(تنویر احمد تہامی)
پاکستان بنا تو یہاں کے باسیوں کا خیال تھا کہ وہ تمام وعدے وفا ہوں گے جن کی آس پر قربانیاں دی گئیں. انگریزی سامراج سے چھٹکارے کی غلط فہمی غلط العام ہوئی. جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھویا وہ اس امید پہ صابر ہوئے کہ آنے والی نسلیں ان سبز باغوں میں سکون کریں گی کہ جن کا وعدہ تھا. مگر کسے معلوم تھا کہ نئی اذیت ناک غلامی کا نام “آزادی” سے منسوب کر دیا جائے گا۔
۱۹۳۵ کا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ اس قوم کا پہلا آئین ٹھہرا. گورنر جنرل سمیت تمام کابینہ نے جارج ششم سے وفاداری کا حلف اٹھایا. کل چار میں سے تین صوبوں کے گورنر انگریز بنے. اس کے علاوہ بری، بحری اور ہوائی افواج کے سربراہان کے طور پہ بھی انگریز افسروں پر اعتماد کیا گیا. مگر چونکہ نعرہ آزادی کا تھا اور وہ بھی مذہب کے ٹکٹ پر تو چین ہی چین لکھنے والے راوی کا قلم چلتا رہا۔
۱۸۳۴کے اوائل کا واقعہ ہے جب تاجِ برطانیہ براہ راست برِصغیر پر مسلط نہیں ہوا تھا، ٹامس بابنگٹن میکالے نامی تاریخ دان اور شاطر سیاستدان کو ہندوستان میں تحقیق کی ذمہ داری سونپی گئی. اپنی تحقیقات کو مکمل کرنے کے بعد ۲ فروری ۱۸۳۵ کو جو رپورٹ میکالے نے برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کی اس کے الفاظ کچھ یوں تھے:
I have travelled across the length and breadth of India and I have not seen one person who is a beggar, who is a thief such wealth I have seen in this country, such moral values, people of such caliber, that I do not think we would ever conquer this country, unless we break the very backbone of this nation, which is her spiritual and cultural heritage and therefore, I propose that we replace her old and ancient education system, her culture, for if the indians think that all that is foreign and English is good and greater than their own, they will lose their self-esteem, their native culture and they will become what we want them, a truly dominated nation
میکالے کی تحقیقات اور تجویز کے مطابق اسے برِصغیر کے لئے نیا تعلیمی نظام مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی. میکالے نے سب سے پہلے فارسی کے بجائے انگریزی کو سرکاری زبان قرار دیا اور یوں راتوں رات ہندوستان کی شرحِ خواندگی صفر تک جا پہنچی. اس کے بعد جو نظامِ تعلیم وضع کیا گیا اس کے بارے میں موصوف نے کہا تھا کہ یہ نظامِ تعلیم صرف کلرک پیدا کرے گا۔
ظلم یہ ہوا کہ نام نہاد آزادی حاصل کر لینے کے بعد بھی پاکستان میں میکالے والا نظامِ تعلیم ہی چلنے دیا گیا. نتیجہ وہی نکلا جس کی پیشین گوئی تھی. پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے والے ہر شخص کا مطمعِ نظر نوکری بن گیا. ستم بالائے ستم یہ کہ تعلیم کو بھی تقسیم در تقسیم کا سامنا کرنا پڑا. ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں سولہ 16 اقسام کے نظام ہائے تعلیم کارفرما ہیں. جن میں پانچ تو محض مذہبی تفریق کا شکار ہیں جبکہ دیگر میں بیکن ہاؤس سے لے کر ٹاٹ تک کے طبقات شامل ہیں. پاکستان کی شرحِ خواندگی اس وقت 56.4 فیصد ہے اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ان اعداد و شمار میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو صرف اپنا نام لکھنا جانتے ہیں. اور جو صحیح معنوں میں خواندہ ہیں ان کی سوچ کا دائرہ کار بھی ناخواندہ طبقے سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔
کسی بھی قوم کی ترقی کا براہ راست تعلق خواندگی سے ہوتا ہے لیکن اگر تعلیم ہی غلامی کی ہو تو کہاں کی آزادی اور کیسی ترقی. اگر ہم آزاد ہونا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے تعلیم کو آزاد کرانا ہوگا نفرتوں کی تقسیم سے، طبقاتی الجھنوں سے، مذہبی تفاریق سے، غلامانہ ذہنیت سے. تب تک کوشش ہو تو حقیقی آزادی کی. اسی متعلق فیض صاحب نے فرمایا تھا:
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
تعلیمی طبقاتیت کی برطانوی سامراجی تاریخ کی بہت اچھے انداز سے وضاحت کی۔ بہت خوب تنویر صاحب۔ جیتے رہیے، خوش رہیے