اصغر بشیر
وصیت تہذیبی شعور کی منتقلی کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ اگر کسی معاشرے میں تہذیبی شعور ہی نہیں ہے تو اس معاشرے کے لوگوں کے وصیت پر اعتراضات کم علمی کے ساتھ منفی سوچ کے مزاحمتی رجحانات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ بھارت میں چھپنے والی سجیت صراف کی کتاب ’’سلطانہ ڈاکو کے اعترافات‘‘ کا عمومی جائزہ لینے کا موقع ملا پھر کچھ ہی دنوں بعد محترم رؤف کلاسرا کا اس عنوان پر کالم یقیناً اس موضوع کی اہمیت کو اجاگر کر نے کے لیے کافی تھا۔ بہت دنوں تک سلطانہ ڈاکو کے اپنے بیٹے کو لکھی گئی وصیت کو پڑھنے کے بعد سوچتا رہا کہ کیا ہم لوگ تہذیبی طور پر اپنے مقصدِ حیات کے حوالے سے ایسا شعور رکھتے ہیں؟ جشنِ آزادی پر یہ سوال پوچھے جانے کے قابل ہے کہ کیا ہم اپنے آپ سے اتنے مخلص ہیں جتنا سلطانہ ڈاکو اپنے پیشے سے مخلص تھا؟ اس کا جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ سلطانہ ڈاکو کے بارے میں اور اس کی وصیت کے بارے میں کچھ جانا جائے۔
یاد رہے سلطانہ ڈاکو کو 7 جولائی 1924 ء کو پھانسی دی گئی تھی۔ جب پھانسی لگ چکی تو سلطانہ ڈاکو کی وصیت اس کے چار سالہ بیٹے کے پاس لائی گئی ؛ اس میں وصیت میں موجود تہذیبی شعور ، انداز بیان، حقیقت کا ادراک، ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے۔
’’یہ بات یاد رکھنا کہ جب تک تمہارا باپ جیا اس نے چوری ڈاکے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ جب وہ چوری نہ کرسکتا تو ڈاکے مارتا۔ ضروری ہوا تو لوگوں کو قتل کیا۔‘‘
’’ منہ کے اندر تین خالی جگہیں ہوتی ہیں، جہاں چھوٹے موٹے سکے، انگوٹھیاں اور چاقو چھپائے جا سکتے ہیں۔دو جگہیں تو منہ میں گالوں کے اندر اور بالائی ہونٹ کے درمیان اطراف میں ہوتی ہے اور تیسری گلے کی گہرائی میں ہوتی ہے۔ چوتھی خالی جگہ پاخانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ وہاں چاندی چھپا سکتے ہو۔ لیکن خبردار وہاں سونا نہیں چھپانا۔ ‘‘
پھر عمر کے لحاظ سے ہر سال میں حاصل کی جانے والی مہارت کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کے بیٹے کو کس سال کونسی مہارت حاصل کرنی چاہیے مثلاً سات برس کی عمر میں انگلیوں سے سکے بغلوں میں چھپانے کی مہارت، بدن کے ساتھ بندوق چھپانا تا کہ شک نہ ہو۔ سپاہیوں سے بات کرنے کا طریقہ، انگریز افسرو ں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے طریقے اور جانوروں کی آواز میں بات کرنے کی مہارت۔ اسی طرح نرم اعضاء کا فائدہ اٹھا کر چستی و پھرتی حاصل کرنے کی ضرورت تا کہ پولیس سے چھپا جا سکے۔
’’ایک ڈاکو کو اندھیرےسے ڈر نہیں لگتا اور نہ ہی اسے گھٹن کا احساس ہوتا ہے ۔ ڈاکو اندھیرے میں پیٹ میں موجود بچے کی مانند رہتا ہے۔ ہمیشہ دروازے کے نیچے سے نقب لگاؤ اور کنڈی کھول دو ۔ ہاں سنو جہاں چوری سے کام چلتا ہو وہاں ڈاکہ نہ مارنا۔ کوئی جاگ جائے تو چاقو نکالنے میں دیر نہ کرنا۔ ضرورت پڑتے ہی بندہ مارنا۔‘‘
’’ کسی کو زہر سے مارنا ہوتو دھتورا کا بیج استعمال کرو۔ جب وہ سارا دن کام کے بعد تھکا ہوا ہو تاکہ پولیس سمجھے گرمی لگی ہوگی۔ پولیس کی گولی لگ جائے یا سانپ کاٹ لے تو جنگل میں برہما بھوتی بوٹی استعمال کرنا ۔ تین پتے ہاتھوں میں رگڑو اور زخم پر لگا دو۔ فوراً آرام ملے گا۔ ‘‘
پھر سلطانہ ڈاکو اپنے بیٹے کو پولیس اور انگریز اہلکاروں کو چکما دینے کے ہنر سکھاتے ہوئے کہتی ہے :
’’گارڈز نظر تو سخت آتے ہیں لیکن وہ بھی اندر سے ڈاکو ہوتے ہیں۔ برسوں تک میرا دادا اس دروازے پر تعینا ت رہا ہے۔ جس دن پولیس آئے گی توکیلا گارڈز کو دے کر جیل کی دیوار کے ساتھ کیلوں میں چھپ جانا تا کہ تمہاری انگلیوں کے نشانات وہ گورے نہ لے سکیں۔‘‘
’’ایک ڈاکو کا لہو ٹھاکر سے زیادہ سرخ ہوتا ہے اور اس کا دل زیادہ تیز دھڑکتا ہے۔ چار صدیاں قبل ہمارے آباؤ اجداد راجپوت تھے اور ریاست چتر گڑھ راجپو تانہ کے حکمران تھے۔ انہوں نے مغل بادشاہ کی شراب چکھی اور چرس کے سوٹے لگائے اور ان کی بیویوں سے اٹکھیلیاں کیں۔ اکبر بادشاہ نے ہمارے آباؤاجداد پر حملہ کیا اور اسے قلعے سےبھاگنے پر مجبور کردیا۔ اس وقت سے ہم راجپوتوں کی نسل جو کسی اور کی حکمرانی نہیں مانتی، جنگلوں اور صحراؤں میں بھٹک رہے ہیں۔کسی دن ہم پھر سے چترگڑھ ریاست پر حکمرانی کریں گے۔یہ ٹھاکر اور بنیے ہمارے خوف سے کانپیں گے۔اس وقت تک ہم جتنا مال چاہیں چوری کر سکتے ہیں، ڈاکے مار سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر قتل کرتے رہیں گے۔‘‘
یہ سب پڑھنے کے بعد لازمی ہے کہ ہم لوگ اپنی اجتماعی اور سماجی زندگی کی طرف نظر دوڑائیں۔ ہمیں پتہ چلے گا کہ ہم مبلغ ایک روپیہ میں مل اور جائیداد بیچنے اور خریدنے کے دور سے گزر چکے ہیں۔ لیکن لوٹ کھسوٹ ، مار دھاڑ، اور چور بازاری میں ہم اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ ہم پوری انڈسٹری کھڑی کرنے کے بعد ڈکار بھی مارنا بھول جاتے ہیں۔ آج دور بدل چکا ہے تو تقاضے بھی بدل گئے ہیں ؛ ڈاکو بھی بدل گئے ہیں۔آزادی کے موقع پر اتنا سوال تو بنتا ہے کہ کیا ہم لوگ سلطانہ ڈاکو جتنے اپنے آپ سے مخلص ہیں؟