جمہوریت، سیکولرزم، لبرلزم دشمنی : اصل مسئلہ کیا ہے
از، رضا علی
اپنے پچھلے آرٹیکل میں میں نے ایک مقبول کالم نویس کی گمراہ اور مبالغے سے بھرپور ایک تحریر کا جائزہ لیا تھا جس میں وہ سائنس کو سولی پر چڑھا رہے تھے۔ اسے میری تنقید کا دوسراحصّہ سمجھیں۔ اپنی اس تحریر میں انہوں نے فرعون، جمہوریت، لبرلزم، سیکولرزم سب کو ایک ہی بنڈل میں لپیٹ کے ہر چیز کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیا اور اپنے اور پراے (us vs them) کی قبائلی تفریق کر دی۔
اس سے پہلے کے میں ان کے مبالغے کی غلطی واضح کروں میں ایک بنیادی تشخیص کرنا چاہتا ہوں جس کے بعد آپ کو یہ سمجھ آ جائے گا کے اصل میں اس مسئلہ کی جڑ کہاں ہے۔ ٢٠٠٣ میں پاکستانی نژاد برطانوی مصنف طارق علی نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ‘بنیاد پرستیوں کا ٹکراو’ یا Clash of Fundamentalism تھا۔ وہ کتاب بھی پڑھنے کے قابل ہے لیکن میں یہاں صرف اس کا ٹائٹل استعمال کروں گا کیوں کہ وہ اس سارے مسئلے کو بہت اچھی طرح سے بیان کرتا ہے۔ مسئلہ اسلام اور سیکولرزم یا جمہوریت اور خلافت یا شریعت اور لبرلزم کا نہیں ہے۔
مسئلہ یہ ہے کے ان دونوں گروہوں میں پانچ فیصد ایسے لوگ ہیں جو بنیاد پرست ہیں اور باقی پچانوے فیصد ان کاموں کو دیکھ رہے ہیں اور ان کی بنیاد اور انتہا پسندی کا شکار ہو رہے ہیں۔
یہ دونوں اپنی سوچ حرف آخر کی صورت میں دوسروں پر تھوپنے پر تلے ہوے ہیں۔ اب وہ چاہے مغربی نیو لبرل ہوں یا مشرقی اسلامسٹ، دونوں آپس کی نظریاتی جنگ میں اندھے ہو گئے ہیں اور اس بات کا ان کو کوئی احساس نہیں رہا کے ان کی انتہا پسندی کا لوگوں کی زندگیوں پر کیا اثر ہو رہا ہیں۔ جب کہ دونوں اپنے آپ کو اخلاقیات morality کی اونچی ترین منزل پر فائز سمجھتے ہیں۔
ان کے نزدیک اپنے اپنے ‘حق’ کو ثابت اور نافذ کرنا ضروری ہے، اسی طرح دنیا ان کی سچائی کی قائل ہو سکے گی۔ یہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور کپڑے اتارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
تو اب مقبول کالم نویس کے مغالطوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان کا پہلا حملہ یہ ہے کے سیکولرزم کو نہ کوئی دوسرے مذاھب سے تکلیف ہے، نہ ان کے رسم و رواج سے کوئی مسئلہ، نہ ان کے کھانے پینے سے کوئی تکلیف، اور نہ ان کے مذہبی لباس سے کوئی ایشو۔ انھیں تکلیف ہے تو جمعے کے خطبے سے، عید سے، قربانی سے، عمرے سے اور مسلمان عورت کے حجاب سے۔
اب یہ زبان غور کرنے والی ہے کیوں کہ یہاں ایک بنیاد پرست دوسرے بنیاد پرست سے لڑ رہا ہے۔ سیکولر مغربی معاشروں میں رہنے والی اکثریت کو ان سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ مسلمان ان معاشروں میں مسلمان ملکوں سے زیادہ سکوں سے رہتے ہیں کیوں کے قانون وہاں ان کی کی حفاظت کرتا ہے۔ لیکن وہاں بھی موصوف کی طرح، سکّے کا دوسرا رخ اور آئینے کا عکس بنیاد پرست موجود ہیں۔ ان کی بھی ساری توّجہ مسلمانوں پر ہے اور وہ بھی ایسا ہی مبالغہ استعمال کرتے ہیں۔
اب سیکولرزم پر بھی دو لفظ کہہ لیتے ہیں۔ سیکولرزم، خاص طور پر مغربی یورپ کے معاشروں میں ان کی آپس کی مذہبی جنگوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے یہ بات اپنے تجربات سے سمجھ لی تھی کے کسی ایک مذہبی تشریح یا فرقے کے طاقت میں آنے سے قتل و غارت اور ظلم اور ستم کے دروازے کھلتے ہیں۔ اس لیے حکومت کو صرف اور صرف انتظامی معاملات سے تعلّق رکھنا چاہیے اور لوگوں کے مذہب کو لوگوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اسی لیے ان معاشروں میں مذہب کے نام پر ظلم کم ہو گیا۔
مسلمان تو تصویر میں بعد میں آئے، پہلے وہ اپنے ہی مذہب یعنی عیسائیت کی سخت مخالفت کر چکے ہیں اور اپنے تمام اعتقادات، رسوم اور لباس کو مسلمانوں سے بھی زیادہ تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ لیکن قبائلی تعصّب کی آگ بھڑکانے کے لیے ان کا یہ کہنا ضروری ہے کے یہ سب مسلمانوں کے خلاف ہیں تاکہ اس کے کندھے پر رکھ کر وہ سیکولرزم کے خلاف تعصّب پیدا کر سکیں۔ سیکولرزم ایک دیوار بن گئی ہے ان لوگوں کی راہ میں جو نظریہ پرست ideologues ہیں اور مسلمان ملکوں میں اسلام کی کسی نہ کسی تشریح کا نفاذ چاہتے ہیں۔ وہ اپنی خون سے رنگی چودہ سو سال کی تاریخ سے کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
دوسری وہ جمہوریت کی ٹانگ توڑتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کے اکثریت کہ دے کے جھوٹ بولنا اور غیبت کرنا جائز ہے تو وہ قانون بن جاتا ہے اور اس میں حضرت شعیب کی قوم کی مثال دے ماری۔
بہت سال پہلے میں نے ایک ایک کتاب اخلاقی فلسفے Moral Pilosophy پر پڑھی تھی۔ اس میں رائٹر نے پہلی بات ہی یہ ثابت کی کے مذہب کے بغیر بھی اگر آپ سمجھیں گے تو جھوٹ کو اصول بنانا ممکن نہیں۔ جمہوریت میں بھی یہ ممکن نہیں کیوں کہ لوگ اپنے ضمیر کی بنیاد پر انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن قوم اگر اخلاقی انحطاط moral perversion کا شکار ہو جائے تو حضرت شعیب کی قوم بھی بن سکتی ہے۔ پھر مذہب بھی ان کو نہیں بچا سکتا کیوں کے وہ مذہب کے ساتھ بھی وہی حشر کرتے ہیں، جیسا کے قرآن میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں لوگوں نے اپنے مذہب کو بگاڑ دیا۔ اس میں اکثر عوام نے نہیں بلکہ ہان کے علماء اور نظریاتی لوگوں کا دخل تھا۔ جو کے غیر جمہوری رویّے رکھتے تھے۔ یہیں جمہوریت مذہب کی ساتھی ثابت ہوتی ہے، نہ کے دشمن۔
اسی طرح وہ عالمی جنگوں اور 65 فیصد دولت 50 افراد کے ہاتھوں میں ہونے کا الزام بھی سیکولرزم اور جمہوریت پر ڈالتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کے ہٹلر بھی جمہوریت کا نتیجہ تھا۔ جبکہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔
ہٹلر تعصّب کا نتیجہ تھا اور جب نظریہ پرست جذبات ابھارنے والوں نے اس قوم کو بھڑکایا تو وہ ہٹلر کو بھی منتخب کر لائی۔ عالمی جنگیں بھی قومیتوں nationalisms اور آپس کے خوف اور تعصّب میں لڑی گئیں۔ دنیا کی 65 فیصد دولت جمہوریت کی وجہ سے نہیں بلکہ بے لگام کیپیٹلزم laissez faire capitalism کی وجہ سے مرکوز ہے۔ اور کمال کی بات ہے کے اس کے خلاف علم جنگ بھی ملحد کمیونسٹ نے اٹھایا۔ جمہوری ملکوں میں جب لوگوں کی لالچ حد سے بڑھتی ہے تو وہ جمہوری طور پر بنائے گئے قوانین کے تحت ان پر قابو پاتے ہیں۔
دنیا میں لوگ نظریاتی جنگوں میں پس رہیں ہیں اور مزید نظریاتی آگ بھڑکانے سے صرف انتشار پیدا ہوگا۔ یہ کہنا کافی نہیں ہوتا کے میرا مذہب اچھا ہے اس لیے اگر وہ نافذ ہو جائے تو سب اچھا ہو جائے گا۔ پہلے تو اسے نافذ کرے گا کون اور کیسے، اس بات نے جمہوریت کو جنم دیا۔ اور پھر اگر ایک خاص نظریہ طاقت میں آ گیا تو اس کے ظلم اور جبر سے کون لوگوں کو بچائے گا، اس بات نے سیکولرزم کو جنم دیا۔
یہ تجربے مسلمان بھی کر چکے ہیں اور ہمیں اپنی مکمّل تاریخ سے سیکھنا چاہیے نہ کہ صرف گنے چنے سال اور لوگوں سے رومانوی عینک لگا کے۔ اندھی نظریاتی کشمکش سے جمہوری، تنقیدی اور جامع نکتہ نظر بہت بہتر ہے۔