(معصوم رضوی)
اس حقیقت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ تصویر کائنات کا رنگ عورت کے دم سے ہے مگر یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر رنگ کا بھنگ کا وصف بھی اسی صنف کا حصہ ہے۔ یہاں ایک غلط العام تاریخی مفروضے کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ مرد زندگی کی فلم کا ہیرو ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کہانی میں ہیرو، ہیروئن، ولن سب عورت ہے، مرد تو بس ایک اسٹاک کریکٹر، بعض صورتوں میں تو صرف مہمان اداکار کا کردار نبھاتا ہے۔ ماں، بہن اور بیوی کے تکون میں پھنسے مرد کی حالت بالکل ایسے ہوتی ہے جیسے تنے ہوئے رسے پر چلتے بازیگر کی، جو ایک لمبے بانس کے ذریعے توازن برقرار رکھتا ہر قدم پر جھولتا، لڑکھڑاتا نامعلوم منزل کی جانب قدم بڑھتا جاتا ہے۔ بھلا بتائیے پھر بھی مرد ظالم اورعورت مظلوم، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ دنیا کو مرد کا معاشرہ قرار دیا جاتا ہے یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے۔
عورت کو کمزور کہنے والے دراصل عقل کی کمزوری کا شکار ہیں۔ یہ دیوی قلوپظرہ کا روپ دھارے تو جولیس سیزر اور انطونیو کو سحر میں جکڑ لے۔ جون آف آرک بنے تو برطانوی لشکر کو شکست فاش دیکر فرانس کا تخت و تاج چارلس ہفتم کے قدموں میں ڈال دے۔ جھانسی کی رانی کی صورت میں انگریز فوج کے دانت کھٹے کر دے۔ رضیہ سلطان ہو تو میدان جنگ میں مردوں کو زمین چٹائے۔ مدر ٹریسا کے روپ میں زمانے کے زخموں کا مرہم بن جائے، نورجہاں بن کر جہانگیر کی سلطنت پر حکمرانی کرے اور انار کلی بنے تو مہابلی اور شیخو کے درمیان چنی ہوئی دیوار بن جائے۔ وہ کہتے ہیں نا وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ، حقیقت تو یہ ہے کہ عورت کا ہر روپ رنگ، خوشبو اور الفت کے خمیر سے اٹھا ہے۔ ماں ہو تو مامتا، بہن ہو تو سراپا پیار، بیوی دکھ سکھ کا ساتھ اور بیٹی کی صورت میں پھول کی انمول مہک، سچ تو یہ ہے کہ اس کے بغیر زندگی کی تصویر مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔ مرد ٹہرا پانی کی طرح ایک بے رنگ، بے بو مخلوق، چلیں ایک لمحہ فرض کر لیں اگر دنیا میں صرف مرد ہی مرد رہ جائیں تو یہ محفل کتنی اجاڑ، بے رنگ اور نحوست زدہ نظر آئے۔ مرد بیچارہ کرے بھی تو کیا کرے، احساس کمتری کی ماری یہ مخلوق خواتین کے بارے میں طنزیہ لطائف اور نوک جھونک سے دل کی بھڑاس نکالتی ہے مگر اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ زندگی کے ہر ہر قدم پر صنف مخالف کی محتاج ہے۔
کیا آپ کو کوئی شک ہے کہ دنیا کا بہترین Pet کوئی اور نہیں مرد ہے (مذکورہ لفظ کو بوجوہ انگریزی میں لکھنا ہی مناسب ترین ہے)۔ ماں کی مانے تو پلو سے بندھا ہونے کے طعنہ، بہنوں کی سنے تو عالمی سازشوں کا مرکز، غلطی سے بیوی کی تعریف کر بیٹھے تو جورو کے غلام کا اعزاز تو کہیں نہ گیا۔ مزیدار بات یہ ہے کہ ان تمام اعزازت کی خطیب عورت اور مخاطب مرد ہے، گویا عورت بمقابلہ عورت کی بساط پر مرد کی اوقات ایک پیادے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بہرحال یہ صفت بھی صرف مرد سے خاص ہے کہ بیک وقت کئی ریموٹ اسے کنٹرول کرتے ہیں، پھر بھی بلا کا عزم ہے کہ خودمختاری کا نادیدہ علم ہر آن بلند رکھتا ہے۔ ویسے تو ہر گھر کی کہانی کم و بیش یکساں ہوتی ہے، پہلے تو چھان پھٹک کر چندا جیسے بیٹے کیلئے چاند سی بہو کا انتخاب پھر چاند طلوع ہوتا نہیں کہ گرہن کی پیشگوئیاں اور سجتا ہے پانی پت کا میدان، جس میں جون آف آرک، جھانسی کی رانی، رضیہ سلطان اور چاند بی بی کی صف بندیاں اور پھر گھمسان کا رن معرض وجود میں آتا ہے۔ کوئی دم سکون ہو تو ہر خاندان میں ماشااللہ ایک نہ ایک خود کش بمبار ضرور ہوتی ہے، کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ یہ کب ازخود نوٹس لیکر کس سے لپٹ جائے، گویا میدان رزم کی رونق کبھی ماند نہیں پڑتی۔ ساس، نندوں اور بہو کے مثلث میں گھرا چندا ساری زندگی یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ اس پورے عمل میں وہ خود کہاں ہے۔ ویسے ساس بہو کا مسئلہ صرف ہمارا نہیں بلکہ عالمی یا یوں کہا جائے کہ خداداد رقابت کا ازلی شاخسانہ ہے۔ وہ چینی کہاوت ہے نا کہ بلی سیاہ ہو یا سفید، دیکھنے والی بات یہ ہے کہ چوہوں کو مار سکتی ہے یا نہیں، تو ساس کا تعلق دنیا کی کسی تہذیب، خطے اور نسل سے کیوں نہ ہو، بہو کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی فطری صلاحیت سے مالامال ہوتی ہے۔ ملکہ برطانیہ نے لیڈی ڈیانا کو دن میں تارے دکھائے تو اندرا گاندہی نے مانیکا کے پر پرزے جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ ان فسانوں میں شہزادہ چارلس اور سنجے گاندہی کا کردار کیا تھا مورخ آج تک خاموش ہے۔ سیدھی سچی بات تو یہ ہے کہ زندگی عورت کی عورت سے جنگ کی ایسی داستان ہے جس میں مرد کی حیثیت صرف چٹیل میدان کی ہوتی ہے۔ اس حقیقت پر میر کی نگاہ کب کی پڑ چکی
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہم کو عبث بدنام کیا
گھر کا سربراہ مرد اور فیصلہ سازعورت ہوتی ہے، فیصلہ درست ہو تو بیوی کا اور غلط ہو تو بتانے کی کیا ضرورت ہے عقلمند را اشارہ کافی است۔ یہ ضرور ہے کہ سربراہ عقلمند ہو تو زمینی حقائق پر سر تسلیم خم رکھتا ہے ورنہ دما دم مست قلندر پر دھمال مقدر ہوتا ہے۔ کچھ ٹرمپ خصلت شوہر بھی ہوتے ہیں مگر انکا حشر نہ گھر کا نہ گھاٹ کا والا ہی ہوتا ہے۔ دنیا میں بیویوں کی دو اقسام پائی جاتی ہیں، پہلی قسم کی بیویاں عقلمند، شوہر کی مزاج داں، سکون و راحت، صابر، شاکر، ذھین و معاملہ فہم ہوتی ہیں اور دوسری قسم وہ ہے جیسی ہماری اور آپکی ہیں۔ ہر بیوی میں داعشی صفات بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں، یہ کیفیت بالعموم بلااشتعال طاری ہوتی ہے اور مقابلہ کرنا کسی زید، بکر یا بغدادی کے بس کی بھی بات نہیں لہذا واحد حل صبر کے سوا کچھ نہیں۔ مرد کی بیچارگی کا احوال کچھ یوں بھی جانا جا سکتا ہے کہ دنیا میں خواتین کے تحفظ اور حقوق کی بیشمار تنظیمیں کام کر رہی ہیں، کیا مردوں کیلئے کبھی، کہیں کوئی تنظیم آپ کی نظر سے گزری، حتیٰ کہ انسداد بے رحمی حیوانات جیسی کوئی تنظیم بھی مرد کی دلجوئی پر تیار نہیں۔
غور فرمائیں اگر مجنوں کو لیلیٰ، فرہاد کو شیریں اور رانجھا کو ہیر مل جاتی تو یہ بھی میری اور آپ کی طرح ماں، بہنوں اور بیوی میں پھنسے عقیدہ تثلیث کے مشرک قرار پاتے۔ شاکیہ منی بھی تو یشودھرا سمیت بھری پری دنیا چھوڑ کر نروان کی تلاش میں نکل پڑے تھے۔ آج کوئی بھولا بسرا مرد گوتم کی پیروی کر بیٹھے تو نکھٹو، بزدل، بے حس اور دیگر متعلقہ القابات ناگفتنی کے علاوہ نان و نفقے سمیت کئی قانونی دفعات کا مجرم ٹہرے۔ خیر شاکیہ منی نے یشودھرا کو چھوڑ کر بن باس لیا تو سیتا کو راون سے چھڑانے کیلئے رام جی نے بن باس توڑ ڈالا۔ زندگی بھی ایک معمہ ہے کوئی یشودھرا کو چھوڑ کر نروان حاصل کرتا ہے تو کوئی سیتا کو پا کر