(ڈاکٹر عامر سعید)
پچھلے دنوں ایک خبر سوشل میڈیا پر بڑی گردش میں رہی اور یاروں نے حاشیے چڑھا کراُسے خوب پھیلایا۔ خبر کچھ یوں تھی کہ امریکہ بہادر کے نائب صد جو بائیڈن کا ایک بیٹا حال ہی میں کینسر کا مریض ہو گیا۔ ‘جو’ صاحب نے علاج کے خرچے پورے کرنے کے لئے اپنے گھر کو بیچنے کا ارادہ کر لیا ، ان کے اس ارادے کی بھنک صدر اُبامہ کے کان میں پڑی جو اس صورتحال سے بہت ہی متاثر اور غمگین ہوئے اور انہوں نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ‘جو’ کو مدد کی پیشکش کی۔ قصہ مختصر پسرِ’ جو’ جانبر نہ ہوسکا اور مرض کے ہاتھوں جان ہار گیا۔ اس واقعہ پر یاروں نے یہ حاشیہ بندی کی کہ امریکہ جیسی سُپر پاور کا نائب صدر ہو کر’ جو’ کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ اپنے بیٹے کا علاج کروا سکتا، دوسرا یہ کہ اُس نے نائب صدر ہونے کے باوجودسرکاری ہسپتالوں پربیٹے کے علاج کے لئے اپنے عہدے کا دباؤ نہیں ڈالا۔
راقم اس حوالے سے کچھ گزارشات عرض کرنا چاہے گا کیونکہ اُسکی پی ایچ ڈی پاکستان میں گذشتہ دو دہائیوں میں ہونے والے ہسپتال کی اصلاحات سے متعلق ہیں اس تھیسز کو ویب پر Utrecht University کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔یہ اصلاحات Hospital Autonomy Reforms کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ ان ریفارمزکی بنیاد امریکہ میں پڑیں جنکا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ سرکاری ادارے کاروباری اداروں کی طرح مؤثر ، خرچ کرنے میں محتاط نہیں بلکہ فضول خرچ ہوتے ہیں اور ان کو چلانے میں حکومت کو بہت پیسا لگ جاتا ہے اس لئے حکومت کو مختلف عوامی خدمات فراہم کرنے والے ادارے خود چلانے کے بجائے بند کردینے چاہیں اور عوام کو یہ سہولیات حاصل کرنے کے لئے پرائیویٹ کاروباری اداروں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اس کے تحت امریکہ میں تعلیم، ٹرانسپورٹ، گھر بنانے کی صنعت وغیرہ کی طرح صحت کی ذمہ داری بھی پرائیویٹ سیکٹر کو سونپ دی گئی جو کوئی بھی کام منافع کمانے کے لئے ہی کرتا ہے۔ یہ اصلاحات موجودہ آئیڈیالوجی neoliberalismکے تحت کی گئیں جو سرمایہ داری نظام کی مزید ننگی شکل ہے وہ صرف منافع کمانے کو کافی نہیں سمجھتی بلکہ زیادہ سے زیادہ منافع کمانا اُسکا مطمع نظر ہے۔
دوسرے لفظوں میں صحت کے معاملے کو کاروبار بنا دیا گیا۔ صحت کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کے پیچھے صحت سے متعلقہ انشورنس اور فارماسیوٹیکل سیکٹر کی لابی تھی جو ہر امریکی الیکشن میں اپنے پسندیدہ امیدواروں کو الیکشن اپنے خرچے پر لڑواتی ہیں تاکہ سینیٹ میں جانے کے بعد وہ ان اداروں کے کاروباری مفادات کا تحفظ کرسکیں۔صحت کے اداروں کو پرائیویٹ سیکٹر میں دینے سے دوائیوں اور علاج کی قیمتیں انتہائی بلند سطح پر پہنچ گئیں اور صحت کی سہولیات ایک عام آدمی کے لئے خواب بن گئیں۔اس صورتحال میں لازمی انشورنس کا حکم صادر کیا گیا حالانکہ انشورنس کا علم جاننے والے یہ جانتے ہیں کہ انشورنس پالیسی کو حاصل کرنے کے لئے ہر ماہ پریمیئم کی ادائیگی لازمی ہوتی ہے ۔ چنانچہ غریب ترین طبقہ انشورنس نہ کروانے کی وجہ سے علاج سے محروم ہوگیا۔ امریکہ کی صحت ِ عامہ کی صورتحال کو سمجھنے کے لئے ایک بہت ہی بہترین اور زبردست ڈاکومنٹری Micheal Moor نے Sicko کے نام سے بنائی ہے جو کہ ویب پر دستیاب ہے۔ یہی صورتحال اب پاکستان میں بھی دیکھی جاسکتی ہے جہاں صحت کے سیکٹر میں تیزی سے پرائیویٹ سیکٹر کا حصہ بڑھتا جارہا ہے اور غیر محسوس انداز میں سرکاری ہسپتا ل موت کے منہ میں گرتےجارہے ہیں۔ یہ وہ تناظر ہے جس کے تحت جو بائیڈن اپنے بیٹے کا علاج کروانے سے قاصر ہوا اور کینسر کے مہنگے علاج کے خرچے کو پورا کرنے کے لئے اُسے اپنے گھر کو بیچنے کا منصوبہ بنانا پڑا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ بہت غریب ہے بلکہ وہاں علاج خاص طور پر کینسر کا علاج اتنا مہنگا ہے کہ نائب صدر بھی اپنی تنخواہ سے علاج کروانے کی استعداد نہیں رکھتا۔
یقیناً اس واقعی میں ہم اعلیٰ انسانی اقدار کا بھی مشاہدہ کرسکتے ہیں اور اس حوالے سے امریکہ معاشرے کے قانون کی بالادستی کی اس اچھی روایت کی بھی تعریف کی جانی چاہیے کہ جس میں ایک نائب صدر نے اپنے ذاتی معاملات کے حل کرنے کے لئے حکومتی وسائل کی طرف پیش قدمی نہیں کی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی مدنظر رہے کہ جو بائیڈن جس حکومت کے عہدیدار تھےاُسی حکومت نے مندرجہ بالا سرمایہ دارانہ نیولبرلزم آئیڈیالوجی کو پروان چڑھایاہے اور جس کے تحت صحت کے معاملے کو پرائیویٹ سیکٹر کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا گیا جس نے اُسے کاروبار بنا لیا اور زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کی وجہ سے علاج اتنا مہنگا ہو گیا کہ امریکہ کا نائب صدر بھی ان اخراجات کا بار اُٹھانے سے قاصر ہے۔ چنانچہ اس صورتحال کو بیان کرنے کے لئے تو یہ مقولہ What goes around comes around زیادہ موزوں ہے ۔
جو بائیڈن کا اپنے عہدہ کا ذاتی سہولیات کے حصول کے لئے استعمال نہ کرنا جہاں اعلیٰ انسانی اقدار کا مظہر ہے وہاں اُسکا ایسا کرنا یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ power corrupts and absolute power absolutely کا مقولہ آفاقی حیثیت نہیں رکھتا ۔ سماجی و معاشرتی علوم کہ جن کو نیچرل سائنسی مضامین کے مماثل سمجھ کر غیر جانبدار، آفاقی اور غیر متعصب سمجھا جاتا ہے جبکہ اصل صورتحال اس کے برعکس ہے یعنی یہ سماجی علوم ایک خاص وقت میں ایک خاص علاقہ میں پائے جانے والے خاص افکار کے تحت وجود میں آئے (اس موضوع کی مکمل تاریخی تفصیل جاننے کے لئے aikrozan.com پر موجود راقم کا دو حصوں پر مشتمل مضمون سوشل سائنسز کی آفاقیت حقیقت یا سراب دیکھا جا سکتا ہے)۔ مندرجہ بالا مقولہ ان حالات کے حوالے سے تو درست ہو سکتا ہے کہ جس سے یورپ اپنے سیاہ دور(dark ages) سے گزرا جہاں پہلے مذہبی مسیحی قائدین کے گروہ نے مذہب کے نام پر معاشرے کا استحصال کیا اور اُسکے ردِ عمل میں جب خدا کو اُن کے نظریات اور علاقوں سے دیس نکالا ملا تو پھر ایسی حکومتیں وجود میں آئیں جو عوام کی حکمرانی کا نعرہ تو لگاتی تھیں لیکن انکے احتساب کا معاملہ زیادہ موزوں اور مؤثر نہیں تھا۔
احتساب کی اس صورتحال کے تناظر اگر دیکھا جائے تو یہ مقولہ درست ثابت ہوتا ہے کہ طاقت کا نشہ انسان کو اندھا کردیتا ہے اور وہ جتنا زیادہ طاقتور بنتا جاتا ہے اتنا ہی وہ ظلم اور
جبر میں نڈر ہوتا جاتا ہے اور موجودہ تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ مقولہ ایک آفاقی لبادہ اوڑھے لگتا ہے لیکن اگر ذرا عمیق نظر سے تاریخ کے کچھ پرانے اوراق کو کھنگالا جائے تو ہمیں اللہ کے بہت سے رسل جنہیں بہت بڑی حکومتوں سے نوازا گیا جیسا کہ حضرت سلیمان، حضرت یوسف، حضرت داؤد علیہ السلام وغیرہ اور اُسکے بعد نبیوں کے سردار محمدؐ اور پھر انکے خلفائے راشدین ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہما۔ ان تمام شخصیات کے واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اتنے طاقتور حکمران ہونے کے باوجود ان میں سے کسی کو طاقت کا نشہ نہیں چڑھا بلکہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو اللہ وحدہ لا شریک کے سامنے جوابدہ سمجھتے تھے۔ زیادہ دور نہ جائیں تو حضرت عمر کی رعیت تین برِ اعظموں پر محیط تھی لیکن احتساب کا احساس ایسا تھا کہ جب اپنے گھر میں بیٹھتے تو رونے لگتے، انکی زوجہ عاتکہ رضی اللہ عنہ جب رونے کی وجہ دریافت کرتیں تو کہتے کہ مجھے اللہ نے اتنی زیادہ مخلوق کا نگہبان اور ذمہ دار بنایا ہے مجھے ڈر ہے کہ کسی دور دراز علاقے میں اگر کوئی گدھی ٹھوکر کھا کر گر گئی تو اللہ مجھ سے یہ سوال نہ کرلے کہ اے عمر تو نے راستے کو ہموار کیوں نہ کیا۔ روزِ قیامت کو سچ ماننا اوراُس دن ایک اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے معاملات کا جواب دہ ہونے کا تصور یقیناً انسان کو طاقت کے نشہ میں دھت ہونے سے بچاسکتا ہے۔ اس مثال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ طاقت کے حوالے سے یہ مقولہ ان حالات کا ہی احاطہ کر سکتا ہے کہ جہاں احتساب کا نظام غائب یا کمزور ہو اور اسی طرح موجود سماجی علوم (social sciences) کی تھیوریز مختلف مغربی افکار (Liberal Individualism, Political liberalism, Instrumental reason ) کی بنیادوں پر کھڑی ہیں اور انہیں آفاقی، غیر جانبدار اور غیر متعصب سمجھنا دانشمندی نہیں۔ یہ بات بہت سے مغربی مفکرین بھی کہہ رہے ہیں کہ معاشرے کو چلانے کے حوالے سے ہر معاشرے کو اپنے وسائل و تاریخ وغیرہ سے علم پیدا کرنا چاہیے۔