ ء قرأت ا ور قرأت کے عمل، تینوں سے آزادوجود رکھتا ہے ۔اسے مابعد جدیدیت نے ردّکیا۔ واضح رہے کہ مابعد جدیدیت نے سائنس کو ردّنہیں کیا، سائنسی عقلیت پسندی ،اوراس کے غلو کو ردّکیا،جس کا نشانہ سماجی مظاہروادبی متون تھے ۔مثلاً جارج ہنس گدامر نے کہا کہ ’’سائنس ،اشیا کو بروے کار لاتی ہے، اور ان کے اندر بسنے پر آمادہ نہیں ہوتی‘‘۱۔یعنی سائنس، اشیا سے الگ اوربلند فاصلے پر ہوتی ہے،وہیں اس کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ معروضی اور عمومی معنی تک رسائی حاصل کر سکے۔فطری مظاہر کے مطالعے کے لیے یہ طریق کار درست ہوسکتاہے، مگرجنھیں انسانی ذہن نے جنم دیا ہے، ان سے الگ اور بلند فاصلے پر ہونے کا مطلب،ان کے سلسلے میں بیگانگی اختیارکرنا ہے۔سادہ لفظوں میں انسانی ذہن کی تخلیقات (خواہ وہ سماجی ادارے ہوں ،یا جمالیاتی متون) کو شے کا مرتبہ دینا ہے،جس سے معنی اور قدر وابستہ نہیں ہوتے۔انسانی ذہن کی تخلیقات کے معانی ان کے ’اندر‘مضمر ہوتے ہیں،لہٰذا جب تک کوئی شخص ’اندر‘ تک ،یعنی اس مقام اور شعریات تک نہیں پہنچتا ،جہاں معنی سازی اور قدر سازی کا عمل رونما ہورہا ہوتاہے،اور معنی وقدر سازی میں شریک ثقافتی ولسانی عوامل کو شناخت نہیں کرتا، وہ نہ تو معنی کو پہچان سکتا ہے ، نہ معنی کی صفات کاعرفان حاصل کرسکتا ہے۔ (ادب کی دنیا میں جسے ہم معنی کہتے ہیں ،اس کی سب سے بڑی صفت ،اس کی تحول پذیری یعنی بدلتی صورتِ حال سے اس کی ہم آہنگی ہے)۔متن کے ’اندر‘ تک رسائی اور وہاں بسنے ،وہاں کی دنیا کے رازوں کو سمجھنے کے لیے سیاق اور تناظر بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ لہٰذا جب روایت پسند اور ترقی پسند ،مابعد جدیدیت کے مصنف کی نفی، کثرتِ معنی اور کبیری بیانیے کے تصورات کی مختلف تعبیریں کرتے ہیں تو ایک لحاظ سے مابعد جدیدیت کے اس مفروضے کی تائید کررہے ہوتے ہیں کہ متن کے جن معانی تک ہم پہنچتے ہیں ،ان کی تشکیل کا سامان…اور امکان تو متن ہی میں ہوتاہے ، مگر ان کی تجسیم ہماری قرأت کے دوران میں ہوتی ہے ،اور ہماری قرأت ، ہمارے تناظر کی پابند رہتی ہے۔روایت پسندی کا الہٰیاتی تناظر اور ترقی پسندی کا سماجی تناظرانھیں مجبور کرتا ہے کہ وہ کبیری بیانیے سے بالترتیب مذہب اور اشتراکی آئیڈیالوجی مراد لیں۔ لیکن یہ بالواسطہ ،اور قدرے معصومانہ تائید انھیں مابعدجدیدیت کی روح تک نہیں پہنچاتی ۔مثلاً وہ اس بات کا احساس نہیں کرتے کہ ایک متن اپنے پڑھے جانے کی ترغیب دلاسکتا ہے،اپنے سیاق کے ذریعے کسی معنی کی طرف اشارہ بھی کرسکتا ہے ،مگر وہ اپنے قاری کو مجبور نہیں کرسکتا کہ اسے خاص طرح سے پڑھا جائے،یعنی وہ اپنے قاری پر یہ دباؤ نہیں ڈال سکتا کہ وہ اپنا تناظر ترک کردے۔متن کی یہی وہ ’مجبوری ‘ہے،جس کا فائدہ من مانی تشریحات کرنے والے اٹھاتے ہیں،اور تمام من مانی تشریحات ،متن کے داخلی سیاق کو نظر انداز کرنے ،یا دبانے (repression)،اوراپنے تناظر پر شدید اصرار کرنے سے ممکن ہوتی ہیں ۔نو آبادیاتی مستشرقین سے لے کر آج کے روایت اور ترقی پسنداس امر کی مثال ہیں۔نشان خاطر رہے کہ اگر آپ متن کے ’اندر‘بستے ہیں تو اس کے داخلی سیاق کو دبانا، اور اپنے تناظر کو نافذ کرناآپ کے لیے محال ہوجاتا ہے۔بہ ہر کیف تناظر کے سلسلے میں فیصلہ دوسرے قارئین ہی کرسکتے ہیں۔اسی بنا پر کسی متن کی ایک قرأت کے محاکمے کی ضرورت بھی باقی رہتی ہے۔
ترقی پسند وں کے مابعد جدیدیت پر مذکورہ بالا اعتراضات کا جائزہ جب ہم مابعد جدیدیت کی علمیات اور اس کے اہم بنیا دگزاروں ،اور مفسرین کے تصورات کی روشنی میں لیتے ہیں تو ہمارا پہلا تاثر حیرت کا ہوتاہے۔ حیرت اس بات پر کہ مابعد جدیدیت جس علمیات کی حامل ہے، اس میں اہم حصہ نئے بایاں بازو کی فکر کا ہے۔پہلے ہم گوپی چند نارنگ کی رائے پیش کرنا چاہتے ہیں جو پہلے جدیدیت کے حامی تھے ،پھر وہ مابعدجدیدیت کی طرف آئے۔ جب جدیدیت کے فلسفہ ء ادب میں یقین رکھتے تھے تو اشتراکی فکر سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتے تھے، مگر مابعد جدیدیت کی علمیات قبول کرکے ، مارکسیت کے ضمن میں،ان کے کیا خیالات ہیں، ملاحظہ کیجیے:
میں کمیونزم کا حامی ہوں نہ تھا،لیکن سوشلزم کی خوبیوں کا پہلے سے زیادہ معترف ہوں۔سوویت یونین بھلے ہی ریزہ ریزہ ہوگئی ہولیکن مارکسزم کی آزاد تعبیروں، سوشلزم کی معنویت ختم ہوگئی ہو،ایسا بھی نہیں،بلکہ یہ معنویت آج کی دنیا میں بالخصوص تیسری دنیا کے ملکوں میں اور ہندوستان میں پہلے سے زیادہ ہے….ادب اگر آئیڈیالوجی کا غلام نہیں ہوتا تو ادب آئیڈیالوجی سے آزاد بھی نہیں ہوتا۲۔
مارکسیت کی معنویت میں یقین پیدا کرنے ، ادب میں آئیڈیالوجی کے اظہار کو قبول کرنے ،یعنی ادبی قدرکو سماجی قدر کا حصہ سمجھنے کا یہ رویہ،ان سب کے لیے حیرت انگیز ہے ،جن کے ذہنوں میں چالیس کی دہائی سے شروع ہونے والی نظریاتی آویزش کی یادیں موجود ہیں۔ تب جدیدیت اور ترقی پسندی و مارکسیت ،ایک دوسرے کی کٹر نظریاتی حریف تھیں۔ میراجی، علی سردار جعفری کو کسی قیمت پر قبول ہو ہی نہیں سکتے تھے ،لیکن راشد اور منٹو بھی کئی مقامات پر ترقی پسند وں کے لیے نا قابلِ قبول تھے۔اسی طرح فرائیڈ اور ٹی ایس ایلیٹ بھی ناقابلِ قبول تھے۔ (ترقی پسندی کا دوسراحریف مذہب پسندادیبوں کا گروہ تھا ،جس کی فکری قیادت حسن عسکری کے ہاتھ میں آئی تھی ،اور جس کی سیاسی وابستگی جماعت اسلامی سے قائم ہوئی)۔اس زمانے میں اردو کی ادبی فکر ’جدلیات‘ کے زیر اثر تھی۔ یعنی دنیا ،ادب ، تاریخ ،سماج ،سیاست ، سب کا تصور جدلیاتی تھا؛یعنی یہ سمجھا جاریا تھا کہ دو قوتیں اوردو نظریے ہیں۔حقیقت سیاہ اور سفید میں تقسیم ہے؛ دنیا دو بلاکوں میں منقسم ہے؛ سماج دو طبقوں پر مشتمل ہے؛ دو طرح کے تصور انسان ہیں،ایک کے مطابق انسان کا سب سے بڑ امسئلہ اقتصادی وسیاسی ہے ،اور دوسرے کی روسے نفسیاتی و جمالیاتی ہے،ایک کی نمائندگی مارکس اور دوسرے کی فرائیڈ کرتا ہے ؛ ادب میں دو نظریے موجود ہیں۔چوں کہ دونوں کے حدود واضح اور متعین ہیں، دونوں کی شناختوں میں کوئی ابہام نہیں، دونوں کی اپنی اپنی فکری اساس سے وابستگی شدید ہے ،دونوں کے مقاصد مختلف ہیں، اس لیے دونوں میں واحد رشتہ کشمکش کا ہے، ایک دوسرے کو پچھاڑنے ،لتاڑنے کا ،اور ایک دوسرے پر غالب آنے کا ۔ترقی پسندوں کو تاریخی مادیت اور سوویت یونین نے یقین دلایا تھا کہ دنیا بھر کے پرولتاری :بورژوازی نیز رجعت پسندوں ، ماضی پرستوں، ابہام پسند طبقوں پربالآخر غالب آجائیں گے۔ دوسری طرف سرمایہ دار ممالک ،دائیں بازو کی مدد سے ،سوشلزم کو شکست دینے کے لیے پر عزم تھے۔ عالمی سرد جنگ ،۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ،ختم ہوئی، لیکن اردو تنقید میں فکری سطح پر تبدیلیوں کا آغاز ۱۹۷۰ ء کی دہائی میں ہونے لگا تھا۔ ترقی پسند وں اور جدیدیت پسند وں،دونوں کے نقطہ ہاے نظر میں شدت کم ہونے لگی تھی۔ہندوستان میں آل احمد سرور اور محمد حسن کے یہاں تو اس سے بھی پہلے مخالف نظریے کو ہمدرادانہ انداز میں سمجھنے کا آغاز ہوچکا تھا، جب کہ پاکستان میں ممتاز حسین اورفیض خاص طور پرسماجیات اور جمالیات کو ایک دوسرے کا حریف نہیں سمجھتے تھے۔ مثلاً ممتاز حسین نے اپنے ایک انٹر ویو میں ابتدائی ترقی پسند فکر کے سب سے بڑے معتوب فرائیڈ کے بارے میں کہا ہے :
ہم نے بہت آسانی سے فرائیڈ کو مسترد کیا،یہ بنیادی حیثیت سے غلط تھا…کارل مارکس پر اس کا ایک مضمون ہے ،اور اس نے کارل مارکس کی ترقی پسندی کو اچھی طرح بیان کیا ہے۔یہ نہیں کہ فرائیڈ الف سے ی تک غلط تھابلکہ ہمارا مطالعہ ناقص تھا،اور یہ کہ اب بھی ہمارا مطالعہ فرائیڈ کے بارے میں ناقص ہے..وہ صرف Psycho-analysis کا ہی آدمی نہیں تھا ،وہ Analysisاور Philosophy, Anthropologyکا بھی آدمی تھا۳۔
علی سردار جعفری کو یہ کہنے میں تامل نہیں ہوا کہ ’’[جدید] شاعری کی یہ حرکت اور جنبش ارسٹو کریسی کی دنیا سے جمہوری دنیا کی طرف ہے …اس کام میں ترقی پسند ادیبوں کے ساتھ حلقہ اربابِ ذوق کے شاعر بھی شریک ہیں،اور آج کی جدیدیت کے علم بردار بھی جو ہماری طرح گرے پڑے لفظوں کے استعما ل سے نہیں جھجکتے ۔ان کا آہنگ بھی ہمارے غیر کلاسیکی آہنگ سے قریب ہے ‘‘۴۔یہ وہی سردار جعفری ہیں جو کہتے تھے کہ منٹو غلاظت نگار ہیں کہ کیوں کہ وہ ’’سامراج کے دیے ہوئے انتہائی خبیث نظریے [تحلیل نفسی]‘‘کے اسیر ہیں‘‘ اور حلقہ ارباب ذوق کے اہم ترین شاعر میرا جی کی ’رومانیت‘ کو ’’مجہول اور گندی‘‘ قرار دیتے تھے کیوں کہ ان کی نظر میں میراجی ’’خوابوں کو خارجی حقیقت سے الگ کر کے واہمے میں تبدیل کر دیتے تھے‘‘۔ستر کی دہائی کے اوائل میں محمد علی صدیقی نے اردو میں ساختیاتی لسانیات پر اولین مقالات لکھے تھے۔ کم وبیش اسی زمانے میں جدیدیت پسند نقاد ،اپنی جمالیات کے تصور میں سماجیات کو اہمیت دینے لگے تھے۔ان میں وزیر آغا اور افتخار جالب جیسے نقاد شامل تھے۔اس کا بڑا سبب، ترقی پسندی اور جدیدیت کی تحریکوں کے ابتدائی جوش کا ٹھنڈا پڑنا تھا (بلاشبہ مقامی سیاسی اسباب بھی اس کے ذمہ دار تھے، جن میں بڑاسبب ترقی پسندوں پر حکومتی عتاب تھا )،جس کا راست اثر باہمی نظریاتی کش مکش کی شدت کے کم ہونے کی صورت میں مرتب ہوا۔ واضح رہے کہ دونوں نے اپنے نظریات کی اساس کو ترک نہیں کیا، بس ان پر شدت پسندانہ اصرار ترک کیا۔ چناں چہ جب کبھی اپنے نظریے کے غیر مبہم اظہار کا کوئی موقع آتا ، دونوں کسی لگی لپٹی رکھے بغیر اس کا اظہار کرتے۔تاہم یہ مواقع ترقی پسندوں کے لیے زیادہ آتے ۔بایں ہمہ، ہم کَہ سکتے ہیں کہ نظریوں پر شدت پسندانہ اصرارکے ختم ہونے سے، اردو تنقید میں حقیقت کاجدلیاتی تصور کمزور پڑنے لگا تھا،یعنی اس امر کا ایک مدھم سا احساس ہونے لگا تھا کہ حقیقت محض سیاہ اور سفید میں منقسم نہیں ہوتی، سیاہ اور سفید کے درمیان ایک سرمئی علاقہ بھی ہوتا ہے۔یعنی ادب محض ترقی پسند اور جدید نہیں ہوتا، ترقی پسندی میں جدید عناصر اور جدید ادب میں ترقی پسندانہ عناصر ہوسکتے ہیں،اور ان دونوں میں قدیم ،کلاسیکی عناصر جذب ہو سکتے ہیں۔
pleasure to read such a precious article,really thought provoking