(فہد فاروق)
گذشتہ دنوں ایران میں جنسی تعلیم کی خبر نے چونکا دیا تھا۔ ’چونکایا‘ اس لیے کہ ہم ابھی تک اس اہم مسئلے کو حل نہیں کر پائے یعنی کیا ہمارے تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم دی جانی چاہیے یا نہیں۔ اس سلسلے میں ماہرین کی آرا بھی دلچسپ حقائق پر مشتمل ہیں۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ جنسی تعلیم جنسی سرگرمیوں کو کھلے عام پیش کرنے کا مغربی ایجنڈا ہے ، جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا جب کہ دوسرا نقطہ نظر کہتا ہے کہ جنسی تعلیم دی جا سکتی ہے مگر جامعات کی سطح پر۔بچوں پر جنسی تعلیم کے اثرات خطرناک ہو سکتے ۔بچے چوں کہ اچھے برے کو زیادہ بہتر نہیں سمجھ رہے ہوتے اس لیے جنسی موضوعات پر گفتگو اُن کے لیے ترغیب کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ جامعات میں جنسی تعلیم کیسے ہو؟ یہ طبقہ یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ جامعات میں بھی اخلاقیات یا اسلامیات کے ذیلی مضمون کے ضمن میں اسے پڑھایا جائے۔کیوں کہ جامعات میں کو ایجوکیشن کی وجہ سے بہت سے خرافات جنم لے چکی ہیں۔
یہاں بہت سے سوال موجود ہیں ۔ پہلا سوال تو یہ جنس یا سیکس اتنا قبیح جرم کیوں ہے جس کی تعلیم بھی ایک قبیح ’حرکت‘ کے مماثل ہی سمجھا جاتا ہے۔جنسی تعلیم کس سطح پر ہونی چاہیے یا کس پیرائیے میں ہونی چاہیے؟ ان خدشات یا اہتمام کے پیچھے اصل خوف یہی ہے کہ جنسی تعلیم کوہی غلط عمل سمجھا گیا ۔ہمارے ہاں تو ایک نقطہ نظر تو جنسی تعلیم کو معاشرتی آداب کی ایک اکائی سمجھتا ہے جس کے خیال میں جنسی تعلیم ہرگز نہیں ہونی چاہیے معاشرہ خود بخود بچوں کے لیے جنسی آداب کا اہتمام کرتا رہتا ہے۔
کچھ ماہ پہلے پاکستانی تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم کی بحث نے زور پکڑا ہے، خصوصاً جب ایران جیسے اسلامی اور روایتی ملک میں بھی اس کو عام کرنے کا کہا گیا۔ خبر کے مطابق:
ایرانی سکولوں اور یونیورسٹیوں میں جنسی تعلقات سے متعلق خصوصی اسباق شامل کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اسی طرح خاندانی اور جنسی صحت کے نام سے ایک نیا مضمون بھی متعارف کروایا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی سکولوں اور یونیورسٹیوں میں اس موضوع سے متعلق خصوصی اسباق شامل کیے جائیں گے تاکہ نئی نسل کو جنسی رویوں سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے، انقلاب ایران کی تقریبا چار دہائیوں بعد جنسی تعلقات سے متعلق کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایران میں کروائے گئے اس سروے میں ایک لاکھ بیالیس ہزار طالب علم شامل تھے۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایران میں پیش کی جانے والی یہ پہلی رپورٹ تھی جس کے بعداب ایران میں جنسی تعلیم فراہم کرنے سے متعلق فیصلہ حکومت کی طرف سے کیے گئے ایک ثقافتی کمیشن کی طرف سے کیا گیا ہے، جس کے تحت نصابی کتابوں میں سیکس اور جنسی تعلقات کے حوالے سے بنیادی تعلیم فراہم کی جائے گی۔ اس کمیشن کے ایک رکن غلام علی حداد عادل کا گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اب اصطلاح سیکس کوئی ممنوعہ اصطلاح نہیں رہے گی۔ اسی طرح “خاندانی اور جنسی صحت” کے نام سے ایک نیا سبجیکٹ بھی متعارف کروایا جائے گا۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلامی نقطہ نظر کیا ہےَ ڈاکٹر غامدی کے مطابق:
“بچوں کی تعلیم کے دو مقاصد ہیں: ایک دینی اور دوسرا دنیوی ۔ دینی مقصد یہ ہے کہ بچے اپنے دین سے اچھی طرح آگاہ ہوں۔ انھیں معلوم ہو کہ اصل میں یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔ جو اس میں کامیاب ہو گا، وہ آخرت میں اجر پائے گا اور جو اس میں ناکام ہو گا، اسے سزا ملے گی۔ دین کی تمام تعلیمات دراصل اسی امتحان میں کامیابی کو پیش نظر رکھ کر دی گئی ہیں۔
دنیوی مقصد دو ہیں:ایک یہ کہ بچے اپنے بڑوں کے علم، عمل اور روایات کے امین بنیں اور دوسرا یہ کہ وہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے کوئی صلاحیت پیدا کر لیں۔
جنس کی تعلیم ظاہر ہے اس دنیوی مقصد ہی کے ذیل کی چیز ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس حوالے سے ٹوٹکوں،معالجوں اور تصورات کی صورت میں بہت سی غلط چیزیں رائج ہیں اور اس کے لیے مناسب رہنمائی کا اہتمام ہونا چاہیے۔
رہا دین تو وہ ہمیں ہماری دنیا کے مسائل کا حل سکھانے نہیں آیا، اس میں ہمیں اپنی عقل پر اعتماد کرنا ہے۔ اوپر بیان کردہ دونوں مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے، ہمیں ہی طے کرنا ہے کہ سیکس کی تعلیم کا مناسب وقت اور تدبیر کیا ہے۔
ہمارا خیال یہ ہے کہ اسکول کے بچوں کو یہ تعلیم اپنے اندر کچھ مفاسد رکھتی ہے، اس کے لیے کوئی دوسری صورت اختیار کرنی چاہیے۔”
کیا ہم اس مسئلے کو کسی کروٹ بٹھا سکیں گے یا ہم یونہی حیا شرم اور غیرت کے تقاضوں کے پیش نظر اپنی نسلیں تباہ کرتے رہیں گے۔