(سید احسن شاہ)
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے پچاس فیصد سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے یعنی پاکستان کی آنے والی نسل میں سے پچاس فیصد لوگ ان پڑھ ہوں گے لیکن یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہم جو تعلیم اپنی نسلوں کو دے رہے ہیں،کیا وہ دور حاضر کے مطابق ہے ؟؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا
بالکل نہیں ہے
ایک انٹرنیشنل ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا تعلیمی نظام ،دوسرے ممالک کے مقابلے میں پچاس سے ساٹھ سال پیچھے ہے
پاکستان کے تعلیمی نظام میں جہاں بہت سے دوسرے مسائل ہیں ،وہیں ایک بڑا مسئلہ تعلیمی نصاب کا ہے. ہمارے تعلیمی نصاب میں بہت سے حل طلب مسائل موجود ہیں ،مثلا ایک بڑا مسئلہ پرانے تعلیمی نصاب کا ہے
ہمارے تعلیمی نظام میں کئی کئی سال ایک ہی طرح کا تعلیمی نصاب چلتا رہتا ہے۔ہر نسل اسی طرح کے کتابیں پڑھنے پر مجبور ہوتی ہے جو اس سے پہلی نسل نے پڑھا ہوتا ہے
یہ مسئلہ عام طور پر آرٹس (ہومینیٹیز) کے علاوہ سائنسز کے مضامین میں بھی نظر آتا ہے
جو نصابی کتاب ایک استاد اپنے دور تعلیم کے دوران پڑھتا ہے ،دس سال بعد وہی کتاب اپنےطلبا کو پڑھاتا ہے
جو کہ وقت کے تقاضوں کو بالکل پورا نہیں کرتے
تعلیمی نصاب میں ہر 3 سے 5 سال بعد نظر ثانی چاہیے ۔خصوصا سائنس کے مضامین میں نت نئی ایجادات کی وجہ سے نئی تھیوریز سامنے آ رہی ہیں مگر ہمارا استاد اور طالب علم اس طرح کی نئے تصورات سے آگاہ ہی نہیں ہوتا
تعلیمی نصاب میں ایک اور خامی غیر دلچسپ مواد ہے ،
اگر سوچا جائے کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارا نصاب طلبا کی دلچسپی حاصل کرنے میں کیوں ناکام ہو جاتا ہے ؟؟
اس کی بہت بڑی وجہ غیر دلچسپ نصاب ہے ،ہمارا نصاب اکثر مواد ایسا ہوتا ہے جو کسی صورت طلبا کی توجہ اور دلچسپی حاصل نہیں کر سکتا۔دلچسپی پیدا کرنے کے لئے جدید میتھڈ متعارف کروائیں جائیں۔ ملٹی میڈیا اور کمپیوٹر گرافکس کا استعمال سکول اور کالج سطح پر لازمی ہونا چاہئے۔
نصاب مرتب کرتے وقت اس چیز کا خیال رکھنا چاہیے کہ ایسا مواد شامل کیا جائے جو طلبا کی توجہ کے ساتھ ساتھ تعلیمی مقصد بھی پورا کرتا رہے
زبان و ادب کا نصاب مرتب کرتے ہوئے سماج کا روشن چہرہ دکھانے کی کوشش کرنی چاہیے جس سے طلبا میں معاشرہ شناسی پروان چڑھے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ طلبا کی ذہنی نشوونما میں اساتذہ کا کردار بھی قابل فخر نہیں ہیں
اکثر اساتذہ کا بنیادی مقصد طلبا کواچھے نمبرز دلوانا ہوتے ہیں نہ کہ طلبا کی ذہنی نشوونما ۔۔۔
ایسے میں اساتذہ کی ترجیح جدید تعلیم کی بجائے رٹا سسٹم کے ذریعے طلبا کے اچھے نتائج حاصل کرنا ہے، ہمارے اساتذہ کو اس رجحان کو بدلنا چاہیئے اور جدید تعلیم اور نئے نصابات کی طرف توجہ دینی چاہیئے ۔
اس سلسلے میں حکومت کی پہلی ترجیح تعلیم ہونی چاہئے۔ مگر اس سے پہلے ان لوگوں کا احتساب بھی ضروری ہے جو تعلیم کے لئے مختص ہیں مگر اپنے شعبے میں ناکامی کے سوا کوئی اہم کام نہیں کر پائے
(سید احسن شاہ کالج سٹوڈنٹ ہیں اور تعلیمی موضوعات پر لکھنے اور پڑھنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔)
!!Bht khoob