جسونت سنگھ کی کتاب:اہم ترین تاریخی حقائق سے چشم پوشی
(پروفیسر فتح محمد ملک)
جناب جسونت سنگھ نے اپنی کتاب میں اپنے سیاسی بیانیہ کے دوران انتہائی دُور رس نتائج کے حامل تاریخی واقعات اور سیاسی تحریکوں کو نظرانداز کرنے کی روش اپنائی ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ سہوِ نظر نہ ہوبلکہ سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہو۔ واقعات و حقائق کے اِس انتخاب کا مقصد مفیدِ مطلب نتائج کا حصول ہے۔اِس طرزِ عمل کی بہترین مثال کتاب کے پہلے باب میں شملہ وفد اور آل انڈیا مسلم لیگ کے آغاز کے مباحث ہیں۔اِس باب میں مسلمانوں کی الگ سیاسی تنظیم کے بنیادی محرکات و عوامل کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یہاں اُس زمانے میں سیاسی منظر پر چھائی ہوئی جارحانہ ہندو احیائیت کی مسلمان دشمن تحریک کے احوال و مقامات کو بحث سے خارج کر دیا گیا ہے۔اپنی کتاب کے آخری باب بعنوانIn Retrospect(بازدید)میں وہ جداگانہ مسلمان قومیت کی تعمیر کے موضوع پر اپنی خیال آرائی کا آغاز یوں فرماتے ہیں:
’’میں ایسا سوچتا ہوں کہ یہ اہم سوال پیدا ہی نہیں ہوتا اگر ۱۹۰۶ء کا شملہ نمائندہ وفد ہندوستان کے وائسرائے سے ۱۰۲ سال قبل نہیں ملا ہوتا۔ آخر یہیں سے تو محمد علی جناح کے اس دعوے کا سفر کہ ’مسلمان ایک الگ قوم ہیں‘ شروع ہوا۔ جناح نے اس دعوے کو نظریاتی طور پر اور اپنی خواہش کے مطابق حقیقت میں بدلا۔ انہوں نے ایک ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔‘‘(صفحہ۔۳۶۷)
اگر جسونت سنگھ اپنی تفتیش کا آغاز ۱۹۰۶ء کی بجائے ۱۹۰۵ء سے کرتے تو درست جواب پر پہنچ سکتے تھے۔ یہ وہ سال ہے جس میں اقبال ملائیت اور برہمنیت کو مٹا کر ایک نیا شوالہ تعمیر کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے مگر رابندر ناتھ ٹیگور برطانوی ہند میںآریہ ورت اور سودیشی سماج کے قیام کے اہتمام میں سرگرم تھے اورآروبندوگھوش، بنکم چندر چٹرجی کے ناول ’آنند مٹھ‘کے عکس پر ’بھوانی مندر‘ لکھنے میں مصروف تھے۔ جس وقت اقبال برہمن کو اپنے صنم کدے سے پرانے بت نکال باہر پھینکنے کی تلقین کر رہے تھے عین اُس وقت ہندو احیائیت کی تحریک آروبندو گھوش اور ٹیگور کے زیرِ اثر نسلی برتری کا ایک نیا بُت تراش رہی تھی۔ ۱۹۰۵ء کی تقسیمِ بنگال نے ہندو احیائیت کی اس تحریک کو ایک خطرناک جارحانہ رنگ دے دیا تھا۔
۱۹۰۵ء میں خالص انتظامی بنیادوں پر بنگال کی تقسیم پر ہندوؤں کے منفی ردعمل نے ہندوستان کی سیاسی اور تہذیبی زندگی میں فرقہ واریت کی خلیج کو ناقابلِ عبور بنا دیا تھا۔ ہندو احیائیت جو ابھی کل تک محض ایک علمی موشگافی اور مذہبی مناظرہ بازی تک محدود تھی، اب ایک باقاعدہ سیاسی تحریک میں ڈھل گئی تھی۔ستم ظریفی یہ ہے کہ شیوا جی کو اِس تحریک کا سرچشمۂ فیضان سمجھا جانے لگا تھا۔یہ عجب اتفاق ہے کہ اقبال ۱۹۰۵ء میں اپنے علمی سفر پر یورپ روانہ ہوئے اور ٹیگور عملی سیاست میں آئے۔ تقسیمِ بنگال کی مذمت میں ٹیگور نے ترانے لکھے ، ہڑتالیں کرائیں ، احتجاجی جلوسوں کی قیادت کی اور راکھی بندھن کی سی خالص ہندوانہ رسومات کو پہلی مرتبہ سیاسی رنگ دیا۔ اروبندو گھوش نے ۱۹۰۶ء میں ’بندے ماترم‘ کے نام سے اپنا انتہاپسند ہفتہ وار اخبار شائع کرنا شروع کیا۔یہ بات بہت معنی خیز ہے کہ اروبندوگھوش نے اپنے اِس اخبار کا نام بنکم چندر چٹر جی کے ناول ’آنند مٹھ‘ سے ’بندے ماترم‘ کے مسلمان دشمن ترانے سے لیا تھا۔
اخبار ’بندے ماترم‘ نے رام کرشن ، ویویکا نند اور بنکم چندر چٹر جی کے جارحانہ تصورات کو ہندوقوم پرستی کی انتہاپسند تحریک کی فکری اساس بنایا تو اِس جارحیت کا رُخ مسلمانوں کی طرف پھرنے لگا۔ شکتی کی منظم قوت سے ہندوستان میں آریہ ورت قائم کرنے کا تصور عام ہونے لگا۔ شکتی کے تصور کی خالص شکتی اور ملیچھ شکتی میں تقسیم ہوئی توبقول لیونارڈ ، آر۔ گورڈن مسلمانوں کو ملیچھ شکتی (ناپاک قوّت)قرار دے کر ہندوستانی قومیت کے دائرے سے خارج قرار دیا گیا:
“It would seem from both internal evidence and wider information about Aurobindo’s thought that he either completely ignored the Muslims or would include them with Melecha shaktis. In doing so, he was following the implicit or explicit anti-Muslim line of the Hindu nationalists and religions ideologues of the later ninteenth century.” (Bengal: The Nationalist Movement, 1876-1940, Columbia University Press, 1974, Pages 113-114)
اسلام کی وسیع النظر اور انسان دوست آفاقی تعلیمات کی روشنی سے اپنے دل و دماغ کو منوّر کر کے اقبال نے کہا تھا:
شکتی بھی، شانتی بھی، بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
مگر بنگال کی انتظامی تقسیم کے ردِعمل میں سیاسی رہنما ہی نہیں تہذیبی زعما بھی برصغیر میں محبت کا ایک نیا شوالہ آباد کرنے کی بجائے ایک ایسے قدیم آریہ ورت کے قیام کا خواب دیکھنے لگے، جس میں شانتی اور پریت صرف ہندو نسل کے لیے وقف ہو اور خالص شکتی، ملیچھ شکتی پر غلبہ حاصل کر سکے۔ تقسیمِ بنگال کا اعلان گویا ایک بھونچال تھا جس نے ہندوستانی زندگی کے باطن میں گرجنے والے منافرت کے لاوے کو زندگی کی خارجی سطح پر لا پھینکا تھا۔ ایسے میں قدرتی طور پر مسلمان زعماء نے برصغیر کے مسلمانوں کے اِس لاوے میں جل کر راکھ ہو جانے کے امکانات کا گہرا تجزیہ کیا اور اِس تجزیے سے برآمد ہونے والی سچائی کی تلاش میں انگریز حکومت کے دروازے پر دستک دی۔انگریز حکومت اور شملہ وفد میں شامل مسلمان زعماء کے درمیان موجود خیر سگالی کے جذبات کے زیرِ اثر اِس وفد کی معروضات پر برطانوی حکومت نے انصاف کی نظر ڈالی ، بیشتر مطالبات منظور ہوئے اور یوں بعد ازاں اِسی وفد کے اراکین نے مسلمانوں کی سیاسی تنظیم کا فرض سنبھالا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے دورِ اوّل کی اِس قیادت نے برطانوی ہند کے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور توسیع میں شاندار تاریخی خدمات سرانجام دیں۔اِن زعماء نے یہ کارنامہ تصادم کی نہیں بلکہ تعاون کی حکمتِ عملی کی بدولت سرانجام دیا تھا۔
شملہ وفد میں شریک بانیانِ مسلم لیگ پر طنز کیا گیا ہے کہ وہ حکومتِ وقت کے پسندیدہ زعماء تھے۔ طنز کرنے والوں کو یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ انڈین نیشنل کانگرس کی بُنیاد برطانوی افسر شاہی کے ایک کارندے نے رکھی تھی اور کانگرس کے افتتاحی اجلاس میں برطانوی سرکار سے غیر مشروط وفاداری کی ’’جرأت مندانہ‘‘ قرارداد منظور کی گئی تھی۔ اُس زمانے کے حالات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو اِس ناگزیر نتیجے پر پہنچنا قرینِ انصاف ہے کہ انڈین نیشنل کانگرس اور آل انڈیا مسلم لیگ ہر دو سیاسی جماعتوں کے بانیان وہی زعماء ہو سکتے تھے جنہیں حکومتِ وقت اپنا دُشمن سمجھنے کی بجائے اپنا دوست اور رہنما سمجھتی تھی۔ سیاسی جماعتیں بھی ہر دور میں بدلتی ہوئی سیاسی زندگی کے زیرِ اثر نشوو ارتقاء کے مراحل سے گزرتی ہیں اوررفتہ رفتہ اُس مرحلے پر پہنچ جاتی ہیں جب ان کی قیادت اہلِ اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا حق حاصل کر لیتی ہے۔ انڈین نیشنل کانگرس اور آل انڈیا مسلم لیگ ہر دو سیاسی جماعتوں نے وفاداری سے بغاوت تک کا ارتقائی سفر یکساں انداز میں طے کیا تھا۔
جناب جسونت سنگھ نے اپنے من پسند نتائج تک پہنچنے کی خاطر شملہ وفد اور مسلم لیگ کے قیام کو درست تاریخی تناظر سے کاٹ کر پیش کیا ہے۔ اگر وہ ہندو جارحیت کی تحریک کا مذکورہ بالا تاریخی سیاق و سباق بھی پیشِ نظر رکھتے تو وہ تاریخی حقائق سے برآمد ہونے والی سچائیوں سے روگردانی کے مرتکب نہ ہوتے۔تب اُنہیں شملہ وفد اور آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام برطانوی سرکار کے ارشاد کی تعمیل (Command Performance) کی بجائے اسلامیانِ ہند کے تحفظ اور بقاء کی تحریک کا نقطۂ آغاز نظر آتا۔جناب جسونت سنگھ کی زیرِ نظر کتاب تاریخ کے اوراق کی ایسی ہی من مانی کانٹ چھانٹ کا شاہکار ہے۔